ممتا کی پوٹلی — فرحین اظفر

بوا بیگم کی سرمئی، گدلی ، بوڑھی پتلیاں ، موتیا کے قبضہ مافیا کے آگے سرنڈر کرچکی تھیں، لیکن ناامیدی سے ہار ماننے کو تیار نہ تھیں۔
وہ گھنٹوں انجان منزلوں کی سمت جاتی پٹڑیوں کو تکے جاتیں۔
پٹڑیاں جو ازل سے زمین کے سینے میں گڑی ہیں۔ روز ملنے والے، لیکن جدا جدا ذہنیت و فطرت رکھنے والے جسموں کی طرح ان کا نصیب بھی ابد تک کے لیے تحریر شدہ ہے۔ اپنے بازوؤں پر گڑی میخوں کے بل پر چوبی پھٹوں کے بوجھ سینے پر اٹھائے، انہیں خود کو روندنے والوں کے قدم چومنے ہی ہوتے ہیں۔
ان کی آنکھیں اپنی سکت کے پار پھلانگ کر ان پٹڑیوں کو کھوجتی تھیں۔ بظاہر چند گھنٹے، لیکن یوں لگتا تھا جیسے صدیاں گزری جارہی ہیں۔
’’بوا جی… گھر چلیں… دیکھیں تو کتنی گرمی ہے۔‘‘
اس روز بھی سلیم میاں عاجزی ملی جھنجھلاہٹ سے بولے اور ماتھے پر آئے پسینے کے قطرے ہتھیلی میں سمیٹ کر زمین پر جھٹکے(روز روز کی بھاگ دوڑ میں دکان ہی ہاتھوں سے بھاگ جارہی تھی جیسے…)
دھوپ کی تپش، افق کی ہتھیلیوں سے دھرتی کی مانگ میں پگھلا کندن بن کر گررہی تھی۔
’’کیوں روز آکر بیٹھ جاتی ہیں بوا جی…‘‘
بنچ کا چکناپتھر اتنا گرم تھا کہ اس پر آسانی سے بیٹھنا کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ یا پھر خود بوا بیگم ہی بس سے باہر ہوچلی تھیں۔
’’کیوں آنا ہے میں نے… کس لیے… راہ دیکھتی ہوں منحوس ماری کی۔‘‘
’’وہ آئے گی ضرور… بخت ماری… پورا یقین ہے مجھے… دل بولے ہے میرا… ایک دن آئے گی زیب النساء کم بخت۔‘‘
’’آہ… زندگی میں پہلی بار انہوں نے زیبو کا پورا نام لیا تھا، لیکن کس تکلیف سے ، ان کے اندر کا یقین ان کے لہجے میں سلگ کر بوند بوند ٹپکنے لگا اور رعشہ زدہ ہاتھ، رنگ اڑے بوسیدہ کپڑے کی ننھی سی پوٹلی کو خوامخواہ ہی مسلتے گئے۔
اس دن کے بعد بوا بیگم اسٹیشن بھی گئیں اور سلیم میاں ان کے پیچھے… لیکن پھر کوئی سوال لبوں کی زینت نہ بن سکا۔
گھر کی دہلیز سے پچھلے برآمدے تک حزن بازو پھیلا کے پھرتا اور مکینوں کے دل بجھ بجھ کر جلتے، دھڑکتے۔ زخم بے شک بھرجاتے ہوں، لیکن ان کے نشان زخم کی اذیت کی یاد بار بار دلاتے ہیں۔
بوا بیگم اور ان کی پراسرار پوٹلی کا راز بھی، زیبو کے ساتھ دہلیز پارکرگیا۔ اس نے گھر کی عزت کو جو بٹّا لگایا تھا۔ اس سے گھر کی خوشیوں کے سر بھی کچلے گئے تھے۔ ڈفلی کی ہنسی باقی نہ بچی تھی، تو جھنکار کہاں سے ہوتی۔ مجو کی شرارتیں بھی باادب ہوگئیں۔ کامنی کا سلیقہ طریقہ ایک طرف ہوگیا۔
زیبو گھر کی عزت تھی، لیکن ڈائن کی طرح ، رشتوں میں بھرے خلوص کا امرت ایک گھونٹ میں پی گئی اور بوا بیگم کا خیال تھا کہ کسی ڈائن کو عصمت کا خون راس نہیں آنے والا تھا۔ وہ اس کی قے کے انتظار میں تھیں… اور پھر ایک دن…
ڈائن کو قے ہوگئی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
مغرب کا جھٹپٹا اور رات کی تاریکی آپس میں معانقہ کررہے تھے۔ فضا میں بڑھتی ہوئی سرمئی خوشبو اداسیوں کا لباس پہنے ، جاڑے کی سرد مہر راتوں کا پیغام لارہی تھی۔
وہ آج بھی کسی بیش قیمت مصوراتی شاہکار کی طرح دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی تھی، لیکن یوں جیسے کسی نے رنگوں پر سیاہ پانی اچھال دیا ہو۔
ڈفلی کے ہاتھ سے سیاہ مرچ ملی گاڑھی یخنی کا پیالہ چھوٹ کر دھپ سے زمین پر جاگرا۔ زمین کی کرکری، یخنی میں مل کر بالکل زیبو کے چہرے کی طرح دکھنے لگی جو لہرا کر بوا کے قدموں میں آمری تھی۔ ہچکیوں اور دہاڑوں کے طوفان میں نہ ڈھنگ سے رو رہی تھی۔ نہ بات ہی پوری کرپارہی تھی۔
’’وہ کیوں آئی تھی اب بھلا۔‘‘ کسی کو جواب جاننے کی ضرورت نہ تھی۔
اس کا پچھتاوے کی تصویر بنا وجود خود ہی ہر سوال کا مکمل جواب تھا۔
سلیم میاں کمرے کے دروازے پر، کامنی باجی رسوئی کی دہلیزپر ساکت کھڑے تھے۔
بوا بیگم الگ چارپائی پر جو لیٹی تھیں۔ وہیں بے نیازی سے سکڑ گئیں جن پیروں پر زیبو کے ہاتھ تھے وہ بھی سمیٹ کر دور کرلیے۔
کامنی کا بے اختیار دل کیا کہ سامنے کھڑی اس بدنامی اور خود سری کی تختی پر لکھی افسوس اور پچھتاوے کی عبارت کو اپنے ناخنوں سے نوچ کر لہولہان کردے۔
اس کے ندامت سے پگھلتے ہوئے چہرے پر طمانچے لگائے۔ گریبان نوچ لے۔ بال بکھیر دے۔ حلیہ بگاڑ ڈالے اور پھر زمانے بھر کی حقارت، طنز اور لاتعلقی کا سہرا اس پر اس طرح سجا کر کہ اس کا چہرہ مکمل طور پر ان بدنما، بد بودار پھولوں میں چھپ جائے، اس سے پوچھے۔
’’کیوں؟ اپنی بوڑھی ماں کے سفیدی پوتی ہوئی مانگ میں بھرنے کو اب کون سی کہکشاں لائی ہو۔‘‘
کہکشاں کالک بھی بن جاتی ہے۔ اماوس اجڑی مانگ ہے، تو بہار بربادی کا سندیسا بھی ہوسکتی ہے۔ پھر یہ بربادی کسی سہاگن کی ہو، بیوہ کی ہو یا ممتا کی… ہر صورت میں کھنڈر عورت کا وجود ہی بنتا ہے۔
کامنی کے لب بے تابانہ کھلے، پھڑپھڑائے اور پھر آپس میں پیوست ہوگئے۔ ان کے دل میں ایکا ایکی پرائی اولاد کا احساس جاگا تھا اور یہ احساس اتنا لہرایا تھا کہ انہوں نے زیبو کو لمحہ بھر میں خود سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر دیکھا۔
کبھی کبھی زندگی میں مر کے دکھانا بھی بے سود رہتا ہے۔ زیبو اپنے کاروبار ِ حیات کے اسی خسارے پر آگئی تھی۔ گھر والوں کے کھیسے میں ہمدردی کا سکہ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ جووہ اسے دان کردیتے۔ وہ اسے بھلا کیا دے سکتے تھے اور اسے ان سے کچھ چاہیے بھی کب تھا۔ اسے جو چاہیے تھا وہ صرف ’’ماں‘‘ دے سکتی تھی۔ اس کے دل میں اپنے یقین کے پورا ہونے پر آبلے سے پھوٹ رہے تھے۔
’’مجھے کچھ نہیں چاہیے بوا بیگم۔ کچھ بھی نہیں صرف… صرف معافی دے دیں۔ آپ میری جان بھی مانگیں، تو میں ایک لفظ نہ کہوں… لیکن خدا کے لیے اس قدر اجنبی مت بنیں۔‘‘
یہ وہی زیبو تھی جسے اگر کانٹا بھی چبھ جاتا، تو ان کے دل پر آری سی چل جاتی تھی، لیکن وہ اپنا دل بروقت چیر کر دکھا نہیں سکیں۔ اپنی ممتا کی نرمی کو انہوں نے اپنی تربیت کی سختی سے ڈھانپنا چاہا تھا اور زیبو کم عقل بھلا اتنی اندر کی بات کیسے جان سکتی تھی، مگر اب تو جان گئی تھی اور اب جان گئی تھی، تو جان سے جانے والی ہورہی تھی، لیکن بوا بیگم چپ…
ان کی ممتا حالات کی سنگلاخ پہاڑیوں سے بہ نکلتاوہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا آبشار تھا جس کی موٹی دھاروں میں ہر چھوٹا بڑا، بوڑھا بچہ بلا تخصیص بھیگتا تھا۔ آج وہ آبشار سوکھ چکا تھا۔ جب پیاسا خود چل کر آیا تھا۔ تو نہ وہ پانی کی دھاریں تھیں، نہ سبزہ۔ اب اس آبشار کی جگہ کائی زدہ پتھر تھے۔
کتنا سمے گزر گیا کہ ٹھہر ے ہوئے جسموں میں اکڑاؤ کی سی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ روتے روتے زیبو کے حلق میں خراشیں پڑگئیں۔ آواز بات کے درمیان سے غائب ہونے لگی۔ آنکھوں کی پتلیاں ، اوپر کی طرف کھنچنے لگیں، تو سلیم میاں آگے بڑھے۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور پچکارتے ہوئے گلے سے لگا لیا۔
وہ صبح کا بھولا تھی وہ اسے بھولا نہیں کہنا چاہتے تھے۔ تبھی کامنی کے بے حس و حرکت وجود میںجنبش ہوئی۔ چارپائی کے سرہانے ٹھہر کر انہوں نے فقط اتنا کہا۔
’’معاف کردیجیے بوا بیگم۔ ماؤں کا کام ہی معاف کرنا ہے۔‘‘
ان کی ترچھی نظروں سے نکلتے شرارے زیبو کے وجود میں انگاروں بھری لکیریں کھینچ رہے تھے۔ وہ جان چکی تھی کہ اس گھر اور مکینوں کے دروازے اس پر ہمیشہ کے لیے مقفل ہوچکے ہیں۔اب دستک بے معنی ہے۔
’’کرب و اذیت کی سولی پر ٹنگی ہوں۔ اب تو میرا دم بھی آسانی سے نہیں نکلنے والا ۔ بوابیگم خدا کے لیے۔‘‘
جانے زیبو کی آواز میں چھپے کرب کا اثر تھا۔ یا وہ بھی ممتا سے لڑتے ہار گئی تھیں جو دوسری طرف کروٹ کیے، ان کے وجود میں حرکت پیدا ہوئی۔ انہوں نے منہ موڑا اور لب کھولے۔
’’مائیں زندگی بھر نفرت پی کر بھی اولاد کے نصیب کے لیے تھوہڑ نہیں اگلتیں۔ یہ اولاد ہی ہو وے ہے جو اپنے برے کرموں کے گڑھے کھودے اور خوشیوں کے جنازے ان میں دفنادے۔‘‘
ا ن کی زبان پر پکے ہوئے چھالوں کی سی تپکن تھی اور اسی تپک نے سلیم اور کامنی کے دل بھی پھوڑا کردیے تھے۔
بوا بیگم کا نحیف ، جھریوں بھرا، لرزش زدہ ہاتھ فضا میں بلند ہوا۔
زیبو نے تڑپ کر ہتھیلی کے نیچے سردے دیا۔
ٹکڑا ٹکڑ ا لفظ جوڑ کر انہوں نے اپنا بھیگا لہجے کے رومال پر کاڑھا تھا، لیکن پھر بھی ہانپتے متنفس میں الفاظ درمیان میں غائب ہوتے تو گلے سے پھونک جیسی آواز کے ساتھ فقط ہوا خارج ہوجاتی۔
ان کے زمانہ شناس بٹوے میں الفاظ کی نقدی تمام شر ہوگئی۔
دوبارہ کروٹ بدلی اور زمانوں کی چپ خود پریوں اوڑھ لی جیسے، اب سانس بھرنے جیسا کام بھی کرنے کو باقی نہ بچا ہو۔
زیبو کو عزت و محبت کے بازار میں اپنی قدرو قیمت کا اندازہ ہوگیا تھا۔
وہ جس خاموشی سے آئی تھی ۔ رات کے آنچل تلے اسی چور کے مانند واپس لوٹ گئی۔ یہ اس کا مقدر تھا جس کا قلم اس نے خود لکھ کر توڑا تھا۔ شکوہ شکایات تو کجامنت مناجات بھی نہیں بنتی تھی۔
رات گھر والوں کو جلے پیر کی بلی بناکر خوب مرمر کر گزری تھی۔ رات کے دوسرے یا شاید تیسرے پہر محلے کی کھڑکیاں دروازے پھر کھلے تھے۔سروں نے جھانکا تھا۔ زبانوں نے تبصرے کیے تھے۔
اگلی صبح جب اجالاپوری طرح پھیلنا بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ جب کامنی کی تعجب خیز نظریں آنگن میں نکلتے ہی بوا بیگم کے وجود سے لپٹ گئیں ۔
رات بھر میں انہوں نے سکیڑی ہوئی ، پنڈلیاں تک سیدھی نہیں کی تھیں۔
کامنی نے اپنے بین سینے میں دباتے ہوئے ان کی بے روح ادھ کھلی مٹھی سے پھسل کر گری زرد کچیلی پوٹلی اٹھائی اور اسے کھول کر منہ ہی منہ میں بڑبڑائی ۔
’’بیٹی کے قدم ایک بار بھی تاریکی میں دہلیز پھلانگ جائیں، تو محبت کے پنچھی راستہ بدل لیتے ہیں۔ منزلیں کھوبیٹھتے ہیں۔ کلمونہی نے دو بار دہلیز پھلانگی، لیکن بوا بیگم آپ… آپ کی ممتا آپ کا دل نہ پھلانگ سکی… آہ…‘‘
اس نے کپکپاتی انگلیوں سے مٹھی پر اندھیراکردیا۔ جس کے اندر بوسیدہ کپڑے میں لپٹی دو ننھی منی بالیاں جگمگارہی تھیں۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تین سوال — لیو ٹالسٹائی (مترجم: سعادت حسن منٹو)

Read Next

ذاتی — نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!