لاحاصل — قسط نمبر ۲

رات… خاموشی… تاروں کی مدھم روشنی، بلندی… ٹھنڈک… خوشبو… نرم پھوار… بھیگتا وجود… ملائم نم فرش پر حرکت کرتے قدم… سکون… سرشاری، سرور، مستی… وہ کہیں اور تھی… وہ کہیں نہیں تھی۔
—–*—–
”میں سوچ رہی ہوں ذالعید! ہم دونوں مل کر سرامکس کی ایک فیکٹری شروع کریں۔”
اس دن صبح ناشتے کی میز پر مریم نے ذالعید سے کہا… وہ چائے پیتے پیتے رک گیا۔
”سرامکس…؟ مگر اس کا میرے کام سے کیا تعلق ہے؟”
”ذالعید! صرف ایک فیکٹری سے کیا ہوگا، بزنس کو بڑھانا چاہیے۔ سرامکس میں اتنا اسکوپ ہے۔ تم اور میں ویسے بھی آرٹ کو جانتے ہیں، ہم کتنے نئے تجربات کر سکتے ہیں، ٹائلوں کے ساتھ… ایکسپورٹ کر سکتے ہیں۔”
وہ ناشتہ کرتے ہوئے اسے اس منصوبے کے بارے میں تفصیل سے بتا رہی تھی۔
”لیکن ایک نئی فیکٹری لگانا اور پھر اسے اسٹیبلش کرنا بہت ٹائم مانگتا ہے۔ کم از کم پانچ گھنٹے روز چاہئیں مجھے، اس فیکٹری کے پیپر ورک کے لیے اور پھر جب کنسٹرکشن کا کام شروع ہوگا تو اللہ جانے کیا ہوگا…” اس نے ایک گہرا سانس لے کر چائے کا سپ لیا۔
”ہر چیز میں وقت لگتا ہے ذالعید! ترقی کرنے کے لیے وقت تو خرچ کرنا پڑتا ہے۔”
”مگر میں پانچ گھنٹے کہاں سے نکالوں گا… ایک دو ماہ کی بات ہو تو چلو، یہ تو مستقل کام ہے۔”
”مگر ذالعید! تم یہ سوچو کہ کیا ساری زندگی ایک ہی فیکٹری لے کر بیٹھے رہیں گے۔ کیا اپنے بزنس کو بڑھانا نہیں ہے تم اپنے پاپا کو دیکھو۔ وہ کتنی چیزیں ایک ساتھ کر رہے ہیں، اپنی لاء فرم چلا رہے ہیں، ہوٹل چلا رہے ہیں۔ تین فیکٹریز ہیں، چوتھی انہوں نے تمہیں دی ہے۔ پھر زمینیں بھی ہیں۔”
”مگر مریم! میری فیکٹری بہت اچھی چل رہی ہے۔ میں بہت مطمئن ہوں۔”
”یہی تو میں کہہ رہی ہوں، تمہاری فیکٹری اتنی اسٹیبلش ہے کہ تم اگر اسے بہت زیادہ وقت نہ بھی دو تو بھی یہ بہت اچھی طرح چل سکتی ہے۔ کیا بہتر نہیں ہے کہ تم ساتھ ہی کچھ اور بھی کرنا شروع کرو۔ ساری عمر چار کنال کے گھر میں تو نہیں رہنا ظاہر ہے اپنی اولاد کے لیے بھی کچھ چھوڑنا ہے اور پھر ہم اپنے آرٹ کا فائدہ کیوں نہ اٹھائیں۔ فیکٹری شروع ہو جائے تو میں خود بھی تمہارے ساتھ اسے دیکھا کروں گی۔ ہم کام بانٹ لیں گے۔”
”مگر مریم! بچے کے ساتھ تم سب کچھ کیسے سنبھالو گی؟” وہ اب بھی متذبذب تھا۔
”بچے کے لیے گورنس رکھ لیں گے، مجھے کون سا سارا دن اسے گود میں اٹھائے پھرنا ہے۔ پھر اسکول گوئنگ ایج ہو جائے گی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا۔”
اس نے جھٹ پٹ ہر مسئلے کا حل پیش کر دیا تھا۔ ذالعید چائے پیتے ہوئے کچھ سوچتا رہا۔
—–*—–





مریم نے اس کے سامنے صرف تجویز پیش نہیں کی تھی۔ اس نے اس دن سے مسلسل اس کام کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ ذالعید کے پاس ایک صنعتی پلاٹ تھا جو بے کار پڑا ہوا تھا۔ اس لیے فیکٹری کے لیے زمین کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بالآخر جب اس نے پیپر ورک شروع کر دیا تو مریم پرُسکون ہو گئی۔ وہ جانتی تھی۔ اب وہ خود ہی اس کام کو مکمل کر لے گا۔
ذالعید کے لیے اب صحیح معنوں میں ٹینشن شروع ہوئی تھی۔ وہ جو پہلے سرشام فیکٹری سے فارغ ہو کر گھر آ جاتا تھا۔ اب اسے ہر روز رات کو گھر آتے آتے ایک دو بج جاتے، صبح پھر وہ بہت جلد اٹھ کر فیکٹری چلا جاتا۔ وہ ٹینشن میں کام کرنے کا عادی نہیں تھا۔ مگر اب ایک دم اسے راؤنڈ دا کلاک کام کرنا پڑا تو وہ خاصا ٹینس رہنے لگا۔
—–*—–
پاپا اس کے پروجیکٹ کے بارے میں سن کر بہت خوش ہوئے تھے۔ اس رات وہ نزہت کی دعوت پر مریم کے ساتھ ان کے ہاں ڈنر کے لیے گیا تھا۔ ڈنر ٹیبل پر ہی نئی فیکٹری کا ذکر شروع ہو گیا۔
”ابھی تو پیپر ورک میں مصروف ہوں مگر اس میں بھی بہت وقت لگ رہا ہے۔ جب کنسٹرکشن کا کام شروع ہوگا تو پھر مصروفیت اور بڑھ جائے گی۔” اس نے اپنے پاپا کو بتایا۔
”لیکن یہ اچھا ہے، سرامکس میں اچھا خاصا اسکوپ ہے اور یہ ٹھیک کر رہے ہو کہ نئی فیکٹری ابھی شروع کر رہے ہو۔ چند سالوں میں یہ بھی اچھی طرح اسٹیبلش ہو جائے گی۔” انہوں نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
”پاپا! یہ تو تیار ہی نہیں ہو رہے تھے کہہ رہے تھے کہ میں پہلے ہی بہت مصروف ہوں۔ وقت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں نے مجبور کر دیا۔” مریم نے کچھ فخریہ انداز میں کہا۔
”اب آپ خود سوچیں پاپا! ایک فیکٹری تو لے کر نہیں بیٹھے رہنا۔”
”ہاں! مریم ٹھیک کہہ رہی ہے بزنس کو جتنا پھیلا سکو پھیلانا چاہیے۔ وقت اور حالات کا کچھ پتا نہیں ہوتا۔” وہ اب مریم کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔
ذالعید کو اچانک احساس ہوا کہ مریم اور اس کے پاپا کے درمیان اچھی خاصی ذہنی مطابقت ہے۔ بہت ساری چیزوں پر ان کے خیالات اتنے ملتے جلتے تھے کہ ذالعید کو اپنا آپ غیر متعلق لگنے لگتا۔ مریم اتنی ہی پروگریسو اور لبرل تھی جتنے اس کے پاپا، وہ آرٹسٹ ہونے کے باوجود زندگی کے بارے میں بہت زیادہ پریکٹیکل اپروچ رکھتی تھی یا پھر یہ وہ مادہ پرستی تھی جو کہیں اس کے اندر چھپی ہوئی تھی اور اب یک دم باہر آ گئی تھی۔ پارٹیز، فنکشنز، ایگزبیشن، ڈنرز، ورکشاپس، لیکچرز، اس کی زندگی ذالعید سے شادی کے بعد ان ہی چیزوں کے گرد گھومنے لگی تھی۔ بعض دفعہ ذالعید کو لگتا وہ اس سے زیادہ مصروف رہتی ہے۔ اور شاید یہ کسی حد تک ٹھیک بھی تھا۔ وہ کبھی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھی تھی۔ کبھی کراچی، کبھی اسلام آباد، کبھی بیرونِ ملک، وہ ہر دو تین ہفتے کے بعد کہیں نہ کہیں گئی ہوتی تھی۔
ذالعید کا خیال تھا، شروع شروع کا یہ جوش وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ وقت کے ساتھ پہلے سے زیادہ مصروف ہوتی گئی تھی۔
ان کی فیملی میں ہونے والے متوقع اضافے نے بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ اس کا پورا گھر نوکروں کے سر پر چلتا تھا۔یہ ذالعید کی خوش قسمتی تھی کہ اس کے تمام ملازم بہت پرانے اور وفادار تھے اور وہ اپنے گھر کی تعمیر کے بعد انہیں پاپا کے گھر سے لایا تھا۔ ورنہ شاید گھر خاصی تباہ کن صورت حال سے دوچار ہوتا مریم ہمیشہ گھر سے باہر ہوتی یا پھر اپنے اسٹوڈیو میں اگر کبھی ان کے درمیان کوئی لمبی چوڑی بات ہوتی بھی تو وہ کسی نہ کسی طرح بزنس کے گرد گھومتی رہتی۔
وہ ایک سال کی مختصر مدت میں آرٹ کے حلقوں میں اچھی طرح جانی پہچانی جانے لگی تھی۔ حکومت کے بعض بڑے اداروں کی عمارتوں میں اس کی تصاویر لگ چکی تھیں۔ پینٹنگز کی نمائشوں کے علاوہ وہ اپنے اسکلپچرز کی بھی نمائش کر چکی تھی، اور آج کل وہ ایک نامور جیولر کے اشتراک سے زیورات کے ڈیزائنوں کی پہلی ایگزیبیشن کرنے والی تھی۔ ذالعید جانتا تھا اب بہت جگہ اُمّ مریم اس کے نام سے نہیں وہ اُمّ مریم کے نام سے پہچانا جاتا تھا، اسے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا، وہ بہت اچھی آرٹسٹ تھی اور اُمّ مریم کو ملنے والی پہچان سے اسے خوف نہیں آتا تھا۔ مگر بعض دفعہ اسے احساس ہوتا کہ اُمّ مریم کی زندگی صرف آرٹ اور شہرت کے گرد گھومتی ہے۔وہ اکثر ماما جان اور مریم کا موازنہ کرتا اور حیران ہوتا کہ دونوں ایک دوسرے سے کس قدر مختلف تھیں۔
ماما جان کو اپنے گھر کے علاوہ شاید کسی اور چیز سے دلچسپی ہی نہیں تھی اور مریم کو گھر کے علاوہ ہر چیز سے دلچسپی تھی۔ ماما جان ہر چیز پر مطمئن تھیں، مریم کو کسی بھی چیز پر اطمینان نہیں تھا۔ ماما جان خاموشی اور تنہائی میں خوش رہتی تھیں۔ مریم کو لوگوں کا ہجوم اور قہقہے بھاتے تھے۔ ماما جان کے تعلقات صرف اس محلے کے لوگوں تک ہی تھے جہاں وہ رہتی تھیں باہر نہ نکلنے کے باوجود وہ محلے کے لوگوں کی پروا کرتیں اپنے طریقے سے ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتیں۔ مریم پوری دنیا سے تعلقات رکھنا چاہتی تھی۔ وہ ہر دھوم دھڑکے والی جگہ پر موجود ہوتی۔ اسے ان دونوں کی فطرت کا تضاد حیران کرتا۔
—–*—–
وہ اپنے کام میں اتنا مصروف تھا کہ پورا ایک ہفتہ ماما جان کی طرف نہیں جا سکا اور جب ایک ہفتے کے بعد وہ ماما جان کی طرف گیا تو خاصا تھکا ہوا تھا۔ شاید اس کی یہ تھکن ہی اسے وہاں لے گئی تھی۔
”ذالعید! پچھلا ہفتہ کہاں رہے آپ؟” ماما جان نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
”بہت مصروف تھا ماما جان! نئی فیکٹری کے پیپر ورک کے سلسلے میں بہت مصروف رہا۔”
”نئی فیکٹری…؟” ماما جان نے سوالیہ انداز میں کہا۔
”ہاں ماما جان! مریم کی فرمائش پر سرامکس کی فیکٹری لگا رہا ہوں۔”
ماما جان کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”دو فیکٹریز کو سنبھال سکو گے؟”
”یہ تو میں نہیں جانتا۔” وہ ہنسا… ”مگر بزنس کو بڑھانا ہے ہی، بس یہ ہے کہ سونے کے گھنٹے کچھ کم ہو جائیں گے اور باقی ایکٹیوٹیز بھی۔”
”مگر ذالعید! کیا صرف ایک فیکٹری کافی نہیں ہے؟”
”پتا نہیں، شاید ہاں، شاید نہیں۔”
”رزق کے پیچھے اتنا کیوں بھاگ رہے ہو؟” وہ ان کی بات پر حیران ہوا۔
”ماما جان! ترقی تو ضروری ہوتی ہے۔”
”مگر کتنی ترقی ذالعید! آج دوسری فیکٹری لگا رہے ہو پھر تیسری اور چوتھی لگاؤ گے۔ ترقی کی تو کوئی حد نہیں ہے۔ مگر یہ سوچا ہے کہ چند ماہ بعد جب اولاد ہو جائے گی تو اس کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت ہوگا آپ کے پاس؟ اولاد کی تربیت کون کرے گا؟” وہ خاموش رہا۔
”اولاد کو ورثے میں کیا دیں گے۔ بس فیکٹریز اور گاڑیاں، بڑے گھر اور بنک بیلنس، اچھے تعلیمی ادارے اور بیرون ملک ڈگریاں؟ زندگی گزارنا کون سکھائے گا انہیں؟”
”ماما جان! زندگی تو ان ہی سب چیزوں کے ساتھ گزرتی ہے اور ورثے میں بھی یہی سب دیا جاتا ہے۔”
”آپ اپنا ورثہ بدل دینا، ورثے میں اپنے بچوںکو کچھ اور دینا۔” وہ خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”ایک فیکٹری بھی تو کافی ہے آپ کے لیے۔ آرام سے کام کر رہے ہو، گھر چل رہا ہے۔ زندگی کی ہر سہولت ہے۔”
”مگر ماما جان! ایک فیکٹری سے کیا ہوتا ہے، اگر بزنس میں ڈاؤن فال آ جائے تو؟ دو چار فیکٹریز ہوں تو سیکیورٹی تو ہوتی ہے نا کہ چلیں ایک فیکٹری نہیں چلے تو دوسری جگہ سے نقصان کور ہوتا رہتا ہے۔” اس نے مریم والی منطق ان کے سامنے رکھی۔
”ذالعید! اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو رزق کی تنگی دینی ہے تو وہ تب بھی دے دے گا جب آپ کی چار فیکٹریاں ہوں گی۔ کیا کر لیں گے آپ اگر چاروں فیکٹریز میں ایک ہی وقت آگ لگ جائے۔ عمارتیں گر جائیں یا کچھ اور ہو جائے۔ ہم کتنے ہی بند کیوں نہ باندھ لیں۔ اگر سیلاب کے پانی کو ہم تک آنا ہے تو وہ سارے بند توڑ کر آ جائے گا۔ اگر ہماری قسمت میں پانی ایک قطرہ لکھا ہے ایک گھونٹ نہیں تو ہم دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی ایک قطرہ ہی پی سکیں گے، ایک گھونٹ نہیں۔”
ذالعید نے کچھ دیر کے لیے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
”اسی فیکٹری پر اپنی توجہ رکھو۔ خود کو رزق کے پیچھے بھاگ کر تھکاؤ مت…” وہ نرمی سے کہہ رہی تھیں۔
”باپ اور شوہر کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے کہ وہ گھر کے اندر وقت گزارے، صرف روپیہ اور آسائشیں لا کر ڈھیر کر دینا تو سب کچھ نہیں ہوتا۔”
”ماما جان! یہ مریم کی ضد ہے۔” اس نے بالآخر کہا۔ وہ بہت دیر خاموش بیٹھی رہیں۔
”آپ کو خود یہ طے کرنا چاہیے ذالعید! کہ آپ کو زندگی میں کیا کرنا ہے یا کیا نہیں۔ صرف عورت کے لیے ہی نہیں مرد کے لیے بھی سب سے اہم چیز گھر ہی ہونا چاہیے۔ کیا کرنا چاہتے ہیں آپ اپنے بچے کے لیے؟ آپ دونوں مصروف ہو جاؤ گے تو وہ کیا کرے گا؟ کیا اپنی طرح اس کو بھی بورڈنگ میں بھیج دو گے؟”
وہ ان کی باتیں سن کر بری طرح الجھ گیا۔
—–*—–
”میں نے سرامکس کی فیکٹری لگانے کا ارادہ چھوڑ دیا ہے۔”
اس رات اس نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے بڑے پرُسکون انداز میں مریم کو اطلاع دی۔ مریم کو ایک کرنٹ لگا۔
”کیا…؟” وہ اٹھ کر بیٹھ گئی، اس نے ٹیبل لیمپ آن کر دیا۔
”میں فیکٹری نہیں لگا رہا؟”
”کیوں؟”
”کیونکہ میں دو فیکٹریز اچھے طریقے سے چلا نہیں پاؤں گا۔”
”کمال ہے ذالعید! میں نے تم سے کہا بھی ہے کہ میں تمہاری مدد کروں گی۔”
”مریم! تم میری مدد نہیں کر سکتیں اور نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں کہ تم میری مدد کرو۔ اتنے چھوٹے بچے کو گھر پر چھوڑ کر تم فیکٹری جایا کرو گی؟”
”وہ ساری عمر چھوٹا تو نہیں رہے گا نا اور پھر ہم گورنس رکھیں گے اس کے لیے۔”
”مریم! میں چاہتا ہوں ،تم اسے خود پالو اور میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ تم اپنی ایکٹویٹیز کو اب آہستہ آہستہ کم کرنا شروع کر دو۔ ماں کی پہلی ذمہ داری اس کی اولاد ہوتی ہے، باقی ہر چیز بعد میں آتی ہے۔”
وہ بڑے پرُسکون انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ یک دم ٹھٹھک گئی۔
”تم مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں فیکٹری لگانے سے منع کس نے کیا ہے۔ کل تک تو تم اس پر پیپر ورک کر رہے تھے؟” وہ اپنے شبہے کی تصدیق کرنا چاہتی تھی۔
”مجھے کسی نے منع نہیں کیا۔ بس میں فیکٹری لگانا نہیں چاہتا۔”
”تم سے ماما جان نے کہا ہوگا؟ انہوں نے منع کیا ہوگا۔”
”انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔” ذالعید نے جھوٹ بولا۔
”تم مجھے احمق مت سمجھو۔ یہ سب کچھ ماما جان کے علاوہ اور کوئی کہہ ہی نہیں سکتا۔ انہوں نے ہی تمہیں میرے لیے یہ ہدایت نامہ دیا ہوگا۔”
”اگر ایسا ہے بھی تو کیا برا ہے؟ دو فیکٹریز لگانے کے بعد میں کتنا مصروف ہو جاؤں گا۔ تم نے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے۔ میں نہ اپنے بچوں کو وقت دے پاؤں گا نہ تمہیں۔”
”مجھے اور میرے بچے کو تمہارے وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا وقت ہم اکٹھے گزارتے ہیں، وہ کافی ہے۔ تم اگر اپنی اولاد کو کچھ دینا ہی چاہتے ہو تو اسے اچھا مستقبل دو۔ آسائشیں دو اور آسائشیں پیسے سے آتی ہیں۔”
”تمہیں مجھے میری ذمہ داری سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں مجھے اپنی اولاد کو کیا دینا ہے اور میں اسے سب کچھ دے سکتا ہوں۔” ذالعید کو اس کی بات بری لگی۔
”تمہیں مجھ سے زیادہ ماما جان کی پروا ہے۔ ان کی باتوں کی زیادہ اہمیت ہے تمہاری نظر میں۔” وہ بگڑ کر بولی۔
”ہاں، اس لیے کہ وہ جو بات کہتی ہیں، وہ ٹھیک ہوتی ہے۔”
”یہ میرا گھر ہے ذالعید! ماما جان کا نہیں ہے اور یہاں ماما جان کے احکامات نہیں چل سکتے۔”
”مریم! میں تم سے بحث نہیں کرنا چاہتا، میں سونا چاہتا ہوں۔” وہ اکتا گیا۔ ”لائٹ آف کرو۔”
”تم اگر فیکٹری نہیں لگاؤ گے تو میں خود لگا لوں گی۔” مریم کا غصہ بڑھ گیا۔
”ٹھیک ہے، تم خود لگا لو مگر پہلے تمہیں اس کے لیے زمین خریدنی ہوگی اور میں تمہیں نہ زمین کے لیے پیسہ دوں گا نہ ہی فیکٹری کے لیے۔ اگر تم پھر بھی افورڈ کر سکتی ہو تو بڑے شوق سے فیکٹری لگاؤ بلکہ ایک کے بجائے دو لگا لو۔”
اس نے ایک جھٹکے سے اٹھ کر ٹیبل لیمپ آف کیا اور دوبارہ لیٹ گیا۔ مریم اندھیرے میں اسے گھورتی رہی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!