لاحاصل — قسط نمبر ۱

اس رات اس عمارت پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے چھاپہ مارا۔ کرسمس سے چند دن پہلے اس عمارت کے باہر کسی کا قتل ہوا تھا۔ اس وقت بھی پولیس وہاں آئی تھی۔ قتل کس نے کیا تھا؟ کیوں کیا تھا؟ قتل کون ہوا تھا؟ پولیس کو کس پر شک تھا؟ کیتھرین کو کچھ اندازہ نہیں تھا۔
مگر وہاں پر چھاپہ اس قتل کے سلسلے میں نہیں ہوا تھا۔ بہت ماہ کی پلاننگ کے بعد سکاٹ لینڈ یارڈ نے اس عمارت پر ڈرگز کی برآمدگی کے لیے چھاپہ مارا تھا اور وہ اس میں کامیاب رہے تھے۔ اس عمارت کے مختلف حصوں سے انہوں نے بہت سے مشکوک لوگوں کو حراست میں لیا تھا اور کیتھرین بھی ان میں سے ایک تھی۔ انہوں نے اس کے بارے میں جو چھان بین کی تھی اس میں ایک Hooker کے طور پر اس کی گذشتہ سرگرمیاں بھی تھیں۔
کیتھرین کے فلیٹ کی تلاشی کے دوران وہاں سے کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی۔ اس کے باوجود پولیس نے کئی گھنٹوں تک اس سے پوچھ گچھ کی۔ Hooker کے طور پر اس کے پچھلے ریکارڈ کو اس سے ڈسکس کیا گیا۔ اس عمارت میں آنے جانے والے لوگوں کے بارے میں اس سے پوچھا گیا۔ حتیٰ کہ مظہر کے بارے میں بھی اس سے پوچھا گیا بے تحاشا خوفزدہ ہونے کے باوجود وہ اس بات پر مصر رہی کہ اسے اس عمارت میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے۔
کئی گھنٹوں کے بعد وہ بھی اس عمارت کے ان مکینوں میں شامل تھی جنہیں مشکوک نہ سمجھتے ہوئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ خوفزدہ ہونے کے باوجود وہ خوش اور مطمئن تھی کہ وہ رہائی پا چکی ہے۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی وہ اب اس سے بڑے جال میں پھنسنے والی تھی۔
—–*—–
گھر پہنچنے کے تین گھنٹے بعد ایک بار پھر اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ کیتھرین نے کچھ خوف کے عالم میں دروازہ کھول دیا۔
”ہمارا تعلق اسکاٹ لینڈ یارڈ سے ہے۔ آپ کو پھر ہمارے ساتھ چلنا ہے۔” کیتھرین نے ان کا بیج دیکھنے کی ضد نہیں کی۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنا کوٹ اور بیگ لے کر باہر نکل آئی۔
نیچے آ کر اسے حیرانی ہوئی جب وہ اسے کسی پولیس کار میں بٹھانے کے بجائے ایک پرائیویٹ کار میں بٹھانے لگے۔ وہ کچھ الجھتے ہوئے کار میں بیٹھ گئی وہ دونوں آدمی اس کے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص نے کار چلا دی۔
مین روڈ پر آتے ہی اس کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص نے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک بوتل نکالی اور بہت تیزی سے کیتھرین کے چہرے پر اسپرے کیا۔ سانس لیتے ہوئے اسے یک دم اپنا ذہن ماؤف ہوتا محسوس ہوا اور اگلے ہی لمحے اسے اپنے اردگرد تاریکی چھاتی محسوس ہوئی۔
—–*—–





کیتھرین نے آنکھ کھلنے پر خود کو ایک کمرے میں پایا۔ وہ کچھ دیر بستر پر پڑی اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی پھر وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ بھاگتے ہوئے وہ کمرے کے دروازے کی طرف گئی اور اس نے اسے کھولنے کی کوشش کی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ وہ کھڑکی کی طرف گئی اور ایک جھٹکے کے ساتھ اس نے پردے کھینچ دیے چند لمحوں کے لیے وہ ہل بھی نہیں سکی۔
وہ لکڑی کے بنے ہوئے اس گھر کی دوسری منزل پر تھی اور دور دور تک کہیں بھی کوئی گھر نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی ویرانے میں آ گئی ہو، مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کسی ویرانے میں نہیں آئی۔ وہ شہر سے باہر مضافاتی علاقے کے کسی گھر میں تھی اور مسلسل ہونے والی برف باری نے اردگرد موجود تمام سبزہ ڈھک دیا تھا۔ باہر دور دور تک گرتی ہوئی برف کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔
”پولیس مجھے اس طرح… ایسی جگہ پر کیوں لے کر آئے گی۔” اسے یک دم خوف محسوس ہونے لگا واپس دروازے کی طرف جا کر اس نے زور زور سے دروازے کو دھڑ دھڑایا۔
کچھ دیر بعد اچانک اسے دروازے کے باہر چند لوگوں کے بولنے کی آواز آنے لگی۔ وہ دروازہ بجانا بند کر کے پیچھے ہٹ گئی۔ حسب توقع دروازہ کھل گیا تھا۔ اس نے تین آدمیوں کو اندر آتے دیکھا ان میں سے ایک وہی تھا جو اس کے فلیٹ پر آیا تھا۔
”تمہارا تعلق پولیس سے نہیں ہے۔ مجھے یہاں پر اس طرح کیوں لے کر آئے ہو؟”
”تم ٹھیک کہہ رہی ہو کیتھرین! ہمارا تعلق پولیس سے نہیں ہے۔” اسی آدمی نے بڑے پرُسکون انداز میں کہا۔
”اور تم اس وقت لندن میں بھی نہیں ہو۔ کل تمہیں کچھ دوسری لڑکیوں کے ساتھ لیسٹر بھجوا دیا جائے گا۔ ہم لوگ کال گرلز کا ایک ریکٹ چلاتے ہیں اور اب تم ہمارے لیے کام کرو گی۔”
کیتھرین کے جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگیں۔
”تم لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے میں کال گرل نہیں ہوں میں…”اس آدمی نے اس کی بات کاٹ دی اور جیب سے کچھ کاغذات نکالتے ہوئے کہا۔
”تم کیا ہو؟” ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیتھرین الیگزینڈر براؤن… عمر اٹھارہ سال دو ماہ… ماں کا نام روتھ براؤن۔ باپ کا نام علیم ساجد۔ وہ پاکستانی تھا۔ دو سال پہلے تمہاری ماں کا انتقال ہوا، وہ ایک بار میں کام کرتی تھی۔ اس کے بعد تم نے ایک Hooker کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔”
”میں نے وہ کام چھوڑ… دیا… میں اب… ایک سٹور پر کام کرتی ہوں۔ میں سب کچھ چھوڑ چکی ہوں۔”
وہ اب دہشت زدہ ہو رہی تھی۔ وہ آدمی کاغذ پر نظریں جمائے بولتا رہا۔
”بہن بھائی… کوئی نہیں۔ رشتہ دار…” وہ اب اس کے رشتہ داروں کی تفصیل بتا رہا تھا وہ لرزتے وجود کے ساتھ اس شخص کو بولتے سنتی رہی بہت دیر بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس واقعی کیتھرین کے بارے میں ساری معلومات تھیں۔
”ہم تمہیں بہت اچھا معاوضہ دیں گے۔ اچھا فلیٹ ہوگا اور…” کیتھرین نے اس کی بات کاٹ دی۔
”دیکھیں میں Hooker نہیں ہوں۔ میں اب کوئی غلط کام نہیں کرتی۔ میں بہت جلد شادی کرنے والی ہوں۔ میرا منگیتر پاکستان گیا ہے۔ چند ہفتوں کے بعد واپس آ جائے گا اور اور ہم دونوں۔” اس شخص نے کرخت لہجے میں اس کی باٹ کاٹی۔
”مظہر خان۔ یہی نام ہے اس کا، وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا نہ ہی تمہارے ساتھ شادی کرے گا۔ اپنی مرضی سے یا زبردستی تمہیں کام وہی کرنا ہے جو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں تمہارے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے تم ہمارے لیے کام کرو، میں دروازہ بند کر رہا ہوں اب جتنا چاہو اسے بجاؤ، یہ نہیں کھلے گا، نہ ہی تمہارا شور سن کر یہاں کوئی آئے گا۔ بہتر ہے، تم اتنی زحمت کرنے کے بجائے آرام سے بیٹھی رہو۔”
وہ شخص دوسرے دونوں آدمیوں کے ساتھ دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ کیتھرین وہیں کمرے کے وسط میں کھڑی رہی۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا یہ سب اس کے ساتھ ہوا ہے۔ ”اس طرح مجھے کیسے لا سکتے ہیں یہ لوگ؟ اور میرے بارے میں اتنا سب کچھ کیسے جانتے ہیں؟ پولیس اور مظہر کے علاوہ تو… کیا مجھے؟… انہیں مجھ تک کس نے پہنچایا ہے؟ میرا ایسا دشمن کون ہو سکتا ہے؟ جو… پچھلے آٹھ ماہ سے مظہر کے علاوہ تو میں کسی کے ساتھ بھی نہیں رہی پھر… اور یہ کہہ رہے ہیں کہ مظہر کو کیسے جانتے ہیں یہ…؟ کیا انہیں مظہر نے…” وہ کمرے میں پاگلوں کی طرح چکر کاٹتے کاٹتے رک گئی۔
”کیا مظہر نے انہیں مجھ تک پہنچایا ہے؟ کیا مظہر آٹھ ماہ سے اسی کام کے لیے مجھے ٹریپ کر رہا تھا؟ کیا وہ مجھ پر اس لیے روپیہ خرچ کرتا رہا کیا مجھے مظہر نے دھوکا دیا ہے؟ ہاں مظہر کے علاوہ تو کوئی اور میرے اتنا قریب نہیں رہا جو یہ تک جانتا ہو کہ میرا باپ پاکستانی اور اس کا نام علیم ہے۔ مگر مظہر میرے ساتھ فریب کیسے کر سکتا ہے وہ تو مجھ سے محبت کرتا تھا۔ مجھے اس طرح دلدل میں دھکا کیسے دے سکتا ہے؟”
کیتھرین کو رونا نہیں آیا خشک آنکھوں کے ساتھ وہ کھڑکی کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔
”اس نے مجھے برباد کر دیا اس نے مجھے مار دیا۔” اس کے کانوں میں اپنی ماں کی شراب کے نشے میں ڈوبی ہوئی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔
”اس نے مجھے تباہ نہیں کیا۔” وہ باہر گرتی برف کو دیکھتے ہوئے بڑبڑانے لگی۔
”اس نے مجھے مارا بھی نہیں، اس نے مجھے زندہ برف میں دفن کر دیا ہے اور دفن ہونے کے بعد اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھ پر کتنی برف گرتی ہے میں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ اب یہ برف کبھی نہ پگھلے کبھی کوئی دوبارہ میرا وجود تک نہ دیکھ پائے۔ مظہر خان…” وہ بے اختیار ہنسی اس نے کھڑکی کے شیشے پر اپنا سانس چھوڑا شیشہ دھندلا ہو گیا۔ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو اس نے شیشے پر رکھ دیا، شیشے پر اس کے ہاتھ کا پرنٹ آ گیا۔
”تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے مظہر…! یہ میری قسمت ہے۔ میں روتھ براؤن کی بیٹی ہوں میں کبھی کسی کی بیوی نہیں بن سکتی۔”
وہ ایک بار پھر بڑبڑا رہی تھی۔
”مجھے خدیجہ نام بہت پسند ہے۔ میں تمہارا نام خدیجہ رکھوں گا۔” ایک سرگوشی اس کے کانوں میں لہرائی وہ ہنس پڑی۔
وہ گنگنانے لگی۔
“Jingle bells, Jingle bells jingle all the way
Santa Claus is coming along riding on the sleigh.”
”تم ہنستی اچھی لگتی ہو، ہنسا کرو۔” اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
”میں واپسی پر تمہارے لیے بہت سارے پاکستانی لباس لاؤں گا۔” اس نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے ایک بار پھر کرسمس کیرل گانے کی کوشش کی۔
”ہم دونوں زندگی میں ایک بار ٹیمز میں مچھلی کا شکار ضرور کریں گے ٹھیک ہے کیتھی؟”
وہ بے تحاشا ہنسنے لگی۔ اسے اپنے گالوں پر کوئی چیز بہتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کھڑکی کے شیشے سے اس کے ہاتھ کا نشان غائب ہو چکا تھا۔ سب کچھ غائب ہو چکا تھا زندگی، محبت، تعلق، رشتہ، اعتماد، خواب، امید، آرزو، روشنی، رہ جانے والی چیز برف تھی، نظر آنے والی چیز برف تھی جو ہر چیز پر گر رہی تھی، دونوں ہاتھ کھڑکی کے شیشوں پر رکھے ماتھا کھڑکی سے ٹکائے وہ اب بچوں کی طرح رو رہی تھی، برف باری اور تیز ہوتی جا رہی تھی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

سیاہ پٹی — عرشیہ ہاشمی

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۲

One Comment

  • Abhi paruhi tb

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!