لاحاصل — قسط نمبر ۱

اس نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر اپنے سامنے دیکھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی چھت پر تھی، کسی بلندی پر۔ ہوا کے خوشگوار جھونکے اس کے جسم کو سہلا رہے تھے۔
—–*—–
پروفیسر عباس کے کمرے میں اس دن مریم سے بات شروع کرتے ہوئے ذالعید کو اس سے جو توقعات تھیں، وہ گفتگو کے دوران ختم ہو گئیں۔ پروفیسر عباس نے اس کی باتیں اور پروجیکٹ کی کچھ تفصیلات سننے کے فوراً بعد مریم کا نام اس کے سامنے لیا۔ ذالعید کا خیال تھا کہ انہوں نے کسی بہت ہی قابل اور آؤٹ سٹینڈنگ سٹوڈنٹ کا نام لیا ہوگا مگر مریم سے بات کرتے ہوئے وہ مسلسل مایوسی کا شکار ہو رہا تھا۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا کہ وہ اس کی بات ٹھیک سے سن رہی ہے یا نہیں۔ سمجھنا تو دور کی بات تھی، وہ اس کی بات سنتے ہوئے کبھی کبھار اس کے چہرے پر نظر دوڑا لیتی، وگرنہ زیادہ تر وقت وہ اپنے سامنے پڑی میز کی شفاف سطح پر انگلیاں پھیرتی رہی۔ وہاں سے اس کا دھیان ہٹتا تو وہ کرسی کے ہتھے کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے کھرچنے لگتی اور پھر یک دم دیوار پر لگی ہوئی ایک پینٹنگ کی طرف متوجہ ہو جاتی۔ اس کی نظریں اس آدھ گھنٹہ کے دوران کسی ایک چیز پر مرکوز نہیں رہیں۔
ذالعید کو یوں محسوس ہوا جیسے کمرے میں موجود ہر چیز اسے ذالعید اور اس کے پروجیکٹ سے زیادہ دلچسپ محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ بات شروع کرے گا تو وہ اپنا Concept واضح کرنے کے لیے اس سے سوال کرتی جائے گی۔ مگر وہ بالکل گونگی بنی بیٹھی رہی۔ ذالعید کی پوری گفتگو کے دوران اس نے ہوں ہاں تک نہیں کی۔ ذالعید نے اس کے انداز کو پسند نہیں کیا۔
”ارتکاز توجہ کی کمی۔” ذالعید کی اس کے بارے میں یہ رائے تھی۔
”اور Concentration کے بغیر یہ کام کیسے کرے گی۔ کم از کم اس طرح کا کام تو یہ نہیں کر پائے گی جو میں چاہتا ہوں۔ ایک ڈیزائن میں اگر اسّی دفعہ میں نے تبدیلی کروائی اور اسے آٹھ گھنٹے لگاتار بیٹھ کر کام کرنا پڑا تو یہ تو سب کچھ بیچ میں چھوڑ کر بھاگ جائے گی اور بات سنتے ہوئے جس کا دھیان میری طرف نہیں ہے کام کے دوران کیسے ہوگا۔” وہ اپنی بات ختم کرنے تک یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ اس کام کے لیے موزوں نہیں ہے مگر اسے دقّت یہ ہو رہی تھی کہ اس نے پروفیسر عباس سے اس معاملے میں کسی اسٹوڈنٹ کا نام دینے کے لیے کہا تھا اور انہوں نے اس کا نام دیا تھا۔
ان کے سامنے بیٹھے ہوئے وہ اس سے صاف صاف یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ اس سے مایوس ہوا ہے اور اس سے کام کروانا نہیں چاہتا۔ کام نہ کروانے کے بارے میں اس کا فیصلہ اس وقت اور حتمی ہو گیا جب اس نے مریم کو کوئی سوال پوچھنے کے لیے کہا اور بجائے اس کے کہ وہ اس کام کے حوالے سے کوئی سوال کرتی اس نے ڈائریکٹ معاوضہ کے بارے میں پوچھا۔ ذالعید بہت جھنجھلایا… ایسا نہیں تھا کہ وہ مفت میں کام کروانا چاہتا تھا یا اس سلسلے میں بات کرنے پر تیار نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا وہ این سی اے سے جس کو بھی ہائر کرے گا وہ بہت اچھا معاوضہ ڈیمانڈ کرے گا اور اسے ایسی کسی ڈیمانڈ پر کوئی اعتراض بھی نہیں تھا مگر سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی نے کام کے بارے میں ایک لفظ بھی پوچھنے کے بجائے صرف معاوضے کے بارے میں پوچھا تھا۔
”کام کی طرف جس کی پروفیشنل اپروچ یہ ہو اس کے لیے Job satisfaction (کام سے ملنے والی تسکین) کیا معنی رکھتی ہوگی؟ وہ اور مایوس ہوا اور ایسا شخص کس حد تک مخلص ہو کر کام کر سکتا ہے؟”
ذالعید نے اسے اپنے آفس کا کارڈ ضرور دے دیا مگر وہ اس سے نہ ملنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ وہ خواہ مخواہ اس سے ایک ملاقات اور کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب وہ اس کو ہائر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے پروفیسر عباس کو کچھ اور اسٹوڈنٹس سے ملوانے کے لیے بھی کہا۔
”ذالعید تم پہلے مریم کا کام دیکھ لو۔ مجھے امید ہے، تمہیں کسی اور کو تلاش نہیں کرنا پڑے گا۔” اسے مریم پر ان کے اعتماد پر حیرت ہوئی۔
”سر! میں ان کا کام دیکھ لوں گا مگر میں چاہتا ہوں کہ میں ساتھ ہی کچھ اور لوگوں سے بھی مل لوں۔ کیونکہ میرے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ اگر مجھے مریم کا کام پسند نہیں آیا تو مجھے ایک بار پھر سے یہ تلاش شروع کرنی پڑے گی۔ میں اس چیز سے بچنا چاہتا ہوں۔” اس نے ان کے سامنے توجیہہ پیش کی۔
”مجھے یقین ہے کہ تمہیں مریم کا کام پسند آ جائے گا۔ مگر ٹھیک ہے میں تمہیں کچھ اور لوگوں سے بھی ملوا دیتا ہوں۔”
پروفیسر عباس نے باری باری اسے چھ سات دوسرے اسٹوڈنٹس سے بھی ملوایا۔ ذالعید ان لوگوں سے بات کر کے خاصا مطمئن ہوا۔ اس نے ان لوگوں کے ساتھ اپائنٹمنٹس طے کر لی تھیں۔ اگلے دو تین دن میں وہ اس کام سے فارغ ہو جانا چاہتا تھا۔





دوسرے دن مریم کے آفس میں آنے سے پہلے وہ وہاں سے چلا گیا۔ وہ اب اسے کسی نہ کسی طرح ٹالنا چاہتا تھا اور اس وقت مریم کے لیے اس کی ناپسندیدگی اور بڑھ گئی۔ جب تیسرے دن وہ صبح صبح اس کے گھر پہنچ گئی۔
وہ اس وقت نہا کر نکلا تھا جب ملازم نے اسے مریم نامی ایک لڑکی کے آنے کی اطلاع دی۔ اسے بے اختیار غصہ آیا۔
”کس طرح کی فیملی سے تعلق رکھتی ہے، یہ منہ اٹھا کر صبح صبح گھر پہنچ گئی۔ اسے دعوت کس نے دی ہے یہاں آنے کی۔” وہ اب اس سے چڑنے لگا تھا۔
”اس سے جا کر کہہ دو کہ اس کو آفس میں بلایا ہے، وہیں آئے۔ یہاں گھر پر میں اس سے نہیں ملوں گا۔” اس نے تمام مینرز کو بالائے طاق رکھے ہوئے انتہائی درشت آواز میں ملازم کو ہدایت دی۔
فیکٹری پہنچنے کے بعد بھی درخشاں کے یاد دلانے کے باوجود اس نے مریم کے لیے کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھی۔ اس کا خیال تھا کہ صبح کے رویے کے بعد وہ فیکٹری نہیں آئے گی اور وہ اس سے جان چھڑانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مگر وہ ایک بار پھر وہاں آ گئی۔ اس وقت ولید اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، جب درخشاں نے اسے اس کی آمد کے بارے میں اطلاع دی اور ولید کو وہ این سی اے کے ان تمام لوگوں سے ملاقات کے بارے میں بتاتا رہا تھا۔ وہ مریم کے بارے میں بھی جانتا تھا۔
”تم اس سے کہہ دو کہ چند دن بعد آئے اور چند دن بعد جب وہ آئے تو تم اسے بتا دینا کہ تم کسی کو ہائر کر چکے ہو۔” ولید نے اسے مشورہ دیا اور اس نے اس پر عمل کیا۔ اسے یقین تھا یہ مشورہ کارگر ثابت ہوگا۔
اگلے دن وہ ایک لوکل آرٹ گیلری میں این سی اے کے کچھ سٹوڈنٹس کی پینٹنگ کی نمائش دیکھنے گیا۔ صوفیہ کی کچھ پینٹنگز بھی نمائش میں رکھی ہوئی تھیں اور وہ اس کی دعوت پر اس کے ساتھ گیا تھا۔ اس کا خیال تھا، وہ اپنے آفس اور ایڈمنسٹریٹو بلاک کے لیے کچھ پینٹنگ خریدے گا۔ نمائش میں شام کے وقت خاصے لوگ موجود تھے۔ زیادہ تر این سی اے کے اسٹوڈنٹس ان کے فرینڈز اور فیملی ممبرز تھے یا پھر لاہور کے کچھ دوسرے اداروں کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس… وہ ایسی نمائشوں میں آتا جاتا رہتا تھا۔ اس لیے ان حلقوں میں کافی لوگوں سے اس کی شناسائی تھی۔ صوفیہ کچھ دیر وہاں اس کے ساتھ رہی پھر وہ اپنے کچھ جاننے والوں کے پاس چلی گئی۔ جبکہ ذالعید گھوم پھر کر تصویریں دیکھنے لگا۔ ہر اسٹوڈنٹ کی سات آٹھ سے زیادہ تصویریں نہیں تھیں اور اگرچہ یہ تین دن پر مشتمل نمائش کا پہلا دن تھا، مگر پھر بھی بہت ساری تصویروں کے نیچے Sold (فروخت شدہ) کے ٹیگز لگ چکے تھے۔
صوفیہ کی ایک تصویر سمیت اس نے بھی کچھ تصویروں کا انتخاب کیا جنہیں وہ خریدنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ گیلری کا اب صرف ایک کونہ رہ گیا تھا۔ جہاں وہ نہیں گیا کیونکہ وہاں اس نے بہت زیادہ رش دیکھا تھا اور اس کا خیال تھا کہ جب رش کچھ کم ہوگا تو پھر وہ ادھر جائے گا۔ مگر اسے حیرت ہوئی کہ وہاں اس پورے عرصہ کے دوران رش کم نہیں ہوا۔
وہ جس وقت ادھر گیا، اس وقت بھی وہاں خاصا رش تھا اور ذالعید کو توقع تھی کہ وہاں کسی اچھے آرٹسٹ کا کام ہوگا مگر پہلی تصویر پر نظر ڈالتے ہی وہ ساکت رہ گیا۔ “UM-ME” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔ وہ آرٹسٹ کا نام دیکھے بغیر جان گیا تھا کہ وہ کس کا کام ہے۔ ایک سال پہلے خریدی گئی ان دو تصویروں نے اسے اس آرٹسٹ کے کام اور سٹائل کے بارے میں اچھی خاصی شناسائی دے دی تھی۔ اس نے ایک دم آگے بڑھ کر تصویر پر آرٹسٹ کا نام ڈھونڈا۔ وہ اپنے اندازے کی تصدیق کرنا چاہتا تھا اور اس کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔
دیوار پر ایک ہی رو میں آٹھ تصویریں لگی ہوئی تھیں اور ان میں سے کچھ تصویروں پر وہاں اچھی خاصی ڈسکشن ہو رہی تھی۔
”میں اس آرٹسٹ سے ملنا چاہتا ہوں۔ عباد! یہ کون ہے۔” ذالعید نے ایک نظر ان تمام تصویروں پر ڈالنے کے بعد وہاں موجود این سی اے کے ایک شناسا اسٹوڈنٹ سے کہا۔
”یہ اُمّ مریم کی تصویریں ہیں… این سی اے کی سٹوڈنٹ ہیں۔ آج تو آئی نہیں ہیں۔” عباد نے اسے بتایا۔
”اُمّ مریم!” ذالعید نے نام دہرایا۔
”بہت آؤٹ سٹینڈنگ کام ہے مگر پہلے کبھی میں نے نمائش میں ان کی تصویریں نہیں دیکھیں۔” ذالعید نے کچھ تجسس سے پوچھا۔
”ہاں پہلی بار انہوں نے اپنی تصویریں اس طرح نمائش کی ہیں۔ پتا نہیں پہلے کبھی انہوں نے کیوں نہیں کی۔ حالانکہ ان کا کام اتنا اچھا ہے اور اس میں اتنی ویری ایشن ہے کہ یہ تو اپنی تنہا نمائش بھی کروا سکتی ہیں۔ این سی اے کے بہترین اسٹوڈنٹس میں سے ہیں یہ… دو چار اسٹوڈنٹس جن کے بارے میں ہمارے پروفیسرز بہت پرُامید ہیں کہ یہ آگے چل کر اپنی فیلڈ کا ایک بڑا نام ہوں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ پینٹنگ ہی ان کا میجر سبجیکٹ ہے اور منی ایچر مائنر سبجیکٹ ہے اسی لیے ان کی پینٹنگز میں ہر چیز بہت Detail میں ہے۔ آپ نے اپنے پروجیکٹ کے سلسلے میں ان سے بات کیوں نہیں کی؟ یہ تو پچھلے دو تین سال میں اچھا خاصا کام کر چکی ہیں۔ پروجیکٹس کے حوالے سے بہت اچھی شہرت ہے ان کی۔”
عباد نے اس کے بارے میں کافی تفصیل سے بتانا شروع کر دیا۔ ذالعید کو یک دم بہت زیادہ خوشی اور اطمینان کا احساس ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ واقعی اپنا پروجیکٹ اسی لڑکی سے کروانا چاہتا تھا اور اس کو اس سے ملے بغیر بھی یہ یقین تھا کہ وہ اس کے آئیڈیاز کو سمجھ سکتی ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ وہاں موجود اس کی تمام تصویریں خرید لے مگر انکوائری پر اس کو پتا چلا کہ اس کی چار تصویریں بک چکی ہیں۔ اسے یہ جان کر تسلی ہوئی کہ چار عناصر کی سیریز ابھی نہیں بکی تھی۔ زمین، آگ، ہوا، پانی… اس نے ان چاروں تصویروں کے لیے ادائیگی کر دی۔
صوفیہ جب مقررہ وقت پر اس کے ساتھ واپس جانے کے لیے باہر پارکنگ کی طرف آئی تو اس نے ذالعید کو خاصا مسرور پایا۔
”کیسا لگا تمہیں میرا کام؟” اس نے ساتھ چلتے ہوئے ذالعید سے پوچھا۔
”بہت اچھا… میں نے تمہاری ایک تصویر خریدی ہے۔” اس نے مسکراتے ہوئے صوفیہ کو بتایا۔ وہ دلکش انداز میں ہنسی۔
”میری ساری تصویریں بک گئی ہیں، مگر تمہیں خریدنے کی کیا ضرورت تھی، تم بتا دیتے۔ میں تمہیں یہ تصویر گفٹ کر دیتی۔”
”تھینک یو ویری مچ… اگلی دفعہ تم مجھے گفٹ کر دینا۔ اس بار تو میں ادائیگی کر چکا ہوں۔” ذالعید نے خوش دلی سے کہا۔
”اور کتنی پینٹنگز… خریدی ہیں تم نے؟”
صوفیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔ وہ اب گاڑی میں بیٹھ گئے تھے۔
”چھ اور خریدی ہیں… چار ایک آرٹسٹ کی اور دو دوسرے دو آرٹسٹوں کی۔” ذالعید نے گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے کہا۔
”یہ خوش نصیب آرٹسٹ کون ہے، جس کی تم نے چار پینٹنگز خرید ڈالیں؟” صوفیہ کو تجسس ہوا۔
”میں تو آٹھ کی آٹھ خریدنا چاہ رہا تھا مگر چار پہلے ہی بک چکی تھیں۔ ام مریم کی۔”
”اوہ…” صوفیہ کے منہ سے نکلا۔
”اس کے کام نے وہاں موجود سارے کام کو آؤٹ کلاس کر دیا ہے۔ کم از کم میں نے پچھلے پانچ سال میں کئی نئے آرٹسٹ کے کام میں اتنی گہرائی اور پرفیکشن نہیں دیکھی۔” ذالعید نے بڑے صاف لفظوں میں اس کو سراہا اور صوفیہ کے چہرے پر کچھ دیر پہلے موجود مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
”خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے وہ اچھا کام کرتی ہے مگر وہاں موجود باقی لوگوں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔” اس نے کچھ سرد لہجے میں کہا۔
”نہیں۔ مجھے باقی لوگوں کا نام Run-of-the-mill لگا ہے۔ پینٹنگ بنا لینا کوئی بڑا کام نہیں ہوتا مگر بڑا کام یہ ہے کہ کلرز اور تھیم کے ساتھ تجربے کیے جائیں، کچھ نئی چیزیں سامنے لائی جائیں اور اس کے کام میں وہ نیا پن ہے۔”
”ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ میرا کام اچھا ہے…” ذالعید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ہاں، تمہارا کام اچھا ہے مگر اُمّ مریم She is matchless (اس کا کوئی ثانی نہیں)” ذالعید نے حتمی لہجے میں کہا۔
اس کی تصویر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ پیور ٹیلنٹ ہے۔ وہ کہتے ہیں ناکہ پیدائشی فنکار مجھے یہ نہیں پتا کہ وہ اپنی پینٹنگز پر محنت کتنی کرتی ہے مگر مجھے یقین ہے کہ محنت کے بغیر بھی وہ بہت اچھا کام کر سکتی ہے، کیونکہ اس کی صلاحیت خداداد ہے۔” صوفیہ نے اس بار کچھ نہیں کہا وہ بالکل خاموش رہی۔
”صوفیہ! میں سوچ رہا ہوں کہ میں اپنا پروجیکٹ اس سے کرواؤں مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ وہ چیز ویژولائز کر سکتی ہے جو میرے ذہن میں ہے۔”
”مگر ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”کوئی بات نہیں۔ وہ آرٹسٹ تو ہے۔ پیٹرن بنانا اس کے لیے کیک واک ہو گی اور کلرز کے جوشیڈز یہ استعمال کرتی ہے مجھے یہی چاہئیں۔ میں چاہتا ہوں تم میرا اس سے کانٹیکٹ کرواؤ فون نمبر لے دو یا ملوا دو تم تو جانتی ہو گی اسے۔”
”ہاں میں جانتی ہوں… اچھا کام کرتی ہے مگر خاصا نخرا ہے اس میں بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ اپنے کام کے حوالے سے اس کی گردن میں خاصا سریا ہے… تمہاری طرح پروفیسرز بھی اسے اچھا خاصا چڑھاتے رہتے ہیں اور اسے یہ گمان ہو چکا ہے کہ اس کے علاوہ این سی اے میں کوئی اچھا کام نہیں کرتا۔ خوش اخلاقی یا مروت ٹائپ کی کوئی چیز نہیں ہے اس میں۔”
صوفیہ نے اس کے بارے میں اپنے خیالات کا بڑی صاف گوئی سے اظہار کیا۔ ذالعید بے اختیار مسکرایا۔
”یار قدرتی بات ہے جو بھی اچھا آرٹسٹ ہوگا چاہے وہ ایکٹر ہو، سنگر ہو یا پھر پینٹر اس میں تھوڑا بہت نخرا تو ہوگا اور میرا خیال ہے کہ یہ نخرا اٹھانا چاہیے۔ پوری دنیا میں اچھے آرٹسٹ کے ناز اٹھائے جاتے ہیں اور مجھ میں خاصی برداشت ہے میں اسے اچھی طرح ڈیل کر لوں گا۔”
”وہ ابھی اتنی بڑی آرٹسٹ نہیں ہے کہ لوگ اس کے نخرے اٹھائیں۔ این سی اے سے باہر ابھی کون جانتا ہے اسے… اس جیسے لاکھوں ہوتے ہیں اب کیا بندہ لاکھوں کے نخرے اٹھائے۔”
”اچھا یار! تم میرا اس سے کانٹیکٹ تو کرواؤ… پھر دیکھیں گے کہ کیا صورت حال بنتی ہے۔”
ذالعید نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، اسے صوفیہ کی خفگی کا اندازہ ہونے لگا تھا۔
”میں رابطہ کروا دوں گی مگر چند ہفتے پہلے ایک دن اس کے سامنے میں نے اس کی کچھ فرینڈز کے ساتھ تمہارے اس پروجیکٹ کے بارے میں بات کی تھی۔ اس وقت مریم نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ہو سکتا ہے وہ انٹرسٹڈ نہ ہو۔” صوفیہ کو چند ہفتے پہلے آئزہ اور مریا کے ساتھ ہونے والی گفتگو یاد آئی۔
”پھر بھی ایک بار باقاعدہ طور پر بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ میں صبح این سی اے آ جاؤں؟”
”ہاں ٹھیک ہے، آ جانا میں تمہارا انتظار کروں گی۔”
—–*—–
مگر اگلے دن جب وہ این سی اے گیا تو صوفیہ نے اسے بتایا کہ اُمّ مریم تین دن کی چھٹی پر ہے۔ ذالعید کو کچھ مایوسی ہوئی۔
”اس کا فون نمبر اگر مل جائے تو میں اس سے فون پر بات کر لیتا ہوں۔” اس نے صوفیہ سے کہا۔
”میں نے اس کی فرینڈز سے اس کا فون نمبر پوچھا تھا مگر انہیں پتا نہیں ہے۔” ذالعید سوچ میں پڑ گیا۔
”تمہارا کیا خیال ہے آج وہاں نمائش میں آنے کا کوئی امکان ہے اس کا؟”
”مجھے نہیں پتا… شاید…” صوفیہ نے کندھے اچکائے۔
”تم تو جا رہی ہو وہاں ،اگر وہ وہاں آئے تو پھر تم مجھے رنگ کر دینا۔ میں آ جاؤں گا۔” ذالعید نے اس سے کہا۔
”ٹھیک ہے۔” صوفیہ نے ہامی بھری۔
مگر وہ اس دن نمائش میں بھی نہیں آئی۔ تیسرے دن رات کو ذالعید نمائش سے اپنی خریدی ہوئی تصویریں لینے گیا۔ وہ تمام تصویروں کی ادائیگی پہلے ہی کر چکا تھا اب نمائش کے اختتام پر اسے اپنی تصویریں لینی تھیں، مگر اس وقت اسے شاک لگا جب سات تصویروں کے بجائے اسے صرف تین تصویریں دی گئیں۔ ان میں اُمّ مریم کی چاروں تصویریں نہیں تھیں۔
”اس میں اُمّ مریم کی تصویریں نہیں ہیں۔” اس نے اس آدمی کو یاد دلایا۔
”ہاں وہ کسی اور نے خرید لی ہیں۔”
”کیا مطلب… میں ان تصویروں کی قیمت ادا کر چکا ہوں۔” وہ چونکا۔
”وہ رقم میں آپ کو دے دیتا ہوں۔ وہ میرے پاس ہے۔” اس آدمی نے میز کی دراز سے ایک لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ذالعید نے وہ لفافہ نہیں لیا۔
”مجھے یہ رقم نہیں چاہیے، مجھے وہ تصویریں چاہیں… میری خریدی ہوئی تصویریں آپ کسی دوسرے کو کیسے دے سکتے ہیں۔” اس نے خشک لہجے میں اس آدمی سے کہا۔
”ہم نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ اُمّ مریم نے کل فون پر ہم سے اپنی تصویروں کے بارے میں پوچھا تھا۔ ہم نے انہیں بتا دیا کہ ان کی تمام تصویریں بک گئی ہیں اور ہم نے یہ بھی بتایا کہ چار تصویریں ایک ہی آدمی نے خریدی ہیں۔ انہوں نے نام پوچھا تو ہم نے آپ کا نام بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو تصویریں بیچنا نہیں چاہتیں۔ ہم آپ کے بجائے کسی اور کو وہ تصویریں بیچ دیں چاہے کم قیمت پر ہی… اور اگر کسی نے نہ خریدیں تو پھر وہ ان تصویروں کو واپس لے جائیں گی اس لیے کل ہم نے سولڈ کے ٹیگز اتار دیے اور کل ہی وہ چاروں تصویریں بک گئیں۔ آج وہ لوگ اپنی تصویریں لے گئے۔”
وہ ہکا بکا اس شخص کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”آپ نے میرا نام بتایا اور انہوں نے کہا کہ وہ مجھے تصویریں بیچنا نہیں چاہتیں؟” ذالعید نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں۔ ایسا ہی ہوا تھا۔” اس آدمی نے لفافہ میز پر اس کی طرف کھسکایا۔
”آپ مجھے ان کا کانٹیکٹ نمبر دے سکتے ہیں؟”
”نہیں ان کا کانٹیکٹ نمبر نہیں ہے انہوں نے خود فون کیا تھا۔” ذالعید بے حد حیرت کے عالم میں وہ لفافہ اور تصویریں اٹھا کر باہر آ گیا۔ وہ اُمّ مریم کو نہیں جانتا تھا پھر اسے کیا پرخاش ہو سکتی تھی اس سے کہ اس نے تصویریں اسے نہیں دیں۔ وہ بے حد الجھ گیا۔ ”کیا وہ مجھے جانتی ہے؟ کسی ایسے حوالے سے جو اس کے لیے ناپسندیدہ ہو؟” اس کا ذہن اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا تھا۔
باہر پارکنگ میں آ کر اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور تصویریں پچھلی سیٹ پر رکھ دیں اور تب ہی اس کی نظر پچھلی کھڑکی کے پاس پڑے ہوئے ایک فولڈر پر پڑی۔ اس نے کچھ تجسس کے عالم میں اسے باہر نکالتے ہوئے گاڑی کا دروازہ بند کر دیا۔ ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ اندر بیٹھ گیا مگر گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بجائے اس نے وہ فولڈر کھول لیا اور پھر خاصی دیر تک وہ فولڈر کھولے بیٹھا رہا۔ وہ وہی پیٹرن تھے، ان ہی شیڈز میں جنہیں وہ بنوانا چاہتا تھا… اس سے زیادہ بہتر اور مکمل حالت میں جس میں وہ انہیں سوچ رہا تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک کاغذ الٹتا گیا اور پورا فولڈر دیکھنے کے بعد ایک گہرا سانس لے کر اس نے وہ فولڈر ساتھ والی سیٹ پر رکھ دیا۔ وہ فولڈر کس کا تھا؟ کہاں سے آیا تھا؟ وہ یہ نہیں جانتا تھا، مگر یہ ضرور جانتا تھا کہ وہ وہی کام تھا جو وہ کروانا چاہ رہا تھا۔ اب اسے اس فولڈر والے کی تلاش تھی۔ صوفیہ کے علاوہ اس نے پچھلے کچھ دنوں میں کسی کو لفٹ نہیں دی تھی اور وہ کام صوفیہ کا نہیں ہو سکتا تھا ورنہ وہ اس سے بات ضرور کرتی۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ بری طرح الجھا ہوا تھا۔ مگر گھر کے اندر آتے ہی اسے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے یہ فولڈر ملازم نے کار کے اندر رکھا ہو۔ وہ فولڈر لیے سیدھا اندر چلا گیا۔
”ہاں، یہ میں نے کچھ دن پہلے آپ کی گاڑی میں رکھا تھا لیکن مجھے بتانا یاد نہیں رہا۔” ملازم نے اس کی انکوائری پر بڑی سادگی سے کہا۔
”کس نے دیا تھا یہ؟”
”یہ… وہ اس دن جو صبح لڑکی آئی تھی، اس نے چوکیدار کو دیا تھا۔”
”کون لڑکی…؟” ذالعید الجھا… پھر اس کے ذہن میں جیسے جھماکا ہوا۔
”وہ جنہیں میں نے کہا تھا کہ آفس میں مجھ سے ملیں۔ میں گھر پر نہیں ملوں گا۔ مریم؟”
”ہاں جی وہ ہی۔” ملازم نے کہا۔
”مریم… اُمّ مریم… My God” وہ بڑبڑاتے ہوئے بے اختیار سر ہلانے لگا۔ سارے تار جڑتے جا رہے تھے۔ وہ چپ چاپ صوفہ پر بیٹھ گیا۔ وہ اب جانتا تھا اُمّ مریم کون تھی؟ اس نے اسے تصویریں کیوں نہیں دیں؟ پروفیسر عباس کیوں اس کی اتنی تعریف کر رہے تھے؟ وہ جسے ارتکازِ توجہ کی کمی سمجھ رہا تھا، وہ اس کا انداز تھا۔ اس نے اس کی ہر بات نہ صرف سنی تھی بلکہ سمجھ بھی لی تھی… کسی سوال کے بغیر اور اس کا ثبوت وہ ڈیزائن تھے جو وہ اگلے ہی دن لے آئی تھی اور یقینا اسے اپنے کام پر اتنا اعتماد تھا کہ سوال کرنے کے بجائے اس نے صرف معاوضہ طے کرنا چاہا تھا۔
”بہت برا ہوا… بہت برا ہوا…” وہ سب کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑاتا رہا۔
”آپ ایک بہت بڑے احمق ہیں ذالعید۔” وہ اپنے چہرے پر ایک نادم مسکراہٹ لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!