لاحاصل — قسط نمبر ۱

سیڑھیوں میں موجود تاریکی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ سیڑھیوں کی گھٹن اور گرمی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے اردگرد نمودار ہونے والی دھندلی روشنی میں اپنے پیروں کے نیچے موجود سیڑھیوں کو دیکھنے کی کوشش کی۔ اسی دھندلی روشنی میں وہ آخری سیڑھی پر پہنچ گئی۔
—–*—–
ذالعید انڈس ویلی کا گریجویٹ تھا۔ اس کے والد نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کی پہلی بیوی ایک انگریز عورت تھی۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی اور ذالعید کو لے کر پاکستان آ گئے۔ پاکستان آ کر انہوں نے نزہت سے دوسری شادی کی۔ نزہت ان کے ایک دوست کی بہن تھی۔
ذالعید شروع کا کچھ عرصہ اپنے ددھیال میں رہا بعد میں بورڈنگ چلا گیا۔ جب وہاں سے فارغ ہوا تو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کراچی چلا گیا۔ اس کے والد چاہتے تھے کہ وہ بزنس ایڈمنسٹریشن میں تعلیم حاصل کرے مگر ذالعید کو شروع سے ہی آرٹ میں دلچسپی تھی۔ اس کے والد نے کچھ اعتراضات کیے مگر اس کے اصرار پر انہوں نے اسے اجازت دے دی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے اپنے والد کی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری سنبھالنی تھی اور اس نے ان ہی دونوں چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انڈس ویلی سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں گریجویشن کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس کے والد نے اسے باقاعدہ طور پر وہ فیکٹری دے دی جسے وہ کچھ عرصہ سے اسے دینے کا کہہ رہے تھے۔ اب وہ اس فیکٹری میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔
نزہت روایتی سوتیلی ماں ثابت نہیں ہوئی شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے ذالعید یا اپنے شوہر کی سابقہ بیوی سے کسی چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا نہ ہی ذالعید کی پرورش کرنی پڑی۔ وہ صرف چھٹیوں میں گھر آیا کرتا تھا اور نزہت وہ چند ہفتے بڑے اچھے طریقے سے اس کی دیکھ بھال کیا کرتی۔ اس نے ویسے بھی نزہت یا اپنے دوسرے بہن بھائیوں کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کیا۔ وہ فطرتاً خاموش طبع تھا اور دوسروں کا احترام کیا کرتا تھا۔ نزہت کو جائیداد کی تقسیم کے معاملہ میں بھی اس کا بڑا بیٹا ہونے کا کوئی خوف نہیں تھا۔ اس کے شوہر نے کئی سال پہلے ہی نزہت کی رضا مندی سے اپنی جائیداد کی تقسیم کر دی تھی۔ ذالعید کو ایک فیکٹری کچھ زمین اور دو پلاٹ دیے گئے تھے، ان میں سے ایک پلاٹ ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا۔ ذالعید جب کراچی میں اپنی تعلیم مکمل کر رہا تھا تو اس کے والد نے اس کی مرضی سے اس پلاٹ پر گھر تعمیر کروا دیا۔
لاہور واپس آنے کے بعد وہ اپنے والد اور نزہت کے ساتھ رہنے کے بجائے اپنے گھر میں شفٹ ہو گیا۔ اگرچہ ان دونوں نے اس سے کہا تھا کہ وہ شادی ہونے تک ان کے ساتھ ہی رہے، مگر ذالعید نے معذرت کر لی تھی۔ وہ ہمیشہ سے اکیلے رہنے کا عادی تھا۔ اب یک دم ایک بھرے پرے گھر میں نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے والد نے کوشش کی تھی کہ اگر وہ شفٹ کرنا چاہتا ہے تو پھر شادی بھی کر لے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے اس سے اپنے خاندان کے علاوہ اپنے ملنے والوں کی بھی بہت سی بیٹیوں کا ذکر کیا تھا۔ مگر ذالعید ابھی فوری طور پر شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ فیکٹری میں تبدیلیاں کرنے کے علاوہ اپنے بزنس کو اور پھیلانا چاہتا تھا اور اس کا خیال تھا شادی اس کام کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہوگی۔ اس لیے ان دونوں کے اصرار کے باوجود وہ شادی پر تیار نہیں ہوا مگر اس نے صوفیہ میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔
صوفیہ نزہت کی بڑی بہن کی بیٹی تھی۔ وہ بے حد خوبصورت تھی۔ ذالعید سے اس کی زیادہ جان پہچان ان دنوں ہوئی جب انہوں نے کراچی کے ایک فیشن میگزین کے لیے اکٹھے ایک فیشن شوٹ کروایا۔ وہ ذالعید سے زیادہ نامور اور اچھی ماڈل تھی اور اگرچہ ذالعید مختلف فنکشنز میں اس سے ملتا رہتا تھا مگر ان کے درمیان زیادہ بے تکلفی اسی فیشن شو کے دوران پیدا ہوئی۔





ذالعید نے ماڈلنگ ایک ہابی کے طور پر شروع کی تھی۔ انڈس ویلی میں اس کے ایک کلاس فیلو نے اسے ماڈلنگ کی آفر کی جس کا بھائی ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلا رہا تھا۔ ذالعید کو یہ آفر خاصی دلچسپ لگی وہ ان دنوں اپنے امتحانات سے فارغ ہو چکا تھا۔ اس لیے اس نے خاصی خوش دلی سے یہ آفر قبول کر لی۔
اس نے بہت سے میگزینز کے لیے ماڈلنگ کی، مگر پھر آہستہ آہستہ اسے احساس ہوتا گیا کہ یہ کام بہت زیادہ وقت مانگتا تھا جبکہ فائدہ کچھ نہیں تھا خاص طور پر میل ماڈلز کے لیے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اپنی تعلیم میں مصروف ہو گیا اور ماڈلنگ اس کی ترجیحات کی فہرست سے غائب ہو گئی۔
مگر صوفیہ سے ان دنوں ہونے والی دوستی نہ صرف قائم رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ ان دونوں کی بہت سی دلچسپیاں ایک جیسی تھیں۔ وہ بھی ذالعید کی طرح این سی اے سے گریجویشن کر رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ ماڈلنگ میں بھی اپنا نام بنا چکی تھی۔
شادی کے لیے ذالعید کے سامنے رکھے جانے والے ناموں میں سے ایک نام صوفیہ کا بھی تھا اور اس نام نے ذالعید کی اس میں دلچسپی کو ایک نیا رخ دے دیا تھا۔ وہ اس کی خوبصورتی اور ٹیلنٹ سے پہلے ہی متاثر تھا۔ وہ ایک خوش مزاج اور خوش گفتار لڑکی تھی اور ذالعید کا یہ بھی خیال تھا کہ ان دونوں کی آپس میں اچھی انڈر سٹینڈنگ تھی۔ اس نے صوفیہ کے لیے بھی شادی کی ہامی تو نہیں بھری مگر نزہت سے یہ ضرور کہا کہ چند سال بعد جب وہ شادی کرے گا تو صوفیہ کے بارے میں غور کرے گا۔ باقی لڑکیوں کے بارے میں اس نے انہیں انکار کر دیا۔ نزہت نے یقینا یہ بات اپنی بہن تک پہنچا دی تھی اور ان کے اطمینان کے لیے یہ کافی تھا۔
خود صوفیہ بھی ذالعید میں بڑی حد تک انٹرسٹڈ تھی۔ اس میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو شادی کے لیے کسی بھی مرد میں دیکھی جاتی ہیں۔ نزہت اس سے اور اس کی فیملی کے سامنے اکثر ذالعید کی خود بھی تعریف کیا کرتی تھیں۔
—–*—–
اس دن وہ اپنی ایک پینٹنگ مکمل کرنے میں مصروف تھی جب اسے پیغام ملا کہ پروفیسر عباس اسے اپنے آفس میں بلا رہے تھے۔
وہ تقریباً دس منٹ بعد جب پروفیسر عباس کے آفس میں داخل ہوئی تو وہ جس شخص کے ساتھ باتیں کر رہے تھے اسے دیکھ کر چند لمحوں کے لیے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔
”آئیے مریم! بیٹھئے۔” پروفیسر عباس نے اس کے اندر آتے ہی کہا۔
”ذالعید یہ مریم ہیں۔ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ ان کا بنیادی شعبہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود جو تجربہ آپ فیبرک کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں یہ آپ کی اچھی خاصی مدد کر سکتی ہیں۔ ان کے کام میں وہ نفاست ہے جو آپ اپنے ڈیزائنز میں چاہتے ہیں۔
اور مریم یہ ذالعید اوّاب ہیں۔ انڈس ویلی کے گریجویٹ ہیں، ایک ٹیکسٹائل فیکٹری چلا رہے ہیں۔ یہ اپنا فیبرک ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور اسی سلسلے میں یہ ای پی بی کے ساتھ مل کر کچھ نمائش اور فیشن شوز کرنا چاہ رہے ہیں مگر یہ… اپنے کلرز اور ڈیزائنز میں کچھ تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ کیا… یہ آپ ان سے خود پوچھ لیں۔ جہاں تک میری رائے ہے آپ ان کی مدد کر سکتی ہیں۔” پروفیسر عباس نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔
اس کے برابر والی کرسی پر بیٹھی وہ بے حد نروس تھی۔ اس کی شخصیت واقعی بہت چھا جانے والی تھی۔ ذالعید نے پروفیسر عباس کی بات ختم ہونے کے بعد اس سے چند رسمی باتیں کیں، اور اس کے بعد وہ اپنے اصلی موضوع پر آ گیا۔ وہ بڑی تفصیل سے اسے ان آئیڈیاز کے بارے میں بتا رہا تھا جو اس کے ذہن میں تھے۔ وہ بڑی آسانی سے اس کی بات سمجھ رہی تھی۔ وہ جن چیزوں کو لفظوں کی شکل میں بتا رہا تھا وہ انہیں ذہن کے پردے پر دیکھ رہی تھی اور وہ سوچ رہی تھی کہ اگر یہ پروجیکٹ اسے مل گیا تو اس کے کیرئیر کے لیے یہ ایک بہت اچھا Boost ثابت ہو سکتا ہے مگر اس وقت اسے حیرت ہونے لگی جب تقریباً آدھ گھنٹہ بولتے رہنے کے بعد وہ یک دم چپ ہو گیا۔
اگر آپ میرے آفس آ جائیں تو ہم اس پر زیادہ تفصیل سے بات کر سکتے ہیں کیونکہ میں آپ کو کچھ چیزیں دکھانا چاہ رہا تھا جو یہاں میرے پاس نہیں ہیں۔”
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے ایک بار پھر کہا مگر اس بار مریم کو اس کا لہجہ بہت خشک اور سرد لگا۔
”اگر آپ کچھ پوچھنا چاہ رہی ہوں تو؟” ذالعید نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”اس پروجیکٹ کے لیے آپ کیا آفر کریں گے مجھے؟” مریم کو اپنے سوال پر اس کے چہرے پر بے پناہ حیرت نظر آئی۔
”ویل! ابھی تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا یہ تو آپ کا کام دیکھنے کے بعد ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو کیا آفر کرنی چاہیے۔ اگر کام وہ ہوا جو میں چاہتا ہوں تو پھر آفر وہ ہو گی جو آپ چاہیں گی، مگر یہ تو ابھی خاصی دور کی چیز ہے۔”
مریم کو اس کا لہجہ پہلے سے سرد لگا۔
”ٹھیک ہے۔ میں آپ کے آفس آ جاؤں گی۔” وہ کچھ الجھتے ہوئے بولی۔ ذالعید نے اپنے والٹ سے ایک کارڈ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
”کل آ جاؤں؟”
”ٹھیک ہے۔ کل آ جائیں۔”
”کس وقت؟”
”کسی بھی وقت۔” ”کالج کے بعد کسی وقت میں آ جاؤں گی۔”
”ٹھیک ہے۔” ذالعید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
وہ جب پروفیسر عباس کے کمرے سے نکلی تو خاصی پرُجوش تھی۔ کام دلچسپ تھا اور اسے ان دنوں روپے کی خاصی ضرورت تھی۔ کالج سے گھر جانے کے بعد کھانا کھائے بغیر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ وہ کل وہاں کچھ ڈیزائنز لے کر جانا چاہتی تھی اور ذالعید کے بتائے ہوئے تمام پوائنٹس اس کے ذہن میں تھے۔ وہ مزید ڈسکشن سے پہلے اسے وہ ڈیزائنز دکھانا چاہتی تھی۔ جو اس سے گفتگو کے دوران اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے تخیل میں دیکھے تھے۔ ماما جان کے اصرار کے باوجود اس نے دوپہر اور رات کا کھانا نہیں کھایا۔ کام کے دوران اس کی بھوک اسی طرح ختم ہو جاتی تھی۔ ماما جان زبردستی اسے چائے کے ساتھ کچھ بسکٹ دے گئیں اور پانی کے علاوہ یہ وہ واحد چیز تھی جو اس نے سہ پہر تین بجے سے اگلی صبح چار بجے تک کھائی۔
وہ ساری رات جاگ کر کام میں مصروف رہی اور صبح چار بجے وہ اپنا کام مکمل کر کے سونے کے لیے لیٹی۔ چند گھنٹے سونے کے بعد جب وہ کالج پہنچی تو بہت مطمئن تھی۔
کالج سے فارغ ہونے کے بعد وہ اس کارڈ پر دیے گئے پتے پر پہنچ گئی۔
”میری کوئی پراپر اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے، ان کے ساتھ لیکن انہوں نے آج کسی بھی وقت مجھے یہاں آنے کے لیے کہا تھا اور میں نے ان سے کہا تھا کہ میں دو بجے کے بعد کسی بھی وقت آ جاؤں گی۔”
ریسپشنسٹ نے اس سے کارڈ لیتے ہوئے اس سے اپائنٹمنٹ کے بارے میں پوچھا تھا۔
”مگر وہ تو جا چکے ہیں۔”
”جا چکے ہیں؟” اسے حیرانی ہوئی۔
”ہاں۔ آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے۔”
”کہاں گئے ہیں وہ؟”
”یہ تو نہیں پتا۔”
”واپس کب تک آئیں گے؟”
”یہ بھی نہیں پتا بعض دفعہ واپس آتے ہیں، بعض دفعہ نہیں۔”
”انہوں نے میرے بارے میں کوئی پیغام چھوڑا ہے…؟”
”میں چیک کر لیتی ہوں۔ مگر انہوں نے آپ کے بارے میں کوئی پیغام نہیں دیا این سی اے کے دو اسٹوڈنٹس صبح بھی آئے تھے۔ اس وقت وہ آفس میں ہی تھے اور ان دونوں کے بارے میں انہوں نے کل ہی مجھے پتا دیا تھا۔ آپ کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا۔” ریسپشنسٹ نے ایک ڈائری کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے ان کے ذہن سے نکل گیا ہو۔ آپ بیٹھ جائیں، میں انہیں موبائل پر رنگ کرتی ہوں۔” اس نے جیسے مریم کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ مریم سامنے پڑے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ ریسپشنسٹ موبائل کا نمبر ملاتی رہی اور پھر اس نے مریم سے کہا۔
”موبائل آف ہے۔”
”تو پھر…؟” مریم کو مایوسی ہوئی۔
”آپ انتظار کر لیں اگر انہوں نے آپ سے کہا ہے تو وہ آ جائیں گے۔ آج کل بہت مصروف ہیں۔ اس لیے ہو سکتا ہے۔ وہ مجھے بتانا بھول گئے ہوں۔ میں ابھی تھوڑی دیر تک دوبارہ رنگ کرتی ہوں۔” مریم نے اس کی بات پر سر ہلا دیا۔ فیکٹری خاصی دور تھی اور اس نے سوچا کہ دوبارہ آنے سے انتظار کر لینا بہتر ہے۔
”ہاں ہو سکتا ہے۔ وہ بھول گیا ہو۔” اس نے خود کو تسلی دی۔
اگلے تین گھنٹے وہ وہیں بیٹھی انتظار کرتی رہی مگر ذالعید نہیں آیا۔ ریسپشنسٹ وقتاً فوقتاً اس کا نمبر ڈائل کرتی رہی مگر اس کا موبائل ہنوز بند تھا۔ تین گھنٹے کے بعد جب وہ اٹھنے لگی تو ریسپشنسٹ نے ایک آخری کوشش کی اور اس بار خوش قسمتی سے موبائل آف نہیں تھا۔ وہ مریم کے بارے میں ذالعید کو بتاتی رہی پھر اس نے فون بند کر کے مریم سے کہا۔
”ذالعید صاحب کہہ رہے ہیں کہ آج وہ فیکٹری واپس نہیں آئیں گے۔ وہ مصروف ہیں۔ آپ کل آ جائیں۔” مریم نے ایک اطمینان بھری سانس لے لی۔
”کل کتنے بجے؟”
”یہ تو انہوں نے نہیں بتایا آپ اسی وقت آ جائیں میں صبح ان کو یاد کروا دوں گی۔”
”کیا آپ مجھے ان کے گھر کا ایڈریس دے سکتی ہیں میں کل صبح ان سے وہاں مل لوں گی، کتنے بجے یہاں آتے ہیں وہ؟”
”تقریباً دس بجے… میں آپ کو ایڈریس دے دیتی ہوں۔” اس نے ایک کاغذ پر ایڈریس لکھ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
—–*—–
اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے بجائے اس ایڈریس پر چلی گئی۔ فیکٹری بہت دور تھی۔ مریم نے سوچا تھا کہ وہ اسے ڈائزائنز دینے کے بعد اس سے باقاعدہ اپائنٹمنٹ لے گی اور پھر اس کے آفس چلی جائے گی۔ وہ نو بجے کے قریب اس کے گھر پہنچی بیل بجا کر آنے والے چوکیدار سے اس نے اپنا تعارف کروایا۔
”میں آپ کے صاحب سے ملنا چاہتی ہوں۔” چوکیدار اسے وہیں کھڑا کر کے واپس چلا گیا۔ اس کی واپسی خاصی جلدی ہوئی۔
”صاحب بہت ناراض ہو رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں اگر میں نے آپ کو آفس میں آنے کے لیے کہا ہے تو آپ آفس میں ہی آئیں۔ وہ گھر پر آپ سے نہیں ملیں گے۔”
اس کی بات پر مریم پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ خفّت سے سرخ پڑتے ہوئے چہرے کے ساتھ اس نے چوکیدار سے کہا۔
”ٹھیک ہے میں ان سے آفس میں مل لوں گی۔ آپ یہ فائل ان کو دے دیں۔” اس نے ڈیزائنز والا فولڈر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ چوکیدار نے خاصے بگڑے تیوروں کے ساتھ فولڈر لیا اور کھٹاک سے گیٹ بند کر دیا۔
وہاں سے پیدل مین روڈ تک آتے آتے وہ مسلسل اس وقت کو کوستی رہی جب اس نے وہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس نے آفس بلایا تھا تو مجھے آفس ہی جانا چاہیے تھا وہ کیا سوچ رہا ہوگا کہ میں اس طرح صبح صبح اس کے گھر پہنچ گئی۔ کالج تک جاتے جاتے اس کی افسردگی اور شرمندگی اپنی انتہا کو چھونے لگی۔
دو بجے کالج سے فارغ ہونے کے بعد وہ سیدھی فیکٹری چلی گئی۔
ریسپشنسٹ اسے دیکھ کر مسکرائی۔
”ذالعید صاحب یہیں ہیں مگر اس وقت ان کی اپائنٹمنٹ ہے کسی کے ساتھ۔” اس نے مریم کو دیکھتے ہی بتایا۔
”میری بھی ان کے ساتھ اپائنٹمنٹ ہے۔” مریم نے کہا۔
”آپ کی اپائنٹمنٹ انہوں نے طے نہیں کی۔ میں نے انہیں آپ کے بارے میں یاد دلایا تھا۔ این سی اے کے آج بھی کچھ اور سٹوڈنٹس آئے تھے اور صبح میں نے آپ کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ بس یہ کہا کہ میں ان سٹوڈنٹس کے نام نوٹ کر لوں۔”
مریم کو شدید بے عزتی کا احساس ہوا وہ شخص اس کے ساتھ کیا کر رہا تھا۔
”آپ انہیں انٹرکام پر بتائیں کہ میں یہاں آئی ہوں۔”
”وہ کسی سے ملاقات کر رہے ہیں، اس وقت میں انہیں ڈسٹرب نہیں کر سکتی۔”
”پلیز، آپ انہیں میرے بارے میں بتائیں اگر وہ نہیں ملنا چاہتے تو میں خوامخواہ انتظار کرنے کے بجائے گھر جانا چاہتی ہوں۔” ریسپشنسٹ کو اس پر ترس آ گیا۔ اس نے ریسیور اٹھانے کے بجائے سپیکر فون کا بٹن پریس کرتے ہوئے ذالعید سے رابطہ کیا۔
”سر! مس مریم آئی ہیں۔”
”ناٹ اگین۔ کیا مصیبت گلے پڑ گئی ہے۔” اس کی جھنجھلائی ہوئی آواز کمرے میں گونجی، مریم کا رنگ فق ہو گیا۔
”یار! وہ پھر آ گئی ہے، میں اس سے کام نہیں کروانا چاہتا میرا نہیں خیال کہ وہ اتنی قابل ہے اور میں اس کو فیس بھی نہیں کرنا چاہ رہا۔ اب بتاؤ کیا کروں۔” وہ اب اندر کسی سے بات کر رہا تھا مگر اس نے ماوتھ پیس پر ہاتھ رکھنے کا تکلف نہیں کیا۔ شاید اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی باتیں باہر سنی جائیں گی۔ اس کے دوست نے اس سے کچھ کہا اور ذالعید نے ریسپشنسٹ سے کہا۔
”مس درخشاں! آپ ان سے کہیں، وہ چند دن بعد آئیں میں مصروف ہوں۔”
”یس سر۔” درخشاں نے رابطہ ختم کرتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو۔” مریم نے اس کے کچھ بھی کہنے سے پہلے کہا اور ہونٹ کاٹتے ہوئے وہاں سے نکل آئی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار اس طرح کی بے عزتی کا سامنا کیا تھا اور وہ اس وقت غم و غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔
گھر پہنچنے کے بعد اس نے اپنی ساری چیزیں بڑے زور سے کمرے میں اچھال دیں اور خود اوندھے منہ بستر پر لیٹ گئی۔
ماما جان جس وقت کمرے میں آئیں وہ اسی طرح اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔
”کیا ہوا مریم؟” ماما جان کو تشویش ہوئی۔ انہوں نے جھکتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور وہ جیسے کرنٹ کھا کر اٹھی۔
”آپ کی وجہ سے میں ساری زندگی یونہی دھکے کھاتی رہوں گی۔ صرف آپ کی وجہ سے۔” وہ بھیگے ہوئے چہرے کے ساتھ بلند آواز میں کہہ رہی تھی۔
”مریم ہوا کیا؟”
”کچھ نہیں ہوا؟” وہ چلائی۔ ”آپ میرے لیے کبھی کچھ نہیں کریں گی، کبھی بھی نہیں اور آپ دیکھ لینا، میں ایک دن یہاں سے بھاگ جاؤں گی۔” وہ ایک بار پھر اوندھے منہ لیٹ گئی۔
”تمہارے کام کا کیا ہوا؟” انہیں اس نے اس پروجیکٹ کے بارے میں دو دن پہلے بڑے پرُجوش انداز میں بتایا تھا اور اس وقت انہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کے رونے کی وجہ وہی تھی۔
”جہنم میں جائے وہ کام، یہ بورژوا کلاس خود کو کیا سمجھتی ہے ان کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ لوگ ان کے پاس کام لینے نہیں بھیک لینے جاتے ہیں۔” وہ اسی طرح اوندھے منہ لیٹی لیٹی چلائی۔
”تم جانے دو تم کو اس سے بہتر کام مل جائے گا۔” ماما جان نے اس کے کاندھے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”کہاں سے مل جائے گا، میرے جیسے آرٹسٹ رلتے پھرتے ہیں یہاں۔ کوئی بیک نہیں ہے میری، کوئی سفارش نہیں ہے میرے پاس۔ مجھے لگتا ہے میں Wasteland میں آ گئی ہوں۔ نام اور شہرت کمانے کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاندان کا نام چاہیے، روپیہ چاہیے میرے پاس کیا ہے؟ اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔
آج میرے پاس برٹش نیشنلٹی ہوتی پھر میں دیکھتی اس کتے کو۔” وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بول رہی تھی۔
”مریم! گالی نہیں دیتے۔” ماما جان کو شاک لگا، وہ پہلی بار اس کے منہ سے گالی سن رہی تھیں۔
”کیوں نہیں دیتے؟ دیتے ہیں، آپ کے پاس نصیحتوں کے علاوہ اور ہے کیا۔ یہ نہیں کرتے، وہ نہیں کرتے۔ ماما جان! دنیا میں رہنے کے لیے سب کچھ کرنا پڑتا ہے، سب کچھ آنا چاہیے، گالیاں دینا بھی آنا چاہیے۔”
وہ کس قدر ہرٹ ہوئی تھی، ماما جان اس کا اندازہ نہیں کر سکتی تھیں۔ مگر کوئی غیر معمولی بات ضرور ہوئی تھی، جس نے اسے اس طرح رونے پر مجبور کر دیا تھا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ تم گالیاں دے لینا مگر ابھی تو اٹھ کر کھانا کھاؤ۔ تمہارے لیے میں نے آج کھیر بنائی ہے۔” وہ اس کا کندھا تھپکتے ہوئے بچوں کی طرح اسے بہلانے لگیں مگر مریم بدستور روتی رہی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!