”میں جانتا ہوں۔” وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے بولا۔ وہ چند لمحے اسی طرح اس کے پاس بیٹھی رہی۔ پھر اس نے اس کے سینے پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ اٹھایا اور اسی لمحے ذالعید کے سویٹر پر چپکے ہوئے کچھ بال اس کی نظر میں آ گئے۔ چند لمحوں کے لیے وہ ساکت ہو گئی۔ ذالعید آنکھیں بند کیے ہوئے تھا۔ مریم نے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے غیر محسوس انداز میں اپنے ہاتھ سے وہ بال اٹھا لیے۔ اس کی ہتھیلی پر، وہ چند لمبے سونے جیسے بال ٹیبل لیمپ کی روشنی میں اس کا منہ چڑانے لگے۔
اسے لگا وہ آسمان سے زمین پر آ گری ہے۔
—–*—–
اس رات مسز یزدانی کے ہاں ڈنر میں بار بار اس کا ذہن ان بالوں میں الجھتا رہا۔ وہ اس کی طبیعت کی خرابی بھی بھول گئی تھی اور اس کی سوجی ہوئی آنکھیں بھی۔ وہ اگر کسی چیز کے بارے میں سوچ رہی تھی تو ان سونے جیسے بالوں کے بارے میں۔
اسے ذالعید کے بارے میں کبھی کوئی شک نہیں ہوا تھا۔ اگرچہ شادی سے پہلے اس کی کچھ گرل فرینڈز تھیں مگر ان سے ذالعید کے تعلقات ایسے نہیں تھے جو اسے پریشان کر دیتے۔ ذالعید کی ضرورت سے کچھ زیادہ دلچسپی صوفیہ میں تھی مگر وہ شادی سے پہلے کی بات تھی اور صوفیہ اب انگیجڈ تھی۔
ذالعید طبیعتاً سنجیدہ اور ریزرو تھا اور ابھی ان کی شادی کو اتنا عرصہ نہیں ہوا تھا کہ وہ ذالعید سے ایسی کسی حماقت کی توقع کرتی۔ وہ خود شادی کے بعد اتنا مصروف ہو گئی تھی کہ ذالعید کی روٹین لائف کے بارے میں بھی بے خبر رہنے لگی تھی۔
صبح جس وقت وہ آفس جاتا وہ اس وقت سو رہی ہوتی۔ دوپہر کو وہ لنچ باہر ہی کیا کرتا اور رات کو جس وقت وہ گھر آتا وہ گھر پر موجود نہ ہوتی یا اکثر اس وقت باہر نکل رہی ہوتی اور جب رات گئے وہ واپس آتی تو وہ سو چکا ہوتا یا کبھی کبھار اپنے کسی نہ کسی دوست کے ہاں چلا جاتا مگر اس نے کبھی بھی اسے بے خبر نہیں رکھا تھا وہ جس دوست کے بھی پاس جاتا اسے مطلع ضرور کر دیتا۔
اور اب اچانک وہ بال… ”ہو سکتا ہے میرا وہم ہو۔ ذالعید ایسا نہیں ہے۔” وہ بار بار اپنے ذہن سے ا ن خیالات کو جھٹکتی رہی۔ کسی حد تک وہ اس کوشش میں کامیاب بھی ہو گئی۔ ڈنر کے بعد محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا تھا۔
رات کے ایک بجے جس وقت وہ واپس آئی اس وقت ذالعید لان میں بیٹھا ہوا تھا۔ سردی بہت بڑھ چکی تھی اور رات کے اس وقت اس سردی میں اسے وہاں بیٹھے دیکھ کر مریم کو ایک بار پھر تشویش ہونے لگی۔ وہ گاڑی سے اترتے ہی سیدھا اس کی طرف چلی گئی۔ وہ اسے آتا دیکھ چکا تھا لیکن اس نے اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسی طرح لان چیئر میں نیم دراز سگریٹ پیتا رہا۔ مریم اس کے اور قریب آئی تو اس نے اس کے اردگرد گھاس پر سگریٹ کے بہت سے ٹکڑے دیکھ لیے تھے۔ وہ پتا نہیں کب سے وہاں بیٹھا اسموکنگ کر رہا تھا۔
”ذالعید! تم اس وقت اتنی سردی میں یہاں کیا کر رہے ہو؟” اس نے اس کے سوال کا جواب ایک بار پھر اسی گہری خاموشی سے دیا۔
”تم اندر جاؤ، میںآ جاؤں گا۔” اس کے لہجے میں بھی ایک عجیب سی خنکی تھی۔ مریم اسے تشویش سے دیکھتی رہی۔
”میں نے کہا ہے نا، میں آ جاؤں گا۔ جاؤ یہاں سے تم۔” وہ یک دم بلند آواز میں چلایا۔
مریم کو یقین نہیں آیا کہ وہ اس پر چلا رہا تھا۔ اس نے آج تک ذالعید کو چلاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اسے غصہ آتا تو وہ خاموش ہو جاتا اور اس کی اس خاموشی کا عرصہ بھی بہت طویل نہیں ہوتا تھا اور اب وہ اس پر چلا رہا تھا۔مریم کو ایک بار پھر وہ سونے کی رنگت والے بال یاد آنے لگے۔ کچھ کہنے کے بجائے وہ خاموشی سے اندر چلی گئی۔
کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اس نے ایک بار پھر کھڑکی سے جھانک کر لان میں دیکھا۔ وہ اب بھی اسی طرح بیٹھا سامنے پڑی میز پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پی رہا تھا۔ مریم نے لائٹ آف کر دی۔ بیڈ پر لیٹتے ہوئے اپنی شادی شدہ زندگی کے ایک سال میں پہلی بار وہ عجیب سے خوف اور وہم کا شکار ہو رہی تھی۔
وہ رات کے کس پہر اندر آیا۔ اسے علم نہیں۔ وہ جب صبح بیدار ہوئی تو وہ بیڈ پر سو رہا تھا۔ مریم نے اسے جگانے کی کوشش نہیں کی۔ چھٹی کا دن تھا اور وہ جانتی تھی، آج وہ دیر تک سوتا رہے گا۔
ناشتے کی میز پر بھی وہ رات کے واقعات کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتی رہی۔ مگر اس کی یہ تمام پریشانی اس وقت غائب ہو گئی جب ذالعید نے جاگتے ہی اپنے رات کے رویے کے بارے میں اس سے معذرت کی۔ مریم نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اسے معاف کر دیا۔
اگلے چند ہفتے مریم بڑے محتاط طریقے سے اس کے معمولات دیکھتی رہی مگر اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اسی روٹین لائف کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ مگر وہ اب بہت خاموش ہو گیا تھا۔ ایک دو بار مریم کی اس کے کچھ بہت اچھے دوستوں سے فون پر بات ہوئی اور اسے پتا چلا کہ وہ اب ان سے بھی نہیں مل رہا۔
”شادی کے بعد وہ بہت بدل گیا ہے ،خاص طور پر پچھلے کچھ ہفتوں میں… بہت خاموش اورسنجیدہ ہو گیا ہے پہلے کی طرح ملتا جلتا بھی نہیں۔” اس کے ایک دوست نے مریم سے شکایت کی۔مریم خاموشی سے اس کی گفتگو سنتی رہی۔
ذالعید کی خاموشی یا سنجیدگی اس کے لیے پریشان کن نہیں تھی نہ ہی اس سے ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آ سکتی تھی، اس لیے مریم مطمئن ہو گئی۔
—–*—–
”میں ماما جان کو یہاں لانا چاہتاہوں۔” مریم اپنے چہرے کی کلینزنگ کرتے کرتے رک گئی۔
”کیا؟”
”میں ماما جان کو یہاں لانا چاہتا ہوں۔” ذالعید نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔ مریم نے ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھے بیٹھے اپنا رخ ذالعید کی طرف کر لیا۔
”کیوں؟” وہ واقعی حیران تھی۔
”وہ ہاں اکیلی ہوتی ہیں۔”
”وہ ہمیشہ سے اکیلی رہتی آ رہی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔”
”پہلے تم ان کے پاس ہوتی تھیں۔”
”مگر ایک سال سے وہ اکیلی رہ رہی ہیں اور انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔” وہ واقعی الجھ رہی تھی۔
”میں تمہارے آرام کے لیے کہہ رہا ہوں، وہ یہاں آ جائیں گی تو تم اچھا محسوس کرو گی۔”
”نہیں۔ مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ میں سب کچھ خود کر سکتی ہوں۔”
”تم ضد کیوں کر رہی ہو مریم؟” ذالعید نے الجھتے ہوئے کہا۔
”بات ضد کی نہیں ہے… میں نہیں چاہتی کہ وہ یہاں آئیں اور سب لوگ یہ کہیں کہ بیٹی کے ساتھ ماں بھی داماد کے گھر آ گئی ہے۔”
”سب لوگوں سے کیا مراد ہے تمہاری؟”
”تمہارے گھر والے۔”
”میرے گھر والے کچھ نہیں کہیں گے اور اگر کہیں گے بھی تو مجھے ان کی پروا نہیں ہے۔”
”مگر مجھے پروا ہے، ویسے بھی ماما جان یہاں رہنا کبھی پسند نہیں کریں گی۔” مریم نے بات کرتے کرتے اچانک ساری ذمہ داری ماما جان کے کندھوں پر منتقل کر دی۔
”ان سے میں بات کر لوں گا۔ تم ان کی فکر نہ کرو۔” ذالعید کچھ مطمئن نظر آنے لگا۔
”نہیں ذالعید! یہ مناسب نہیں ہے۔”
”اس میں کیا چیز نامناسب ہے، میں اپنی مرضی سے انہیں یہاں رکھنا چاہتا ہوں۔” اس بار اس نے قدرے ترش انداز میں کہا۔
”تم کیوں اس چیز پر اتنا اصرارکر رہے ہو جو مجھے ناپسند ہے۔” مریم نے بلند آواز میںکہا۔
”میں تم سے بحث کرنا نہیں چاہتا، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ماما جان یہاں آ جائیں۔”
”لیکن میں یہ نہیں چاہتی اور نہ ہی یہ ہونے دوں گی۔ وہ چند دنوں کے لیے رہنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن مستقل طور پر ان کو یہاں رہنے کی اجازت میں نہیں دوں گی۔” مریم نے قطعی لہجے میںکہا۔
”اجازت؟ تم سے اجازت کون مانگ رہا ہے؟” وہ اس بار اس کی بات پر بری طرح بھڑکا۔ ”یہ میرا گھر ہے میں جسے چاہوں یہاں لا کر رکھ سکتا ہوں۔ مجھے ایسا کرنے کے لیے تمہاری اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔” وہ ذالعید کے لب و لہجے پر حیران رہ گئی۔ وہ اتنی بلند آواز میں بات نہیں کرتا تھا اوراب وہ ماما جان کے لیے اس طرح چلاّ رہا تھا۔ مریم کو بے تحاشا غصہ آیا۔
کیا اس شخص کو مجھ سے زیادہ میری ماں کی پروا ہے۔ اسے میری پسند ناپسند کی پروا نہیں ہے۔ اسے اپنے ہونے والے بچے کی فکر بھی نہیں ہے، اسے خیال ہے تو صرف ماما جان کا… کیوں؟
”یہ صرف تمہارا گھر نہیں ہے، میرا بھی گھر ہے اور میں جانتی ہوں کہ یہاں کس کو آنا چاہیے اور کس کو نہیں۔ ماما جان جان پچھلے اکیس سال سے اس گھر میں رہ رہی ہیں اور اب تمہیں یک دم انہیں یہاں لانے کا بھوت سوار ہو گیا ہے۔ کیوں؟ آخر تمہارا ان کے ساتھ رشتہ کیا ہے؟ کیا مجھ سے زیادہ سگے ہو تم ان کے… بیوی کی ماں کے لیے تم بیوی پر چلاؤ گے۔ کون کہہ رہا ہے تمہیں اتنی انسانی ہمدردی دکھانے کے لیے۔” وہ تلخ لہجے میں بے اختیار کہتی چلی گئی۔
ذالعید نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے اٹھ کر کمرے سے چلا گیا۔
—–*—–
اگلے چند دن ان دونوں کے درمیان بول چال بند رہی اور مریم کی جھنجھلاہٹ بڑھتی رہی۔ وہ توقع نہیں کر سکتی تھی کہ ذالعید اس طرح کی بات پر اس سے ناراض ہو جائے گا۔
اس گھر میں نہ ہونے کے باوجود ذالعید پر ان کا اتنا اثر ہو گیا ہے اور انہیں اس گھر میں لا کر تو وہ بالکل ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ”میں اتنی احمق تو نہیں ہوں کہ اپنی ساری کشتیاں اپنے ہاتھ سے جلا دوں۔ میں ماما جان کی فلاسفی پر چلنے والے کسی شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی۔ وہ پہلے ہی میری زندگی میں بہت زیادہ دخل اندازی کر رہی ہیں۔ اب انہیں چوبیس گھنٹے کے لیے لا کر میں سر پر تو نہیں بٹھا سکتی اور انہیں خود احساس ہونا چاہیے، کیا بیٹی کے گھر آ کر رہ لیں گی وہ…؟ اور ذالعید یہ کس طرح کا آدمی ہے…؟ کس طرح کی بوڑھی روح اس کے اندر سما گئی ہے…؟ ماما جان، ماما جان… آخر کیا جادو کر دیا ہے ماما جان نے اس پر…؟ ایسے کون سے تعویذ گھول کر پلا دیے ہیں کہ اسے ان کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آ رہا؟ ان کی بات ذالعید کے لیے پتھر پر لکیر کیوں ہو جاتی ہے؟ پچھلے ایک سال میں ایک بار بھی یہ شخص مجھ سے ناراض نہیں ہوا اور اب اگر ناراض ہوا ہے تو وہ بھی ماما جان کی وجہ سے… کیا ماما جان اس کے لیے مجھ سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں… آخر کیوں؟ ایسا کیا ہے ان میں…؟”
وہ جتنا سوچتی رہی، اتنا ہی الجھتی گئی اور اس کا یہ اضطراب اور الجھن ہی اسے ماما جان کے پاس لے گئی تھی۔
”ذالعید ضد کر رہا ہے کہ میں آپ کو اپنے گھر لے آؤں مگر آپ خود سوچیں ماما جان! میں یہ کیسے کر سکتی ہوں۔ ٹھیک ہے سسرال والوں کے ساتھ نہیں رہتی مگر پھر بھی انہیں میرے گھر میں ہونے والے ہر معاملے کے بارے میں پتا چلتا رہتا ہے۔ آخر ایک ہی سڑک پر تو گھر ہے میرا اور ان کا۔ وہ کیا کہیں گے کہ میں اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی ہوں، وہ تنقید کریں گے مجھ پر۔ پہلے ہی شادی کی وجہ سے وہ خفا ہیں، اب ان کی ناراضگی مزید بڑھ جائے گی۔ آپ تو اندازہ لگا سکتی ہیں ساری صورتِ حال کا مگر ذالعید کچھ بھی سمجھنے پر تیار نہیں۔ اس نے اس بات پر جھگڑا کیا ہے مجھ سے اور پچھلے ایک ہفتے سے مجھ سے بات تک نہیں کر رہا۔” اس دن ماما جان کے پاس جا کر اس نے اپنے جھگڑے کی تمام تفصیلات انہیں بتا دیں۔
وہ چپ، بے تاثر چہرے کے ساتھ اس کی باتیں سنتی رہیں۔ جب وہ خاموش ہوئی تو انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
”تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ذالعید کو سمجھا دوں گی، وہ ضد نہیں کرے گا۔”
”اس نے آپ سے بات نہیں کی؟” مریم کو کچھ تجسّس ہوا۔
”اس نے چند ہفتے پہلے بات کی تھی۔ میں نے اس سے کہا تھا وہ پہلے تم سے بات کرے، اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہوا تو پھر میں تم لوگوں کے ہاں آ جاؤں گی۔”
”دیکھیں ماما جان! مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میرے لیے تو ظاہر ہے یہ بہت خوشی کی بات ہوگی کہ آپ میرے پاس آ کر رہیں۔ اس طرح آپ کی تنہائی بھی ختم ہو جاتی اور میں بھی آپ کے بارے میں مطمئن رہتی لیکن میرے سسرال والے… آپ تو اندازہ لگا سکتی ہیں…” مریم نے فوراً صفائیاں دینا شروع کر دیں۔ ماما جان نے نرمی سے بات کاٹ دی۔
”میں اندازہ لگا سکتی ہوں مریم! تم بالکل ٹھیک کہتی ہو۔ میں تمہاری سچویشن کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔” مریم نے اطمینان بھری سانس لی۔ ماما جان کے سامنے اس نے اپنی پوزیشن کلیئر کر دی تھی۔
”پھر آپ ذالعید سے بات کریں گی؟” مریم نے فوراً کہا۔
”ہاں، میں اس سے بات کروں گی، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” انہوں نے اسے تسلی دی۔
”آپ اسے یہ مت بتائیں کہ میں نے آپ سے یہ ساری گفتگو کی ہے، میں نہیں چاہتی کہ وہ اور ناراض ہو جائے۔” مریم کو یک دم خیال آیا۔
”میں اسے نہیں بتاؤں گی۔” ماما جان نے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی۔
وہ نہیں جانتی تھی ماما جان نے اس سے کیسے اور کیا کہا تھا مگر اس رات ایک ہفتے کے بعد پہلی بار ذالعید نے اس سے معمول کے مطابق گفتگو کی تھی۔ اس کے انداز سے یہ بالکل نہیں لگتا تھا کہ ان کے درمیان ایک ہفتہ پہلے کوئی جھگڑا ہو چکا تھا۔
مریم نے کھانے کی میز پر اس سے باتیں کرتے کرتے ایک بار پھر ماما جان کے قیام کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر بتانا چاہا مگر ذالعید نے اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔
”اس موضوع پر دوبارہ ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوگی۔ میں نہیں چاہتا اس موضوع پر بات ہو اور ہمارے درمیان دوبارہ جھگڑا ہو۔ تم نے ایک فضول اور غلط ضد کی ہے۔ اس معاملے میں میں کبھی بھی تمہارے پوائنٹ آف ویو کو صحیح نہیں مان سکتا۔ اس لیے تم مجھے قائل کرنے کی ناکام کوشش مت کرو۔ تمہاری ضد تھی ماما جان یہاں نہ آئیں، میں نے تمہاری خواہش کا احترام کیا ہے۔ پھر اب اس پر بے کار بحث کی کیا ضرورت ہے۔ بہتر ہے ہم آئندہ اس معاملے پر بات نہ کریں۔” اس کا لہجہ حتمی تھا اور مریم چاہتے ہوئے بھی اپنی بات جاری نہیں رکھ سکی۔
ذالعید نے واقعی دوبارہ کبھی ماما جان کے قیام کے بارے میں بات نہیں کی اور مریم اس پر خوش تھی۔ اچھے طریقے سے یا برے طریقے سے بہرحال وہ اپنی بات منوانے میں کامیاب رہی تھی۔
—–*—–
”میں اس کا نام زینب رکھنا چاہتا ہوں۔” ہاسپٹل سے گھر آنے کے تیسرے دن ذالعید نے مریم سے کہا۔ وہ اس وقت اپنی بیٹی کو اٹھائے ہوئے تھا۔
”کم آن ذالعید! اس قدر پرانا اور آؤٹ ڈیٹڈ نام… اس سے بہتر نام ہیں، ہم ان میں سے کوئی منتخب کر لیں گے۔” مریم نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں میں اس کا نام زینب ہی رکھنا چاہتا ہوں۔” ذالعید نے اصرار کیا۔
”زینب!” وہ چونک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ذالعید اپنی بیٹی کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھا۔
”کیا ماما جان نے تمہیں اس کا نام زینب رکھنے کے لیے کہا ہے؟” اس بار مریم کا لہجہ سرد تھا۔ ذالعید نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”نہیں۔ میں خود یہ نام رکھنا چاہتا ہوں۔”
”کیوں اس نام میں کیا خاص بات ہے؟”
”مجھے یہ نام اچھا لگتا ہے، بس اتنی سی بات ہے۔”
”لیکن مجھے یہ نام پسند نہیں ہے اور میرا خیال ہے کہ ماں ہونے کے ناتے میرا اتنا حق ضرور ہے کہ میں اپنی اولاد کا نام خود رکھوں اور میں اس کا نام زینب نہیں رکھنا چاہتی۔”
”تو ٹھیک ہے، تمہیں جو نام پسند ہو، تم اس نام سے اسے پکار لیا کرو مگر میرے لیے یہ زینب ہے۔ کوئی اور نام میں اسے نہیں دوں گا۔”
مریم کے دل میں پڑی ہوئی گرہوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔ ذالعید نے اس کا نام زینب ہی رکھا تھا اور ہر بار جب وہ اسے اس نام سے پکارتا تو مریم کی ناراضی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ اسے یقین تھا کہ ذالعید نے اس سے جھوٹ بولا تھا۔ اور اس نے یہ نام ماما جان کے کہنے پر ہی رکھا تھا۔
—–*—–