ممتا کی پوٹلی — فرحین اظفر

کیا اٹھان پائی تھی اس نے کہ ماں اور منچلوں کی نیندیں بیک وقت اجاڑدینے اور راتیں کالی کردینے والی تھی۔ رخسار تھے کہ کشمیری سیب یا پھر… قندھاری اناروں کی سرخیاں… کیا آنکھیں تھیں کہ دنیا کے کسی چقماق میں وہ کشش نہ پائی جاتی ہوگی اور کیا آواز تھی کہ زمانے بھر کا لوچ سمیٹ کر اس کے حلق میں اتر گئی تھی۔
بوا بیگم کے دل میں ایک انجانے خوف نے اسی دن اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے تھے جس دن اس نے پہلی بار اپنے تئیں بہت مدبر بن کر ، گھر کی دہلیز پار کرنے سے پہلے گلابی آنچل سر پر لیا تھا۔
’’ہیں…‘‘ وہ تو یہ منظر دیکھ کر حق دق ہوگئیں۔
’’یہ اپنی زیبو ہی ہے۔‘‘
کتنے سمے انہیں وہیں پیپل تلے بان کی چارپائی پر بیٹھے خود کو یقین دلاتے گزرے تھے اور اسی سمے سے، اسی دن سے گدلی سرمئی آنکھوں کو چوکیداری کی لت لگ گئی۔ موتیے کے کناروں والی پتلیاں جنہیں کروشیہ ٹھیک سے دکھائی نہ دیتا تھا۔ ضرورت سے زیادہ اوپر نیچے دائیں بائیں پھرنے لگیں۔
راتوں رات بانس کی طرح نکلتے قد نے راتوں کی نیند اور دن کا چین خاک کردیا۔ حالاں کہ ابھی تو چودہ کا سن لگا تھا اور زیبو اپنے حسن کی تباہ کاریوں سے توکیا، خود سے ہی ناواقف تھی۔
کوئی آیا، کشاں کشاں دروازہ کھولنے چل دی۔ کھول دیا، تو بھاڑ کی طرح سامنے پوری چوکٹھے سے جڑی، مصوری کے نادرو نایاب شاہکار کی طرح ساکت ہوگئی۔ اب سامنے والا اپنی نظر سنبھالے یا دل… اس کی جانے بلا۔
بھدر بھدر سیڑھیاں چڑھنے اور دھڑ ادھڑاترنے میں، سامنے چو کسی بوا بیگم کا دل بھی الہڑ مٹیار کی طرح ہچکولے کھا جاتا۔
ابھی جوبن پر پورا رنگ بھی نہیں چڑھا تھا کہ جو لانیاں اترانے لگی تھیں۔ وہ منہ پھاڑ کر ہنسنے کے بجائے اٹھلا کر ٹھٹھہ لگاتی۔ بوا بیگم خواہ مخواہ تپ جاتیں۔ وہ ایڑھیوں کے بل گھومتی اور بوا کی زبان اس کی ’’صلوٰتوں‘‘ میں کئی کئی بار بل کھاتی۔
نہانے کے بعد گیلے بال کھول کر چھت یا صحن میں سکھانے پر پابندی، اسے لاشعوری طور پر جوانی کے دائرے میں قدم رکھنے کی طرف اشارہ دینے کی پہلی پابندی تھی۔ پھر یہ پابندیاں بڑھیں تو بڑھتی چلی گئیں۔
’’دروازے پر مت جائیو۔‘‘
’’ہش… دو وقت مل رہے ہیں… اندر ہی بیٹھ۔‘‘
’’اے لڑکی… دوپٹا ٹھیک سے لے… اری بخت ماری کیسے ہنستی ہے۔ بل کھا کھا کر۔‘‘
چڑھتے سورج کی حدت سے انجان، معصوم کچی کلی جیسی زیبو چند ہی دنوں میں بوکھلا کر اور پھر جھنجھلا کر رہ گئی۔
’’باجی دیکھیں نا بوا بیگم کو… سب لڑکیاں باہر پہل دوج کھیل رہی ہیں۔ پھر میں کیوں نہیں۔‘‘
کامنی باجی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو اتنی حد ہوجاتی کہ کامنی بھی بول اٹھتیں۔
’’کیا ہوگیا ہے بوا بیگم!… بچی ہے ابھی۔‘‘
’’تجھے ہی لگتی ہوگی بچی۔‘‘ وہ ذرا کی ذرا روٹھتیں۔ پھر پچکارتے ہوئے کہتیں۔
’’او ر کمو… میری بچی تو تو بھی ہے۔ تو کیا ایسے کدکڑے لگاتی پھرے گی۔‘‘
’’آ پ بھی کمال کرتی ہیں بوا بیگم!… کہاں میں کہاں وہ۔ میری کوئی عمر ہے بھلا۔‘‘
’’تو یہی تو میں کہوں… اس کی بھی عمر نہیں ہے اب۔‘‘

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اور ضدی تو وہ تھیں ہی۔ سو چپ میں ہی عافیت تھی۔ کامنی نے خود بھی خاموشی اختیار کی اور زیبو کو بھی نصیحت کی، لیکن زیبو اب وہ پہلے والی زیبو تھوڑی تھی۔
وہ تو منہ زور ندی تھی۔ حسن بلا خیز کا چڑھتا دریا۔ جسے ماہِ کامل کی دودھیا کر نیں گھسیٹ گھسیٹ کر اپنی اور بلائیں اور وہ کسی سودائن کی طرح، گریباں چاک ، بال بکھرائے ، اس کے بلاوے پر دوڑی چلی جائے۔
پتا نہیں کب اور کیسے، خود سے آگاہی کا ایک ظالم لمحہ اس کے پاکیزہ ذہن میں کسی دیمک کی طرح داخل ہوا اور اس کی نادان اور کمسن سوچ کے گرد کھڑی فرماں برداری کی فصل چاٹنے لگا۔
یہ ان ہی دنوں کا واقعہ ہے۔ جب اس کی چڑھتی جوانی کو لگتے آوارگی کے پانی سے بیساند اٹھنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ تب ایک دن بالکل اچانک ، بوا بیگم پیچھے سے کسی چیل کی مانند اس پر جھپٹ پڑیں۔
وہ ہمیشہ کی طرح باہری دروازے میں بت کی طرح استادہ آنے والے اجنبی، لیکن مانوس شخص کو دیکھ رہی تھی۔ فرصت سے… پشت پر سے بوا بیگم نے صرف ا س کی فرصت ہی دیکھی تھی، لیکن ماں کی آنکھیں تو…
سوانہوں نے اس فرصت میں سے جھلکتے شوق اور لبھانے کا سامان بھی ٹھونک بجالیا تھا۔
زیبوکی لمبی چوٹی، گدی پر سے ایسے نوچی گویا اکھڑ کر ہاتھ میں آجائے گی اور وہ مانوس اجنبی جس کا نام عزیز تھا اور جو سلیم میاں کی دکان کا پرانا نمک حلال تھا۔ اس روز اپنی نمک حرامی پر جو پکڑا گیا، تو ایسا کان دبا کے بھاگا کہ دوبارہ کبھی محلے میں دکھائی نہ دیا۔
بوا بیگم کی کراری آواز اس کے جانے کے گھنٹہ بھر بعد تک محلے بھر میں گونجتی تاتا تھیا کرتی رہی۔ عزیز کے ساتھ ساتھ زیبو کی عزت افزائی کی بھی سب کو خبر ہوگئی۔
زیبو کے دل میں یہ واقعہ عرصہ دراز تک کھرنڈ اکھڑے زخم کی طرح برسوں کچا کچا سارہا، لیکن کب تک … بوا بیگم کارگزاری پر مطمئن اور مفرور تھیں اور سلیم میاں نادم…
اس دن کے بعد زیبو کا ناطقہ اکثر و بیشتر ہی بند رہنے لگا، لیکن کامنی کے لیے یہ صورت حال کوئی بہت خو ش آئند نہیں تھی اور نہ ہی اطمینان بخش۔ شاید ا س لیے کہ وہ بھی ایک ماں تھیں اور زیبو کی جھکی نظروں کے پیچھے سے جھانکتے بغاوت کے طوفان سے پہلے کی خاموشی، ان کی سماعتوں میں ان سنا شور کرنا شروع کرچکی تھی۔
اندر ہی اندر ، چپکے ہی چپکے زیبو کے حسن وجوانی کی کپاس پر لگے آوارگی کے پانی میں پھپھو ند پڑ گئی۔ کھایا ہوا گھن دکھائی نہیں پڑتا تھا۔ کیونکہ اخلاق و تابعداری کی چار دیواری باہر سے صحیح سلامت تھی۔
چار سال… چار سال چار پہر کی طرح، سمے کا سامری، لمحوں کو دنوں ، مہینوں اور سالوں کے کبوتر بناکر جب اپنے چغے میں غڑاپ کرکے غائب ہوگیا ۔ تب ، چار سال بعد بالکل اچانک ہی ایک نئی زیبو باہر نکل آئی۔
یہ وہ زیبو تھی جس کے دل سے شرم و حیا کے سبق باغی سپاہیوں کی طرح بھاگ نکلے تھے۔
جس روز بوا بیگم نے معمول کے سے انداز میں ڈپٹا اس روز…
’’کیا چاہتی ہیں آپ… ہاتھ پیر باندھ کر مجھے کمرے کے کونے میں ڈال دیں۔‘‘
اس کی نیچی آواز صور کی طرح دیواروں سے چمٹ گئی۔ چھت سے لٹکی اور برآمدے کے ستونوں میں بازو ڈال کر دیر تک چکر کھاتی رہی۔ اس کی معصوم ذہنیت کے گرد کھڑی بھولپن کی دیواریں، بظاہر سلامت ہونے کے باوجود بھربھری ریت کی طرح ڈھے گئیں۔
آواز کسی جنگ کے طبل کے مانند تھی۔ بوا بیگم نے اپنے روز بروز کمزور پڑتے جسم کی پوری توانائیاں صرف کرکے اس وقت خود کو روکا تھا۔ ورنہ شاید زیبوکے گال دہک جاتے۔
زیبو بھی اتنی جہاندیدہ تو ہو ہی گئی تھی کہ سلیم میاں کا کرخت چہرہ ، ڈفلی کی سہم جانے والی چپ، مجو کے دائرے میں گھومتے رک جانے والے قدم اور کامنی کے ساکت وجود کو دیکھ کر لمحوں میں حساب کتاب کا تخمینہ لگایا اور زور زور سے روتی ہوئی ماں کے قدموں میں جاگری۔
بوا بیگم حق دق کھڑی اس کا ناٹک دیکھتی رہیں اور پھر شعبدہ باز کے ہاتھوں کی صفائی بن کر زیبو کے آنسوؤں نے انہیں رام کرہی لیا۔
اس روز صورتِ حال بگڑتے بگڑتے سنور گئی تھی۔ یا صرف چند لمحوں کے لیے تتر بتر ہوکر ترتیب پاگئی تھی۔
بوا بیگم نے دیر تک اس کے چمک دار ریشم جیسے بال سنوارے۔ تیل، مالش ، دھونا دھلانا اور چوٹی پٹی کرکے اسے بی بی بچی کی طرح اجال دیا۔ ان کے لبوں سے محبت بھری نصیحتوں کا سیل ِ رواں بے لاگ و لپٹ بہتا رہا اور زیبو بھی بظاہر بڑی رغبت سے ان کی محبت کے عملی اور زبانی مظاہرے نوش ِ جاں کرتی رہی۔
انسان کسی بھی میدان کا کتنا بھی ماہر کھلاڑی کیوں نہ ہو۔ چوک ہونی ہوتی ہے، تو بس ہوجاتی ہے۔ مشاق گھڑ سوار میدان جنگ میں منہ کے بل گرجایا کرتے ہیں۔ مہارت کے بل بوتے پر، سمندروں پانی کو اشاروں پر نچاتے پیراک اسی پانی میں غرق ہوجاتے ہیں اور چاک ہر معمول کے لمس سے زندگی پاتے پھول دان ، بگڑ کر بھدے بھانڈے بن جاتے ہیں۔
ایسی ہی بھول بوا بیگم کی گدری ہتھیلیوں میں لکیر بن کر بیٹھ گئی۔ جب انہوں نے زیبو کے آنسوؤں کا اعتبار کرلیا۔
بھولی معصوم اور نادان تو وہ خود تھیں جو اپنی ہی اولاد کی دھوکا دیتی نگاہوں میں جھانک کر اس کا محرک نہ پکڑ سکیں۔ بالآخر تھیں تو ماں نا ! ماں کی فطرت ہے اپنے لختِ جگر کے واری واری جانا اور وہ اس پر واری جانے کا کوئی موقع جانے نہ دیتیں۔ جیسے تارِ عنکبوت … غچہ دینے پر آئے تو پہلا موقع گنوا کر دوسرے کا انتظار نہیں کرتا۔
زیبو کو بھی ایک موقع ملا اور ا س نے کفرانِ نعمت نہ کیا۔ پھر اک رات بالکل خاموشی سے اپنی بچپن اور لڑکپن سے اٹی یادوں کی دہلیز پھلانگ گئی۔
اس رات، جب رات نے دن کے چہرے پر اپنے سیاہ پر پھیلائے تو بجائے مقررہ وقت پر اڑان بھرنے کے وہ اپنی سیاہی سمیت اس دن پر مسلط ہی ہوگئی۔
سحر و امید کے خواب بننے والو۔ رات کی حقیقت کو ہلکا نہ جانو۔ شب سیاہ جب آنی ہوتی ہے، تو ہر حال میں آتی ہے اور روشنی کے سب سے بڑے منبع کو دھکیل کر آتی ہے۔
نور کے تڑکے زیبو کی خالی منجی دیکھ کر بوا بیگم کا جی چاہا کہ ایک چیخ مار کر سورج کو طلوع ہونے سے روک دیں اور اس وقت تک روکے رہیں جب تک، زیبو کو بازو سے گھسیٹ کر اس کی منجی پر پٹخ نہ ڈالیں۔ کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ یہ سورج زمانے بھر کے لیے سفیدی اور زمانے بھر کی سیاہی لے کر آرہا تھا۔ ان کے ساتھ ساتھ سب مکینوں کی شکلوں پر پوتنے کے لیے۔
جتنی خاموشی اور تیزی سے حادثہ گزرا تھا۔ اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے نتائج برآمد ہوگئے۔ بوا بیگم بان کی کھری چارپائی پر جھلنگا سی گر گئیں ۔
کوئی لمحہ زندگی میں ریورس گیئر کی طرح لگتا ہے اور پورا نظام زندگی الٹا ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد بوا بیگم کی شخصیت بھی الٹی ہوگئی۔ یا شاید الٹ پلٹ گئی۔ انہیں یوں لگتا تھا۔ ان کی اولاد نے انہیں بے سائبان کردیا۔
گھر کا ہر فرد، زیبو کے اس نیچ اور گمان کی حدوں سے باہر کہیں کھڑے قدم سے ندامت اور شرمندگی کے گہرے حصار میں آگیا۔ یوں جیسے اس کی حرکت کے سب ذمہ دار تھے اور اس حرکت میں سب حصے دار تھے۔
اس حصار سے باہر نکلنے کے لیے ان کے پاس سوائے گزرتے وقت کے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ پر بوا بیگم زمان و مکان ، گمان و بیان کی ہتھکڑیوں سے کہیں آگے نکل چکی تھیں۔
’’ٹیشن سے لے کر آیا ہوں۔‘‘ پہلی بار جب اچھی طرح خجل خوار ہونے کے بعد سلیم میاں ، بوا بیگم کے ہمراہ گھر لوٹے تو بری طرح ہانپے ہوئے تھے۔
وقت بے وقت ، کبھی عین مغرب، کبھی تپتی سنسان دوپہر اور کبھی نور کے تڑکے ان کی چارپائی خالی ملتی اور سلیم میاں جیسے عادی ہوچلے تھے۔ فوراً اسٹیشن دوڑجاتے کہ گھر سے چند قدم کے فاصلے پر واقع اسٹیشن سے آگے کبھی بوا بیگم کا وجود گیا ہی نہیں تھا۔
دور ہی سے پلیٹ فارم کے پختہ فرش پر گڑے سنگی بنچوں میں سے ایک پر انتظار کی سولی پر لٹکتا انہیں دیکھ کر سلیم میاں نئے سرے سے دکھ کی دلدل میں دھنستے تھے۔ اور ہر بار کامنی کو بوا بیگم کی غیرموجودگی پر درددِزہ جیسے مروڑ اٹھتے تھے۔
وہ سر سے پیر تک ایک نئی بناوٹ میں ڈھل چکی تھیں۔ زیبو ان کے لیے وہ زراحمر ثابت ہوئی تھی۔ جس نے اُنہیں پرانا قالین سمجھ کر گرہ گرہ ادھیڑا تھا اور اب جو نئی بنت سامنے آئی۔ اس میں ڈھنگ کا رنگ تھا نہ عقل کو سجھائی دیتی شکل۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تین سوال — لیو ٹالسٹائی (مترجم: سعادت حسن منٹو)

Read Next

ذاتی — نظیر فاطمہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!