”ہر بات مانیں گے میری؟” اس نے سیاق و سباق پر غور کیے بغیر اس کے وعدوں میں مگن ہوکر پوچھا۔
”ہاں بالکل!” اس نے فراخدلی سے وعدہ کیا۔
”تو پھر مجھے آگے پڑھنے دیں۔” اس نے ناز سے فرمائش کی۔
”چھوڑو یار کیا کرو گی پڑھ کر۔” ظہیر نے پیار سے کہا
”I want a nice, praty wife for my self”
”اور ایسی بیوی مجھے مل گئی ہے۔ اب میں یہ تو نہیں چاہتا کہ میری اتنی پیاری بیوی کتابوں کی ہوکر رہ جائے۔ ہم گھومیں پھریں گے، موویز، شاپنگ، trawel تو پھر تمہارا کالج کیسے چل پائے گا؟”
وہ یہ وعدے سن کر خوش ہوجاتی، اس کی دلیلوں کے آگے ہار مان کر راضی ہو جاتی وہ اسے باور کراتا کہ وہ خوش قسمت ہے کیوں کہ اس کی زندگی میں کوئی struggle نہیں ہوگی، کوئی مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔ اس کا شوہر اسے رانی بناکر رکھے گا۔ منگنی اس نے رو رو کر کرائی تھی لیکن شادی بہت خوشی خوشی کرائی ور جب شادی پر راحت نے اسے ڈھیر ساری نصیحتوں کے ساتھ رخصت کیا تو اس نے اس بار کے وزن کا اندازہ کیے بغیر خوشی سے اٹھانے کی ہامی بھرلی۔
”شوہر کی اطاعت گزار رہنا۔” راحت نے اسے کہا۔
”جس فرماں برداری سے میرے گھر رہتی تھیں، اس فرماں برداری سے سسرال میں رہنا، دیکھنا کسی کو کبھی شکایت کا موقع نہ ملے۔” سعدیہ نے خوشی خوشی وعدہ کرلیا۔ اسے یقین تھا کہ ایسا موقع اس کی زندگی میں نہیں آئے گا۔ وہ رانی بن کر رہے گی اور کسی کو شکایت کا موقع نہیں دے گی۔
شادی شدہ زندگی گزارتے ہوئے سعدیہ کو کبھی سمجھ نہ آیا کہ فرماں برداری اس کا فرض تھی، یا option؟ اگر وہ اس کے لیے خوبی تھی، اس کے سر کا تاج تھی، تو اس کی زندگی میں موجود لوگوں کے لیے پائوں کی جوتی کیوں تھی؟ اس سے فرماں برداری کی توقع اپنا حق سمجھ کر کیوں کی جاتی تھی؟ ”مرضی” کا لفظ اس کے لیے گالی کیوں تھا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ فرماں برداری اور اطاعت گزاری کو حد کیا تھی؟ سو میں سے ننانوے باتوں پر اطاعت کرنے پر وہ ایک بات پر چونک جاتی تو اس پر نافرمان کا ٹھپہ کیوں لگا دیا جاتا تھا؟ اسے حیرت ہوتی تھی کہ اپنے آپ کو مار دینے کے باوجود بھی وہ زندگی جئے جارہی تھی۔
احمد نے اس کا بازوہلایا تو وہ اپنے خیالوں سے باہر آئی۔ وہ نیند میں اٹھ کر اسے ڈھونڈتا سٹڈی میں چلا آیا تھا۔ کس وقت آیا تھا، سعدیہ کو خبر ہی نہ ہو سکی تھی۔
”آپ کیوں اٹھ کر آگئے جانو؟” اس نے جھک کر احمد کا ماتھا چوما۔
”آپ کو ڈھونڈ رہا تھا۔” اس نے ہونٹ لٹکا کر کہا۔ سعدیہ کا دل اس کی پیاری ادا پر نثار ہوگیا۔
”چلو چل کر سوئیں۔” اس نے اس کے بال سنوار کر کہا۔ لیکن احمد کا دھیان اس کے ہاتھ میں پکڑی scrap bookمیں اٹک چکا تھا۔ اس نے سعدیہ کے ہاتھ سے scrap bookلے لی۔ اسے کھول کر وہ دوسرے صفحے پر لگی اس کی تصویر دیکھنے لگا۔
”مما یہ آپ ہیں؟” اس نے ماں کو پہچان کر ایکسائٹڈ ہوکر کہا۔
وہ چند لمحے چپ رہی۔
”نہیں بیٹا! یہ میں نہیں ہوں۔” اس نے آہستہ سے کہا۔
٭…٭…٭
صبح اُٹھتے ہی اسے پہلا خیال زیور کا آیا۔ اس کا دل بیٹھ گیا۔ اس کا جی چاہا تکیے میں منہ چھپا کر پھر سے سو جائے اور پھر سوتی ہی رہے۔ دنیا کے سب زیور، سب بزنس اور ساری طلاقیں جائیں بھاڑ میں۔ وہ بس سوتی رہے، سوتی رہے، لیکن وہ سب کچھ بھاڑ میں بھیج سکتی سوائے احمد کے سکول کے۔ احمد کو تو سکول جانا ہی جانا تھا۔ ناچار اسے اٹھنا پڑا۔
٭…٭…٭
ماں نے اسے کندھا ہلا کر جگایا۔ وہ اسے نوکری پر بھیجنے کے لیار کھڑی تھی۔ اسے پہلا خیال اس پہلی واردات کا آیا جس پر آج اسے جانا تھا۔ اس کا دل چاہا وہ منہ سر لپیٹ کے پھر سے سو جائے۔ دنیا کے سب بجلی کے بل، ساری بہنوں کے سسرال والے اور ساری وارداتیں جائیں بھاڑ میں۔ لیکن وہ ہر چیز بھاڑ میں جھونک سکتا تھا سوائے اپنی ماں کے، جو اس وقت اسے نوکری پر بھیجنے کے لیے اس کے سرہانے کھڑی تھی۔ ناچار اسے اٹھنا پڑا۔
٭…٭…٭
سعدیہ نے ناشتہ لا کر ظہیر کے سامنے رکھا۔ وہ کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹا تھا اور اخبار کھول کر اپنے چہرے کے سامنے تان رکھا تھا۔ اس کا ناشتہ اس کے سامنے رکھ کر وہ دُزیدہ نظروں سے اسے دیکھے گئی۔ اس کا تجربہ بتا رہا تھا کہ ظہیر کا موڈ آف تھا۔ کل رات اس نے نافرمانی جو کی تھی۔ اگرچہ بعد میں طلاق کی دھمکی سن کر اس نے اطاعت میں سر جھکا دیا تھا لیکن نازک مزاج شاہاںکو اس کی وہ کج بحثی ناگواری گزری تھی جو اس نے اپنے زور کی ملکیت کے حوالے سے کی تھی۔ لہٰذا وہ ناراض تھا۔
ظہیر نے اخبار کا کونا چہرے کے سامنے سے ہٹا کر ناشتے کی طرف دیکھا۔ پھر اخبار تہ کرکے میز پر رکھ دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ سعدیہ حیران ہوگئی۔
اس نے اضطراری انداز میں کہا:
”ناشتہ… ناشتہ تو کرتے جائیں۔”
شوہر کو ناشتے کے بغیر بھیج دینے کے مضمرات کیا ہوسکتے تھے وہ جانتی تھی۔
”زیور لے آئیں تم؟” ظہیر نے تلخی سے کہا۔
”احمد کو سکول سے لینے جائوں گی تو پہلے امی کی طرف سے زیور لے لوں گی۔” سعدیہ نے صفائی پیش کی۔
”چلو! جب لے آئو گی تب کرلوں گا میں بھی ناشتہ۔” ظہیر نے کڑوے لہجے میں کہا، سعدیہ خاموش رہی۔
”تمہیں جو کام کہتا ہوں وہ کیا کرو۔ یہ خوامخوا کے چونچلے نہ کیا کرو۔” اس نے طنز سے کہا اور چلا گیا۔
وہ بیٹھی سوچتی رہ گئی کہ ناشتہ پیش کرنا زیادہ بڑا جرم ہے یا نہ پیش کرنا اور اگر وہ اس حکم کی اطاعت میں یہ چونچلے کرنا بند کردے تو اس پر نافرمانی کون سی دفعہ نافذ ہوگی؟”
٭…٭…٭
ماں نے پیڑھی پر بیٹھے ناصر کے سامنے چنگیر میں روٹی اور سالن کی کٹوری رکھی اور خود پاس بیٹھ کر اسے دوپٹے سے پنکھا جھکنے لگی۔ وہ کمائو پوت ہونے والا تھا۔ بجلی کے بل اتارنے والا تھا، بہنوں کی شادیاں کرنے والا تھا۔
”پیٹ بھر کے ناشتہ کرکے جا، نوکری کا پہلا دن ہے، جان مار کے کام کرنا۔”ماںنے پیار سے کہا۔
”ہاں ہاں” ناصر نے نوالہ نگلتے ہوئے تسلی دی۔
ماں خوش ہوگئی۔
”اللہ کامیاب کرے، ترقیاں دے، حلال کمائی سے جھولی بھرے۔” ناصر کو اچھو لگ گیا۔
” یہ کیسی دعا دے رہی تھی ماں؟ اگر کہیں قبول ہوگئی تو؟”
٭…٭…٭
دروازہ راحت نے کھولا۔ اسے دیکھ کر کھل اٹھیں۔
”چاند نکل آیا آج تو صبح سویرے۔” وہ اسے اندر لاتے ہوئے کہتی گئیں۔
”دو دن سے بائیں آنکھ پھڑک رہی تھی میری۔ تم تو بھول ہی جاتی ہو ماں کا گھر اور یہ احمد کہاں ہے؟ سکول؟
”ہاں ہاں بھول ہی جاتی ہوں میں۔”
وہ خاموشی سے اپنی ماں کا ہنستا مسکراتا چہرہ دیکھتی رہی۔
دروازہ ارشد نے کھولا۔ ناصر کو دروازے پر کھڑا دیکھ کر خوش ہوگیا۔
”ٹائم پر آگیا تو۔” اس نے مُسکرا کر کہا اور پیچھے ہٹ کر اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔ ناصر اندر چلا گیا، دروازہ بند ہوگیا۔
ہانڈی میں ڈوئی چلاتے راحت نے ایک نظر کچن ٹیبل پر گم صم بیٹھی سعدیہ کو دیکھا۔
”کیا سوچ رہی ہو؟” انہوں نے پوچھا۔
سعدیہ چونکی۔
”آں؟ کیچھ نہیں۔ آپ کن کاموں میں لگی ہیں؟ آئیں میرے پاس بیٹھیں۔” اس نے بات بدلی۔
”بس آرہی ہوں۔ ذرا دم دے دوں۔” ہانڈی پر ڈھکنا دے کر راحت نے پودینے کی گٹھی اور ٹوکری اٹھائی اور سعدیہ کے پاس آ بیٹھیں۔ سعدیہ بھی ان کے ساتھ پودینہ توڑنے لگی۔
”ویسے تم تو ہمیشہ شام کو آتی ہو۔ آج اس وقت کیسے؟” راحت نے پودینہ توڑتے ہوئے پوچھا۔
”بس وہ گاڑی گھر پر تھی تو میں نے سوچا ہو آئوں۔” اس نے نظریں پودینے پر جمائے جمائے جواب دیا۔
”زیور لینا ہے نا؟”
”ہاں ہاں” راحت نے خوش مزاجی سے کہا
”کوئی شادی ہے کیا؟”
سعدیہ کو بے اختیار کل ظہیر سے ہونے والی بات چیت یاد آئی جب اس نے بھی اس خوش دلی سے پوچھا تھا۔ کوئی شادی ہے کیا؟ اور جواب میں ظہیر نے اس پر توپ داغ دی تھی۔
”کون سا زیور چاہیے؟” راحت نے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر پوچھا۔
”سارا” سعدیہ نے ہولے سے کہا۔
راحت کے پودینہ توڑتے ہاتھ رک گئے۔
”سارا…؟” انہوں نے حیرت سے کہا۔
”سارا کیا کرو گی؟”
”اپنی شادی کی بھینٹ چڑھا دوں گی۔” اس کے دل نے جل کر کہا
”یہ وہ کالی ماتا ہے جس کی پیاس میرے خون سے بھی نہیں بجھتی۔”
لیکن راحت سے وہ یہ نہ کہہ سکی۔
”وہ… ظہیر نے لاکر لیا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ آپ سے سارا زیور لے آئوں تاکہ سارا ایک ہی جگہ رکھ دیا جائے۔”
”اچھا؟” راحت اس کا چہرہ دیکھے گئیں۔
”ہاں” سعدیہ نے مُسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”بہت فکر رہتی ہے انہیں آپ کی۔ کہتے ہیں آنٹی زیادہ وقت اکیلی ہوتی ہیں۔ عروج تو کالج چلی جاتی ہے تو آنٹی کے لیے زیور کی حفاظت مسئلہ بنے گی۔ مجھے کہنے لگے تم لے آئو ہم سنبھال لیں گے۔ آنٹی کی ذمہ داری کم کرو۔”
راحت شفقت سے مسکرائیں مگر پھر کسی خیال کے تحت چونک گئیں۔
”مگر تمہارے پاس تو پہلے ہی لاکر ہے۔ کبھی تمہیں بری کا زیور پہنے نہیں دیکھا۔ جب پوچھا تم نے یہی کہا کہ لاکر میں پڑا ہے۔”
ایک لمحے کے لیے سعدیہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ لیکن ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ماں کو مطمئن کرنے کی ضرورت نے ایک اور جھوٹ گھڑ کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
”وہ تو میری ساس کا لاکر تھا۔” اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”فریحہ کی شادی نہیں ہوئی تھی نا، تو سب زیور ان کے لاکر میں پڑا تھا۔ اب وہ لاکر نہیں نے فریحہ کو دے دیا ہے تو ہم نے نیا لاکر لے لیا ہے۔”
آخرکار راحت مطمئن ہوگئیں۔ مسکرا کر بولیں:”اچھا اچھا! ہاں بیٹا اپنی چیز خود سنبھالو۔ سو تالوں میں چھپا کر رکھتی ہوں، پھر بھی دل ڈرتا ہے۔”
پودینہ بن گیا تھا۔ راحت نے اٹھ کر پودینہ کائونٹر پر رکھا اور ہاتھ دھونے لگیں۔
”ذرا لائٹ آجائے تو پودینے کی چٹتی بناتی ہوں، تمہیں پسند ہے نا؟” انہوں نے ہاتھ دھوتے ہوئے کہا۔
سعدیہ مزید کسی سوال جواب کا سامنا نہیں کرسکتی تھی۔گھبرا کر بولی:
”نہیں نہیں امی ! بس مجھے زیور دے دیجئے۔ مجھے دیر ہو جائے گی۔ ظہیر آنے والے ہوں گے گھر۔”
”ارے ایسے کیسے؟” راحت خفا ہوگئیں۔
”کھانا کھا کر جائو گی تم۔ کھانا کھلائے بغیر ہرگز نہیں بھیجوں گی تمہیں۔”
سعدیہ بے بس ہوگئی جیسے ہمیشہ ہوجاتی تھی۔
”چائے پی کر آیا ہے؟” ارشد نے پوچھا۔
”ہاں پی کر آیا ہوں۔” ناصر نے جواب دیا۔
ارشد نے ایک گندی میلی پلیٹ میں باسی مٹھائی کے چند ٹکڑے ناصر کے سامنے رکھ دئیے۔
”لے مٹھائی کھا۔” اس نے خوش دلی سے کہا:
”پہلا دن ہے نئے نئے کام کا۔ منہ میٹھا کر۔” وہ مٹھائی کھانے لگا۔
٭…٭…٭
”امی آجائیں آپ بھی بیٹھیں۔” سعدیہ نے آواز دی۔
”بس آرہی ہوں۔ سلاد بھول گئی تھی۔” راحت نے آتے ہوئے کہا۔
سعدیہ یک دم عجیب طرح ہنس پڑی۔راحت نے حیران ہوکر اس کی شکل دیکھی۔
”کیا ہوا؟” انہوں نے پوچھا۔
سعدیہ نے گہرا سانس لیا۔
”کتنا عرصہ ہوا اس طرح سکون سے بیٹھ کر کھانا کھائے۔ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ کوئی میری خاطر مدارت بھی کرتا ہے۔”
”کیوں بھئی ایسی بھی کیا مصروفیت؟” راحت نے سالن کا ڈونگا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
سعدیہ چند لمحے خاموش رہی۔
”مصروفیت نہیں توقعات، جو سب کو مجھ سے ہیں۔ گرم روٹی، تازہ کھانا، فریش سلاد، پرفیکٹ چائے، جب بچے، ساس سسر اور شوہر کو کھلا پلا کر فارغ ہوتی ہوں میرا کھانا ٹھنڈا ہوچکا ہوتا ہے۔”
””بس بیٹا شادی شدہ عورت کی یہی زندگی ہے۔” راحت نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ سعدیہ خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔
”ویسے تم کچھ بدل نہیں گئیں؟” راحت نے سعدیہ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
سعدیہ نے چونک کر سر اٹھایا۔ ”جی! کیا مطلب؟”
”حلیہ دیکھو اپنا۔” راحت نے اس کی طرف اشارہ کیا۔
سعدیہ نے گڑ بڑا کر خود پر نظر ڈالی۔
راحت اسے دیکھتے ہوئے کہے گئیں۔
”تم تو کپڑوں اور میچنگ کے معاملے میں بھی نفاست پسند تھیں۔ آج کیا پہن آئی ہو؟”
”بس امی دھیان ہی نہیں رہا۔” سعدیہ نے خفیف ہوکر کہا۔
راحت سنی ان سنی کرکے بولتی رہیں۔
”اور یہ بالوں کا کیا کر رکھا ہے؟ ہاتھ دیکھو کتنے رف ہوگئے ہیں۔ کتنے عرصے سے پارلر نہیں گئیں تم؟”
”بس کیا کروں مصروفیت ہی اتنی ہے۔” سعدیہ نے بہانہ بنانے کی ایک اور کوشش کی۔
”مصروفیت تو ہر عورت کی ہوتی ہے۔اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ انسان خود کو چھوڑ دے۔ ” راحت نے خفگی سے کہا۔
”جی امی!” سعدیہ نے ہار مان کر سر جھکاتے ہوئے کہا۔
راحت کی مزید interrogationسے بچنے کے لیے اس نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا اور ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولی۔
”مجھے زیور دے دیجئے امی، دیر ہورہی ہے۔”
پہلے یہ سب کھائو پھر دیتی ہوں تمہیں زیور۔” راحت نے پھلوں کی ٹوکری آگے کرتے ہوئے حکم دیا۔
سعدیہ نے خاموشی سے سیب اٹھا لیا۔
”چل استاد تیاری پکڑیں۔” ناصر نے کہا
”پہلے تو ہمت تو پکڑ” ارشد نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔