اپنے کمرے میں آنے کے بعد اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اپنے کندھوں پر ایک پہاڑ لاد لائی ہو۔
”کیا مجھے مظہر کے ساتھ شادی کر لینی چاہیے؟ وہ میرے بارے میں لاعلم ہے کیا اس کی یہ بے خبری میرے لیے نعمت نہیں ہے، مگر کیا اس شخص کو اس طرح بے خبر رکھنا غلط نہیں ہے؟ کیا مجھے اس شخص کو دھوکا دینا چاہیے جو مجھ سے محبت کرتا ہے؟ مگر سب کچھ جاننے کے بعد وہ مجھ سے شادی کبھی نہیں کرے گا۔ زندگی میں دوبارہ مجھے مظہر جیسا شخص نہیں مل سکے گا۔ کیا میرے مقدر میں ٹھوکروں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے؟ کیا زندگی پر میرا کوئی بھی حق نہیں ہے…؟ ایک موقع زندگی مجھے دے رہی ہے تو مجھے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔” وہ بری طرح دلائل اور جوابی دلائل میں پھنسی ہوئی تھی۔
”میرا مذہب کہتا ہے کہ… مگر میں ماضی اپنے پچھلے مذہب کے ساتھ دفن کر چکی ہوں۔ میری نئی زندگی نئے مذہب کے ساتھ شروع ہوئی ہے۔ اسلام میں آنے کے بعد تو میں کوئی گناہ نہیں کر رہی… اور اللہ معاف کرنے والا ہے۔”
وہ اپنے بستر پر بیٹھی دل اور ضمیر کی کشمکش دیکھ رہی تھی۔
”میں تھک چکی ہوں، ہر چیز سے… زندگی سے… مجھے صرف ایک شخص چاہیے، جو میرا ہاتھ پکڑ سکے اور مظہر وہ شخص ہے میں اس کی بات رد نہیں کر سکتی… کم از کم اب نہیں…” فیصلہ ہو گیا ہے۔
—–*—–
”میں بہت سے معاملات میں بہت قدامت پرست ہوں، پہلی چیز تو یہ ہے کہ تم اب کام نہیں کرو گی، تمہیں گھر میں رہنا ہے اور مغربی لباس کو بھول جاؤ، تمہیں مشرقی لباس پہننا ہے۔ باہر جاتے ہوئے بھی تم کو بہت اچھے طریقے سے اپنا سر چھپانا ہے۔ تمہارے جو بھی دوست تھے۔ اب ان سے نہیں ملنا نہ ہی کبھی ان کو گھر بلانا۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ میرے جو بھی اختلافات ہیں، ان کا تعلق میری ذات سے ہے، لیکن تم اگر کبھی بھی میرے ماں باپ یا بہن بھائیوں سے ملو تو تمہیں انہیں پوری عزت دینی ہے، خاص طور پر میرے ماں باپ کو، وہ اگر تمہیں برا بھی کہیں تو تمہیں ان کے سامنے کچھ نہیں کہنا۔ ان کی بات خاموشی کے ساتھ سننی ہے۔ میری اولاد کو بھی میرے خاندان کی عزت کرنا سکھانا ہے۔ فی الحال ہمیں زندگی اس ملک میں گزارنی ہے۔ لیکن میں کبھی بھی یہاں سے جانے کا فیصلہ کر سکتا ہوں اور اس وقت تمہیں کوئی اعتراض نہیں کرنا ہے، میرے بچوں کو شروع سے یہ بات پتا ہونی چاہیے کہ یہ ہمارا ملک نہیں ہے۔ ہم کبھی بھی یہاں سے چلے جائیں گے اور یہ بات تم انہیں سمجھاؤ گی۔ خاص طور پر اگر میری بیٹی ہوئی تو ہم بہت جلد یہاں سے چلے جائیں گے۔ اس کے چار پانچ سال کا ہونے تک، میں یہاں رہ ضرور رہا ہوں لیکن مجھے یہاں سے کچھ ایڈاپٹ نہیں کرنا۔ تمہیں بھی ویسے ہی رہنا ہے جیسے ہمارے خاندان کی عورتیں رہتی ہیں۔ میں نے اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر میں یہ کبھی برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی تمہارے بارے میں میرے ماں باپ سے یہ کہے کہ آپ کے بیٹے کی بیوی یہ کرتی ہے یا اس طرح رہتی ہے۔”
شادی کے بعد پہلی بار گھر آنے پر مظہر نے اس سے یہ سب کہا تھا۔ وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ وہ بے حد سنجیدہ نظر آ رہا تھا، اسے ٹینشن ہونے لگی اور جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ اب ہمیشہ اس سے اسی سنجیدگی کے ساتھ بات کرے گا اور کبھی اسے مسکرا کر نہیں دیکھے گا… تو وہ یک دم مسکرایا۔
”باقی یہ ہے کہ میں تمہارا ہوں… مجھ سے شکایت ہو تو رات کے تین بجے مجھے جگا کر مجھ پر چلاّ سکتی ہو… چاہو تو گالیاں دے لینا۔ زیادہ غصہ آئے تو گھر سے نکال سکتی ہو۔ اس گھر میں موجود سب کچھ تمہارا ہے۔ میرے پیسے کو جیسے چاہے خرچ کر سکتی ہو۔ تمہیں مجھے بتانے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے ساتھ وفاداری اور پارسائی کے علاوہ میں تم سے اور کچھ نہیں چاہتا۔” خدیجہ نے سر جھکا لیا۔
—–*—–
اس دن اس نے مظہر کو کوئی یقین دہانی نہیں کروائی، وہ صرف خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی۔ وہ جان نہیں پایا کہ وہ اس کی باتوں کو کس حد تک سمجھ سکی ہے۔”
”میں اس کو وقتاً فوقتاً یہ باتیں سمجھاتا رہوں گا۔” مظہر نے سوچا تھا۔
لیکن اسے دوبارہ خدیجہ نور سے کبھی کچھ کہنا نہیں پڑا۔ خدیجہ نور نے اسے یہ موقع ہی کبھی نہیں دیا۔ مظہر نے اگلے تین سال اسے شلوار قمیص کے علاوہ کسی اور لباس میں نہیں دیکھا۔ وہ گھر میں بھی بہت اچھے طریقے سے دوپٹے سے خود کو چھپائے رکھتی تھی۔ اس نے دوبارہ کبھی اپنے بالوں کو کٹوانے کی خواہش بھی نہیں کی۔ شادی کے دوسرے دن اس نے خود ہی اپنے دونوں ہاتھوں کے لمبے ناخنوں کو کاٹ دیا۔ مظہر نے دوبارہ اسے کبھی ناخن بڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
تین سال کے عرصہ میں وہ کبھی مظہر کے بغیر گھر سے نہیں نکلی۔ اسے شاپنگ پر جانا ہوتا تو وہ مظہر کے ساتھ ہی جاتی۔ واحد جگہ جہاں وہ باقاعدگی سے جاتی تھی، وہ اسلامک سینٹر تھا، وہاں بھی وہ صبح مظہر کے ساتھ جاتی اور لنچ کے دوران وہ اسے واپس گھر چھوڑ جاتا اور اگر کبھی وہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایسا نہ کر پاتا تو پھر وہ شام کو اس کے آفس سے فارغ ہونے تک وہیں رہتی۔
صرف ایک بار مظہر نے لنچ کے دوران کسی کلائنٹ کے آ جانے پر اسے فون کر کے کہا کہ وہ خود آ جائے، مگر خدیجہ نے صاف انکار کر دیا۔
”نہیں، میں اکیلی واپس نہیں جاؤں گی۔ مجھے واپس چھوڑنا آپ کی ذمہ داری ہے، اور میں آپ کے ساتھ ہی واپس جاؤں گی۔ آپ شام کو مجھے واپس لے جائیں۔”
اس رات مظہر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے اس کے اکیلا جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اگر وہ اکیلی واپس چلی جایا کرے تو ان دونوں کو سہولت ہوگی۔ خدیجہ نے اس کی ساری باتیں سننے کے بعد کہا۔
”آپ کا آفس اسلامک سینٹر کے قریب ہے۔ آپ کے پاس گاڑی ہے آپ پٹرول کے چارجز بھی افورڈ کر سکتے ہیں۔ صرف یہ ہے کہ لنچ آپ کو گاڑی میں کرنا پڑتا ہے۔ مگر مرد تو بہت بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا لیتا ہے۔ یہ ایسی کوئی تکلیف نہیں ہے پھر بھی اگر آپ چاہتے ہیں تو میں اکیلی واپس آ جایا کروں گی۔”
مظہر نے دوبارہ کبھی اس سے اکیلے جانے کے لیے نہیں کہا۔
وہ کبھی کبھار اسے ا پنی شادی شدہ دوستوں کے ہاں لے کر جایا کرتا تھا اور اس وقت اسے بہت اطمینان ہوتا جب وہ خدیجہ کا موازنہ ان دوستوں کی بیویوں سے کرتا۔ ان میں سے کچھ کی بیویاں پاکستانی تھیں۔ مگر وہ خدیجہ کی طرح عملی مسلمان نہیں تھیں۔ بعض دفعہ اسے یہ سوچ کر خوشی ہوتی کہ اس کا فیصلہ غلط ثابت نہیں ہوا تھا۔ خدیجہ ویسی ہی بیوی ثابت ہوئی تھی جیسی اس نے خواہش کی تھی۔ تین سال کے عرصے میں وہ ٹوٹی پھوٹی پشتو اور اردو بولنے لگی تھی۔ اسلامک سینٹر میں اس نے عربی میں قرآن پاک پڑھا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد وہ اب باقاعدگی سے اسلامک سینٹر نہیں جاتی تھی۔ وہ مظہر کی مدد سے قرآن پڑھا کرتی تھی۔ مظہر کی زندگی بہت پرُسکون تھی اور اس کا خیال تھا سب کچھ ہمیشہ ایسے ہی رہے گا۔ مگر زندگی میں ایک ایسا طوفان اس کا منتظر تھا جو سب کو بہا لے جانے والا تھا…
—–*—–
مظہر کو جو چیزیں بہت مشکل لگ رہی تھیں خدیجہ کے لیے ان میں ایک بھی مشکل نہیں تھی۔ وہ جس زندگی سے نکل کر آئی تھی۔ اس سے زیادہ مشکل اور صبر آزما چیز کوئی بھی نہیں تھی۔
”جو کچھ تم نے مجھے دیا ہے۔ وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کے بعد میں تمہاری نافرمانی کرنے کے قابل ہی نہیں رہی مظہر…! میں تمہاری اطاعت کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرنا چاہتی… اگر میرے لیے تم نے سارے رشتے چھوڑ دیے ہیں۔ تو میں تمہاری زندگی میں پچھتاوے کا ایک لمحہ تک آنے نہیں دوں گی۔”
اس نے مظہر کی ساری باتوں کے جواب میں صرف یہ سوچا تھا۔
مظہر کے ساتھ خدیجہ وہ زندگی گزار رہی تھی جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اسے اپنا گزرا ہوا کل ایک بھیانک خواب لگتا۔ پھر اسے یاد آتا وہ اس زندگی کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ اتنا پیچھے کہ اب…”
”دنیا کی جس دلدل سے میں نکل کر آئی ہوں، اس کے بعد میں چاہتی ہوں میرے گھر میں کھڑکیاں اور دروازے تک نہ ہوں جنہیں کھول کر میں باہر جھانکوں یا کوئی مجھ تک آ سکے… اور اگر میرے اختیار میں ہو تو اپنے شوہر کے علاوہ میں کسی دوسرے مرد کا چہرہ تک نہ دیکھوں یا اپنے گرد ایسا حصار قائم کر لوں کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں… میں نے یہی سب کچھ چاہا تھا۔ گھر، شوہر، اولاد، اس سے بڑی نعمت ہو سکتی ہے کسی کے پاس؟” وہ اکثر بیٹھے بیٹھے سوچتی۔
”اگر مجھے یقین ہو کہ میرا شوہر گھر سے باہر کسی گمراہی کے راستے پر نہیں چل رہا۔ اس کی زندگی میں کسی دوسری اور تیسری عورت کا وجود نہیں ہے اس کی صبح اور رات میرے ہی گھر میں ہوتی ہے وہ جو کماتا ہے مجھے ہی لا کر دیتا ہے۔ مجھ سے محبت اور میری عزت کرتا ہے تو پھر اگر وہ گھر کے اندر رہنے کے بجائے گھر کے ایک کمرے میں رہنے کا بھی کہے تو میں رہ لوں گی… بڑی خوش دلی اور کسی شکایت کے بغیر…”
مظہر کے ایک دوست کی بیوی نے ایک بار اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ مظہر جیسے کنزرویٹو شخص کے ساتھ رہ کر خوش ہے اور اس کے جواب نے اس عورت کو حیران کیا۔
”بھابھی! مجھے لگتا ہے، آپ تو مظہر سے بھی زیادہ قدامت پرست ہیں۔” اس نے ہنس کر خدیجہ سے کہا۔ خدیجہ کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا دی۔
”اگر تم لوگ یہ جان جاؤ کہ میرا لبرل ازم مجھے کس دوزخ میں لے گیا تھا تو شاید تم لوگ کبھی میری قدامت پرستی پر ہنس نہ سکو۔ بے عزتی کی زندگی گزارنے کے بعد اگر عزت کی قیمت ہمیشہ کے لیے گھر کے اندر بند رہنا بھی ہو تو میں ایک لمحہ کے لیے بھی سوچے سمجھے بغیر خود کو گھر کے اندر بند کر لوں گی اور یہی میں نے کیا ہے۔” اس نے سوچا تھا۔
—–*—–