لاحاصل — قسط نمبر ۲

مریم کے پاؤں زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔
”آپ نے دیکھا ماما جان! آپ خوامخواہ خوفزدہ ہو رہی تھیں۔ ذالعید نے اپنی فیملی کو منا لیا نا۔ اگر ان کی مرضی کے بغیر بھی شادی ہوتی، تب بھی بعد میں وہ مان جاتے۔ آخر کتنی دیر ناراض رہ سکتے تھے۔ ذالعید یہی بات کہہ رہا تھا۔”
اس نے نزہت اور ذالعید کے جاتے ہی ماما جان سے کہا۔
ماما جان نے کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا کر اسے دیکھا اور چائے کے برتن اٹھانے لگیں۔
”آپ کو اب تو مطمئن ہو جانا چاہیے کہ ذالعید میرے ساتھ مخلص ہے اور ہماری شادی کبھی ناکام نہیں ہوگی۔”
ماما جان اپنے کام میں مصروف رہیں۔
”اور صوفیہ، میں دیکھوں گی۔ وہ اب ذالعید سے کیسے ملتی ہے… یہ صوفیہ ذالعید کی سوتیلی ماں کی بھانجی ہے۔”
ماما جان کے ہاتھ رک گئے انہوں نے سر اٹھا کر مریم کو دیکھا۔
”مریم! وہ ذالعید کی ماں ہے۔” انہوں نے سرزنش بھرے انداز میں کہا۔
”وہ ذالعید کی سوتیلی ماں ہے۔” مریم نے ایک بار پھر اسی انداز میں کہا۔
”سگی ہو یا سوتیلی۔ وہ ذالعید کی ماں ہے۔”
”ماما جان! اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ… آپ نے دیکھا نہیں، اس کی ماں نے کس طرح سے اسے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اپنی بھانجی اس کے سر تھوپنا چاہتی تھی۔ صوفیہ اس کی سوتیلی ماں کا Stunt ہے۔” اس نے تلخ لہجے میں کہا۔
”کیا یہ سب ذالعید نے کہا تم سے؟” ماما جان نے زندگی میں پہلی بار سخت لہجے میں بات کی۔
”نہیں۔ اس نے نہیں کہا مگر میں بیوقوف نہیں ہوں، عقل رکھتی ہوں، اندازہ لگا سکتی ہوں۔”
”تم اپنی عقل اور اندازوں کو اپنے پاس رکھو۔ ذالعید کا اپنی ماں کے ساتھ تعلق ہے یا نہیں، یہ اس کا مسئلہ ہے۔ وہ اسے استعمال کر رہی ہے یا نہیں، یہ بھی تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ تمہیں ذالعید سے متعلقہ ہر شخص کی عزت کرنی ہے۔”
”عزت…؟ آپ جانتی ہیں۔ اس کے ماں باپ نے کس طرح اس شادی میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ کیسی کیسی باتیں کہی ہیں۔ میں تو ایسے لوگوں کی کبھی عزت نہیں کر سکتی۔”
”وہ ان کا بیٹا ہے انہیں حق ہے کہ وہ اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ان کی عزت نہ کرو۔ ان سے بدتمیزی کرو۔”
مریم کو حیرت ہو رہی تھی۔ کیا ماما جان کو غصہ آ سکتا ہے؟
”میں صرف اس کے باپ کی عزت کروں گی مگر میں اس کی ماں اور بہن بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گی۔ ان لوگوں کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔” اس پر ماما جان کے غصے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔





”پھر تم ذالعید سے شادی نہ کرو، اگر تم اس کے خاندان کی عزت نہیں کر سکتیں تو پھر تمہیں اس خاندان کا حصہ بننے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کیا تم اس کے خاندان کو تقسیم کر دینا چاہتی ہو؟”
”ماما جان! آپ نہیں جانتیں ان لوگوں نے میرے اور آپ کے بارے میں کیسی باتیں کی تھیں۔ صوفیہ کالج میں کہتی پھرتی تھی کہ انکل اور آنٹی کبھی مجھ سے ذالعید کی شادی پر تیار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ذالعید سے کہا ہے کہ وہ کسی فقیر کی بیٹی سے تو اس کی شادی کرنے پر تیار ہیں مگر کسی انگریز عورت کی بیٹی سے نہیں۔”
ماما جان کا چہرہ زرد ہو گیا۔ مریم کی آنکھوں میں اب آنسو امڈ رہے تھے۔
”وہ ویسے ہی کہہ رہی ہوگی۔” ماما جان نے اس سے نظریں چراتے ہوئے لرزتے ہاتھوں سے ایک بار پھر برتن سمیٹنا شروع کر دیے۔
”نہیں۔ وہ ایسے ہی نہیں کہہ رہی تھی۔ میں نے ذالعید کو بتایا تھا یہ سب۔ اس نے کہا کہ اس کے بابا نے یہ بات کہی ہے اور شادی پر ان کا اعتراض صرف یہی ہے۔ اس نے کہا کہ میں آپ کو اس بارے میں نہ بتاؤں کیونکہ آپ کو تکلیف ہوگی۔ مگر ماما جان! آپ خود سوچیں اس کے بابا ایسی بات کیوں کہتے۔ یہ تو اس کی سوتیلی ماں نے ان کو بھڑکایا ہوگا تاکہ اس کی شادی صوفیہ سے ہو۔”
ماما جان ٹرے لے کر کھڑی ہو گئیں۔ مریم کو وہ یک دم بہت تھکی ہوئی نظر آنے لگی تھیں۔
”جو بھی ہے مریم! تمہیں اس کی فیملی میں جانا ہے تو پھر ان کی عزت بھی کرنی ہے۔ کس نے کیا کہا؟ کیوں کہا؟ کتنی تکلیف پہنچی، کتنی بے عزتی ہوئی؟ اس سب کو بھول جاؤ۔ یہ زندگی ہے۔ اس میں بہت سارے لفظ بولے جاتے ہیں۔ بہت سارے لفظ سننے پڑتے ہیں۔ بہت سارے لفظوں کے بہت سارے معنی ہوتے ہیں۔ لفظوں کو اکٹھا کر کے تم انہیں سوچنے اور سمجھنے بیٹھو گی تو پھر زندگی نہیں گزار سکو گی۔ مجھے بہت تکلیف ہوگی، اگر کبھی کسی نے مجھ سے یہ کہا کہ میں نے تمہیں سب کچھ سکھایا۔ مگر عزت کرنا نہیں سکھایا۔ مگر مجھے کوئی افسوس نہیں ہوگا اگر کوئی یہ کہے گا کہ میں نے تمہیں کچھ بھی نہیں سکھایا مگر بڑوں کی عزت کرنا ضرور سکھایا ہے۔”
وہ کمرے سے باہر نکل گئیں۔ مریم کے چہرے پر ناگواری تھی۔
”ماما جان آخر کون سے یوٹوپیا میں رہ رہی ہیں۔” وہ زیرلب بڑبڑائی۔
—–*—–
مریم نے شادی کی ساری شاپنگ ذالعید کے ساتھ کی۔ وہ جتنے قیمتی لباس خرید سکتی تھی، اس نے خریدے۔ جتنے مہنگے زیورات لے سکتی تھی، اس نے لیے۔ ذالعید نے خاصی خوش دلی اور فیاضی سے اسے شاپنگ کروائی تھی۔ مریم نے ماما جان سے وہ رقم نہیں لی تھی جو وہ اسے شادی کی شاپنگ کے لیے دینا چاہتی تھیں۔
”ماما جان! اتنی رقم میں میں دو اچھے سوٹ تک نہیں خرید سکتی، اس لیے آپ یہ رہنے دیں۔ ذالعید چاہتا ہے کہ میں اس کے ساتھ شادی کی شاپنگ کروں ،اس لیے میں اسی کے ساتھ شاپنگ کرنا چاہتی ہوں۔”
اس نے ماما جان سے کہا تھا۔ اپنی خوشی اور سرشاری میں اس نے ماما جان کے چہرے کے تاثرات بھی پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
شاپنگ کرنے کے بعد اس نے ماما جان کو وہ تمام چیزیں دکھائی تھیں، جو وہ خرید کر لائی تھی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے سوا ماما جان نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا۔
اس رات سونے سے پہلے اس نے ماما جان سے کہا۔
”کیا آپ کو پتا ہے ماما جان! دنیا کتنی خوبصورت ہے؟”
ماما جان نے اس کے جگمگاتے چہرے کو دیکھا۔ وہ اپنے بستر پر چت لیٹے آنکھیں بند کیے ہوئے تھی۔
”ہاں، میں جانتی ہوں مریم! دنیا بہت خوبصورت ”نظر” آتی ہے۔” وہ بلب بند کر کے اپنے بستر کی طرف آتے ہوئے بولیں۔
”کتنی خوشی ہوتی ہے نا ماما جان! جب کسی دکان میں جائیں اور اس قابل ہوں کہ وہاں موجود قیمتی سے قیمتی چیز بھی خرید سکتے ہوں۔” اس نے ماما جان کی بات پر غور کیے بغیر مسرور لہجے میں کہا۔
”اور تمہیں پتا ہے مریم! دنیا کی دکان میں سب سے سستی چیز کون ہے؟… خریدار!” ماما جان نے اس کی بات کے جواب میں پرُسکون انداز میں کہا۔
”ماما جان! کیا مجھے خوش نہیں ہونا چاہیے کہ مجھے وہ چیز مل گئی ہے، جس سے مجھے محبت ہے۔” اس نے کچھ بھِنّا کر کہا۔
”تمہیں دعا کرنی چاہیے کہ تمہارے پاس وہ چیز ‘رہے’ جس سے تمہیں محبت ہے۔” وہ نیم تاریکی میں ان کی بات پر چھت کو گھورنے لگی۔
”ماما جان! میں آپ کو ایک بات بتاؤں؟” اس نے یک دم ان کی طرف کروٹ لیتے ہوئے کہا۔ ”جب میں یہاں سے چلی جاؤں گی نا تو یہ گھر مجھے کبھی یاد نہیں آئے گا۔ میں کبھی اس کے بارے میں سوچوں گی بھی نہیں اور آپ دیکھ لینا۔ ایک بار یہاں سے جانے کے بعد میں کبھی یہاں آ کر نہیں رہوں گی۔”
”اچھا اب سو جاتے ہیں۔” اس نے اپنی بات کے جواب میں ماما جان کو مسکرا کر آنکھیں بند کرتے دیکھا۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
—–*—–
شادی اتنی ہی دھوم دھام سے ہوئی تھی، جتنا مریم نے چاہا تھا۔ اگرچہ اس کا نکاح اور رخصتی ایک مقامی میرج ہال میں ہوئی تھی اور اس تقریب میں زیادہ لوگ شامل نہیں تھے۔ لیکن ولیمہ مظہر کے ذاتی فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا اور اس میں مریم نے ان تمام لوگوں کو مدعو کیا تھا، جنہیں وہ مدعو کرنا چاہتی تھی۔ ذالعید کا اپنا حلقہ احباب بہت وسیع تھا لیکن اس کے والد کے اپنے شناساؤں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی کیونکہ یہ ان کے ہاں پہلی شادی تھی۔ اس لیے تمام تلخیوں اور ناراضگی کے باوجود انہوں نے اپنے پورے خاندان اور تمام دوستوں کو بلایا تھا۔
ماما جان نے ذالعید کے اصرار کے باوجود ولیمے میں شرکت نہیں کی۔ ذالعید خاصا مایوس ہوا مگر مریم خوش تھی۔ ماما جان کی عدم شرکت کو اس نے محسوس نہیں کیا۔ ان کے وہاں ہونے یا نہ ہونے سے ان تین ہزار مہمانوں کی بھیڑ پر کوئی فرق نہیں پڑتا، جن میں بڑے بڑے نامی گرامی لوگ شامل تھے۔
ولیمے کی دعوت کے اختتام پر گھر جاتے ہوئے ذالعید نے ایک بار پھر ماما جان کی عدم موجودگی کا ذکر کیا۔ ”ماما جان آتیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔” مریم خاموش رہی۔
”ہم کل صبح ان کی طرف چلیں گے۔”
”آج بھی تو گئے تھے۔” مریم نے اسے یاد دلایا۔
شام کو بیوٹی پارلر سے اسے لینے کے لیے جب وہ آیا تھا تو اسے لے کر سیدھا ہوٹل جانے کے بجائے وہ اسے ماما جان کے پاس لے گیا۔ مریم نے احتجاج کیا تھا۔
”سب مہمان انتظار کر رہے ہوں گے۔”
”ماما جان بھی انتظار کر رہی ہوں گی۔ وہ آج اس دعوت میں نہیں آ رہیں مگر ان کی خواہش تو ہوگی کہ وہ تمہیں دیکھیں۔ مہمان انتظار کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہم زیادہ دیر نہیں رکیں گے۔ صرف مل کر آ جائیں گے۔”
ذالعید نے اس سے کہا تھا۔ مریم کو الجھن اور ناگواری ہونے لگی تھی۔ وہ اب اس طرح کا لباس پہن کر اس گلی میں سے گزرنا نہیں چاہتی تھی مگر وہ کیا کر سکتی تھی۔
ماما جان انہیں دیکھ کر واقعی بہت خوش ہوئی تھیں۔
”وہ تو آج کی بات ہے مریم! کل ہم لوگ ان کے ساتھ کچھ زیادہ وقت گزار سکیں گے۔” ذالعید نے نرمی سے کہا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ مریم کو ماما جان کے پاس جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مریم ایک بار پھر خاموش رہی۔
—–*—–
ذالعید کے ساتھ مریم کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اسے یک دم ساری دنیا اپنی مٹھی میں لگنے لگی تھی اور وہ اپنے اس احساس میں بڑی حد تک حق بجانب تھی۔ ذالعید اور اس کی فیملی کا شہر میں بہت زیادہ اثر و رسوخ تھا۔ ذالعید کے آرٹ کے حلقوں میں اچھے خاصے تعلقات تھے۔ مریم کو شہرت کے آسمان تک پہنچنے کے لیے جس پلیٹ فارم کی ضرورت تھی، وہ اسے مل گیا تھا۔
ذالعید نے اپنے گھر میں موجود اسٹوڈیو اسے دے دیا۔ مریم نے اپنی مرضی کے مطابق اس میں بہت زیادہ تبدیلیاں کیں۔
”میں چاہتا ہوں مریم! تم اپنی فیلڈ میں بہت آگے جاؤ۔ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو۔ تم خرید لو، مجھے خوشی ہوگی اگر تمہارے آرٹ کی پروموشن میں میرا بھی کوئی رول ہو۔”
مریم کو ذالعید کی بات سن کر بے تحاشا خوشی ہوئی۔
ذالعید کا چار کنال پر بنا ہوا وہ گھر بہت خوبصورت تھا۔ وہ آرکیٹکٹ نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس نے انڈس ویلی میں حاصل کی گئی بہت سی تکنیک کا استعمال اس گھر میں کیا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً اس کی سجاوٹ کو بدلتا رہتا تھا۔ مگر اب مریم نے آتے ہی اس گھر میں بہت ساری تبدیلیاں کی تھیں۔ ذالعید نے بڑی خوشی کے ساتھ اس معاملے میں اسے آزادی دی۔
وہ اس کے لیے بہت اچھا اور محبت کرنے والا شوہر ثابت ہو رہا تھا۔ وہ کم گو اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والا، متحمل مزاج بندہ تھا۔ اس نے مریم پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ اس معاملے میں وہ خاصا لبرل تھا۔ مریم کب، کہاں، کس کے ساتھ جاتی تھی۔ اس نے اس سے کبھی نہیں پوچھا۔ آرٹ میں ذالعید کی دلچسپی مریم جیسی ہی تھی مگر وہ اس کا اظہار آرٹ کے بارے میں کتابیں پڑھنے، آرٹ ایگزیبیشن دیکھنے اور آرٹ سے متعلقہ چیزیں اکٹھی کرنے کے ذریعے کیا کرتا تھا۔ وہ خود بھی اچھی پینٹنگ کر لیا کرتا تھا مگر اس کا موقع اسے بہت کم ملتا۔ وہ اپنے بزنس میں اس حد تک مصروف رہتا تھا کہ پینٹنگ کے لیے وقت نکالنا اس کے لیے ناممکن تھا۔
مریم کو غصہ جلدی آ جاتا تھا مگر ذالعید چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہونے والا شخص نہیں تھا۔ وہ اگر کبھی غصہ میں آتا تو مریم کے ساتھ لمبی چوڑی بحث کرنے کے بجائے خاموش ہو جاتا۔
مریم اس کے ساتھ بہت خوش تھی۔ ذالعید کی لائف اچھی خاصی سوشل تھی اور ہفتہ میں دو چار بار وہ کہیں نہ کہیں انوائیٹڈ ضرور ہوتے۔ پارٹیز، ایگزیبیشن، ڈنرز، فیشن شوز، جِم خانہ کی تقریبات، کنسرٹ، مریم کے لیے یہ وہی زندگی تھی جس کے اس نے خواب دیکھے تھے۔ وہ اب اپنے بال کٹوانے کے لیے خاص طور پر طارق امین کے پاس جایا کرتی۔ سحر سہگل اور ماہین خان کے ڈیزائن کیے ہوئے لباس پہنتی۔ خود کو فٹ رکھنے کے لیے باقاعدگی سے جِم خانہ جاتی۔ وہ پہلے بھی خوش لباس تھی اور اس کی کوشش ہوتی تھی کہ لباس سستا ہی کیوں نہ ہو اسٹائلش ہو لیکن اب اس کے نزدیک لباس کی تعریف بدل گئی تھی۔ وہ سلیولیس اور نیٹ کے بلاؤز پہنتی، سلک اور شیفون کی ساڑھیاں اس کا خاص انتخاب ہوتیں۔
اس کے اکثر شلوار قمیص بھی سلیولیس اور اتنے چست ہوتے کہ اس کا فگر نمایاں ہوتا۔ وہ باقاعدگی سے بیوٹی پارلر جایا کرتی۔
وہ آہستہ آہستہ شہرت کی سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی۔ نیوز پیپرز میں آرٹ سے متعلقہ صفحات پر اکثر اس کے بارے میں خبریں پائی جاتیں یا اس کے کام پر تبصرہ ہوتے۔
مریم کے لیے یہ زندگی جیسے خواب کی زندگی تھی۔ اس نے ایک جست میں بہت لمبا فاصلہ طے کیا تھا۔ مگر وہ صرف ایک جست پر قناعت کرنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اسے اپنی زندگی میں بہت آگے جانا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اب اس کے پاس وہ سب کچھ ہے جو اسے کہیں سے کہیں لے جا سکتا ہے۔
شادی کے بعد وہ بہت کم ماما جان کی طرف جاتی تھی۔ وہ انہیں اور اس گھر کو جیسے بھول ہی گئی تھی۔ کبھی کبھار ذالعید کے اصرار پر وہ اس کے ساتھ ان کے پاس چلی جاتی مگر وہ وہاں جا کر خوش نہیں ہوتی تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا وہ جلد سے جلد وہاں سے نکل آئے۔ اس گھر سے اس کی وحشت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ اسے اب اور زیادہ حیرت ہوتی کہ ماما جان کس طرح اتنے سالوں سے ایک ترقی یافتہ ملک کو چھوڑ کر اس ترقی پذیر ملک میں رہ رہی ہیں۔ کس طرح وہ گندگی، ٹوٹی گلیوں، جاہل لوگ، بوسیدہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات سے محرومی کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ اسے بعض دفعہ ان پر ترس بھی آتا اور پھر خوشی بھی ہوتی کہ وہ اس جہنم سے باہر آ چکی ہے۔
—–*—–
مریم ہی نہیں ذالعید بھی اس کے ساتھ شادی کر کے خوش تھا۔ شادی اس کی زندگی میں ایک بہت ہی غیر معمولی اور خلاف توقع وقت پر آئی تھی۔ وہ ابھی چند سال اور شادی کی ذمہ داری سے بچنا چاہتا تھا۔ مگر مریم کے ساتھ ہونے والی ملاقات اور پھر اس کے بعد کے تمام واقعات نے اس طرح جکڑ لیا تھا کہ اس نے اپنی ہر پلاننگ کو اپ سیٹ کرتے ہوئے شادی کر لی۔
شادی نے اس کی زندگی میں کوئی خاص بڑی تبدیلی نہیں کی۔ مریم خود بہت مصروف رہتی تھی اور وہ تقریباً ویسی ہی زندگی گزار رہا تھا جیسی شادی سے پہلے تھی۔ بس اب فرق یہ آ گیا تھا کہ اس کے گھر میں ایک اور فرد کا اضافہ ہو گیا تھا اور پہلے وہ جن تقریبات میں اکیلا جاتا تھا اب مریم کے ساتھ جانے لگا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور ذالعید بڑی حد تک اس پر اور اس کے کام پر فخر بھی محسوس کرتا تھا۔ اپنی بہت ساری خامیوں کے باوجود اسے مریم سے محبت تھی اور اس کا خیال تھا کہ یہ محبت ہمیشہ قائم رہے گی۔
—–*—–
ذالعید اس دن دوپہر کو آفس سے گھر جانے کے لیے نکلا لیکن گھر جانے کے بجائے وہ بے مقصد سڑکوں پر گاڑی گھماتا رہا۔ مریم ایک نمائش میں شرکت کے لیے کراچی گئی ہوئی تھی اور وہ جانتا تھا، گھر میں اس وقت ملازموں کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہوگا۔
وہ ایک عجیب سے اضطراب کا شکار تھا۔ بہت دیر تک بے مقصد گاڑی چلانے کے بعد اس نے کچھ سوچ کر گاڑی کا رخ اندرون شہر کی طرف کر دیا۔
ماما جان دروازے پر اسے دیکھ کر حیران ہوئیں لیکن پھر ان کے چہرے اور آنکھوں میں وہی چمک نمودار ہو گئی جسے وہ ہمیشہ دیکھنے کا عادی تھا۔
”میں فارغ تھا، آپ سے ملنے آ گیا۔” ان کے ساتھ اندر جاتے ہوئے اسے اس کے علاوہ کوئی اور بہانا نہیں سوجھا۔
”مریم کیسی ہے؟ اسے بھی ساتھ لے آتے۔” ماما جان نے کہا۔
”وہ کراچی گئی ہوئی ہے، ایک نمائش کے سلسلے میں۔”
”تم ساتھ نہیں گئے؟”
”میں؟” ذالعید کچھ سوچنے لگا۔ ”میں مصروف تھا۔”
ماما جان اب برآمدے میں پہنچ چکی تھیں۔ برآمدے میں مٹی کے تیل کے چولہے پر ایک چھوٹی سی دیگچی چڑھی ہوئی تھی۔ وہ شاید دوپہر کا کھانا تیار کر رہی تھیں۔
”تم اندر بیٹھو۔ میں ابھی آتی ہوں۔” انہوں نے ذالعید سے کہا وہ کچھ کہے بغیر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔
نیم تاریک کمرے میں عجیب سی ٹھنڈک تھی۔ ذالعید نے پنکھے کا بٹن تلاش کر کے اسے آن کر دیا اور خود ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔ ماما جان اس کے لیے پانی لے آئیں۔ ”پانی پی لو، تمہیں پیاس لگی ہوگی۔”
ذالعید کو پیاس نہیں تھی مگر وہ چپ چپ پانی پینے لگا، ماما جان باہر چلی گئیں۔
پانی پینے کے بعد وہ بلا مقصد کمرے میں نظریں دوڑاتا رہا۔
”کھانا کھایا تم نے؟” وہ دوبارہ کمرے میں آ گئیں۔ ماما جان کے ہاتھ میں دسترخوان تھا۔
”کھانا؟… نہیں بھوک نہیں ہے مجھے۔” ذالعید نے کہا۔
وہ دسترخوان بچھانے لگیں۔ ”بھوک کیوں نہیں ہے؟” وہ نرمی سے پوچھ رہی تھیں۔
”پتا نہیں… میں کھانا باقاعدگی سے نہیں کھاتا۔” وہ اس کی بات سن کر باہر نکل گئیں۔




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!