لاحاصل — قسط نمبر ۱

تاریکی میں اپنے پیروں کے ساتھ سیڑھیوں کو ٹٹولتے ہوئے وہ اوپر کی طرف جا رہی تھی سیڑھیاں بہت ہموار اور چکنی تھیں۔ وہ پیروں سے ان کی لمبائی اور چوڑائی کو ناپتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔
اس نے سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے سیڑھیوں کی ساخت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ سیڑھیاں ماربل کی ہیں۔
اس کا سفر جاری تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
—–*—–
اس رات وہ گھر واپس آیا۔ اپنے بیڈروم میں آ کر وہ ٹائی کھول رہا تھا جب ملازم اندر آیا۔ اس کے ہاتھ میں اخبار میں لپٹی ہوئی کوئی چیز تھی۔
”بیگم صاحبہ نے آپ کے لیے یہ بھجوائی ہے، ڈرائیور دوپہر کو دے کر گیا تھا۔”
”کیا ہے یہ؟” وہ حیران ہوا۔ ”پتا نہیں میرا خیال ہے کوئی تصویر ہوگی۔” ملازم نے وہ چیز اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”تصویر…” ذالعید الجھا اور پھر اس کے ذہن میں جھماکا ہوا وہ ڈوری کاٹنے لگا۔ اسے یاد آ گیا تھا، یہ یقینا اس آرٹسٹ کی بنائی ہوئی کوئی پینٹنگ ہوگی، جس کے بارے میں اس نے ممی کو تاکید کی تھی۔
اس نے اخبار ہٹایا اور وہ مبہوت ہو گیا تھا۔ بے اختیار اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کی تھکن یک دم کہیں غائب ہو گئی ہے۔ اس نے تصویر کو اٹھا کر ایک کرسی کے ہتھوں پر ٹکا دیا اور خود دور بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔ فریم کے بغیر بھی وہ تصویر اس کمرے میں بہت نمایاں لگ رہی تھی۔
تصویر کا بیک گراؤنڈ اس بار بھی سیاہ تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سیاہ رنگ آسمان کو ظاہر کر رہا ہے۔ مٹیالے رنگ کی زمین دکھائی دے رہی تھی جس میں جگہ جگہ دراڑیں تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے خشک سالی کی وجہ سے زمین پھٹنا شروع ہو گئی تھی۔ اس زمین کے بالکل درمیان میں بہت گھنی بیل بل کھاتی ہوئی اوپر آسمان کی طرف جاتی نظر آ رہی تھی۔ وہ بیل زمین میں پیوست تھی مگر زمین سے کچھ اوپر تک اس بیل پر ایک بھی پتا نہیں تھا۔ صرف بیل کی آپس میں لپٹی ہوئی برہنہ شاخیں نظر آ رہی تھیں، پھر کچھ اوپر چند چھوٹے چھوٹے تازہ سبز پتے نظر آنے لگے تھے اور جوں جوں بیل آسمان کی طرف جا رہی تھی۔ پتوں کی تعداد اور سائز بڑھتا گیا تھا، تازہ سبز کلر اب گہرا سبز ہو گیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اوپر آسمان سے کوئی سفید روشنی اس بیل کے بالکل اوپر پڑ رہی تھی اور جہاں تک وہ روشنی پہنچ رہی تھی وہاں تک بیل سرسبز ہو گئی تھی۔ یا پھر شاید اس روشنی کی وجہ سے بیل نیچے سے اوپر کے بجائے اوپر سے نیچے کی طرف شاداب ہونا شروع ہوئی۔ سیاہ بیک گراؤنڈ میں اوپر سے بیل کے سبز گھنے پتوں پر پڑنے والی دودھیا روشنی اور سبز پتوں کے دو مختلف شیڈز نے اس تصویر میں کوئی عجیب سا تاثر پیدا کر دیا تھا۔
ذالعید اٹھ کر تصویر کے پاس گیا اور اس کا کیپشن دیکھنے لگا “Belief” (ایمان) وہ کھڑا ہو کر ایک بار پھر اس تصویر اور اس کیپشن کا آپس میں تعلق واضح کرنے کی کوشش کرنے لگا۔





”Desire and belief خواہش اور ایمان کیا ہے یہ” Mysticism یا Metaphysics? (معرفت یا علم موجود) وہ مسکرانے لگا۔ بیڈ پر پڑا ہوا موبائل اٹھا کر اس نے ممی کا نمبر ملایا۔ سلام دعا کے بعد نزہت نے اس سے تصویر کے بارے میں پوچھا۔
”ممی! تھینک یو ویری مچ وہ مجھے مل گئی ہے۔”
”کیسی لگی تمہیں؟”
”ممی! یہ میں نہیں بتا سکتا ہر چیز کی تعریف کرنا ممکن نہیں ہوتا مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ پینٹر کا پتا کریں۔”
”میں مسز سمیع سے بات کروں گی۔ انہیں پتا ہوگا۔ کہ یہ پینٹنگ کہاں سے آئی ہے۔”
”اس کی کیا قیمت تھی؟”
”وہی دو ہزار روپے، آج ہی لے کر آئی ہوں میں۔” نزہت نے بتایا۔
”It’s deplorable (یہ انتہائی افسوسناک ہے) یہ آرٹسٹ کیا کر رہا ہے اپنے کام کے ساتھ؟ کوڑیوں کے بھاؤ بیچ رہا ہے۔ بری سے بری پینٹنگ بھی کسی آرٹ گیلری میں رکھی ہو تو اچھی قیمت لگ جاتی ہے اس کی۔ اور یہ تو بہت آؤٹ سٹینڈنگ کام ہے۔” ذالعید کو واقعی افسوس ہو رہا تھا۔
”ہو سکتا ہے کوئی فنانشل کرائسس ہو اس لیے وہ اس طرح اپنی تصویریں بیچ رہا ہے۔ آرٹ گیلریز والے تو تمہیں پتا ہی ہے کسی چھوٹے موٹے آرٹسٹ کو کہاں پوچھتے ہیں اور پھر نقد رقم کہاں دیتے ہیں، جب بکتی ہے تب ہی ادائیگی کرتے ہیں۔” نزہت نے تفصیل سے بتایا۔
”بہرحال آپ مجھے اس آرٹسٹ کا پتا کر کے بتائیں۔”
”ٹھیک ہے صبح مسز سمیع سے بات کروں گی۔” نزہت نے کہا ذالعید نے خدا حافظ کہہ کر موبائل بند کر دیا وہ ایک بار پھر اس تصویر کو دیکھنے لگا۔
—–*—–
نزہت نے دوسرے دن مسز سمیع سے بات نہیں کی۔ وہ بھول گئی تھیں کہ ذالعید نے ان سے کوئی کام کہا ہے۔ دوسری طرف ذالعید کو بھی ان ہی دنوں سنگاپور جانا پڑا، وہاں سے وہ فیکٹری کی کچھ مشینری خریدنے کے لیے کوریا چلا گیا۔
ایک ڈیڑھ ماہ بعد جب وہ واپس آیا تو ای پی بی کی طرف سے بیرون ملک ہونے والے کچھ تجارتی میلوں کی تاریخیں آ چکی تھیں۔ وہ ان میں مصروف ہو گیا۔ وہ دو تصویریں مکمل طور پر اس کے ذہن سے نکل گئیں۔
کلب میں دوبارہ کوئی پینٹنگ نہیں آئی جسے نزہت خریدتیں اور ذالعید کو دوبارہ وہ آرٹسٹ یاد آتا۔
—–*—–
ماما جان کے ساتھ یہ اس کا پہلا اختلاف نہیں تھا۔ اس کی پوری زندگی ہی اختلافات سے بھری ہوئی تھی۔ وہ زندگی میں کبھی بھی اپنے ماحول سے مطمئن نہیں رہی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ مریم کا یہ خیال تھا کہ ان کا یہ ماحول بہتر ہو سکتا تھا اگر ماما جان… اور یہ اگر اسے ہمیشہ تکلیف پہنچاتا رہا، جوں جوں وہ عمر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اس کا یہ ڈپریشن بڑھتا جا رہا تھا۔
اسے خود سے وابستہ ہر چیز سے نفرت تھی۔ اپنے ماحول سے اپنے گھر سے، وہاں موجود چیزوں سے، اس محلہ کے لوگوں سے، ان ٹوٹی گلیوں سے، اپنے سبزی اور پھل فروش باپ کی اس دکان سے جو اس کے گھر کے رستہ میں آتی تھی۔ وہاں سے گزرتے ہوئے اس کی ہتھیلیوں میں پسینہ آتا اور چہرہ سرخ ہو جاتا۔ اس نے وہاں سے گزرتے ہوئے کبھی سر اٹھا کر اس دکان پر موجود شخص کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ جہاں تعلیم حاصل کرنے جاتی تھی وہاں اس کے باپ کا یہ پیشہ کتنے لوگوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر سکتا تھا، وہ اندازہ کر سکتی تھی۔
”میں ان میں سے نہیں ہوں، میں ان میں سے ہوں ہی نہیں۔” وہ ہر دفعہ اس محلے سے، اس دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک منتر کی طرح، یوں یہ لفظ دہراتی رہتی جیسے کسی جادو کے لیے کوئی توڑ کر رہی ہو۔
پھر جب اس کے باپ کی وفات ہو گئی تو اسے اپنے اندر ایک بہت کمینہ سا اطمینان محسوس ہوا، کم از کم اسے شرمندہ کرنے والی چیزوں میں سے ایک کی کمی ہو گئی تھی۔ اب کبھی اسے اس دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس طرح سر جھکانا نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اس سبزی کی دکان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔
مگر اس کے لیے قابل اعتراض چیزوں کی لسٹ بہت لمبی تھی اور شاید یہ لسٹ لمبی ہی رہتی اگر این سی اے میں گریجویشن کے آخری سال اسے ان تمام چیزوں سے فرار کا موقع اپنے سامنے نظر آنا نہ شروع ہو جاتا اس کی زندگی میں بہت غیر معمولی حالات میں ایک شخص آ گیا تھا اور اس شخص کی آمد نے اس کے لیے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا۔
—–*—–
”کیا بندہ ہے یار!” آئزہ درانی کی آواز میں رشک تھا یا ستائش، اُمّ مریم کو اندازہ نہیں ہوا لیکن اس نے گردن موڑ کر ادھر ضرور دیکھا جس سمت وہ دیکھ رہی تھی۔
ان سے چند فٹ کے فاصلے پر نیوی بلوٹی شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس ایک دراز قد شخص نائلہ حبیب اور صوفیہ علی کے ساتھ باتوں میں مشغول تھا۔
” Very good looking yar ”مریا نے ہلکی سی سیٹی کے ساتھ آئزہ کی بات کی تائید کی۔ مریم نے اپنے دل میں اعتراف کیا ان دونوں کی تعریف بے جا نہیں تھی۔ وہ شخص واقعی بہت ہینڈ سم تھا۔
این سی اے میں وہ روز ایسے بہت سے چہرے اور لوگ دیکھتی تھی، جنہیں بار بار دیکھنے کو دل چاہتا ہے یا پھر جن پر نظر بے اختیار ٹک جاتی ہے مگر اس شخص میں خوبصورتی کے علاوہ وقار بھی تھا۔ اس کے کھڑے ہونے کا انداز، چہرے اور ہاتھوں کی حرکات میں عجیب سا ٹھہراؤ تھا۔
مریم نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ وہ ایک بار پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اسائنمنٹ دیکھنے لگی، مگر اسے احساس ہو گیا تھا کہ اب یہ کام ممکن نہیں رہا، اس کی توجہ بری طرح بٹ چکی تھی۔
”صوفیہ علی دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہے۔” آئزہ درانی نے بالآخر ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟ یہ اچانک اس کی خوش قسمتی کا انکشاف کیسے ہوا تم پر؟” مریا نے ایک بار پھر چپس کھانے شروع کر دیے۔
”اگر کالج میں بیس اچھے چہرے ہوں اور ان میں سے انیس صوفیہ کے دیوانے ہوں تو یقینا اسے خوش قسمتی کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے۔”
آئزہ درانی نے چپس کے پیکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ”اور اس سے بھی دردناک بات یہ ہے کہ اس کالج میں آنے والا ہر ہینڈسم شخص کسی نہ کسی حوالے سے صوفیہ سے منسلک ہوتا ہے۔ اب اسی شخص کو دیکھ لو تم، میں نے آج پہلی بار اسے دیکھا ہے اور وہ بھی صوفیہ کے ساتھ… ماننا پڑے گا یار صوفیہ میں کوئی ایسی بات ہے جس نے اسے ہیلن آف ٹرائے بنایا ہوا ہے۔ کالج بھرا ہوا ہے خوبصورت لڑکیوں سے مگر صوفیہ، صوفیہ ہے۔ اگر کالج میں بیوٹی کونٹیسٹ ہو تو مجھے یقین ہے کہ ٹائیٹل صوفیہ ہی جیتے گی۔”
آئزہ درانی بڑے کھلے دل سے صوفیہ کی تعریف کر رہی تھی۔ مریم کے لیے اسائنمنٹ کو دیکھنا اور بھی مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ ”ابھی بھی دیکھو کس قدر مشکل ہے اس بندے کے لیے صوفیہ کے چہرے سے نظر ہٹانا۔”
آئزہ ایک بار پھر کہہ رہی تھی۔ مریم نے سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا۔ وہ شخص صوفیہ پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ وہ واقعی کسی اور چیز کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
”ویسے مجھے لگ رہا ہے میں نے اس شخص کو پہلے کہیں دیکھا ہے مگر کہاں؟” آئزہ نے اچانک کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”کمال ہے تمہیں بھی یہی لگ رہا ہے۔ مجھے بھی یہی محسوس ہوا تھا جیسے میں اس شخص کو پہلے کہیں دیکھ چکی ہوں۔” مریا نے کہا۔
”کیوں مریم تمہیں بھی ایسا نہیں لگ رہا جیسے تم اس شخص کو پہلے دیکھ چکی ہو؟” اس بار آئزہ نے مریم کو مخاطب کیا، وہ تینوں کالج کے کوریڈور کی سیڑھیوں میں بیٹھی ہوئی تھیں۔
”پتا نہیں۔” اس نے مختصر جواب دیا اور ایک بار پھر اپنی توجہ اسائنمنٹ پر کر لی۔
”میرا خیال ہے وہ جا رہا ہے۔” آئزہ نے کمنٹری کی وہ شخص اب صوفیہ سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ان کے بالکل سامنے سے گزرا، اس کے بائیں ہاتھ میں ایک موبائل تھا جس پر وہ چلتے ہوئے کوئی نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے ان لوگوں کی طرف ایک سرسری نظر ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اسے پاس سے دیکھنے پر مریم کو یک دم احساس ہوا جیسے وہ بھی اسے پہلے کہیں دیکھ چکی ہے۔
”یار! یہ بندہ دور سے جتنا خوبصورت نظر آ رہا تھا پاس سے اس سے زیادہ خوبصورت ہے۔” آئزہ درانی نے دور جاتے ہوئے اس شخص کی پشت پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
”ہیلو صوفیہ…!” مریا نے یک دم صوفیہ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ اور نائلہ مسکراتی ہوئی ان کی طرف آنے لگیں۔
”میں صوفیہ سے اس کے بارے میں پوچھتی ہوں۔” مریا نے آئزہ سے کہا۔
”یہ کون تھا یار…؟” اس کے قریب آتے ہی آئزہ نے سوال داغا۔
”یہ… یہ ذالعید اوّاب ہے میرا کزن ہے۔” صوفیہ نے کچھ فخریہ ا نداز میں تعارف کروایا۔
”صرف کزن یا کچھ اور بھی…؟” وہ آئزہ کی بات پر بے اختیار دلکش انداز میں ہنسی۔
”ابھی تو کزن ہے ”اور” کا پتا نہیں۔”
”یعنی چانسز ہیں؟” آئزہ مکمل تحقیق کے موڈ میں تھی۔
”چانسز تو ہمیشہ ہی ہوتے ہیں۔” صوفیہ نے بڑے اسٹائل میں کہا۔
”اس کو پہلے یہاں کبھی نہیں دیکھا۔” مریا نے پوچھا۔
”نہیں کچھ سال پہلے اس نے یہاں ایڈمشن لیا تھا پھر چند ماہ بعد این سی اے چھوڑ کر کراچی چلا گیا۔ وہاں انڈس ویلی سے اس نے گریجویشن ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں کیا۔ ایک ڈیڑھ سال سے انکل کی ٹیکسٹائل فیکٹری چلا رہا ہے۔” صوفیہ نے تفصیلی تعارف کروایا۔
”ہمیں دراصل یہ لگ رہا تھا کہ اسے کہیں دیکھا ہے۔” مریا نے وضاحت کی۔
”ضرور دیکھا ہوگا۔ کبھی کبھار ماڈلنگ کرتا ہے۔ دو تین سال پہلے تو اچھی خاصی ماڈلنگ کی تھی اس نے، اب جب سے بزنس کر رہا ہے تب سے چھوڑ دی ہے۔” صوفیہ نے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے اس کو کسی میگزین میں دیکھا ہوگا۔ ہم لوگ یہی سوچ رہے تھے کہ اس کا چہرہ ہمیں اتنا شناسا کیوں لگ رہا ہے۔” آئزہ کو جیسے اطمینان ہوا۔
”ابھی بھی ایک فیشن شو کروا رہا ہے، اپنے آپ کو انٹروڈیوس کروانے کے لیے۔ یہاں این سی اے میں آتا جاتا رہے گا، کچھ سٹوڈنٹس کی ضرورت ہے اسے جو اس سلسلے میں اس کے ساتھ کام کر سکیں۔ ایک پروجیکٹ ہے جو وہ کروانا چاہ رہا ہے، تم لوگوں کو اگر دلچسپی ہو تو میں ملوا سکتی ہوں اس سے۔” صوفیہ نے آفر کی۔
آئزہ اور مریا ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
”کس طرح کا پرجیکٹ ہے؟” آئزہ نے پوچھا۔
”یہ مجھے نہیں پتہ، میں نے اس بارے میں بات نہیں کی۔ تم لوگ تفصیلات خود پوچھ سکتی ہو۔”
”ٹھیک ہے، ہم واقعی کام کرنا چاہیں گے۔” آئزہ ایک دم پر جوش ہو گئی۔
”تو پھر اس کا کانٹیکٹ نمبر لکھ لو۔” صوفیہ نے اس کا کانٹیکٹ نمبر لکھواتے ہوئے کہا۔ آئزہ اور مریا نے اپنے بیگز سے ڈائری نکال لی جبکہ مریم اس ساری گفتگو کے دوران سر نیچا کیے اسی اسائنمنٹ پر جھکی رہی۔ وہ واضح طور پر صوفیہ کو نظرانداز کر رہی تھی اور صوفیہ نے بھی یہی کیا تھا۔
”یہ اس کے گھر کا نمبر ہے۔ رات کو دس بجے کے بعد وہ اس نمبر پر مل سکتا ہے اور یہ اس کا موبائل نمبر ہے۔” صوفیہ نے بڑی روانی سے دونوں نمبر زبانی دہرائے۔
”تم لوگ میرا ریفرنس دے کر اس سے بات کر سکتی ہو، میں اس کو تم لوگوں کے بارے میں بریف کر دوں گی۔ مجھے تھوڑا کام ہے، میں اب جا رہی ہوں۔” صوفیہ نائلہ کے ساتھ چلی گئی۔
”مریم! تم نے نمبر نوٹ کر لیا؟” آئزہ کو اچانک مریم کا خیال آیا۔
”نہیں۔”
”کیوں تمہیںتو ایسے پروجیکٹس میں خاصی دلچسپی ہوتی ہے اور تمہاری شہرت تو ایسے پروجیکٹس کے حوالے سے خاصی اچھی ہے۔” آئزہ کو تعجب ہوا۔
”ہاں، مگر صوفیہ کے ریفرنس سے مجھے کسی سے کام نہیں لینا۔” اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
”کیا ہے یار! کلاس فیلو ہے۔ ایسے ریفرنس تو چلتے ہی ہیں یہاں پر۔” مریم کچھ کہنے کی بجائے اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔ آئزہ اور مریا نے دوبارہ اس سے کانٹیکٹ نمبر کا ذکر نہیں کیا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!