ذالعید اس دوپہر بھی ماما جان سے ملنے گیا۔ ماما جان کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔ وہ اندر کمرے میں چلا گیا اور حسب معمول مریم کے بستر پر لیٹ گیا۔ کچھ دیر سیدھا لیٹے رہنے کے بعد اس نے دائیں طرف کروٹ لی اور تب ہی ماما جان کے بستر پر کسی چیز نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔
وہ ماما جان کے تکیے کے نیچے کسی تصویر کا کونہ تھا۔ ذالعید کو حیرت ہوئی۔ ماما جان کے تکیہ کے نیچے کس کی تصویر ہو سکتی تھی۔ اسے تجسس سے زیادہ اشتیاق ہوا۔
اپنے بستر سے اٹھ کر وہ چند قدم آگے گیا اور اس نے ماما جان کا تکیہ ہٹا کر وہ تصویر اٹھا لی۔
اس کے پورے وجود کو جیسے ایک کرنٹ لگا تھا۔
ماما جان اسی وقت کمرے میں واپس آئی تھیں۔ ذالعید کے ہاتھ میں تصویر دیکھ کر وہ دھک سے رہ گئیں۔ ”یا اللہ!”
وہ دونوں اب ایک دوسرے کے سامنے کھڑے پلکیں جھپکائے بغیر ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ایک چہرے پر بے یقینی تھی۔ دوسرے چہرے پر خوف تھا۔
وہ اس بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں موجود تینوں ہستیوں سے واقف تھا۔ تصویر میں موجود مرد اس کا اپنا باپ تھا… مظہر اوّاب خان… اس کی گود میں موجود بچہ وہ خود تھا اور تصویر میں موجود عورت…؟
وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ مگر وہ اس کی کیا لگتی تھی۔
خدیجہ نور نے ذالعید کی آنکھوں میں یک دم خوف اترتے دیکھا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔
”آپ میری کیا لگتی ہیں؟ کیا آپ میری…؟”
اس کا سوال ایک بازگشت بن کر خدیجہ نور کے وجود کو اپنی گرفت میں لینے لگا۔ اس نے تھکے ہوئے انداز میں اپنا سر جھکا دیا۔
”ہاں۔ میں تمہاری ماں ہوں۔”
—–*—–
کمرے میں تاریکی زیادہ تھی یا خاموشی… ذالعید اندازہ نہیں کر سکا۔ ماما جان اب خاموش ہو چکی تھیں۔ انہوں نے ذالعید کو دیکھنے کی کوشش کی۔ نیم تاریک کمرے میں وہ کسی بت کی طرح زمین پر نظریں گاڑے چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست تھیں۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
باہر مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ وقت کتنی جلدی گزرتا ہے… چند گھنٹے پہلے میں اس کے لیے کیا تھی… اب میں اس کے لیے کیا ہوں۔” ماما جان نے سوچا۔ انہیں یک دم خنکی کا احساس ہونے لگا۔ وہ ذالعید سے کچھ کہنا چاہتی تھیں۔
کیا کہنا چاہیے…؟ معذرت کرنی چاہیے؟ یہ کہنا چاہیے کہ میں نے تمہیں جو تکلیف پہنچائی۔ اس کے لیے مجھے معاف کر دو… یا یہ کہنا چاہیے کہ مجھے اپنے وجود پر شرمندگی ہے… وہ لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”میں تمہیں یہ سب بتانا نہیں چاہتی تھی۔” ماما جان نے لفظ ڈھونڈ لیے۔ ”نہ آج نہ آئندہ کبھی۔ میرا تعارف تمہارے لیے تذلیل بن جائے گا اور ماں اولاد کو ذلت میں حصہ دار کبھی بھی نہیں بناتی… لیکن ہم جو چاہتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں ہوتا… میں جانتی ہوں۔ میری کوئی معذرت اس تکلیف کو کم نہیں کر سکتی جو میرے تعارف نے تمہیں دی ہے لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں تم مجھے معاف کر دو۔” ماما جان کچھ دیر اس کے جواب کی منتظر رہیں۔
ذالعید نے کچھ نہیں کہا۔ وہ چپ تھا۔
وہ چارپائی سے اٹھ گئیں، سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر انہوں نے بلب جلایا اور پلٹ کر ذالعید کو دیکھا۔ اس نے سر اور جھکا لیا۔ مگر وہ اس کے بھیگے ہوئے چہرے کو دیکھ چکی تھیں۔ کچھ کہنے کے بجائے لڑکھڑاتے قدموں سے وہ کمرے سے باہر نکل گئیں۔ اس کے آنسوؤں نے انہیں تکلیف پہنچائی تھی۔ انہیں احساس ہوا وہ زندگی میں دوبارہ کبھی ذالعید کا سامنا نہیں کر سکیں گی۔ وہ اس کے سامنے سر تک نہیں اٹھا سکیں گی۔
اندھیرے میں برآمدے کی سیڑھی پر بیٹھ کر انہوں نے صحن کے پار نظر آنے والے بیرونی دروازے کو دیکھا۔ ابھی کچھ دیر بعد وہ یہاں سے باہر چلا جائے گا اور پھر دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ بالکل مظہر کی طرح…
”بالکل اسی طرح جس طرح وہ ستائیس سال پہلے مجھے چھوڑ گیا تھا… مگر میں چاہتی ہوں، وہ جانے سے پہلے مجھ سے کچھ نہ کہے… ایک لفظ بھی نہ بولے۔ بس خاموشی سے چلا جائے۔” وہاں سیڑھیوں میں بیٹھے ہوئے انہوں نے دعا کی۔
”پچیس سال میں نے اس کے ملنے کی دعا کی تھی۔ مگر میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ملنے کے بعد جب وہ میرے بارے میں سب کچھ جان گیا تو کیا ہوگا۔” وہ کیا کرے گا؟ وہ کیا کہے گا؟ وہ اس تکلیف کو کیسے برداشت کرے گا جو میرا تعارف… وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا؟ وہ لوگوں کا سامنا کیسے کرے گا؟ لیکن میں نے اس سے اپنا تعارف کروانا کب چاہا تھا۔ میں نے یہ خواہش نہیں کی تھی کہ وہ میرے بارے میں جان جائے۔ میں نے تو ایسا کچھ بھی نہیں چاہا۔” وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ وہاں تاریکی میں بیٹھی سوچ رہی تھیں۔
پھر انہیں اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ جانتی تھیں ذالعید واپس جانے کے لیے باہر آیا ہے۔ انہوں نے پیچھے مڑے بغیر کچھ سمٹ کر برآمدے کی سیڑھیوں سے اس کے گزرنے کے لیے جگہ بنا دی۔ وہ گیا نہیں ان کی پشت پر کھڑا رہا۔
وہ جانتی تھیں وہ جانے سے پہلے ان سے کچھ کہنا چاہتا تھا اور انہیں اس کے لفظوں سے خوف آ رہا تھا۔ ستائیس سال پہلے مظہر کے منہ سے نکلنے والے جملوں نے بعد کے کئی سال ان کے وجود کو عفریت بن کر جکڑے رکھا تھا اور اب… اب ذالعید کے منہ سے نکلنے والے لفظ… وہ جانتی تھیں۔ وہ باقی ساری عمر ان لفظوں کے چنگل سے نہیں نکل پائیں گی۔
وہ ان کے بالکل پیچھے کھڑا تھا اور وہ اتنی ہمت نہیں کر پا رہی تھیں کہ مڑ کر اسے دیکھ لیں۔
”مجھے آپ سے یہ کہنا ہے…” سناٹا ٹوٹ گیا، اس نے بات شروع کی پھر رک گیا۔
وہ اس کی آواز میں موجود نمی کو محسوس کر رہی تھیں۔ ماما جان کو اپنا پورا وجود برف کے بت میں تبدیل ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
وہ اب ان کے پیچھے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ ”مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ…” وہ ایک بار پھر رک گیا۔
وہ کیا کر رہا تھا؟ آپ نے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش؟” ماما جان نے سوچا۔ انہیں یاد آیا ستائیس سال پہلے جب مظہر اسے لے گیا تھا تب بھی وہ رو رہا تھا۔ بلند آواز میں۔ بلک بلک کر مگر تب اس نے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی تھی نہ ہی اپنی آواز کا گلا گھونٹا تھا… آج وہ یہ دونوں کام کر رہا تھا۔ ذالعید واقعی بڑا ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے سرد ہاتھوں کو بھینچتے ہوئے سوچا۔”
”آپ نے میرے ساتھ غلط کیا۔” انہوں نے اس کے جملے کو پورا ہوتے سنا۔
”ستائیس سال پہلے مظہر نے بھی تو مجھ سے یہی کہا تھا۔” انہیں یاد آیا۔ ”اور اب یہ بھی وہی سب دہرائے گا۔ مجھے بتائے گا کہ میں کتنی بری عورت ہوں۔ جس نے اس کے باپ کو دھوکا دیا، اسے دھوکا دیا۔ اس کے ساتھ آج تک فریب کر رہی ہوں۔ ایک کال گرل اس کی ماں کیسے ہو سکتی ہے۔ اسے مجھ سے گھن آتی ہے۔ میں اس کے لیے ذلت کا باعث ہوں میرے جیسی عورتیں۔”
ان کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ ذالعید نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ ان کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھے ان کی پشت سے ماتھا ٹکائے بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
”کیا یہ Illusion (وہم) ہے؟” اس کا لمس انہیں عجیب لگا۔ ”کیا سب کچھ جاننے کے بعد بھی…”
”آپ نے مجھ سے یہ سب کیوں چھپایا؟” وہ رو رہا تھا۔
”آپ کا تعارف میرے لیے کسی ذلت کا باعث نہیں ہے۔ مجھے فخر ہے کہ آپ میری ماں ہیں ماما جان۔”
”فخر؟ یہ کیا کہہ رہا ہے؟” ماما جان نے بے یقینی کے عالم میں اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ اس کے بازو اب ان کی گردن کو اپنے حصار میں لیے ہوئے تھے۔ وہ ایک ننھے بچے کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھا ان کی گردن کی پشت پر اپنے گال رگڑ رہا تھا۔
”مجھے فخر ہے ماما جان! آپ میری ماں ہیں۔ آپ نے یہ کیوں سوچا کہ میں آپ سے تعلق پر شرمندگی محسوس کروں گا۔ آپ سے تعلق پر؟ اپنی ماں سے تعلق پر؟… میں آپ کو مکمل طور پر Own کرتا ہوں۔ آپ کے ماضی سمیت۔ میں مظہر اوّاب خان نہیں ہوں۔ میں ذالعید ہوں… آپ کا بیٹا… صرف آپ کا بیٹا۔”
برف کا وہ بت پگھلنے لگا تھا۔ کچھ بھی وہم نہیں تھا… نہ آج کی رات… آواز… نہ یہ لفظ… نہ یہ شخص… ستائیس سال پہلے کا بھیانک خواب ہمیشہ کے لیے گزر چکا تھا۔ وہ اب دوبارہ کبھی پلٹ کر آنے والا نہیں تھا۔ واپس مڑ کر وہی آیا تھا۔ جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔
ماما جان نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹا لیے۔ انہوں نے ایک بار سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنی گردن کے گرد حمائل ان بازوؤں کو دیکھا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ اس کی کلائیوں پر رکھ دیا۔ پھر وہ بے اختیار اس کے ہاتھ چومنے لگیں۔
ستائیس سال پہلے وہ ہاتھ ننھے منے تھے۔ انہیں آج تک ان نرم ہاتھوں کا لمس یاد تھا۔ ستائیس سال بعد ان ہاتھوں کو چومتے ہوئے بھی انہیں وہ اتنے ہی نرم لگے تھے۔ ستائیس سال غائب ہو گئے تھے۔ ستائیس سال کہیں چلے گئے تھے۔ وہ اب بھی ان کے پاس تھا وہ اب بھی رو رہا تھا مگر اب وہاں کوئی مظہر اوّاب خان نہیں تھا جو اسے وہاں سے لے جاتا۔
وہاں صرف ذالعید تھا۔ خدیجہ نور تھی۔
بیٹا تھا۔ ماں تھی۔
آج وہ اسے چپ کروا سکتی تھیں۔ اس کے آنسو پونچھ سکتی تھیں۔
”اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔”
خدیجہ کو یاد آ گیا تھا۔ ستائیس سال پہلے کی وہ رات اور وہ دعا… ذالعید کا ہاتھ چومتے ہوئے وہ مسکرانے لگیں۔
”اور بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا اور کون ہے؟” اس نے سرگوشی کی۔
—–*—–
اگلے کئی ہفتے وہ ایک عجیب سے شاک کی حالت میں رہا۔ ہر چیز سے یک دم جیسے اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ زندگی اسے پہلے کبھی اتنی تکلیف دہ اور ناقابل یقین نہیں لگی تھی۔
ساڑھے ستائیس سال آپ نے جس ماں کو دیکھا تک نہ ہو، وہ یک دم آپ کے سامنے آ جائے اور وہ اپنے جسم پر بڑے ہوئے سارے آبلے اور ان سے رستا ہوا خون آپ کو دکھانے لگے اور آپ کو یہ بتائے کہ وہ زخم اس کے جسم پر لگانے والا شخص آپ کی زندگی کا دوسرا اہم رشتہ ہے۔ آپ کا باپ ہے اور آپ یہ جانتے ہوں کہ اس کے لفظوں میں کہیں بھی جھوٹ نہیں ہے تو پھر آپ کو ان آبلوں سے رستا ہوا خون اس تیزاب کی طرح لگتا ہے جو آپ کو اندر اور باہر ہر طرف سے گلا دیتا ہے۔ آپ بے داغ جسم لیے پھرنے کے باوجود وہ سارے زخم، وہ ساری رطوبتیں اپنے جسم پر محسوس کرتے ہیں اور پھر آپ ساری عمر آلودہ پھرتے رہتے ہیں۔
ذالعید کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اپنا خاندانی حسب نسب اسے ایک کھوکھلے تنے کی طرح گرتا محسوس ہوا۔
”تو یہ وہ سچ ہے ذالعید اواب! جسے میرا باپ مظہر اوّاب خان ساری عمر چھپاتا رہا۔ اس کا خیال تھا۔ میری ماں کا ماضی ایک عفریت کی طرح میری شناخت اور زندگی کو کھا جائے گا۔ اس لیے اس نے میری ماں خدیجہ نور کو اپنی زندگی سے باہر نکال پھینکا۔ اس کے بارے میں کبھی مجھ سے بات تک نہیں کی۔
”تمہاری ماں کے ساتھ میری انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہو سکی۔ اس لیے ہم دونوں الگ ہو گئے۔ اس نے تمہیں مجھے دے دیا کیونکہ وہ تمہاری ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی تھی۔” بہت سال پہلے مظہر نے ایک بار خود ذالعید کو اس کی ماں کا یہ تعارف دیا تھا۔
ذالعید نے دوبارہ کبھی ان سے اپنی ماں کے بارے میں نہیں پوچھا اور اب… اب وہ اس کے سامنے آ گئی تھی۔
اسے یاد تھا جب ماما جان نے اس کے ماں باپ کی مرضی کے بغیر مریم کی شادی اس سے کرنے سے انکار کر دیا تو وہ مظہر اوّاب کے پاس گیا تھا۔
اس نے ان سے کہا کہ وہ اسے اس کی ماں کا ایڈریس دے دیں۔ وہ انگلینڈ ان کے پاس جا کر ان سے کہے گا کہ وہ مریم کی امی سے اس کے رشتہ کی بات کریں۔ اس نے مظہر کو دھمکی دی تھی کہ ”اگر وہ ایڈریس نہیں بھی دیں گے، تب بھی وہ چلا جائے گا اور خود اپنی ماں کو ڈھونڈے گا۔ اس کے الفاظ سن کر مظہر جیسے سکتے میں آ گئے تھے۔
ذالعید کو یاد تھا انہوں نے اعتراض کا ایک لفظ بھی کہے بغیر اس سے کہا۔ ”ٹھیک ہے میں نزہت سے کہہ دوں گا، وہ تمہارے پرپوزل کے سلسلے میں مریم کی ماں سے بات کرے گی۔ میری فیملی تمہاری شادی میں شرکت کرے گی مگر میں نہیں کروں گا۔” ذالعید کو ان سے اتنی جلدی ہار مان لینے کی توقع نہیں تھی۔
اور اب وہ سوچ رہا تھا کہ وہ ہار نہیں خوف تھا۔ انہیں یہ اندیشہ تھا کہ وہ کہیں اپنی ماں تک نہ پہنچ جائے۔ اس کے بارے میں نہ جان جائے۔ انہوں نے اسے شادی کی اجازت دے کر اپنے خاندانی وقار کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
—–*—–
”میں کیوں آپ کو اپنے ساتھ نہ رکھوں ماما جان! میں کیوں اس کی بات مانوں… مجھے کتنی تکلیف ہوتی ہے جب میں سوچتا ہوں کہ میری ماں یہاں اکیلی رہتی ہے۔ میرے پاس سب کچھ ہو اور میری ماں۔”
وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے جانا چاہتا تھا مگر ماما جان نے اس سے کہا کہ وہ پہلے مریم سے بات کرے۔ مریم کے انکار پر وہ بری طرح مشتعل ہو گیا خاص طور پر تب جب اسے یہ پتا چلا کہ مریم نے ماما جان سے ان کے گھر نہ آنے کے لیے کہا ہے۔
”میرا بھی دل چاہتا ہے ماما جان! کہ آپ میرے گھر میں ہوں۔ میں رات کو جب چاہوں آپ کے پاس آ جاؤں۔ میں صبح آپ کو دیکھوں۔ میں نے ساری عمر ماں کو نہیں دیکھا مگر اب تو میں اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہوں۔”
”تم روز یہاں آتے ہو، میرے لیے اتنا کافی ہے۔ ذالعید۔”
”مگر میرے لیے کافی نہیں ہے۔ میں سب کو بتا دوں گا کہ آپ میری ماں ہیں۔ پھر تو مریم مجھے روک نہیں سکے گی آپ کو رکھنے سے۔”
”اور تمہارے پاپا… تم نے کبھی سوچا ہے، ان کا ری ایکشن کیا ہوگا جب وہ میرے بارے میں جانیں گے۔ پورا خاندان سب کچھ جان جائے گا۔ تم اور مریم کیا کرو گے؟ کیا کرو گے جب لوگ میرے ماضی کے حوالے سے بات کریں گے۔” وہ پرُسکون انداز میں کہہ رہی تھیں۔
”ماما جان! وہ ماضی تھا۔ اتنے سال پرانی بات کون یاد رکھتا ہے کون یاد رکھے گا۔ لوگ بھول جاتے ہیں۔” ماما جان نے بھیگی آنکھوں سے نفی میں سر ہلایا۔
”دنیا عورت کے ماضی کو کبھی نہیں بھولتی۔ دنیا صرف مرد کے ماضی کو بھول جاتی ہے۔ میں تمہیں اور مریم کو دنیا کی نظروں میں گرانا نہیں چاہتی۔ مریم مجھے اس طرح گھر میں نہیں رکھے گی۔ تم سب کچھ بتا دو گے تو بھی وہ راز نہیں رکھے گی۔ تمہارے گھر میں کبھی نہ کبھی مظہر تک میرا اصل تعارف پہنچ جائے گا اور پھر سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ مظہر نے میرے بارے میں سب کچھ چھپا کر اپنی عزت رکھی ہے۔ تمہاری عزت رکھی ہے۔ اتنے سالوں بعد جب لوگوں کو میرے بارے میں پتا چلے گا تو لوگ تمہارے بارے میں سوال کریں گے۔ تمہاری ولدیت کے بارے میں انہیں شبہ ہونے لگے گا۔ کیا کرو گے پھر؟ کس کس کا منہ بند کرو گے؟ کس کس کو یقین دلاؤ گے کہ تمہاری ماں کا کردار برا نہیں تھا۔ حالات برے تھے۔ مریم سوسائٹی میں کس منہ سے جائے گی۔ میرا اسکینڈل اس کا کیریئر تباہ کر دے گا۔ تم خود باپ بننے والے ہو۔ کل اپنی اولاد کے سامنے کس طرح بے قصور ثابت کرو گے مجھے۔ میری وجہ سے وہ زندگی میں کچھ کھوئیں گے تو تم کو الزام دیں گے۔ زندگی میں نئے رشتے بناتے ہوئے لوگ ان سے میرے بارے میں سوال کریں گے۔
سب کے سامنے مجھے اپنی ماں تسلیم کر کے تم ہر ایک سے کٹ جاؤ گے۔ باپ سے، بہن بھائیوں سے، خاندان سے… میں ایک رشتہ تمہیں دے کر تم سے سب کچھ کیسے چھین لوں۔ یہ بہتر ہے مجھے یہی رہنے دو یہاں میں محفوظ ہوں یہاں میری عزت ہے لوگ احترام کرتے ہیں میرا… یہاں کوئی میرے ماضی کی تاک میں نہیں ہے۔” ذالعید نے خود کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔
ماما جان سامنے چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر رونے لگا۔ ماما جان کا دل بھر آیا۔
”مجھے آج کل زندگی کتنی بری لگ رہی ہے۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ دنیا، رشتے، لوگ، معاشرہ، روایات، رسوم، اقدام یہ سب کچھ اتنا کھوکھلا اور گندا ہے کہ اسے اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔ کاش… کاش ماما جان میں ذالعید اوّاب خان نہ ہوتا… میں اس محلے کی گلیاں اور نالیاں صاف کرنے والا کوئی شخص ہوتا… کہیں ٹھیلا لگاتا، کہیں سبزی بیچ رہا ہوتا، کچھ بھی کر رہا ہوتا مگر میرے پاس یہ نام نہ ہوتا۔ یہ خاندان نہ ہوتا… میرے پاس کچھ بھی نہ ہوتا… نہ مجھے یہ پروا ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے، نہ آپ مجھے اس سے خوفزدہ کرتیں کہ دنیا کیا سوچے گی، میں آپ کو اپنے پاس رکھتا۔ خوش قسمت تو ہوتا میں۔” وہ ان کی گود میں بلک رہا تھا۔
”آپ ٹھیک کہتی ہیں، دنیا وہ دودھاری تلوار ہے، جس پر ننگے پاؤں پر چلنا پڑتا ہے، چلنا ہی ہوتا ہے۔ پیروںکو زخمی کرنے والی چیز سے محبت کیسے کرنے لگتے ہیں لوگ… کیوں کرنے لگتے ہیں۔” وہ اس دن سارا وقت اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا تھا۔
—–*—–