مارو گولی — سارہ قیوم

”ناصر” وہ چونک گیا۔
”نیند نہیں آرہی؟” ماں اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
”ہاں بس وہ مچھر تنگ کررہے تھے” ناصر نے ٹالنے کی کوشش کی۔
ماں دلگرفتہ لہجے میں بولی۔
”ہاں، دن کو پریشانیاں تنگ کرتی ہیں۔ رات کو مچھر۔”
”بس سوتا ہوں میں۔” ناصر نے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی۔ یہ گفتگو کیا رخ اختیار کرنے والی تھی، اسے اچھی طرح پتا تھا۔ اس سے پہلے کہ ماں پریشانیوں کی ایک لمبی فہرست کھولتی، سونے کے بہانے جان چھڑا لینا بہتر تھا۔ اس نے جانے کے لیے قدم بڑھائے۔ ماں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روک لیا۔
”بجلی کا بل آگیا ہے آج” ماں نے سیدھی مطلب کی بات کی۔
وہ رک تو گیا تھا، مجبوری میں سن بھی رہا تھا مگر بجلی کے بل کی تفصیل میں جانے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
”اچھا اچھا۔” اس کندھا چھڑا کر پھر قدم بڑھائے۔
”پانچ ہزار روپے” ماں نے بم پھوڑا۔
وہ بے ساختہ چلا اٹھا:
”پانچ ہزار روپے؟ اس ایک کمرے کے؟”
ماں نے ٹھنڈا سانس بھرا۔
”ایک پنکھا چلاتے ہیں، ایک بلب، پھر بھی 5ہزار بل آگیا۔ کیسے اترے گا؟”
ناصر کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔
ماں نے آس بھری آواز میں پوچھا:
”تیری نوکری کا کیا ہوا بیٹا؟”
ناصر نے ماتھے پر آئے پسینے کو پونچھ کر ہاتھوں پر لگے قطروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کررہا ہوں کوشش۔”
”زرینہ کے سسرال والے آئے تھے آج۔ شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے۔” ماں نے فرش پر سوئے بچوں پر ایک نظر ڈال کر دوسرا بم گرایا۔
وہ خاموش رہا۔ کل پہلی واردات پہ جانے کے حوالے سے جس شش و پنج نے اس کی نیند اڑا رکھی تھی، وہ اس کی ماں نے دو جملے کہہ کر ختم کردیا تھا۔ وہ خاموشی سے ماں کا چہرہ دیکھتا رہا۔
ماں لجاجت سے بولی:
”تیری نوکری کا کچھ پتا چل جاتا تو میں تاریخ دے دیتی۔”
ناصر نے چند لمحے سر جھکائے سوچتا رہا۔ ماں امید بھری نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ آخر اس نے سر اٹھایا اور مضبوط لہجے میں بولا: ”نوکری ہوگئی میری، کل پہلا دن ہے۔”
ماں کا چہرہ کھل اٹھا، خوش ہوکر بولی: ”تو نے بتایا ہی نہیں۔ کہاں ملی نوکری، تنخواہ کتنی ہے؟”
ناصر کچھ گڑ بڑا گیا، ان سوالوں کا جواب تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔
اٹکتے ہوئے بولا:
”وہ… دفتر… میں ملی ہے۔ ابھی نوکری کچی ہے۔ تنخواہ بعد میں پتا چلے گی۔”
یہ کہہ کر جلدی سے اپنی چارپائی کی طرف چل دیا۔
ماں دوپٹہ اٹھا کر دعائیں دینے لگی۔
”اللہ کامیاب کرے۔ کمائیوں سے جھولی بھرے۔”
ناصر نے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور چارپائی پر لیٹ گیا۔
٭…٭…٭





سعدیہ نے جھک کر احمد کا ماتھا چوما۔ وہ ہلکی نیند میں تھا، کسمسا کر ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ سعدیہ نے اس کا ہاتھ چوم کر اس کے اوپر رکھ دیا اور خود احتیاط سے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جس بے کلی نے اس کے دل و دماغ پر قبضہ جما رکھا تھا، اسے نیند آنا محال تھا۔ کچھ دیر وہ بے مقصد اندھیرے میں کھڑی رہی، پھر دروازہ کھول کر باہر نکل آئیے، کہاں جائے؟ کیا کرے؟ کچن میں کچھ کام نہ تھا۔ بیڈ روم میں ظہیر کام کررہا تھا۔ وہ ادھر ادھر پھرتی سٹڈی میں چلی آئی۔ یونہی کتابیں اٹھا کر کھول کر دیکھنے لگی۔ اچانک وہ ٹھٹھک گئی۔ موٹی موٹی کتابوں کے درمیان اسے ایک خوب صورت جلد والی پرانی سی ڈائری نظر آئی۔ اس نے اسے اٹھا کر کھول لیا۔ یہ اس کے کالج کے دنوں کی ڈائری تھی۔ محض سات سال پرانی لیکن گم گشتہ زمانوں کی یادگار۔
پہلے صفحے پر اس کا نام لکھا تھا۔ سعدیہ لطیف، اس نے اپنے نام پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے نیچے اس کا رول نمبر درج تھا، 51120، اس نے صفحہ پلٹا۔ اس صفحے پر اس کی تصویر لگی تھی۔ کالج گرائونڈ میں یونیفارم پہنے، فرینڈز کے ساتھ ہنستی مسکراتی تصویر۔ اسے یاد آیا یہ ڈائری اس کی scrap book تھی۔ کالج کی ہر دوسری لڑکی کا دل پسند مشغلہ۔ کلاس میں، گرائونڈز میں، ہاسٹل میں ہر جگہ لڑکیاں ایسی ہی scrap booksفل کرتی نظر آتی تھیں۔ وہ کچھ دیر تصویر کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے صفحہ پلٹا۔ اس صفحے کے اوپر نیلے مارکر سے سوال لکھا تھا۔
”Aim of life?” پہلا جواب اس نے خود لکھا تھا۔
”ڈاکٹر بننا” اس کا دل ایک لمحے کو سکڑا، اس نے اضطراب سے صفحہ پلٹا اگلا سوال اس کا منتظر تھا۔
”Ideal?” وہ اپنا جواب پڑھے بغیر بھی جانتی تھی۔
”ایک بہت محبت کرنے والا caringشوہر جو میرا دوست بن کر رہے۔”
اس کے کانوں میں آوازیں گونجنے لگیں۔
”دوست رہیں گے ہم ہمیشہ۔” اس نے کہا تھا۔
”رانی بنا کر رکھوں گا۔”
”لے لو طلاق اور جائو گھر” پلٹا اس کی تقدیر نے کھایا تھایا حالات نے؟
”چلی جائو اگر اتنا ہی برا لگتا ہوں میں۔”
”مما طلاق کیا ہوتی ہے؟”
”تم عورتیں بہت selfish ہوتی ہو، اپنے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تمہیں۔” وہ بے اختیار ہنس پڑی۔
Aim of life? ڈاکٹر بننا۔
اسے وہ دن یاد آیا جب اس کا رزلٹ آیا تھا۔ 95% مارکس، وہ گویا اڑتی ہوئی گھر پہنچی تھی۔ راحت اپنے کمرے میں کھڑی کپڑے تہ کرکے الماری میں رکھ رہی تھیں، وہ بھاگ کر ان سے لپٹ گئی۔
”امی امی! میرا رزلٹ آیا ہے 95% پرسنٹ مارکس۔” اس نے خوشی سے بے حال ہوتے ہوئے کہا۔ راحت نے اس کا ماتھا چوما لیکن اسے وہ کچھ سنجیدہ سی لگیں وہ غور کیے بغیر اپنی دھن میں کہے گئی۔
”بس اب صرف انٹری ٹیسٹ کی دیر ہے۔ پھر میں ہوں گی اور سفید کوٹ۔”
اس نے ماں کو خاموش دیکھ کر ان کا کندھا ہلایا۔
”پھر امی! اتنا زبردست رزلٹ آیا میرا، مجھے کیا تحفہ دیں گی آپ؟”
رات نے ایک سنجیدہ سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا اور بولیں ”شادی۔”
”شادی؟” سعدیہ ٹھٹھک گئی۔ ”کس کی شادی؟”
”تمہاری اور کس کی؟” راحت نے پھر سے کپڑے تہ کرنے شروع کردیئے، وہ چند لمحے کھڑی بے یقینی سے انہیں دیکھتی رہی۔
”آپ مذاق کررہی ہیں نا؟” اس نے امید اور خوف کے بیچ ڈولتے پوچھا۔
”نہیں” راحت نے اس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”تمہیں شوق تھا Fscکا، تم نے پورا کرلیا، اب ڈاکٹر واکٹر بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ شادی کرکے گھر بسائو۔” وہ رونے لگی۔
”امی میں نے بڑی محنت کی ہے۔ میرا خواب ہے ڈاکٹر بننا۔”
”زندگی میں ہر خواب پورا نہیں ہوتا۔ تمہارے سر پر کوئی باپ بھائی نہیں جس کے آسرے پہ تم یہ چونچلے کرو۔”
وہ روتی رہی۔
”امی میرا میرٹ بن رہا ہے میڈیکل کا۔”
راحت کو غصہ آگیا۔
”تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی؟ میرے مسائل کا احساس کرو۔ میں اپنی زندگی میں اپنے فرائض سے فارغ ہونا چاہتی ہوں۔ بڑا اچھا رشتہ بتایا ہے راحیلہ نے۔ میں ہاں کرنے لگی ہوں بس۔ تم یہ میڈیکل کی ضد چھوڑو اور شادی کی تیاری کرو۔”
اور سعدیہ پھر سے ڈر گئی۔ ماں کے غصے سے ڈر گئی، نافرمانی سے ڈر گئی، قربانی مانگنے پر قربانی نہ دینے سے ڈر گئی۔
اگلی صبح اسے کالج جانا تھا۔ اپنے رنجیدہ خیالوں میں گم وہ اپنی گلی میں چلی جارہی تھی۔ اچانک اسے سیٹی کی آواز سنائی دی۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ نکڑ پر کھڑے لڑکے نے اسے سر اٹھاتا دیکھ کر آنکھ ماری۔ وہ خوف زدہ ہوگئی۔ اسے ڈرتا دیکھ کر لڑکا لوفرانہ انداز میں مسکرایا۔ سعدیہ گھبرا کر واپسی مڑی اور تیز قدموں سے گھر کی طرف چل دی۔
سعدیہ بھاگتے ہوئے اپنے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ لان میں عروج پودوں کو پانی دے رہی تھی۔ سعدیہ کو آتا دیکھ کر حیران ہوئی۔
اس نے حیرت سے پوچھا:
”کیا ہوا؟ واپس کیوں آگئیں؟ ابھی تو گئی تھیں؟”
سعدیہ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ سخت گھبرائے ہوئے اس نے کہا:
”وہ… وہ وہاں نکڑ پر…”
”کیا؟” عروج نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
”گلی میں… نکڑ پر… کوئی کھڑا ہے۔” سعدیہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔
”کیا؟” عروج نے پوچھا۔





”بس یہی سمجھو” سعدیہ نے بے چاگری سے کہا۔
عروج نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
”اف سعدیہ، کیا کروں میں تمہارا؟ چلو میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ ڈر پوک کہیں کی۔”
لڑکا اب بھی اسی نکڑ پر کھڑا تھا۔ عروج ٹھٹھک کر رُک گئی۔ افسوس اور حیرت کی ملی جلی کیفیت میں اس نے پوچھا۔
”اس سے ڈر رہی تھیں تم؟”
سعدیہ نے کچھ سہمی سی نظروں سے لڑکے کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
عروج نے بے یقینی سے سر ہلایا:
”اف سعدیہ کیا بنے گا تمہارا؟ یہ کتا تھوڑی ہے؟ یہ تو چھچھوندر ہے۔”
سعدیہ بے چارگی سے اسے دیکھتی رہی، عروج دو آگے قدم بڑھ کر لڑکے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
”ہاں؟ کیا بات ہے؟” اس نے سڑک چھاپ عاشق کو للکارا۔
لڑکا اس کے پراعتماد انداز سے خائف ہوگیا۔
”کوئی بات نہیں۔” اس نے ہکلا کر کہا۔
”تو یہاں کیوں کھڑے ہو؟” عروج نے ڈپٹ کر کہا۔
لڑکا اتنی سی ہی ڈانٹ کی مار تھا۔ پیچھے ہٹتے ہوئے گھبرا کر بولا:”ویسے ہی”
عروج گرج کر بولی:”آئندہ یہاں نظر آئے تو دونوں ٹانگوں پرواپس نہیں جائو گے۔” لڑکا اس دھمکی پر مرعوب ہوکر کھسک گیا۔ عروج نے مڑ کر سعدیہ کو ایسے دیکھا جیسے کہتی ہو دیکھا! بس اتنی سی بات تھی۔
٭…٭…٭
راحت سے کل شام ہونے والی بحث، لڑکے کا لوفرانہ انداز اور عروج کے سامنے ہونے والی خفت نے سعدیہ کے نازک اعصاب کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ کالج میں شمائلہ کو دیکھتے ہی وہ رو پڑی۔ شمائلہ نے اسے بنچ پر بٹھا کر اسے پانی پلایا اور سکون سے اس کی داستانِ غم سنی۔
”ڈاکٹر بن کے بھی کیا کرلینا تھا تم نے؟” شمائلہ نے تسلی دی۔
”شادی تو تب بھی کرنی ہی پڑتی۔ تو ابھی بات مان لو تم اپنی امی کی۔”
سعدیہ روئے گئی، ہمیشہ بات مانی تھی، نافرمانی تو کبھی نہیں کی، لیکن یہ تو ساری زندگی کی بات تھی۔ زندگی میں ایک مرتبہ کوئی اس کی بھی تو مان لے۔
شمائلہ کو اس پر ترس آیا۔
”اچھا رو مت، تم پوچھتی تو سہی کہ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟” شمائلہ نے اس کی scrap book کھول لی۔
”یہ دیکھو تم نے یہاں لکھا ہے۔ تمہارا آئیڈیل؟ ایک بہت محبت کرنے والا caring شوہر جو میرا دوست بن کررہے۔” ہوسکتا ہے وہ ایسا ہی ہو۔ ہو سکتا ہے تمہیں تمہارا آئیڈیل مل جائے۔”
سعدیہ کے آنسو تھم گئے، وہ سوچ میں پڑ گئی۔
وہ کالج سے گھر آئی تو ڈرائنگ روم میں راحت کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔
”تمہاری متوقع ساس ہیں، امی نے کہا ہے کہ چائے بنا کر ٹرالی اور لے جائو۔” عروج نے بتایا۔
اندر بیٹھی خاتون نے سر سے لے کر پائوں تک اس کا جائزہ لیا۔ ان کی تنقیدی نظروں سے خائف ہوکر وہ راحت کے پاس بیٹھ گئی۔ اسے ان کی نظریں اپنے بالوں، ہاتھوں، گھٹنوں، پیروں پر سرکشی محسوس ہورہی تھیں۔
”کیا عمر ہے بیٹا آپ کی؟” ڈائریکٹر سوال آیا۔
سعدیہ نے ایک نظر راحت کو دیکھا، کیا یہ بات اس سے پوچھنا ضروری تھا؟
”جی اٹھارہ سال” اس نے آہستہ سے کہا۔
”بس یہی صحیح عمر ہے شادی کی۔” خاتون نے صائمہ سے کہا۔
راحت خوش ہوکر بولیں:
”بالکل میں تو خود یہی کہتی ہوں۔ کیا رکھا ہے اتنی پڑھائیوں میں کہ شادی کی عمر ہی نکل جائے؟”
”اور کیا میرا بیٹا تو کہتا ہے بیوی مجھے وہ چاہیے جو گھر بیٹھے اور گھر سنبھالے۔ ماں باپ کی خدمت کرے، نہ آگے پڑھنے دے گا، نہ کام کرنے دے گا۔”خاتون نے فخر سے اعلان کیا۔
سعدیہ کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں ارادے باندھنے لگی۔ بس امی سے انکار کرنے کا کہہ دوں گی۔ جن لوگوں کا ابھی سے اتنا حاکمانہ attitudeہے وہ آگے جاکر کیا کریں گے؟
لیکن اس کے ارادے ارادے ہی رہ گئے۔ راحت نے ان لوگوں کو ہاں کردی۔ اس کے رونے دھونے کو کوئی اہمیت نہ دی۔
”سب بچیاں شادی سے پہلے ایسے ہی کرتی ہیں۔” کہہ کر ٹال دیا گیا۔
منگنی اس نے رو رو کر کرائی لیکن یہ آنسو دیرپا ثابت نہیں ہوئے۔ ظہیر بڑا وجیہہ مرد تھا۔ دوستوں کے رشک آمیز جملوں اور رشتہ داروں کی تعریفوں نے اس کے دل سے ملال دھو ڈالا۔ رہی سہی کسر خود ظہیر نے پوری کردی۔
”بالکل تم جیسی بیوی چاہیے تھے مجھے۔” اس نے پہلی مرتبہ سعدیہ کو فون کیا تو پہلی بات ہی یہ کہی۔
”خوب صورت، کم عمر، فرماں بردار، بس ایسی ہی بیوی چاہتا تھا میں۔” اس کے جملوں کی گہرائی کا اندازہ کیے بغیر سعدیہ ہوائوں میں اڑنے لگی۔ وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد تھا۔ ہینڈسم تھا، ویل سیٹلڈ تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے چاہتا تھا۔ ”اس سے” کیا چاہتا تھا، اس کا قیاس وہ نہ کرسکی۔ اٹھارہ سال کی لڑکی سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔
ظہیر واقعی وہ آئیڈیل تھا جس کے بارے میں اس نے اپنی scrap lookمیں لکھا تھا۔
”ہم ہمیشہ دوست رہیں گے۔” وہ فون پر اسے کہتا
”شہزادیوں کی طرح رکھوں گا میں تمہیں۔ بس تم میری ہر بات ماننا، پھر میں بھی تمہاری ہر بات مانا کروں گا۔”




Loading

Read Previous

میں بے زباں —- رفا قریشی

Read Next

آم کے آم — فہمیدہ غوری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!