ذالعید نے گھر کے بیرونی دروازے کو کھول دیا۔ رات کے اس پچھلے پہر پورا گھر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔
”اور ماما جان… ماما جان کبھی گھر کو تاریک نہیں رکھتی تھیں۔” کھلے دروازے سے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہوئے مریم نے سوچا۔ گلی میں جلنے والے بلبوں کی روشنی گھر کو مکمل تاریک ہونے سے بچا رہی تھی۔ وہ کسی سحرزدہ معمول کی طرح صحن میں چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ ذالعید بھی اب دروازہ بند کر کے اندر آ چکا تھا۔
”میں لائٹ جلاتا ہوں۔” اپنی پشت پر اسے ذالعید کی مدھم آواز سنائی دی۔
”نہیں، لائٹ آن مت کرو… سب کچھ تاریک رہنے دو… روشنی میں میں اس گھر کا سامنا نہیں کر سکتی… روشنی میں یہاں کھڑے ہونے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی۔” ذالعید نے اس کی آواز میں اترتی ہوئی نمی کو محسوس کیا۔ وہ برآمدے کی طرف جاتے جاتے رک گیا۔
صحن کے اطراف دیوار کے ساتھ کیاریوں میں لگے ہوئے پودوں کو ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے ہلا رہے تھے۔ وہ چپ چاپ ان پودوں کو دیکھتی رہی۔ گھر کی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ وہ پودے بھی صرف ماما جان ہی کا شوق تھے۔ وہ صبح سویرے اٹھ کر انہیں پانی دیا کرتی تھیں۔ ہر ہفتے کھرپے سے کیاریوں کی مٹی نرم کرتی رہتی تھیں۔ ان پودوں پر لگنے والی کلیوں کو گنتی رہتیں… اس نے گلاب اور موتیے کے پودوں کو اندھیرے میں پہچاننے کی کوشش کی۔
”میں نے مرغیوں اور طوطے کے پنجرے کو ساتھ والے گھر میں دے دیا ہے۔ اکیلے گھر میں وہ نہیں رہ سکتے تھے۔” مریم نے ذالعید کو کہتے سنا۔
”اور بلی…؟” مریم نے بے اختیار پوچھا۔
”وہ یہیں کہیں ہے، میں اسے کہاں دے سکتا تھا؟ وہ سارا دن اسی کمرے کے باہر برآمدے میں بیٹھی رہتی ہے ساتھ والے گھر کے لوگ اسے دن میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے ہیں۔”
وہ اب برآمدے میں جا کر اندھیرے میں کمرے کے دروازے کا تالا کھول رہا تھا۔ وہ وہیں صحن میں کھڑی نیم تاریکی میں اس کی پشت دیکھتی رہی۔ پھر وہ کمرے کے اندر داخل ہو گیا۔ مریم نے کمرے میں روشنی ہوتے دیکھی۔ وہ بے اختیار صحن سے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ آئی اور بہت آہستہ آہستہ کمرے میں داخل ہوئی۔ ذالعید بازو سینے پر لپیٹے کمرے کے وسط میں بالکل خاموش کھڑا تھا۔
”آپ کو پتا ہے ماما جان! آپ نے میرے ساتھ کیا کیا ہے؟ آپ نے مجھے دوزخ میں رکھا ہوا ہے… نہ میں یہاں جی سکتی ہوں… نہ مر سکتی ہوں… میں یہاں خوش نہیں ہوں۔ میں یہاں خوش رہ ہی نہیں سکتی… میری منزل یہ ایک کمرہ نہیں ہے… مجھے گھن آتی ہے اس جگہ سے… اس گھر سے… اس کمرے سے… یہاں کی ہر چیز سے۔” اس کی اپنی آواز اس کی سماعتوں میں گونجنے لگی تھی۔
وہ خشک آنکھوں کے ساتھ کمرے میں پڑی چیزوں کو دیکھتی رہی۔ ماما جان کی چارپائی اب بھی وہیں تھی۔ ساتھ کے گھر والوں نے شاید ماما جان کے سوئم کے بعد گھر کی صفائی کی تھی کیونکہ کمرہ بالکل صاف تھا اور چیزوں کو سمیٹ دیا گیا تھا۔
”اُمّ مریم! تم میری زندگی ہو۔” اسے یاد تھا، وہ اس دن کمرے میں کس جگہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل گر کر گڑگڑائی تھیں۔
”اُمّ مریم تمہاری موت ہے۔” اس نے کیا کہا تھا اسے یہ بھی یاد تھا۔ وہ چپ چاپ کمرے کی چیزوں کو دیکھتی رہی۔ ان چیزوں کو جن سے اسے گھن آتی تھی۔
یہ ایک کمرے کا گھر ماما جان کی جنت تھا اور اسے اس جنت میں پیدا نہ ہونے کے باوجود اللہ نے وہیں بھیج دیا تھا۔ مگر اس نے جنت سے نفرت کرنی شروع کر دی تھی۔ اسے جہنم کی طلب ہونے لگی تھی۔ یہ طلب بڑھتے بڑھتے ہوس بن گئی تھی۔ پھر اس ہوس نے جنت کو آگ لگا دی۔ سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا تھا۔
”میں ذالعید کو کبھی تمہارے پاس نہیں جانے دوں گی۔ وہ میرا ”حاصل” ہے۔ میں ہر اس دوسری عورت کو قبر میں اتار دوں گی جو میرے اور اس کے درمیان آئے گی۔” وہ الٹے قدموں کمرے سے نکل آئی کمرہ یک دم جیسے ایک گنبد بن گیا تھا جہاں اس کی آواز گونج بن کر دیواروں سے ٹکراتی پھر رہی تھی۔
”آپ دیکھ لینا ماما جان…! میں کبھی نہ کبھی اس گھر سے بھاگ جاؤں گی۔ مجھے ایک کمرے کے اس ٹوٹے پھوٹے گھر سے نفرت ہے۔ یہ گھر کبھی میرے خوابوں میں نہیں آیا… میں نے کبھی بھی خود کو یہاں نہیں پایا۔” وہ برآمدے میں رک گئی۔
ذالعید کمرے کی لائٹ بند کر کے باہر آ گیا۔ ایک بار پھر ہر طرف وہی تاریکی ہو گئی۔ ذالعید صحن کو برآمدے سے جوڑنے والی دو سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ وہ صحن کے وسط میں کھڑی تھی۔ آسمان بادلوں سے بالکل ڈھک گیا تھا۔
”بہت سی چیزیں تمہیں میں نہیں وقت سکھائے گا… مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔” اس کی سماعتوں میں ماما جان کی نرم اور مدھم آواز لہرائی۔ اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”میرے پاس اللہ کی ہر نعمت ہے… مسلمان ہوں… شادی ہوئی… تم ہو… گھر ہے… کبھی بھوکا سونا نہیں پڑا… اور… اور میرے شوہر نے بھی مجھ سے بہت محبت کی… اس سے زیادہ میں کس چیز کی خواہش کر سکتی تھی۔” اس کی آنکھوں میں پانی بھرنا شروع ہو گیا۔
وہ جس زمین پر کھڑی تھی اس زمین کو ماما جان نے اپنے ہاتھوں سے مٹی کا لیپ کیا تھا۔ اس نے اپنے جوتے اتار دیے۔ اسے زمین میں ماما جان کے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔
”آپ کس چیز کا شکر ادا کرنے کے لیے اتنی نمازیں پڑھتی ہیں۔ کس احسان کے صلے میں راتوں کو تہجد کے لیے جاگتی ہیں… اس خستہ حال گھر کے لیے… دوگنی عمر کے اس بدصورت شوہر کے لیے جس نے دھوکا دے کر آپ سے شادی کی یا اس دوہزار روپے کے لیے جس سے ایک ماہ میں تین وقت کے کھانے کے علاوہ اور کچھ کھایا نہیں جا سکتا۔” اس کی باتوں میں کتنے نشتر تھے جو ماما جان کو چبھتے ہوں گے۔ اسے اب محسوس ہو رہا تھا۔
”کیا ہوا ماما جان! اگر اللہ سے صرف ایک چیز چاہیے ہو اور وہی نہ ملتی ہو۔” اس نے پلٹ کر ذالعید کو دیکھا۔ وہ سیڑھیوں میں بیٹھا دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھاپنے ہوئے تھا۔ اس کے گال بھیگنے لگے۔
”میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ میری اُمّ مریم کو ہمیشہ اپنی رحمت اور کرم میں رکھے۔ اسے کبھی گناہ کے رستے پر نہ چلائے… میری اُمّ مریم کو جنت میں بھی میرے پاس رکھے… اسے قناعت کی دولت دے دے۔” اس کا جسم اب لرزنے لگا تھا۔
”آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے ماما جان! ورنہ آپ میرے لیے یہ سب کچھ نہ مانگتیں… آپ اُمّ مریم کے لیے ”دنیا” مانگتیں۔” وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی۔
اس جگہ اس نے ماما جان کو بہت بار تہجد پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ بچپن میں رات کو جاگنے پر ماما جان کو اپنے پاس نہ پاتی تو پھر کمرے سے اٹھ کر باہر صحن میں ان کے پاس آ جاتی۔ وہ تہجد پڑھ رہی ہوتیں۔ وہ خاموشی سے ان کے پاس زمین پر لیٹ کر سو جاتی۔
وہ اب اپنے ہاتھ زمین پر پھیر رہی تھی یوں جیسے ماما جان کے ہاتھوں کے لمس کو محسوس کرنا چاہتی ہو۔ ”انسان ٹوٹی دیواروں، اکھڑے فرش، رستی ہوئی چھت، چار چھ جانوروں، دس بارہ پودوں اور خواہشوں کی قبروں کے ساتھ کتنی دیر خوش رہ سکتا ہے بلکہ کتنی دیر ”رہ” سکتا ہے اور آخر انسان رہے کیوں؟ اگر اس کے پاس بہتر مواقع ہیں۔”
”بہتر مواقع؟” وہ بڑبڑائی اور اس کا وجود جیسے کسی زلزلے کی زد میں آ گیا تھا۔
ذالعید نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ صحن کے وسط میں کسی ننھے بچے کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھی بلک رہی تھی۔ اس کا سکتہ ٹوٹ چکا تھا۔ گھر میں پھیلی ہوئی خاموشی اس کے بلند آواز میں رونے کی وجہ سے ٹوٹ گئی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اس نے اس کے پاس جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسے رونے دینا چاہتا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی اسے کون سی چیز رلا رہی تھی اس کے اپنے لفظوں کے نشتر یا پھر ملال… اندر ہونے والی چبھن کس چیز کی تھی… ضمیر کی… یا پچھتاوے کی…
”کاش ماما جان! آپ نے میرے لیے دنیا نہ مانگی ہوتی… کاش ذالعید کو میرا مقدر بن جانے کے لیے ہاتھ نہ اٹھائے ہوتے… شاید اس لمحے آپ نے میرے لیے قناعت مانگی ہوتی تو مجھے قناعت مل جاتی۔” اس کے وجود میں حشر برپا تھا۔
”مجھے اللہ نے ایک ایسی عورت کے پاس بھیجا جس کے پاس سب کچھ تھا… میں نے پچیس سال اس کے پاس گزارے اور میں نے اس سے کچھ بھی نہیں لیا… میں نے ”دنیا” لی اور یہ شخص… یہ شخص صرف تین سال میں ماما جان سے سب کچھ لے گیا۔ قناعت، برداشت، عفو، رحم سب کچھ… میں نے خسارے کا سودا کیا اور مجھے… مجھے پتا تک نہیں چلا… کیا دنیا میں مجھ سے بڑھ کر کوئی احمق ہو سکتا ہے… کیا دنیا میں مجھ سے بڑھ کر کوئی احسان فراموش ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پیروں میں لاحاصل خواہشوں کے ایسے بھنور باندھ لیے ہیں جو ساری عمر میرے وجود کو گردش میں رکھیں گے۔ خدیجہ نور جیسا سکون مجھے کبھی نصیب نہیں ہوگا۔ خدیجہ نور جیسی قناعت میری زندگی میں کبھی نہیں آئے گی کیوں اتنی ہوس، اتنی حرص میرے اندر آ گئی کہ میں نے سکون کی جنت کو خواہش کی آگ سے پھونک ڈالا۔ آسمان سے پانی کے قطرے گرنے لگے۔ آج زندگی میں پہلی بار اس صحن میں بیٹھ کر اسے بارش بری نہیں لگی۔ آج پہلی بار اسے اپنے علاوہ کچھ بھی برا نہیں لگا۔ بارش کے قطرے اس کے کچھ اور زخموں کو ہرا کرنے لگے۔ آج ہر چیز کے منہ میں زبان آ گئی تھی۔ ہر چیز بولنے لگی تھی۔
”آپ کو کیا پتا ماما جان! محبت کیا ہوتی ہے۔ آپ نے محبت کی ہو تو…” وہ بے تحاشا روتی گئی۔
”کاش ماما جان! میں اُمّ مریم نہ ہوتی، آپ کا پالا جانے والا کوئی جانور ہوتی جو آپ کا وفادار تو ہوتا۔ کاش ماما جان! میں مصورہ نہ ہوتی۔ میرے پاس کوئی ہنر نہ ہوتا، ایسا ہنر جس نے مجھے گمان اور خود فریبی کی آخری حد پر لے جا کر کھڑا کر دیا، کاش میں…” بارش تیز ہوتی جا رہی تھی۔
ذالعید نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ وہیں صحن کے وسط میں گھٹنوں کے بل بیٹھی مٹھیاں بھینچے بلک رہی تھی۔ تیز بارش ہر چیز کو بھگو رہی تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ اس نے کمرے کے دروازے کو تالا لگا دیا۔
برستی بارش میں وہ اس کے پاس آ کر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ ”ماما جان کہتی تھیں۔ تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔” وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”صرف کچھ وقت لگے گا پھر تم واپس آ جاؤ گی۔ وہ کہتی تھیں میں نے پچیس سال اس کے وجود پر اتنی آیتیں پڑھ کر پھونکی ہیں کہ اب اللہ اسے جہنم کا ایندھن تو نہیں بنائے گا۔” اس کے آنسو تھمنے لگے۔
تیز بارش کی بوچھاڑ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کے چہرے کو بری طرح بھگو رہی تھی اور وہ کہہ رہا تھا۔
”وہ کہتی تھیں۔ میں نے اُمّ مریم کو کبھی حرام نہیں کھلایا۔ اس کے خون میں حلال کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جانتے بوجھتے خود کو جہنم میں جا پھینکے۔ کچھ وقت لگے گا مگر وہ واپس آ جائے گی۔ برائی سے واپس اچھائی کی طرف۔ میری طرف، تمہاری طرف، زینب کی طرف… جب اسے دنیا کی سمجھ آنے لگے گی تو پھر وہ دنیا کے پیچھے نہیں بھاگے گی۔ ماما جان کو یقین تھا تم سب کچھ سمجھ جاؤ گی۔” وہ خاموش ہو گیا۔
برستی بارش کی بوچھاڑ کے درمیان وہ دونوں ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے رہے۔ مریم نے گردن موڑ کر برآمدے کی طرف دیکھا۔ اب وہاں اندھیرا تھا۔ ذالعید اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر مریم کو اٹھایا۔
صحن کے دروازے کی طرف ذالعید کے پیچھے جاتے ہوئے مریم نے ایک بار پلٹ کر دیکھا۔
”ماما جان نے تمہیں صرف ایک بات نہیں بتائی ذالعید کہ جب میں سنبھلوں گی، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔” اس نے تھکے ہوئے انداز میں زیر لب دہرایا اور ذالعید کے پیچھے دہلیز پار کر گئی۔
—–*—–