عکس — قسط نمبر ۹

اپنے نانا کو حوالات کے پیچھے دیکھ کر چڑیا ہل کر رہ گئی تھی۔ اس کی زندگی کی تکلیف دہ یادوں میں ایک اور یاد کا اضافہ ہوگیا تھا۔تھانے دار نے زمین کی جعلی رجسٹری کے کاغذ پھاڑتے ہوئے بڑے تنفر سے چڑیا سے کہا تھا۔”اس بڈھے کو سمجھا دینا کہ وہ دوبارہ اس گاؤں میں مت آئے، زمین تو اسے ملنی نہیں ہے اگلی بار اپنی ”عزت” سے بھی ہاتھ گنوا کر جائے گا۔وہ کس” عزت” کی طرف اشارہ کررہا تھا چڑیا کو وہ اشارہ سمجھنے کے لیے کسی ڈکشنری کی ضرورت نہیں تھی۔ تھانے میں ایس ایچ او کے کمرے میں تھانے کے آدھ درجن مرد عملے کی اوپر سے نیچے تک ایکسرے کی طرح چادر کے اندر لپٹے اس کے وجود کو کھنگا لتی ہوئی غلیظ نظریں اور مکروہ مسکرا ہٹیں فاطمہ کو ہر مفہوم سمجھانے کے لیے کافی تھیں۔ تھانے دار کی میز کے بالمقابل کسی سائل کی طرح کھڑے لرزتے کانپتے خیر دین کے لیے گندی گالیاں سنتے ہوئے فاطمہ نے ویسا ہی خوف، ویسی ہی ذلت محسوس کی تھی اس دن بھی جیسے اس روز ڈی سی ہاؤس میں کپڑے اتار کر کھڑا کردیا تھا۔ وہ آج بھی ویسی ہی دہشت زدہ اور گنگ تھی۔ ویسے ہی لرزتی کانپتی سسکیاں، ہچکیاں لیتی ہوئی… وہ وہاں خیر دین کو چھڑانے آئی تھی بالکل اسی طرح جیسے کئی سال پہلے اس رات خیر دین اسے بچانے آیا تھا۔
دو دن پہلے گاؤں میں آتے ہی خیر دین نے اپنی زمین پر ناجائز قبضے کے لیے اپنے خاندان کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کروائی تھی اور اس وقت اس ایس ایچ او نے بڑی عزت اور احترام کے ساتھ رشوت کے کچھ پیسے لینے کے بعدا س کے خاندان کے خلاف ایک بڑی مضبوط ایف آئی آر رجسٹر کی تھی اور خیر دین کو بھر پور کارروائی کا یقین دلایا تھا ۔خیر دین ایک عجیب سی خوشی اور سرشاری کے عالم میں واپس گھر آیا تھا اور تقریباً ساری رات بے حد خوشی کے عالم میں چڑیا کے ساتھ وہ سارے منصوبے شیئر کرتا رہا جو وہ اس زمین کی واپسی کے بعد اس زمین کے حوالے سے بنارہا تھا۔ فاطمہ نے اپنے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کے بعد اسی دن پہلی بار خیر دین کو ایسا خوش اور پرجوش دیکھا تھا۔
اگلی صبح فجر کے فوراً بعد چند پولیس والے آکر خیر دین کو گاؤں کے اس کے دوست کے گھر سے اس کے دوست کے ہمراہ ہتھکڑیاں پہنا کر گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ فاطمہ جب تک گھرکی خواتین کے ہنگامے پر بیدار ہوئی خیر دین وہاں سے لے جایا جا چکا تھا۔ ایک عجیب سی سراسیمگی اور خوف کے عالم میں وہ جیسے بے اختیار ہو کر اس خاندان کی عورتوں کے ساتھ تھانے گئی تھی جہاں اسی تھانے دار نے اسے ان تمام عورتوں سے الگ کرلیا تھا۔ اس نے چڑیا کو خیر دین سے ملنے نہیں دیا لیکن تھانے میں اپنے رہائشی کمرے میں کمرا بند کرتے ہوئے دھمکاتے ہوئے زمین کی رجسٹری لانے کا حکم دیا تھا اور اسے نہ لانے کی صورت میں جن نتائج کی دھمکی دی تھی وہ فاطمہ اس کمرے سے باہر آنے کے بعد کسی کے سامنے دہرانے کے قابل بھی نہیں تھی۔ عجیب دہشت کے عالم میں وہ واپس گھر گئی تھی اور رجسٹری لے کر واپس تھانے آگئی تھی۔ وہ پاکستان کے بہترین اسکول ،کالج سے پڑھتے ہوئے پاکستان کے ایک بہترین میڈیکل کالج میںزیر تعلیم تھی۔ غیر معمولی ذہانت کی حامل ایک روشن مستقبل رکھنے والی لڑکی تھی۔ لیکن وہ پاکستان کے ایک دور افتادہ علاقے میں ایک لوہار کمی کمین کی نواسی تھی۔ جو کمزور اور نوجوان تھی اور بھیڑیوں کے چنگل میں تھی۔ گوشت خور تو شکار کرتے ہوئے صرف بھوک سے مجبور ہو کر گوشت کھانے کی ترغیب پاتا ہے۔ انسان وہ واحد جانور ہے جو بھوک نہ ہونے کے باوجود بھی کسی دوسرے انسان کی ہڈیاں بھنبھوڑ سکتا ہے۔اگر وہ اسے کمزور ،اکیلا اور نہتا نظر آتا ہو… انسان صرف اسی وجہ سے زیادہ خطرناک اور کم ظرف جانور ہے۔
بہت سال پہلے ایسا ہی ایک سمجھوتا خیر دین نے کیا تھا جو حوالات سے باہر آنے کے لیے…اپنی زندگی کے ملبے میں سے وہ سامان نکالنے کے لیے جس سے وہ دوبارہ اپنی زندگی بنا پاتا… نو سال بعد وہ رجسٹری اس ایس ایچ او کو تھماتے ہوئے ویسا ہی ایک سمجھوتا فاطمہ نے کیا تھا… اپنی اور خیر دین کی زندگی کو ایک بار پھر ملبے کا ڈھیر بن جانے سے بچانے کے لیے… وہ جانتی تھی اس رجسٹری کے ضائع ہوجانے کے بعد زمین کا وہ ٹکڑا خیر دین کبھی نہیں لے سکتا تھا لیکن زمین کے ٹکڑے زندگی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کا باعث نہیں بننے چاہئیں۔




حوالات میں خیر دین اور چڑیا کا آمنا سامنااس رجسٹری کو دے دینے کے بعد ہوا تھا اور حوالات کے دروازے کے سامنے چڑیا کے نمودار ہوتے ہی خیر دین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔ وہ جانتا تھا حوالات کے اس کھلنے والے دروازے کی قیمت کیا تھی۔
خسارے کا ایک اور سودا اور دل پر ایک اور داغ لے کر وہ دونوں اپنی عزت کو جیسے ایک گٹھڑی میں باندھے ہمیشہ کے لیے اس گاؤں سے نکل آئے تھے اب پیچھے واقعی کچھ نہیں رہا تھا۔ اس کے خاندان نے خیر دین کی ایف آئی آر کے جواب میں اس مقامی ایم پی اے کی مددلی تھی جس کے حلقے میں وہ ووٹر تھے اور جس کے لیے ایک ایف آئی آرکا صفحہ تھانے دار کی لاگ بک سے غائب کرنا جیسے ایک چھومنتر کی طرح تھا۔
خیر دین کو حوالات سے نکلوانے کے بعد چڑیا اور وہ گاؤں میں نہیں رکے تھے ۔ایک بس میں آٹھ گھنٹے کا سفر کرتے ہوئے وہ واپس آگئے تھے لیکن آٹھ گھنٹے کا وہ سفر فاطمہ کے لیے انگاروں کا ایک سفر تھا۔ خیر دین بس کی کھڑکی سے باہر دیکھتا چادر میں منہ چھپائے روتا رہا تھا اور فاطمہ اس تجربے سے کچھ نئے سبق لیتی اور اندازے لگاتی رہی تھی …اور اس سفر میں جو پہلا سبق اس نے لیا تھا وہ یہ تھا کہ نانا کی ہر بات ہمیشہ ٹھیک نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کی بہت ساری باتیں صرف کتابی ہوسکتی تھیں۔ زندگی میں اچھائی برائے اچھا ئی ہو تو سکتی ہے لیکن یہ ہر وقت نہیں ہوسکتا ۔تھوڑا سا مزید زہر تھا جواس نے پیا تھا اور وہ پہلا موقع تھا جب خیر دین کی محبت کا منکا اس کے اندر سے وہ زہرچوسنے میں ناکام رہا تھا۔
……٭……

وہ ان پیپرز میں لکھی تحریرکا سرپیر سمجھنے میں ناکام ہورہا تھا… سر د ہاتھوں اور زرد چہرے کے ساتھ ان کو تین بار پڑھنے کے بعد بھی… وہ ابھی ایک گھنٹے پہلے اپنی ماں کی ایمرجنسی کال پر بھاگم بھاگ لاہور آیا تھا لیکن جو کچھ وہ دیکھ اور سن رہا تھا وہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا… پتا نہیں آتش فشاں پھٹ چکا تھا یا پھٹنے والا تھا… مگر شیر دل اپنے پیروں کے نیچے زمین کی گڑگڑاہٹ سن رہا تھا… کسی زلزلے کے آثار تھے یا پھر روز جزا اور مکافات عمل کا آغاز…
”یہ تمہاراmess ہے اسے تمہیں ہی ٹھیک کرنا ہے۔” اس کی ماں نے اسے کہا تھا۔ وہ دونوں جانتے تھے وہ mess نہیں تھا وہ دلدل تھی جس میں ان کی فیملی پھنسنے والی تھی… دلدل شہد کی ہو یا کیچڑ کی… وہ اپنے اندر سے نکلنے نہیں دیتی جب تک انسان غرق نہ ہوجائے۔
……٭……




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!