لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

اسے نیچے دیکھتے ہوئے خوف آیا۔ برستی بارش اور تیز چنگھاڑتی ہوا اسے اوپر دیکھنے نہیں دے رہی… چند فٹ پر پھیلا ہوا وہ ہموار چکنا شفاف ماربل کا فرش اس کے قدم جمنے نہیں دے رہا تھا۔
اس کا وجود کانپنے لگا… پھسلنے سے بچنے کے لیے وہ ایک بار پھر فرش پر بیٹھ گئی۔ ہوا اب اور تیز ہوتی جا رہی تھی۔ بارش اور خوفناک ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے وجود کو فرش کے قریب کرتے ہوئے دونوں ہاتھ پھیلا کر، فرش پر جمانے یا شاید فرش کو پکڑنے کی کوشش کی۔
—–*—–
دروازے پر تالا نہیں تھا۔ مریم کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ جانتی تھی، اس کے سارے خدشات ٹھیک تھے… صرف اسے حقیقت جاننے میں دیر ہو گئی تھی، مگر وہ حقیقت جان چکی تھی۔
”ایک بات تو طے ہے ماما جان! کہ آج کے بعد میں دوبارہ کبھی آپ کی شکل نہیں دیکھوں گی۔ آپ نے ہر رشتے کا خون کر دیا ہے۔ میری پشت میں خنجر گھونپا ہے… میں آپ کو معاف کروں گی نہ آپ کو جیتنے دوں گی۔ ذالعید میرا تھا… ہے اور رہے گا… میں ہر دوسری عورت کو اٹھا کر اس کی زندگی سے باہر پھینک دوں گی اور میں آپ کے ساتھ بھی یہی کروں گی۔” دروازے پر دستک دیتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا تھا۔
چند لمحوں کے انتظار کے بعد اس نے اندر سے ماما جان کی آواز سنی۔ مریم کے ہونٹ بے اختیار بھینچ گئے۔
”میں ہوں… مریم۔” اس نے اپنی آواز میں موجود تلخی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ دروازہ کھل گیا۔ اسے ماما جان کا چہرہ دیکھ کر بے انتہا نفرت اور کراہیت محسوس ہوئی۔
”سفید چادر میں ہر لمحہ اپنے وجود کو سر سے پیر تک چھپائے رکھنے والی اس عورت کا باطن کتنا سیاہ اور گھناؤنا ہے کاش یہ کوئی مجھ سے پوچھے۔” مریم نے ماما جان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
ماما جان کے چہرے پر اسے دیکھ کر وہی مسکراہٹ ابھری تھی جو ہمیشہ ابھرتی تھی۔ انہوں نے بے اختیار اپنے بازو مریم کی طرف پھیلائے۔ وہ ان کے بازوؤں کو جھٹکتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہو گئی۔ ماما جان نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر پلٹ کر دروازہ بند کر دیا۔ مریم اب کیوں ناراض تھی، وہ سمجھنے سے قاصر تھیں۔
مریم کچھ کہے بغیر تیز قدموں کے ساتھ گھر کے اکلوتے کمرے میں داخل ہو رہی تھی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ ایک بار ٹھٹھک گئی تھی، کمرے کے اندر چند بہت مہنگے سوٹ کیس پڑے ہوئے تھے۔ وہ دور سے بھی ان پر لگے ہوئے ٹیگز دیکھ سکتی تھی۔
اس کے پیٹرول سے بھیگے وجود پر جیسے کسی نے چنگاری پھینک دی تھی۔ آگ کی لپیٹیں کہاں پہنچ رہی تھیں اسے اندازہ نہیں ہوا۔ اس نے سوٹ کیسز کے قریب جانے کی کوشش نہیں کی۔ اسے اب مزید کسی تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔
ماماجان جب کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ بالکل سامنے والی دیوار کے پاس بازو لپیٹے کھڑی تھی۔ مریم کا غصہ ان کے نزدیک کوئی نئی چیز نہیں تھی وہ بچپن سے اس کی ناراضگی اور غصہ برداشت کرنے کی عادی تھیں مگر آج مریم کے چہرے پر جو کچھ تھا، اس نے انہیں ہولا دیا تھا۔
”بیٹھو مریم! کھڑی کیوں ہو؟” ان کی نرم اور پرُسکون آواز نے اسے پہلے کبھی متاثر کیا تھا نہ ہی آج کر سکتی تھی۔
اس نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ صرف پلکیں جھپکے بغیر ایک ٹک انہیں گھورتی رہی۔ انہیں اس کی آنکھوں سے خوف آنے لگا تھا۔ ان کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”کیا ہوا مریم؟ اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟” وہ بے اختیار آگے بڑھ آئیں۔
”پچھلے ڈیڑھ ماہ سے کہاں تھیں آپ؟” اس کے لہجے میں برف تھی یا آگ… ماما جان کو اندازہ نہیں ہوا مگر وہ یہ ضرور جان گئی تھیں کہ دونوں میں سے جو بھی چیز تھی… ان ہی کے لیے تھی۔
”میں… میں انگلینڈ گئی تھی۔” اس نے ماما جان کی آواز میں لڑکھڑاہٹ دیکھی۔
”اچھا۔” وہ طنزیہ انداز میں ہنسی۔
”کس کے پاس؟”
”وہاں کچھ رشتہ دار ہیں میرے… ان ہی کے پاس گئی تھی میں۔”





”ویری ویل… میری ستائیس سالہ زندگی میں ایک بار بھی آپ نے انگلینڈ میں اپنے کسی رشتہ دار کا ذکر نہیں کیا۔ اب یک دم کہاں سے یہ رشتہ دار پیدا ہو گئے جن کے پاس آپ جا کر ڈیڑھ… ڈیڑھ ماہ رہ رہی ہیں؟” اس نے ماما جان کے چہرے کا رنگ فق ہوتے دیکھا۔
”میں تئیس سال اس گھر میں چلاتی رہی… چیختی رہی… منتیں کرتی رہی۔ مجھے قانونی طور پرایڈاپٹ کریں اور انگلینڈ لے جائیں۔ میرا کیریئر بن جانے دیں… مجھے سیٹل ہو جانے دیں۔ تئیس سال آپ کی زبان پر ایک ہی بات تھی نہ مجھے خود انگلینڈ جانا ہے نہ تمہیں بھیجنا ہے۔ وہاں میرا کوئی نہیں ہے، ہم دونوں کو وہاں نہیں رہنا۔ آپ نے تئیس سال مجھے ایک ایک چیز کے لیے ترسایا۔ جان بوجھ کر مجھے جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کیا… اور اب… اب ستائیس سال بعد آپ کے رشتہ دار پیدا ہو گئے ہیں وہاں… یا تو ستائیس سال آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا… یا پھر آج جھوٹ بول رہی ہیں۔” ماما جان بالکل ساکت تھیں۔
”اور رشتہ داروں کے پاس کوئی اس طرح چھپ کر جاتا ہے جس طرح آپ گئی ہیں۔”
”میں چھپ کر نہیں گئی۔ میں تو…” ان کی آواز میں بے چارگی تھی۔ مریم کو ترس نہیں آیا۔
”ہاں، بات مکمل کریں۔ میں تو کیا؟” بولیں خاموش کیوں ہو گئی ہیں… چلیں مان لیتی ہوں کہ آپ کے وہاں واقعی کوئی رشتہ دار نمودار ہو گئے ہیں اور آپ ان ہی کے پاس گئی تھیں… تو پھر اپنا پاسپورٹ دکھائیں… ان رشتہ داروں کے ایڈریسز بتائیں… تاکہ میں بھی تو جان سکوں، آپ کو جاننے والے کہاں کہاں موجود ہیں۔ دکھائیں پاسپورٹ؟” مریم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا تھا۔
”پاسپورٹ میرے پاس نہیں ہے۔” ماما جان کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی۔
”تو پھر کس کے پاس ہے؟ رشتہ داروں کے پاس ہے یا رشتہ دار کے پاس؟” اس کی آواز میں صرف زہر تھا۔
”تم مجھ سے کیا جاننا چاہتی ہو مریم؟”
”میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ وہ عورت جو ہفتے میں ایک بار گوشت نہیں پکا سکتی… مہینے میں ایک بار بھی پھل نہیں کھا سکتی، نہ کھلا سکتی ہے… گھر میں سوئی گیس نہیں لگوا سکتی… گھر کی مرمت نہیں کروا سکتی… جو سال میں چند اچھے جوڑے نہیں خرید سکتی، وہ اتنے مہنگے سوٹ کیس کیسے خرید سکتی ہے؟” مریم نے انگلی سے کمرے کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ان سوٹ کیسز کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا۔
”وہ انگلینڈ جانے کے لیے پلین کا ٹکٹ کہاں سے خرید سکتی ہے… کیا اس نے کوئی خزانہ دریافت کر لیا ہے یا اسے غیب سے کوئی مدد ملنے لگی ہے… یا… یا پھر اس کے ہاتھ الٰہ دین کا چراغ آ گیا ہے۔” وہ تقریباً چلاّ رہی تھی۔
”آپ کو پتا ہے، ان سوٹ کیسز کی قیمت کتنی ہے۔ کون لایا ہے یہ آپ کے لیے؟”
”ذالعید… ذالعید لایا تھا… ٹکٹ بھی اسی نے خریدا۔” ماما جان کی آواز اب کپکپا رہی تھی۔
”اور یہ ذالعید کون ہے آپ کا… کیا لگتا ہے… کس رشتہ سے وہ آپ پر پیسہ لٹا رہا ہے… کیا یہ وہی رشتہ دار ہے جس کے ساتھ آپ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے عیش کر رہی ہیں… کیونکہ یہ رشتہ دار بھی پچھلے ڈیڑھ ماہ سے غائب تھا۔ آج آیا ہے… آج آپ بھی یہاں موجود ہیں۔ کون سا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی ہیں آپ میرے ساتھ؟”
اس نے ماما جان کے چہرے پر خوف دیکھا… وہ ان کے چہرے کے ہر تاثر کو پہچانتی تھی… اس نے آج تک ان کے چہرے پر خوف نہیں دیکھا تھا۔ آج وہاں خوف تھا۔
”میں مریم ہوں… آج کی لڑکی۔ مجھے دھوکا دینا آسان نہیں ہے۔ کم از کم آپ سے تو میں دھوکا نہیں کھا سکتی۔ اس نے ان کے زرد ہوتے ہوئے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
”مریم! خدا کے لیے… یہ سب مت کہو… میں تمہیں بتا دیتی ہوں سب کچھ… میں… میں ذالعید کے ساتھ حج پر گئی تھی۔” ماما جان نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ مریم پتھر کی طرح ساکت ہو گئی۔ اسے لگا تھا، زمین اس کے پیروں کے نیچے سے نکل گئی ہے… ہر چیز جیسے گردش میں آ گئی… سامنے کھڑی عورت کون تھی… اس کی ماں… یا پھر…”
”کہاں گئی تھیں؟” وہ سانپ کی طرح پھنکارتے ہوئے آگے بڑھ آئی۔
”میں حج پر گئی تھی۔” ماما جان کسی ننھے بچے کی طرح خوفزدہ تھیں۔
”ذالعید کے ساتھ؟… کیسے جا سکتی ہو تم ذالعید کے ساتھ… کون ہے وہ تمہارا؟… میں بیٹی نہیں ہوں… وہ داماد نہیں ہے تو پھر تم اس کے ساتھ کس طرح حج پر جا سکتی ہو؟” وہ اب دھاڑ رہی تھی۔
”کیا کیا ہے تم نے ذالعید کے ساتھ؟… نکاح کیا ہے؟… شادی کی ہے؟…” اس نے ماما جان کو سفید چہرے کے ساتھ گھٹنوں کے بل زمین پر گرتے دیکھا۔
مریم کو لگ رہا تھا۔ وہ کبھی اپنے حواس میں واپس نہیں آئے گی۔ وہ دونوں اس حد تک جا سکتے تھے۔ اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔
”ساری زندگی سانپ بن کر تم میری خوشیوں پر بیٹھی رہیں اور اب جب میرے پاس سب کچھ آ گیا تو تم نے مجھے ڈس لیا… ذالعید کو پھانسنے کے لیے مذہب کو چارہ بنا کر استعمال کیا… اس لیے نمازیں پڑھائی تھیں اسے… تاکہ بعد میں شوہر بنا لو… تمہیں شرم نہیں آئی اپنے سے آدھی عمر کے مرد سے شادی کرتے ہوئے… تم نے رشتوں کو دھجیوں کی طرح بکھیرا ہے… یہ تھی تمہاری قناعت اور پاکیزگی۔ جن کا تم ساری عمر ڈھنڈورا پیٹتی رہیں۔
تمہاے اندر اتنی حرص اور ہوس ہے کہ میں تمہاری اپنی بیٹی بھی ہوتی تب بھی تم یہی سب کچھ کرتیں… تمہیں تب بھی یہ سب کچھ کرتے ہوئے کسی رشتہ کا خیال نہ آتا کیونکہ تم مسلمان نہیں ہو، تم نے لبادہ اوڑھا ہوا ہے اسلام کا… تم لوگوں کے ہاں جائز ہے سب کچھ… بیٹی کے شوہر پر دل آ جائے تو اس سے خود شادی کر لو… کیا فرق پڑتا ہے۔” اس کی زبان پر صرف انگارے تھے۔
”اپنے جسم پر اوڑھی ہوئی اس سفید چادر کو اتار کر صحن میں رکھ کر آگ لگا دو۔ اسے اب مزید اوڑھنے کی ضرورت نہیں رہی تم کو… کیونکہ یہ تمہارے داغ دار اور سیاہ وجود کو اجلا نہیں کرے گی۔” وہ بلند آواز میں چلاّئی۔
”مریم! اس طرح مت چلاّؤ… آواز باہر جا رہی ہے… لوگ سن لیں گے۔”
”میں چلاّؤں گی… میں چلاّؤں گی… میں اتنا چلاّؤں گی کہ اس علاقے کا ہر شخص سن لے کہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا ہے… مذہب کا سہارا لے کر کس طرح میرا گھر اجاڑ دیا ہے۔ پارسائی اور شرافت کا جو نقاب تم پچھلے تیس سال سے اوڑھے یہاں بیٹھی ہو… میں اسے اتار دینا چاہتی ہوں۔” اس نے ماما جان کے وجود کو لرزتے دیکھا تھا۔
”تم میری بیٹی ہو مریم! تم…” مریم نے بلند آواز میں اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”اپنی گندی زبان سے مجھے اپنی بیٹی مت کہنا… میں کسی طوائف کی بیٹی ہونا تمہاری بیٹی ہونے سے بہتر سمجھتی ہوں… تم اتنی گندی عورت ہو کہ مجھے یہ سوچ کر گھن آ رہی ہے کہ میں نے تمہارے ہاتھوں پرورش پائی ہے… تمہاری پارسائی، تمہاری قناعت تمہاری مجبوری تھی۔ ذالعید جیسا شخص تمہیں تیس سال پہلے مل جاتا تو تم اپنے شوہر کو اسی طرح چھوڑ کر بھاگ جاتیں حج کرنے… تم کون سی عبادت کس کے لیے کرتی رہی ہو… اور تمہاری کون سی عبادت قبول ہوئی ہوگی…
تمہاری نمازیں، تمہارے نوافل… تمہارے روزے… تمہارا حج سب فریب تھا۔ تمہاری کوئی عبادت تمہارے نفس پر قابو نہیں پا سکی… کیونکہ تمہارے اندر ہوس تھی اور یہ ہوس ہمیشہ رہے گی… مگر میں… میں ذالعید کو تمہارے پاس جانے نہیں دوں گی… وہ میرا حاصل ہے، میں ہر اس دوسری عورت کو قبر میں اتار دوں گی جو اس کے اور میرے درمیان آئے گی۔ وہ صرف میرا ہے۔ تمہاری جیسی عورت اس کے قابل نہیں… میں آج اس گھر میں آخری بار تمہیں یہی بتانے آئی ہوں۔ یہاں سے ہمیشہ کے لیے دفع ہو جاؤ… ذالعید سے طلاق لے لو… لوگ بھکاریوں کے ہاتھ سے چادر کا پلو چھڑانے کے لیے انہیں بہت کچھ دے دیتے ہیں۔ میں بھی تمہیں دے سکتی ہوں۔ یہ گھر بیچو… دکان بیچو… مجھ سے جو کچھ لینا چاہتی ہو لو اور اس ملک سے چلی جاؤ… دوبارہ کبھی مجھے یا ذالعید کو اپنا منہ مت دکھانا… تم سن رہی ہو، میں تم سے کیا کہہ رہی ہوں؟” وہ حلق کے بل چلاّئی۔
ماما جان نے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ ان کے سر پر کھڑی تھی۔
”اُمّ مریم! تم میری زندگی ہو۔”
”اُمّ مریم تمہاری موت ہے۔” وہ پہلے سے بھی بلند آواز میں چلاّئی۔
”تم میرے لیے کیا ہو مریم! تم نہیں جانتیں؟” وہ اب بلک رہی تھیں۔
”میں تمہارے لیے کیا ہوں، میں اچھی طرح جانتی ہوں… میں تمہارے لیے شیلڈ تھی جو تمہیں لوگوں کی نظروں میں عظمت کا سرٹیفکیٹ دلا دیتی۔” ماما جان اب بلند آواز سے رو رہی تھیں۔
”کیا عظیم عورت ہے، مذہب تبدیل کیا، ساری جوانی ایک مطلقہ عورت کی بیٹی کو پالنے میں گزار دی۔ اس علاقے میں بہت عزت بنا لی تم نے… اب ان لوگوں کو یہ بھی پتا چلنا چاہیے کہ ساری جوانی ایک لاوارث لڑکی کو بیٹی بنا کر پالنے کے بعد تم نے بڑھاپے میں اسی لڑکی کے شوہر سے شادی رچا لی ہے۔ تم نے ساری عمر مجھے استعمال کیا… اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے تم نے مجھے گود لیا۔ صرف اپنے لیے… جیسے یہ جانور پالے ویسے مجھے بھی پالا… گھر میں ایک بولنے والا جانور بھی تو ہونا چاہیے… وہ میں تھی، تم نے سوچا کہ میں صرف جوانی میں ہی نہیں بڑھاپے میں بھی تمہارے کام آؤں گی… ذالعید تو جوان ہے، خوبصورت ہے، دولت مند ہے اس کے بجائے میرا شوہر کوئی اور بھی ہوتا تو تم یہی کرتیں۔ میرے شوہر کو تمہیں ٹریپ کرنا ہی تھا… تم نے سوچا ہوگا کہ میں خاموش رہوں گی۔ تمہارے احسان کے بدلے صبر کر لوں گی… زبان نہیں کھولوں گی… تم اپنے بڑھاپے میں یہ سفید چادر اوڑھے رنگ رلیاں مناتی رہو گی۔ اس لیے قناعت کا درس دیتی تھیں نا مجھے… نہیں، تم مجھے غلط سمجھی تھیں۔ میں وہ لڑکی نہیں ہوں جو اپنے ہاتھ میں آئی چیز کو ریت کی طرح پھسلنے دے… ذالعید سے میں نے محبت کی ہے… میں نے اسے حاصل کیا ہے۔ وہ میرا مقدر ہے، صرف میرا۔ میں تو اسے کہیں جانے نہیں دوں گی… تمہیں رونے کی ضرورت نہیں ہے… تم صرف چلی جاؤ… ہمیشہ کے لیے یہاں سے دفع ہو جاؤ؟” وہ چلاّتے ہوئے اس کمرے سے نکل آئی تھی۔ پھر اس گھر سے بھی نکل آئی۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا… وہ عورت تو میری کچھ نہیں لگتی تھی… مگر ذالعید کو کیا ہوا، وہ تو محبت کرتا تھا مجھ سے… میرا شوہر تھا… میری بیٹی کا باپ ہے… اس نے بھی ایک بار یہ نہیں سوچا کہ وہ کیا کر رہا ہے… مذہب کے فریب نے اسے اتنا اندھا کر دیا ہے۔ اس عورت سے کوئی محبت تو نہیں کر سکتا… پھر ذالعید نے اس سے شادی کیوں کی۔ اندھا ہو گیا ذالعید؟… صرف اسے حج کروانے کے لیے اس کا محرم بن گیا… اس عورت کو شرم نہیں آئی مگر ذالعید کو تو کچھ سوچنا چاہیے تھا۔” اس کا دماغ جیسے بارود کا ڈھیر بن گیا تھا۔ ”اور اب… اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟” وہ اب اپنی آگے کی حکمت عملی طے کر رہی تھی۔
”کیا میں اسی طرح ذالعید سے لڑ سکتی ہوں؟ کیا مجھے اس کی فیملی کی مدد حاصل کرنی چاہیے؟ مگر پھر سب یہ جان جائیں گے کہ میں اس عورت کی سگی اولاد نہیں ہوں اور ذالعید کی ممی وہ تو یہ سب کچھ جان کر بہت خوش ہوں گی۔ میرا گھر ہی تو توڑنا چاہتی تھیں وہ… نہیں میں ذالعید کی فیملی کو اس میں انوالو نہیں کر سکتی… مجھے اپنے کارڈز خود ہی کھیلنے ہیں… اور… شاید مجھے ذالعید سے بات کرنے سے پہلے کچھ پرُسکون ہو جانا چاہیے۔ کچھ پلان کر لینا چاہیے۔ اس طرح اس کے ساتھ جھگڑا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا… اگر اس نے اس عورت کو طلاق دینے سے انکار کر دیا تو؟ اگر اس نے غصے میں آ کر مجھے طلاق دے دی تو؟… نہیں۔ مجھے ابھی اس سے کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ مجھے پہلے اپنے اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنا چاہیے۔ پرُسکون ہونا چاہیے… اس کے بعد ہی مجھے ذالعید سے بات کرنی چاہیے۔” وہ جیسے کسی فیصلے پر پہنچ گئی تھی۔
گاڑی کا رخ اس نے جیم خانہ کی طرف موڑ دیا۔ اگلا ڈیڑھ گھنٹہ اس نے وہاں سوئمنگ کرتے ہوئے گزارا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!