لاحاصل — قسط نمبر ۱

اس شام وہ سٹور سے فارغ ہو کر گھر جانے کے بجائے کافی اور برگر لے کر اس چھوٹے سے گراؤنڈ میں چلی گئی، جو راستہ میں آتا تھا۔ گراؤنڈ میں اس وقت کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ وہ کچھ دیر کھڑی انہیں دیکھتی رہی پھر گراؤنڈ کے گرد بنی سیڑھیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی۔ بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتے ہوئے وہ مکمل طور پر برگر کھانے میں مگن تھی جب ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔
“Hello! Are you Asian?” کیتھرین نے سر اٹھا کر اس شخص کو دیکھا۔ وہ ایک دراز قد نوجوان تھا۔ اپنے سفید رنگ اور نقش و نگار سے وہ مقامی لگتا تھا مگر اس کے منہ سے نکلنے والے ایک جملے سے ہی کیتھرین کو اندازہ ہو گیا کہ وہ مقامی نہیں ہے۔ وہ اپنی آنکھوں میں تجسس لیے ہوئے اس کے جواب کا منتظر تھا۔ کیتھرین کے لیے اس کا سوال نیا نہیںتھا۔ اس کی رنگت گندمی تھی اور آنکھیں ڈارک براؤن اور یہ دونوں چیزیں اس نے اپنے باپ سے لی تھیں۔ پہلی نظر میں ہر کوئی اسے دیکھ کر یہی سوال کرتا تھا مگر اس کے سنہرے بال اور تیکھے مغربی نقوش دوسری نظر میں ہر ایک کو کنفیوز کر دیتے تھے۔
”نہیں، میں ایشیائی نہیں ہوں۔” اس نے بے تاثر چہرے اور لہجے میں اس سے کہا۔
”سوری مجھے لگا شاید آپ ایشیائی ہیں۔” وہ اب معذرت کررہا تھا۔ کیتھرین اندازہ نہیں کر سکی کہ اس کا چہرہ سردی کی وجہ سے سرخ ہوا تھا یا پھر خفّت سے۔ وہ شخص اب واپس کچھ دور سیڑھیوں پر ایک بیگ کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ کیتھرین کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا وہ اٹھ کراس شخص کے پاس چلی گئی۔
”آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”کیونکہ میں ایشیائی ہوں۔” مقامی لہجہ نہ ہونے کے باوجود وہ شخص بڑی شستہ انگلش بول رہا تھا۔
”حالانکہ آپ ایشیائی نہیں لگتے۔” وہ جواب میں صرف مسکرایا۔
”ایشیا میں کس ملک سے تعلق ہے آپ کا؟” کیتھرین نے کافی کے سپ لیتے ہوئے پوچھا۔
”پاکستان سے۔” ہونٹوں کے پاس کافی کا کپ لے جاتے ہوئے چند لمحوں کے لیے اس کا ہاتھ ساکت ہوا اور پھر اس نے کافی کا ایک بڑا گھونٹ لیا۔ سامنے کھڑے ہوئے شخص سے اس کی یہ حرکت چھپی نہیں رہی۔
”اوہ!” کیتھرین کا لہجہ یک دم بہت سرد ہو گیا۔
”آپ میرے ملک کو جانتی ہیں؟” اس شخص نے بہت اشتیاق سے پوچھا۔
”بہت اچھی طرح۔” وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گئی، اس شخص پر نظریں جمائے اس نے کافی کا آخری گھونٹ لیا برق رفتاری کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھ کر اس شخص کے منہ پر تھوکا، اسے گالی دی اور پھر اس شخص کی طرف سے کسی متوقع ردعمل کے خدشے سے بجلی کی تیزی سے پلٹ کر بھاگی اور یہیں اس سے غلطی ہو گئی۔





سیڑھیوں کی چوڑائی کے بارے میں اس کا اندازہ ٹھیک نہیں نکلا اور پلٹ کر رکھا جانے والا وہ قدم جو اسی سیڑھی پر پڑنا چاہیے تھا جہاں وہ اس شخص کے ساتھ کھڑی تھی، وہ اس سیڑھی کے کنارے پر پڑا اور وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھتے ہوئے اس سیڑھی سے نیچے گری، اور صرف وہیں سے نہیں سنبھلنے کی کوشش کرنے کے باوجود وہ اگلی تین سیڑھیوں سے بھی اسی طرح لڑھکتے ہوئے نیچے پہنچی اور وہ شخص جو اس کی اس حرکت پر ہکا بکا رہ گیا تھا اسے نیچے گرتے دیکھ کر بے اختیار جیکٹ کے بازو سے اپنے گال کو صاف کرتے ہوئے اس کی طرف لپکا مگر جب تک وہ اس تک پہنچا، وہ سیڑھیوں سے نیچے پہنچ چکی تھی اور اب اوندھے منہ فرش پر پڑی ہوئی تھی۔
”آپ ٹھیک ہیں؟” وہ اس کے سر کے پاس پنجوں کے بل بیٹھا تشویش بھری آواز میں پوچھ رہا تھا۔ کیتھرین کو اچھی خاصی چوٹیں لگی تھیں۔ مگر اس وقت چوٹوں سے زیادہ اسے اس شخص کے سامنے اس طرح گرنے کی شرمندگی تھی۔ اس نے اپنے سر کے گرد بازو لپیٹ لیے۔ اب اسے افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی، زندگی میں پہلی بار اس نے کسی شخص پر تھوکا تھا اور اب وہ اس کے سامنے… شاید وہ کبھی اس شخص پر اس طرح نہ تھوکتی اگر وہ اتنی ڈپریس نہ ہوتی جتنی ان دنوں تھی۔
”آپ ٹھیک ہیں؟” وہ اب اس کے بازو کو ہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔ اسے اٹھتے نہ دیکھ کر اس شخص کی تشویش بڑھ گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔” کیتھرین نے بالآخر کہا۔ وہ جانتی تھی اب اسے اٹھنا تھا… اس وقت دنیا کا سب سے مشکل کام مگر وہ ساری عمر وہاں لیٹی تو نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ بھی اس صورت میں جب وہ شخص مسلسل اس کا بازو سہلا رہا تھا۔ اپنے چہرے کے تاثرات کو بہت نارمل رکھتے ہوئے وہ گھٹنوں ،بازوؤں اور ریڑھ کی ہڈی میں اٹھنے والی تمام ٹیسوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مگر اتنی حرکت سے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر اٹھ کر کھڑی نہیں ہو سکے گی اور وہ کسی کی مدد لینا نہیں چاہتی تھی۔ کم از کم اس شخص کی نہیں جو اب پنجوں کے بل اس کے بالکل بالمقابل بیٹھا اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
اس کی کہنیاں بری طرح چھل گئی تھیں اور سفید شرٹ پر خون کے دھبے بہت واضح نظر آنے لگے تھے۔ بیٹھنے کے بعد کیتھرین نے اس شخص کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اپنی کہنیاں موڑ کر زخموں کا جائزہ لیا۔ اس شخص نے اپنی جیکٹ کی جیب سے ایک رومال نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔
”نو تھینک یو، مجھے ضرورت نہیں ہے۔” اس نے اس شخص کی طرف دیکھے بغیر اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
ٹراؤزر کی جیب ٹٹول کر اس نے اپنا رومال نکالا اور کہنیاں صاف کرنے لگی۔ وہ شخص اسی طرح بیٹھا ساری کارروائی دیکھتا رہا۔ کیتھرین نے رومال سے کہنیوں کو صاف کرتے ہوئے یوں لاپروائی کا اظہار کیا جیسے اسے کوئی زیادہ تکلیف نہیں پہنچی اور وہ خراشیں بہت معمولی تھیں مگر وہ شخص اس کے چہرے کے تاثرات کو مکمل طور پر نظر انداز کیے اس کی کہنیوں کو خاصی تشویش کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔
”میری مدد کی ضرورت ہے آپ کو؟” وہ اب سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”نو تھینک یو۔” کیتھرین نے ایک بار پھر اس کے چہرے کی طرف دیکھے بغیر کہا۔ وہ شخص اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کیتھرین نے دل ہی دل میں اطمینان کا سانس لیا۔ وہ واقعی چاہتی تھی کہ وہ اس کے سامنے سے ہٹ جائے تاکہ وہ اٹھنے کی کوشش کرے۔ اسے اپنی کمر کے نچلے حصے میں شدید درد محسوس ہو رہا تھا، اور اپنے چہرے کے تاثرات کو نارمل رکھنا اب اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔
وہ شخص اٹھنے کے بعد وہاں سے جانے کے بجائے وہیں کھڑا رہا۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنا ہاتھ کیتھرین کی طرف بڑھایا یقینا وہ اٹھنے میں اس کی مدد کرنا چاہتا تھا، مگر کیتھرین نے بڑے اعتماد کے ساتھ اس کی آفر رد کر دی۔
”میں خود اٹھ سکتی ہوں، آپ جائیں۔” وہ شخص چند قدم پیچھے ہٹا اور پھر دوبارہ سیڑھیوں پر چڑھ گیا۔ کیتھرین اب اسے نہیں دیکھ سکتی تھی، مگر اسے اندازہ تھا کہ وہ پیچھے سیڑھیوں پر اپنی جگہ بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا ہوگا۔
کیتھرین نے پیچھے مڑے بغیر ایک ہاتھ سے اپنے پیچھے موجود سیڑھی کا سہارا لیا اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر وہ کھڑی نہیں ہو سکی۔ ریڑھ کی ہڈی میں اٹھنے والی درد کی ایک تیز لہر نے اسے اسی سیڑھی پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا اس نے بے اختیار اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دباتے ہوئے منہ سے نکلنے والی چیخ کو روکا۔ وہ شخص تیز قدموں کے ساتھ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا ایک بار پھر اس کے سامنے کھڑا تھا اور اس بار کیتھرین کے چہرے کے تاثرات سے اسے اس کی تکلیف کا اندازہ ہو گیا۔
”زیادہ چوٹ لگی ہے؟” وہ ایک بار پھر پوچھ رہا تھا۔ اس بار کیتھرین اپنی بے بسی کو نہیں چھپا سکی۔
”میری کمر اور دائیں گھٹنے میں بہت درد ہو رہا ہے۔” اس نے چہرہ اوپر کیے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اسے بتایا۔ چند منٹوں پہلے کا اعتماد اب بھک سے اڑ گیا تھا۔ اسے خوف محسوس ہو رہا تھا کہ اگر چوٹیں واقعی شدید ہوئیں تو کیا ہوگا۔ وہ لمبے چوڑے علاج کی استطاعت رکھتی تھی نہ ہی گھر پر طویل قیام کی۔ وہ شخص اب کچھ پریشان نظر آنے لگا۔
”آپ میرا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔” اس نے اپنا ہاتھ کیتھرین کی طرف بڑھایا۔
”میں نہیں کر پاؤں گی۔”
”آپ کوشش تو کریں۔” اس شخص نے اصرار کرتے ہوئے کیتھرین کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ کیتھرین نے ہاتھ کے بجائے اس کی کلائی پکڑ لی اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ درد کی ایک اور ٹیس اس کی کمر میں اٹھی۔ لیکن اسے خوشی ہوئی کہ وہ کھڑی ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس شخص نے ایک گہرا سانس لیا۔
”اس کا مطلب ہے کم از کم آپ کھڑی ہو سکتی ہیں۔ اب آپ جھک کر اپنے پاؤں کی انگلیوں کو ہاتھ لگائیں۔”
”کیوں؟” وہ حیران ہوئی کھڑا ہونے کے بعد اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے دائیں گھٹنے میں کمر سے زیادہ تکلیف ہے یہ وہ گھٹنا تھا جس پر وہ اپنے پورے وزن سمیت گری تھی۔
”یہ تو پتا چلے کہ ریڑھ کی ہڈی ٹھیک ہے یا نہیں۔”
وہ شخص بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
کیتھرین نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا آہستہ آہستہ جھک کر اس نے اپنے پاؤں کی انگلیوں کو چھوا اور پھر اسی طرح سیدھی ہو گئی۔ تھوڑا بہت درد محسوس ہونے کے باوجود اس نے باآسانی انگلیوں کو چھو لیا تھا۔ اس کے سیدھا ہوتے ہی اس شخص نے پوچھا۔
”بہت زیادہ درد ہو رہا ہے؟”
”نہیں۔ بہت زیادہ نہیں۔” کیتھرین نے اپنے دائیں پاؤں کی صرف انگلیاں زمین پر ٹکائی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنا سارا بوجھ بائیں ٹانگ پر منتقل کر رکھا تھا۔ اس شخص نے اس کا جواب سننے کے بعد اپنا بیگ دائیں کندھے پر منتقل کیا اور اپنا بازو اس کی طرف بڑھا دیا۔
”یہاں سے باہرنکلتے ہی ٹیکسی مل جائے گی، میں آپ کو ہاسپٹل لے جاتا ہوں۔ ڈاکٹر چیک اپ کر لے گا۔” کیتھرین نہ ہاسپٹل جانا چاہتی تھی اور نہ ہی ٹیکسی کے کرائے پر پیسے خرچ کرنا چاہتی تھی۔ اس کے بازو کا سہارا لے کر چلتے ہوئے اس نے کہا۔
”میں گھر جاؤں گی، میں اب ٹھیک ہوں۔” وہ شخص خاموش رہا مگر گراؤنڈ سے باہر آتے ہی اس نے سڑک سے گزرتی ہوئی ایک ٹیکسی کو روک لیا۔ کیتھرین کے انکار کے باوجود اس نے زبردستی اسے ٹیکسی میں بٹھا دیا۔
”میں نہیں جانتا۔ آپ اس طرح ضد کیوں کر رہی ہیں؟ آپ کو تفصیلی معائنے کی ضرورت ہے اور شاید ایکسرے کی بھی، مگر آپ ہاسپٹل جانے کے بجائے گھر جانا چاہ رہی ہیں۔”
کیتھرین نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا، اب جب وہ ٹیکسی میں بیٹھ ہی چکی تھی تو اتنی لمبی چوڑی بحث کا کیا فائدہ ہوتا۔
خوش قسمتی سے اس کے جسم میں کہیں بھی کوئی فریکچر نہیں تھا۔ ہاسپٹل سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایک بار پھر باہر آ گئے۔ کیتھرین کی شرمندگی اب اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
”اب میں خود چلی جاؤں گی۔” اس نے باہر سڑک پر آتے ہی اس سے کہا۔ اس شخص نے اس کے علاقے کے بارے میں پوچھا اور پھر کہا۔
”میں آپ کو ٹیکسی لے دیتا ہوں۔” اور ایک بار پھر کیتھرین کے انکار کے باوجود اس نے ایک ٹیکسی روک لی۔ کیتھرین جب ٹیکسی میں سوار ہو گئی تو اس نے ڈرائیور کو اس کا پتہ بتاتے ہوئے اپنے والٹ سے چند پاؤنڈز نکال کر اسے تھما دیے۔ کیتھرین نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کرایہ آپ دیں یا میں۔ اپنا خیال رکھیں۔”
”میں اپنی اس بدتمیزی پر شرمندہ۔” اس شخص نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”اس کے بارے میں آپ سے تفصیلی بات ہوگی جب ہم دوبارہ ملیں گے۔ ایک جملے میں نہ آپ اس کی وضاحت پیش کر سکیں گی نہ ہی میں ایک جملے کی معذرت قبول کروں گا۔” وہ کہتا ہوا کھڑکی سے ہٹ گیا۔ کیتھرین نے حیرانی سے چلتی ہوئی ٹیکسی سے اس شخص کو فٹ پاتھ پر کھڑے دیکھا۔
”اگر اس نے اسے معاف نہیں کیا تھا تو ان ساری عنایات کا کیا مطلب تھا اور اسے یہ یقین کیوں تھا کہ وہ دونوں دوبارہ ملیں گے جبکہ وہ میرا جو نام اور پتا جانتا ہے وہ دونوں غلط ہیں۔”
ہاسپٹل میں اس نے اپنا نام اور پتہ لکھوایا تھا اور اس نے جانتے بوجھتے دونوں باتیں غلط لکھوائی تھیں۔ اس وقت بھی ٹیکسی اسے جہاں لے جا رہی تھی وہ اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر موجود دوسری اسٹریٹ تھی۔
اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ شخص بہت عجیب تھا اور وہ دوبارہ اس سے ملنا نہیں چاہتی تھی۔
اگلے چند دن وہ گھر پر رہی، جب اس کی چوٹیں کچھ مندمل ہونا شروع ہو گئیں تو وہ ایک بار پھر سٹور جانے لگی۔ کوشش کے باوجود وہ اس شخص کو اپنے ذہن سے نہیں نکال سکی۔
بہت دفعہ اس گراؤنڈ کے سامنے سے گزرتے ہوئے اسے اس شخص کا خیال آتا اور وہ تیزی سے وہاں سے گزر جاتی۔ لیکن ایک دن وہاں سے گزرنے کے بجائے وہ اندر چلی گئی۔ گراؤنڈ میں ہمیشہ کی طرح اکا دکا لوگ مختلف قسم کے کھیلوں میں مصروف تھے اور سیڑھیاں ویران تھیں۔ وہ ایک سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی کافی پیتے ہوئے وہ سامنے گراؤنڈ میں چند نوجوانوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھنے لگی۔ وہ ان کا کھیل دیکھتے ہوئے خاصی محو ہو گئی اور اس کی وہ محویت اس وقت ختم ہوئی جب نچلی سیڑھی پر ایک شخص یک دم اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!