لاحاصل — قسط نمبر ۱

تاریکی میں اس نے اپنے پاؤں کے نیچے ٹھنڈی زمین کو محسوس کیا۔ پاؤں کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے ہوئے اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا۔ سیڑھی پختہ تھی اندھیرے میں وہ کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی اس نے پیروں سے سیڑھی کو ٹٹولتے ہوئے دوسرا قدم بڑھا دیا۔ ٹھنڈی ہوا کا ایک اور جھونکا اس کے جسم سے ٹکرایا۔ کچھ دیر پہلے محسوس ہونے والی گھٹن ختم ہو گئی۔
اس نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا اور سر اٹھا کر تاریکی میں اوپر دیکھنے کی کوشش کی۔
—–*—–
وہ لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ شاکر بابا اس کی گاڑی کے ہارن کی آواز سن کر کچن سے باہر آ گئے تھے۔ ”السلام و علیکم شاکر بابا! کیسے ہیں آپ؟” اس نے ہمیشہ کی طرح انہیں دیکھتے ہی کہا۔
”میں ٹھیک ہوں۔ چھوٹے صاحب! آپ کیسے ہیں؟”
”میں بھی ٹھیک ہوں۔” اس نے گاڑی کی چابی سینٹر ٹیبل پر رکھ دی اور خود صوفے پر بیٹھ گیا۔
”چائے لاؤں آپ کے لیے؟” شاکر بابا نے پوچھا۔
”ہاں پلا ہی دیں۔ پاپا اپنے کمرے میں ہیں؟”
”نہیں۔ صاحب تو کچھ دیر پہلے باہر گئے ہیں ڈرائیور کے ساتھ۔”
”میں تو ان سے ملنے آیا تھا۔ کچھ پتا ہے کب تک آئیں گے؟”
نہیں، مجھے تو نہیں پتا۔ بیگم صاحبہ کو پتا ہوگا۔”
”ممی ہیں گھر پر؟”
”ہاں وہ اندر ہیں اپنے کمرے میں۔ ان کو آپ کے آنے کا بتاؤں؟”
”ہاں بتا دیں۔” ذالعید نے سامنے ٹیبل پر پڑا ہوا میگزین اٹھا لیا شاکر بابا وہاں سے چلے گئے۔
ذالعید کچھ دیر میگزین کے صفحے پلٹتا رہا پھر اس نے میگزین دوبارہ سینٹر ٹیبل پر اچھال دیا صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر وہ لاؤنج میں ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا پھر یک دم وہ کچھ چونک گیا۔ لاؤنج کی ایک دیوار پر لگی ہوئی تصویر نے اسے چونکا دیا تھا۔ وہ اٹھ کر اس دیوار کی طرف چلا گیا تصویر کو قریب سے دیکھنے پر وہ کچھ دیر تک پلکیں بھی نہیں جھپکا سکا۔
سیاہ بیک گراؤنڈ میں گندمی رنگت کا کہنی تک ایک ہاتھ پینٹ کیا گیا تھا۔ دور سے اسے وہ بازو درخت لگ رہا تھا۔ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں پوری طرح کھلی ہوئی تھیں۔ انگلیاں لمبی اور مخروطی تھیں اور ان لمبی پھیلی ہوئی انگلیوں سے بہت سی پتلی پتلی شاخیں نکل کر ادھر ادھر پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے پھیلاؤ نے انگلیوں کے ساتھ مل کر پنجے کو ایک درخت کے اوپر والے حصے کی شکل دے دی تھی۔ ان شاخوں پر کوئی پتّا نہیں تھا یوں لگ رہا تھا جیسے وہ درخت بنجر ہے۔ سوکھا ہوا ہے یا پھر کسی وجہ سے اس کے پتے جھڑ چکے ہیں۔ کلائی سے کہنی تک ہاتھ کی جلد بھی خشک اور رگیں یوں ابھری ہوئی تھیں جیسے درخت کے تنے کی چھال ہوتی ہے۔ کلائی میں ایک بہت خوبصورت سیاہ اسٹریپ والی گھڑی بندھی ہوئی تھی۔ گھڑی کا ڈائل بھی سیاہ رنگ کا تھا اور اس میں چھوٹے چھوٹے سفید ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ گھڑی کے ڈائل پر سوئیاں نہیں تھیں۔ ہاتھ کی پھیلی ہوئی ہتھیلی پر بنی ہوئی لکیریں بھی بہت واضح نظر آ رہی تھیں اور دل، دماغ، قسمت اور زندگی کی چاروں لکیروں پر خون کے ننھے منے قطرے نظر آ رہے تھے۔ وہ قطرے اتنے چھوٹے تھے کہ ٹپکنے کے بجائے اپنی جگہ پر ٹکے ہوئے تھے۔
ذالعید نے جھک کر تصویر کے نیچے موجود کیپشن پڑھا “Desire”(خواہش) اس نے کھڑے ہو کر ایک بار پھر تصویر پر نظر دوڑائی اور وہ چند لمحوں کے لیے ایک بار پھر دم بخود ہو گیا۔ وہ الٹے پیروں تین چار قدم پیچھے گیا اور رک کر اس تصویر کو دیکھا۔ دور سے دیکھنے پر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ ایک ٹنڈ منڈ درخت کے علاوہ کوئی اور چیز ہو سکتی ہے مگر قریب آنے پر کوئی بھی جان سکتا تھا کہ وہ درخت نہیں ایک ہاتھ ہے۔





ذالعید نے ایک گہرا سانس لے کر کچھ ستائشی انداز میں سر ہلایا اور آگے بڑھ کر تصویر پر مصور کا نام ڈھونڈنے لگا۔ “UM-ME” نام سے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ مصور عورت ہے یا مرد… مگر وہ جو بھی تھا کمال کا آرٹسٹ تھا۔ اس کے ہاتھ میں غضب کی پرفیکشن تھی۔
ذالعید خود بھی آرٹسٹ تھا اور وہ کسی بھی پینٹنگ کی خوبیوں اور خامیوں کو لمحوں میں جان لیتا تھا۔ مگر اس تصویر میں اسے کوئی خامی نظر نہیں آئی۔ اسٹروکس کمال کے تھے، اینگلز میں کوئی غلطی نہیں تھی، شیڈز بالکل متوازن تھے۔
“Desire” (خواہش) اس نے تصویر کا کیپشن ایک بار پھر دہرایا۔ اس نے اس تصویر کو پہلے لاؤنج میں نہیں دیکھا تھا اور اب اس تصویر نے لاؤنج میں لگی ہوئی باقی تمام تصویروں کی خوبصورتی اور اہمیت ماند کر دی تھی۔ شاکر بابا چائے لیے ذالعید کے پاس چلے آئے۔
”یہ تصویر پہلے یہاں نہیں تھی۔” ذالعید نے چائے کا کپ تھامنے کے بعد کہا۔
”یہ بیگم صاحبہ چند دن پہلے لائی ہیں، انہوں نے ہی لگوائی ہے۔”
شاکر بابا اسے بتا کر چلے گئے۔ وہ اس تصویر کے سامنے کھڑا چائے پی رہا تھا جب نزہت لاؤنج میں داخل ہوئیں۔
”اس بار بہت دنوں کے بعد چکر لگایا ہے ذالعید۔” انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
ذالعید ان کی جانب مڑا۔ ”السلام علیکم ممی! کیسی ہیں آپ؟… بس بہت مصروف رہا اسی وجہ سے۔”
نزہت نے اس کے پاس آ کر اس کے گال تھپتھپائے۔
”ممی! یہ پینٹنگ کہاں سے خریدی ہے آپ نے؟”
”یہ کلب میں بکنے آئی تھی۔ مجھے اچھی لگی، میں نے لے لی۔”
”کس نے بنائی ہے؟”
”یہ تو مجھے نہیں پتا۔”
”آپ یہ پیٹنگ مجھے دے دیں میں آپ کو اس کی قیمت دے دیتا ہوں۔” ذالعید نے وقت ضائع کیے بغیر فرمائش کی۔
”قیمت کی بات مت کرو، تم لے جاؤ۔” نزہت نے کہا۔
”نہیں ممی! یہ خاصی مہنگی ہوگی۔ میں اس طرح نہیں لے کر جاؤں گا۔” ذالعید نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا نزہت بھی اس کے قریب بیٹھ گئیں۔
”نہیں۔ مہنگی نہیں ہے۔ بس اس کا فریم مہنگا ہے۔ وہ میں نے خریدنے کے بعد کروایا ہے ورنہ اس کی قیمت صرف دوہزار روپے ہے۔” ذالعید کو یقین نہیں آیا۔ اس نے ایک بار پھر اس تصویر پر نظر دوڑائی۔
”آئی ڈونٹ بلیو اٹ” (مجھے یقین نہیں آ رہا)… صرف دوہزار روپے It’s Criminal (یہ تو جرم ہے) اس طرح کے آرٹ کو اس طرح اس قیمت پر بیچنا… یہ کون احمق ہے ممی؟ بہرحال ممی! اگر دوبارہ وہاں اس آرٹسٹ کی کوئی پینٹنگز آئیں تو آپ میرے لیے خرید لیجئے گا۔
”ٹھیک ہے میں یاد رکھوں گی۔ اب تم بتاؤ۔ فیکٹری کیسی چل رہی ہے؟” نزہت نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
—–*—–
اس نے بارش کی آواز کو تیز ہوتے سنا اور ایک جھٹکے کے ساتھ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کتاب بند کر دی۔ اس کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا سر اٹھا کر اس نے لکڑی اور گارے سے بنی ہوئی چھت کا وہ کونہ دیکھا جو ہر سال کی طرح اس بار بھی رسنا شروع ہو چکا تھا۔
”اور اب اس کے نیچے رکھا جائے گا، ایک عدد برتن… اور اس برتن میں گرتی ہوئی بوندوں کی بھیانک آواز ساری رات مجھے سونے نہیں دے گی۔” وہ بڑبڑائی۔
اپنی چارپائی پر گود میں کتاب لیے دانتوں سے بائیں ہاتھ کے ناخن کترتے ہوئے وہ بہت زیادہ بے چین لگ رہی تھی۔ کمرے کے کھلے دروازے سے اب صرف بارش کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ ماما جان کے تیز قدموں کے ساتھ صحن سے چیزیں اٹھا اٹھا کر برآمدے میں رکھنے اور پھر ان ہی قدموں کے ساتھ واپس صحن میں جانے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔
بارش جب برسنا شروع ہوئی، اس وقت ماما جان کمرے میں نماز پڑھنے میں مصروف تھیں اور نماز سے فارغ ہوتے ہوتے بارش بہت تیز ہو چکی تھی۔ دعا سے فارغ ہوتے ہی جائے نماز اٹھانے کے بجائے وہ تقریباً بھاگتی ہوئی باہر صحن میں گئیں اور چیزیں سمیٹنا شروع کر دیں۔ مریم ڈھیٹوں کی طرح کتاب کھولے بیٹھی رہی۔ ماما جان نے اسے چیزیں اٹھانے کے لیے نہیں بلایا تھا۔
اب کتاب بند کیے وہ تلخی سے سوچ رہی تھی۔
”یہ سب ماما جان کی اپنی چوائس ہے پھر ان کی مدد کیوں کی جائے انہیں سب کچھ خود ہی سمیٹنا چاہیے، کم از کم انہیں یہ احساس تو ہوگا کہ یہ سب کچھ کتنا ڈراؤنا ہے… مگر ماما جان! ماما جان کو یہ احساس کبھی نہیں ہو سکتا۔”
اس نے ایک گہرا سانس لے کر اپنے چٹختے ہوئے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ”اب یہ بارش برستی رہے گی اور چند گھنٹوں کے بعد صحن میں گلی کا گندا پانی آ جائے گا۔ اتنا پانی کہ ہم برآمدے سے صحن کے دروازے تک بھی نہیں جا سکیں گے۔ جب تک اس گندے پانی میں پاؤں نہ دھر لیں… اور پھر ہم جیسے گھر کے بجائے ایک جزیرے پر بیٹھے ہوں گے، خشکی کے انتظار میں۔ کب بارش رکے، کب پانی ڈھلے، کب گارے سے کیچڑ میں تبدیل ہو جانے والے صحن کی وہ اینٹیں نظر آئیں جو پندرہ فٹ لمبے صحن کے بیرونی دروازے اور برآمدے کو آپس میں ملاتی ہیں اور جن کے بغیر بارش کے بعد صحن کے کیچڑ میں سے گزر کر جانا ناممکن ہے اور یہ سب کچھ میرا مقدر آپ نے بنایا ہے ماما جان… ورنہ میں اس سب کے لائق تو نہیں ہوں۔” اس کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری۔
”برآمدے میں سے اب اس بکرے کی آواز سنائی دے رہی تھی جسے سال کے شروع میں خریدا جاتا تھا۔ اور پھر پورا سال پالنے کے بعد قربانی دی جاتی تھی۔ وہ ان تمام بکروں کی گندگی اور آوازوں سے تنگ آ چکی تھی، جنہیں ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک ہر سال وہ دیکھتی آ رہی تھی، بچپن میں اسے وہ اچھے لگتے تھے وہ ان کے ساتھ کھیلتی تھی۔ شعور سنبھالنے کے بعد اسے ان سے نفرت ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ان بکروں کا رنگ بدل جاتا تھا مگر اسے ان کی آواز ہمیشہ پہلے جتنی ہی بھیانک لگتی۔
اب اسے ان مرغیوں کی آواز سنائی دینے لگی تھی جو اس کے گھر کا ایک اور بنیادی جز تھیں۔ وہ انہیں برداشت کر لیتی تھی اسے ان سے بکرے جتنی نفرت نہیں تھی۔ مگر نفرت تھی اور برداشت کرنے کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ وقتاً فوقتاً ان کے انڈے استعمال کیا کرتی تھی اور کبھی کبھار گوشت بھی۔ اس کی واحد عیاشی… Doctrine of necessity (نظریہ ضرورت)
وہ زندگی میں جس چیز کو بھی استعمال کے قابل پاتی، اس کی خامیوں کو نظرانداز کر دیتی تھی۔ ابھی تک اسے اس بلی کی آواز سنائی نہیں دی تھی، جو اس کے گھر کا ایک اور اہم حصہ تھی۔ بکرے کی طرح اسے اس بلی سے بھی نفرت تھی کیونکہ وہ بکرے کی طرح اسے بھی بوجھ سمجھتی تھی۔ بعض دفعہ اسے یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ اسے کس سے زیادہ نفرت تھی، بکرے سے یا بلی سے… کون اس گھر پر زیادہ بوجھ تھا؟ بکرا سال میں کم از کم ایک بار تو کام آ جاتا تھا اور بلی… کبھی نہیں۔ اسے یاد تھا وہ کب آئی تھی اور اس سے پہلے کتنی بلیاں اس گھر میں رہ چکی تھیں۔ ہر بلی کے مرنے کے کچھ عرصہ کے بعد کوئی نہ کوئی دوسری بلی خود بخود ہی وہاں آ جاتی اور ماما جان… اسے غصہ آنے لگا۔ اسے یاد آیا، پچھلی بلی کی وجہ سے وہ کتنی ٹینس رہی تھی۔ وہ گلی میں سے گزرتے ہوئے کسی موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی اور اس کا پچھلا دھڑ مفلوج ہو گیا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے کسی دوسری جگہ جانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی، زیادہ سے زیادہ چند قدم رینگتی پھر جیسے اس کی ہمت جواب دے جاتی۔ ماما جان نے اس سے چھٹکارا پانے کے بجائے کسی شیر خوار بچہ کی طرح اس کی دیکھ بھال شروع کر دی تھی۔ مریم کو متلی ہونے لگتی جب وہ ماما جان کو اس بلی کی گندگی صاف کرتے دیکھتی۔ اسے حیرت ہوتی۔ ماما جان کو گھن کیوں نہیں آتی۔ بلی دن میں جتنی بار گندگی پھیلاتی، ماما جان اتنی بار ہی اسے صاف کرتیں۔ گرم پانی سے اسے نہلایا جاتا۔ اس کے پچھلے دھڑ کی مالش کی جاتی۔ مریم کا دل چاہتا، وہ بلی کو اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دے۔ ایک سال تک اس بلی کی اسی طرح دیکھ بھال ہوتی رہی پھر ایک دن وہ بلی مر گئی۔ اس دن ماما جان نے سارا دن کچھ نہیں کھایا۔ مریم نے خاص طور پر اس دن کھانا پکایا… وہ بہت خوش تھی بلی سے جان چھوٹ گئی۔
دو ہفتوں کے بعد ایک صبح پھر اس نے ماما جان کے پاس بلی کا ایک بچہ دیکھا اور اس کا جی چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے۔ پچھلے بہت سے سالوں سے ایسا ہی ہوتا رہا تھا، ماما جان ایک بار پھر خوش تھیں یوں جیسے ان کے گھر کا کوئی فرد واپس آ گیا ہو۔
”ہاں… ماما جان کے پالتو… میں، بکرا، مرغیاں اور بلی۔” وہ کہتے ہوئے ایک بار پھر تلخی سے مسکرائی۔ اور ان سب میں سے ماما جان کے نزدیک سب سے کم اہمیت کس کی ہے؟ مریم کی۔” وہ ایک بار پھر بڑبڑائی۔ سارا سال ان جانوروں کی جگہ بدلتی رہتی تھی۔ گرمیوں میں وہ صحن میں ہوتے، برسات میں برآمدے میں اور سردیوں کی راتوں کو اسی کمرے میں… بعض دفعہ مریم کا دل چاہتا، وہ وہاں سے بھاگ جائے۔ ایک چھوٹے سے کمرے، برآمدے، غسل خانے اور صحن پر مشتمل اس تین مرلہ گھر سے اسے وحشت ہوتی تھی۔ جہاں کچھ بھی نہیں تھا نہ فریج، نہ ٹی وی، نہ ہیٹر، گیزر… کچھ بھی نہیں… بعض دفعہ جب وہ ماما جان سے الجھ رہی ہوتی تو کہتی۔
”آپ نے بجلی کیسے لگوا لی۔ مجھے حیرت ہے، اس کے بغیر بھی تو گزارہ ہو سکتا تھا۔ دیے استعمال کر سکتے ہیں، لالٹینیں جلائی جا سکتی ہیں یا پھر مشعلیں روشن کر کے دیواروں پر ٹانگی جا سکتی ہیں۔”
ماما جان خاموشی اور سکون کے ساتھ اس کی بات سنتی رہتیں۔ اسے ان کی خاموشی سے چڑ تھی اور سکون سے نفرت… اس کا خیال تھا یہ وہ ہتھیار تھے جو وہ صرف اسے زیر کرنے کے لیے استعمال کرتی تھیں۔
بارش مسلسل تیز ہوتی جا رہی تھی۔ مریم کا غصہ اور بڑھتا جا رہا تھا۔ اسے ہر موسم کی بارش سے نفرت تھی مگر برسات کی بارش… اس کا دل چاہتا، اس موسم میں وہ کسی صحرا میں جا بیٹھے جہاں پانی کا ایک قطرہ تک نہ ہو۔ چاہے پینے کے لیے بھی پانی نہ ملے۔ مگر بس پانی نہ ہو۔
اس موسم میں کیچڑ بھرے صحن اور پھر اس محلے کی گلیوں سے گزر کر جانا اس کے لیے سب سے اذیت ناک کام ہوتا تھا۔ وہ کسی طرح بھی اپنے کپڑوں کو کیچڑ یا گندے پانی کے چھینٹوں سے بچائے بغیر وہاں سے نہیں گزر سکتی تھی اور گندے کپڑوں کے ساتھ اس کالج جانا جہاں وہ پڑھتی تھی، اس کے لیے ڈوب مرنے کے برابر تھا۔ اس کے پاس اس کا ایک ہی حل ہوتا تھا جس دن بارش ہوتی وہ کالج نہ جاتی۔ بعض دفعہ لگاتار کئی کئی دن بارش ہوتی رہتی اور پھر اسے دل پر جبر کرتے ہوئے کالج جانا ہی پڑتا تھا اور تب اپنے پائنچوں اور شرٹ کے دامن پر لگے ہوئے کیچڑ پر پڑنے والی نظریں دیکھ کر اس کا دل زمین میں زندہ گڑ جانے کو چاہتا۔ لباس اچھا اور قیمتی ہو تب بھی کیچڑ کا دھبہ لباس کو بے قیمت کر دیتا ہے اور لباس سستا اور بھدا ہو تو تو پھر اس پر کیچڑ کا دھبہ لباس کو بے قیمت نہیں کرتا… پہننے والے کو بے وقعت کر دیتا ہے۔
اس نے ماما جان کو کمرے میں آتے دیکھا اور ایک بار پھر کتاب کھول کر چہرے کے سامنے کر لی۔ وہ پوری طرح شرابور تھیں۔ ان کے کپڑے جسم سے چپکے ہوئے ان کے کمزور جسم کی ہڈیوں کو بہت نمایاں کر رہے تھے۔ انہوں نے نماز کے لیے اپنے سر اور جسم کے گرد لپٹی ہوئی چادر اتاری اور چادر کو چارپائی پر سوکھنے کے لیے پھیلا دیا۔ اس کے بعد وہ جائے نماز اٹھا کر تہہ کرنے لگی تھیں۔ مریم نے کن اکھیوں سے انہیں دیکھا۔ وہ جائے نماز رکھتے ہوئے کمرے کے ایک کونے کی چھت کو دیکھ رہی تھیں جو خلاف معمول اس سال برسات میں نہیں برس رہا تھا اور پھر ان کے چہرے پر جیسے ایک فخریہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
”اس بار اس کونے سے پانی نہیں ٹپک رہا۔ بارشوں کو شروع ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں پھر بھی یہ حصہ پہلے کی طرح خشک ہے۔” انہوں نے پلٹ کر مریم سے کہا۔
”ہاں۔ اس بار آپ نے کنکریٹ جو بچھا دیا ہے ساری چھت پر… بھلا چھت ٹپکنے کی ہمت کیسے کر سکتی ہے۔”
مریم نے چھت کے دوسرے ٹپکتے ہوئے کونے کو دیکھتے ہوئے بلند آواز میں کہا اور دوبارہ اپنی نظریں کتاب پر جما دیں۔ ماما جان اس کی بات پر کچھ کہے بغیر کمرے سے نکل گئیں اور تھوڑی دیر بعد وہ کمرے کے اندر مٹی کا ایک پیالہ لے کر آئی تھیں جسے انہوں نے چھت سے رسنے والے ان قطروں کے عین نیچے رکھ دیا۔ ہر بار برسات آنے سے پہلے ماما جان چھت کی لپائی کرتی تھیں۔ کئی سال پرانا یہ گھر اور اس کی چھت آہستہ آہستہ بوسیدہ ہوتے جا رہے تھے چھت اب کئی سالوں سے مسلسل ہر سال برسات کے موسم میں ٹپکتی تھی اور ماما جان اب پچھلے تین سالوں سے چھت کو مزید کسی نقصان سے بچانے کے لیے اس پر گارے کی لپائی کرنے سے پہلے پلاسٹک کی ایک شفاف شیٹ اس پر بچھا دیتیں اور پھر اس شیٹ کے اوپر گارے کی لپائی کرتی تھیں۔ اب تک چھت پر تین سالوں میں تین شیٹوں کا اضافہ ہو چکا تھا مگر پھر بھی بارش کا پانی کسی نہ کسی طرح راستہ بنا ہی لیتا اس بار البتہ صرف ایک کونہ ہی رس رہا تھا۔
برسات سے پہلے ہر سال گھر میں ہونے والا یہ تعمیراتی کام بھی اسے ناپسند تھا کیونکہ ماما جان صحن کے بیچوں بیچ کئی دن گارے اور مٹی کا کیچڑ ہاتھوں اور پیروں سے گوندھتی رہتی تھیں۔ ان دنوں ان کے ہاتھ اور پاؤں کہنیوں اور گھٹنوں سے کچھ نیچے تک ہر وقت کیچڑ سے لتھڑے رہتے تھے۔ مریم کو یہ کیجڑ دیکھ دیکھ کر گھن آتی رہتی تھی۔ ان دنوں ماما جان اگر اپنے ہاتھ پاؤں اچھی طرح دھونے کے بعد بھی اس کے لیے روٹیاں پکانے کی کوشش کرتیں تو وہ کبھی کھانے پر تیار نہ ہوتی… اسے تب ان کے صاف ہاتھ بھی گندے ہی لگتے تھے۔ ماما جان کو اس کی اس ناپسندیدگی کا پتا تھا اس لیے ان دنوں وہ خود اس کے لیے روٹی پکانے کے بجائے بازار سے روٹی منگوا لیا کرتی تھیں۔




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!