عکس — قسط نمبر ۹

”ہر چیز کو پیسے سے تھوڑی ناپا جاتا ہے۔ بعض چیزوں کی قدر پیسے کی وجہ سے نہیں ہوتی چڑیا… وہ میری حق حلال کی کمائی ہے… میں کسی کا حصہ چھیننے تو نہیں گیا تھا… اپنی چیز لینے گیا تھا… اتنا بھی حق نہیں مجھے کہ اپنی چیز لینے کے لیے میں قانون کا سہارا مانگ سکوں۔” خیردین بات کرتے کرتے رو پڑا، چڑیا نے بے حد تکلیف سے اپنے نانا کو دیکھا۔اسے نو سال پہلے کی تکلیف اور بے بسی یاد آئی تھی… اور پچھلے دو دنوں سے بار بار یاد آرہی تھی۔
”مت روئیں نانا۔” اس نے گلوگیر آواز میں خیردین سے کہا۔ خیردین نے یک دم خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وہ چڑیا کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔ بے بسی کا کوئی اظہار نہیں چاہتا تھا۔
نو سال کے بعد خیردین چڑیاکے ساتھ بڑے فخر سے گاؤں آیا تھا۔ اب اس کی جیب میں پیسے بھی تھے اور اس کے سر پر نو سال پہلے کی طرح ایک جوان بیٹی اور ایک چھوٹی بچی کا بوجھ نہیں تھا۔ وہ گاؤں آکر اپنے اسی دوست کے پاس ٹھہرا تھا جس نے کئی سال پہلے گاؤں سے شہر جاتے ہوئے اس کی مالی مدد کی تھی۔ خیردین نے اپنے رشتے داروں سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی نہ ہی اس کے رشتے داروں نے اسے منہ لگایا تھا۔ گاؤں میں اب خیردین کی عزت تھی کیونکہ خیردین وہاں اسی طرح بس چند دن رہنے آیا تھا جس طرح سرکاری نوکری کے دوران آیا کرتا تھا۔ اس کے میل جول اور گاؤں والے اس کی جتنی عزت کر سکتے تھے انہوں نے کی۔ وہ اس گاؤں کی پہلی ڈاکٹر لڑکی کی جو کلغی لگا کر آیا تھا وہ کسی کو زیادہ نظر نہیں آئی۔ شاید اس لیے کیونکہ چڑیا ابھی میڈیکل کالج میں گئی تھی ڈاکٹر بنی نہیں تھی اور اس لیے بھی کیونکہ وہ ایک لڑکی تھی… وہ بھی ایسی لڑکی جس کا داغدار بچپن گاؤں کے ہر بڑے بوڑھے کو ازبر تھا۔




خیردین کو شہر میں ساری زندگی گزارنے کے بعد اگر تعلیم پر کوئی فخر یا ناز تھا توگاؤں والوں نے اسے چکناچور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لوگوں کو اس سے یہ جاننے میں تو دلچسپی تھی کہ اس نے حال ہی میں جو ریڑھی سے دال کی دکان بنالی تھی وہ کیسی چل رہی تھی وہ روز کے کتنے کما اور کتنے بچا لیتا تھا… اور کیا گاؤں میں سے کسی اور کے شہر جاکر دال کی کوئی ریڑھی لگانے میں ویسا اسکوپ تھا جیسا خیردین کے لیے بنا تھا… لیکن کسی نے خیردین کی ڈاکٹری پڑھنے والی نواسی کے بارے میں زیادہ نہیں پوچھا تھا کیونکہ وہاں کسی کو اپنی بیٹیوں یا اگلی نسل کی لڑکیوں کو ڈاکٹر تو کیا ابتدائی تعلیم سے زیادہ پڑھانے کی بھی خواہش نہیں تھی۔ وہ عورت کے اسی رول اور حیثیت سے خوش تھے جو صدیوں سے ان کے علاقے میں عورت کی تھی۔ چڑیا ڈاکٹر بن کے وہاں آئی ہوتی تو شاید پھر بھی وہاں اس کی قدر ہوتی۔ مفت دوا اور علاج کی غرض بہت سے لوگوں کو غرض مند بنا کر ان کا احسان مند کر دیتی لیکن فی الحال خیردین کا وہ فخر گاؤں والوں کے نزدیک کسی کام کا نہیں تھا… ان کے نزدیک شہر میں خیردین کے کام میں ہونے والی ترقی زیادہ بڑی چیز تھی۔ یہاں تک کہ اپنی بیٹی کو کویت اچھی جگہ دوبارہ بسا دینا بھی قابل تحسین تھا… لیکن چڑیا کی وہ ایک ڈگری نہیں جس کے لیے خیردین نے بچپن سے خواب دیکھے تھے۔ جس کے لیے خیردین نے راتیں محنت کرتے کاٹی تھیں۔
خیردین نے گاؤں آتے ہی جو حرکت کی تھی اس نے یک دم اس کی فیملی کی سالوں پرانی کدورت اور دشمنی کو جیسے جگا دیا تھا۔ خیردین نے گاؤں آتے ہی چڑیا کے منع کرنے کے باوجود اپنے خاندان پر جعلسازی کے ذریعے اپنی زمین ہتھیا لینے کی ایف آئی آر کٹوا دی تھی اور تھانے دار نے اس کے حلیے اور بول چال سے متاثر ہوتے ہوئے کچھ لیے دیے بغیر ہی ایف آئی آر نہ صرف رجسٹر کرلی تھی بلکہ اس پر فوراً کارروائی کرنے کی کوشش بھی کی تھی اور یہ کوشش جیسے ایک پینڈورہ باکس کھولنے کے برابر تھا۔
٭٭٭
”فی الحال تو شادی کی بات کرنا اور سوچنا بھی پینڈورہ باکس کھولنے کے برابر ہے۔” ایبک نے فاطمہ کے اس مطالبے پر کہ وہ اپنی امی اور فیملی کو اس کے گھر رشتہ مانگنے کے لیے لائے جواب دیتے ہوئے کہا ۔ فاطمہ اس کی بات پر کچھ دیر کے لیے جیسے کچھ بول نہیں سکی۔
”پینڈورہ باکس کس اعتبار سے کہہ رہے ہو؟” وہ پوچھے بغیرنہیں رہ سکی تھی۔ ایبک چند لمحے بڑی سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”میری پچھلے سال اپنی کزن سے انگیجمنٹ ہوئی ہے۔” فاطمہ کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔
”تم نے کیا کہا؟ میں نے سنا نہیں۔”
”میری انگیجمنٹ ہوچکی ہے لیکن میں کوشش کر رہا ہوں کہ یہ ختم ہو جائے… مجھے تھوڑا وقت چاہیے۔ ایک ڈیڑھ سال میں، میں اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گا۔” فاطمہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ اس کے لیے یہ ناقابل یقین تھا کہ ان کے اس طرح کے تعلق کے باوجود ایبک نے چپ چپاتے منگنی کرلی تھی اور فاطمہ کو اس بارے میں بتایا تک نہیں تھا۔
”تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا؟” اس نے بالآخر ایبک سے شکایت کی۔
”تم سے کیا ذکر کرتا یار… تم خوامخواہ میں اپ سیٹ ہوتیں اور اگر تم اپ سیٹ ہوتیں تو میں بھی کہاں خوش رہ سکتا تھا۔” ایبک نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”لیکن ایبک یہ بہت بڑی بات تھی۔ ایک سال ہو گیا تمہاری منگنی کو۔ اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں۔”
”میں نے کہانا یار، میں اس رشتے سے خوش ہوں ہی نہیں اور نہ ہی میں نے وہاں شادی کرنی ہے… پھر منگنی کا ہونا نہ ہونا اور اس کے بارے میں بتانا یا نہ بتانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔” ایبک نے اسی سنجیدگی سے کہا۔
”میرے لیے رکھتا ہے ایبک۔” مجھے بے خبری میں رکھنا اور کبوتر بنے رہنا کبھی اچھا نہیں لگتا۔” فاطمہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہا تھا۔




”میں منگنی ختم کروانے کی کوشش کر رہا تھا۔” ایبک نے کچھ کمزور آواز میں اسے وضاحت دی۔
”پھر بھی بتانا چاہیے تھا۔” فاطمہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”مجھے خدشہ تھا کہ تم خفا ہو کر مجھ سے الگ ہو جاؤ گی۔” اس کی وضاحت نے کچھ دیر کے لیے فاطمہ کو جیسے لاجواب کر دیا تھا۔ کچھ کہنے کے بجائے اس نے اپنی کتابیں سمیٹنا شروع کر دیں۔
”تم اس طرح مجھ سے خفا ہو کر جاؤ گی تو میں بہت اپ سیٹ رہوں گا۔” ایبک نے اس کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”میں خفا نہیں ہوں… ہرٹ ہوئی ہوں اور میرا خیال ہے مجھے اس کا حق ہے…” وہ کہتے ہوئے کرسی دھکیل کر لائبریری کی میز پر پڑی اپنی کتابیں اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھی۔ ایبک بھی کھڑا ہو گیا۔
”I am sorry”۔اس نے مدھم آواز میں جیسے فاطمہ کو ایک بار پھر منانے کی کوشش کی۔ فاطمہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے نکل آئی۔ دل ٹوٹنے جیسے جملے اس نے پہلے کئی بار سنے تھے اور وہ سن کر ہنستی رہتی تھی۔ میڈیکل کا اسٹوڈنٹ ہوتے ہوئے یہ یقین کرنا کہ پیار میں ناکامی پر دل ٹوٹ سکتا ہے بالکل ناممکن تھا لیکن لائبریری سے ہاسٹل تک کا سفر کرتے ہوئے فاطمہ کو پہلی بار اس تکلیف دہ احساس سے گزرنا پڑا۔ کالج اور ہاسٹل میں وہ لڑکیوں کی منگنیاں ہوتے اور ٹوٹتے دیکھتی رہتی تھی۔ افیئر چلتے اور پھر اسی طرح بریک اپ ہو جاتے اور زندگی چلتی رہی لیکن کچھ نہیں بدلتا تھا۔ لڑکیاں کچھ دیر روتی دھوتی تھیں پھر ٹھیک ہو جاتی تھیں… بہل جاتی تھیں… ان کی گفتگو میں آنے والے مرد کا نام کبھی بہت جلدی اور کبھی بہت دیر سے لیکن تبدیل ہو جاتا تھا… اور ایسی چیزوں کو بہت بار دیکھتے رہنے کے بعد بھی وہ اپنے اندر ایسا حوصلہ نہیں پارہی تھی کہ اپنی زندگی میں سے مائنس کر کے دیکھ سکتی یا اپنی زندگی میں ایبک کے بجائے کسی دوسرے مرد کا تصور کرپاتی۔ اس نے زندگی میں پہلی بار کسی کے ساتھ کی خواہش کی تھی۔ کسی کے ساتھ کی خواہش کے لیے اپنے گرد کھڑی دیواریں گرائی تھیں اور اب اس کے یوں قدم پیچھے ہٹالینے پر کچھ دیر کے لیے فاطمہ کو ایسا ہی محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی بھیڑ کے بیچوں بیچ اکیلی کھڑی رہ گئی۔
ہاسٹل آنے کے بعد بھی وہ بہت دیر تک سن دماغ کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی رہی تھی۔ اس کا ذہن ابھی تک یہ ماننے کو تیار نہیں ہورہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو عام لڑکیوں کی طرح کمزور سمجھنا نہیں چاہتی تھی کہ ہاسٹل کے کسی کمرے میں بیٹھ رک دہاڑیں مار مار کر روتی اور لڑکیوں کا ایک مجمگھٹا اکٹھا کر کے ان کے ساتھ اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کو شیئر کرتی لیکن عجیب بات تھی اب اس تکلیف سے گزرتے ہوئے اس کا دل بھی یہی چاہ رہا تھا… بستر پر اوندھا لیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے کو… اور کسی کے کندھے پر سر رکھ کر ایبک سے ہونے والی تمام شکایتیں دہرانے کو۔ وہ ایک امید جو ایبک نے اسے تھمانے کی کوشش کی تھی اس کا دل اسے کبھی تھامنے پر تیار نہیں ہورپارہا تھا۔ کہیں نہ کہیں اس کی چھٹی حس اسے وارن کررہی تھی کہ ایبک اس سے جھوٹ بول رہا تھا۔ وہ نہ تو اپنی منگنی کو اس کے لیے توڑے گا نہ ہی اس سے شادی کرے گا اور یہ وارننگ اس کی اذیت کو بڑھارہی تھی۔ پیار میں کھایا جانے والا پہلا دھوکا ایسا ہی ہوتا ہے۔ دھوکے کے علاوہ سب کچھ لگتا ہے… دل یہ نہیں مانتا کہ ہم اتنے معمولی ہوگئے کہ کسی کا دل مٹھی میں نہیں کرسکے… اور دماغ یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ کسی کی دنیا ہمارے علاوہ بھی کسی دوسرے وجود سے مکمل ہوسکتی ہے حقیقت بہت دیر تک حقیقت نہیں آزمائش ،پریشانی، غلط فہمی، بد دعا لگتی ہے… بس حقیقت بن کر نظر نہیں آتی۔ فاطمہ کے ساتھ بھی یہی ہورہا تھا وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو ایبک کے اس رویے کی کوئی توجیہہ دے کر بہلانے کی کوشش کررہی تھی اور وہ اس میں بری طرح ناکام ہورہی تھی۔ چار سال اس نے جو خواب دیکھتے ہوئے گزارے تھے وہ منٹوں میں ختم ہوگئے تھے۔ ایک بہت کم عمر، ناتجربہ کار، نوجوان لڑکی کے طور پر دیکھے جانے والے خواب… ایک من پسند جیون ساتھی… ایک اچھا سا گھر اور ایک پرسکون زندگی جس میں وہ سب کچھ ہوتاجو فاطمہ کی اپنی ساری زندگی میں نہیں رہا تھا۔




زندگی کا ہر امتحان انسان ذہانت اور محنت سے پاس نہیں کرسکتا بعض امتحانوں کے لیے قسمت کے علاوہ اور کوئی چیز درکار نہیں ہوتی… یہ فاطمہ کی زندگی کا ایک اور تکلیف دہ سبق اور نتیجہ تھا جو اس رات اس نے بیٹھ کر اخذ کیا تھا… وہ خود کو ذہین ،سمجھدار، محنتی، قابل مانتی تھی لیکن اس نے کبھی خود کو خوش قسمت نہیں مانا تھا، یہ ایک چیز تھی جس پر اس کا یقین خیر دین کی تربیت کے باوجود بھی متزلزل ہی رہا تھا… اور اس کی زندگی میں وقتاً فوقتاً ایسا کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا تھا جو اس کے اس یقین کو پختہ نہیں ہونے دیتا تھاکہ وہ اچھی قسمت لے کر پیدا ہوئی تھی۔
زندگی میں ہونے والے اس پہلے ہارٹ بریک کا اگلا دن ایک مشکل دن تھا… ہر اعتبار سے ایک مشکل دن۔ اسے ایبک کا سامنا کرنا تھا… اسے اسٹڈیز اور کلاسز میں اپنا فوکس رکھنا تھا… اور اسے خیر دین کو فون پر اپنی اور ایبک کی گفتگو سے آگاہ کرنا تھا… اور اس سب کے ساتھ اسے کو ایک معمول کا دن نارمل انداز میں گزارنا تھا۔
”ہم اب دوبارہ نہیں ملیں گے۔”فاطمہ نے اگلے دن ایبک سے سامنا ہوتے ہی کہا تھا۔
”کیا مطلب؟” ایبک ہکا بکا رہ گیا تھا۔
” میں نے تم سے کہا ہے میں وہ منگنی ختم کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔” وہ بہت بے چین تھا۔
”نہیں ایبک میں اس سب کا حصہ نہیں بنوں گی۔ میں تم سے ملتی رہوں گی تو میری تکلیف بڑھتی رہے گی کیونکہ میں نے تمہیں ایک دوست کبھی نہیں سمجھا اور میں اس احساس جرم کے ساتھ بھی نہیں رہنا چاہتی کہ میں کسی اور لڑکی کے ساتھ تمہاری منگنی تڑوانے کی کوشش میں تمہاری حصے دار بنی رہی۔ ” فاطمہ نے بہت سنجیدگی سے اسے کہا۔
”میں اس سے محبت کرتا ہی نہیں۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم ہی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” ایبک نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”اگر ایسا ہے تو تم اس منگنی کو تڑوا کر اپنی فیملی کو لے کر میرے گھر آجانا میں ضرور تم سے شادی کرلوں گی۔”فاطمہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”میں یہی تو کررہا ہوں… تھوڑا وقت دے دو مجھے۔” فاطمہ نے تحمل سے اس کی بات کاٹی۔
”تم جتنا وقت لینا چاہتے ہو لو… بس میں اس عرصے کے دوران تم سے ملنا نہیں چاہتی۔”
”لیکن کیوں؟ہم دوستوں کی طرح مل سکتے ہیں۔ اکٹھے اسٹڈی کرسکتے ہیں… میں تم پر اتنا ڈیپنڈنٹ ہوں کہ میں تو خود اپنے نوٹس تک نہیں بناسکتا۔” ایبک بہت پریشان تھا۔ فاطمہ جانتی تھی وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔ چار سال کے دوران اگر فاطمہ اس کے ساتھ نہ ہوتی تو ایبک کلاس کی پہلی دس پوزیشنز میں کبھی نہیں آسکتا تھا۔ وہ اس کے کہے بغیر اس کے ہر کام کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے کیا کرتی تھی۔ اس کے فولڈر میں ہر کام کے دو شیڈول بنتے تھے ایک اس کا اپنا اور دوسرا ایبک کے لیے اور ایبک کی آنکھوں کے سامنے فاطمہ کے ساتھ ہونے والے بریک اپ کے نتیجے میں اندھیرا چھاتا نظر آرہا تھا تو وہ اپنی فیلنگز میں بالکل ٹھیک تھا۔
”تم بہت ذہین اور لائق اسٹوڈنٹ ہو۔ میرے بغیر بھی سب کچھ کرسکتے ہو ایبک… پھر تمہاری ممی بھی ہیں تمہاری مدد کے لیے۔”فاطمہ نے کہہ کر وہاں سے جانے کی کوشش کی۔ ایبک بہت دور تک اسے منانے کی کوشش کرتا ہوا اس کے ساتھ چلتا رہا لیکن فاطمہ نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا تھا اس دن واپس ہاسٹل آکر وہ پہلی رات سے بھی زیادہ اپ سیٹ اور اداس تھی۔ پچھلی رات ایبک کا وہ رویہ تھا جس نے اسے پریشان کیا تھالیکن اسے امید بھی دلائی تھی اور آج یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا جو اسے پریشان کیے ہوئے تھا اور ایبک سے تمام تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اسے احساس ہورہا تھا کہ یہ آسان نہیں تھا وہ بری طرح کمزور پڑرہی تھی… قطع تعلق کر لینا اس قدر آسان نہیں تھا جتنا اس نے سمجھ لیا تھا۔ اس رات اس نے بلا خر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ایک عام لڑکی کی طرح وہ ساری رات بیٹھ کر روتی رہی تھی اور اگلے دن اس نے کالج سے بغیر کسی وجہ کے پہلی چھٹی کی۔
”کیا ہوا چڑیا؟ ” خیر دین نے ہاسٹل سے کی جانے والی کال پر اس کی آواز سنتے ہی بے حد تشویش سے کہا۔ وہ جھوٹ بولنا چاہتی تھی کہنا چاہتی تھی …نانا کچھ نہیں… لیکن وہ جھوٹ نہیں بول سکی۔ وہ رو پڑی تھی اور پھر روتی ہی گئی تھی۔ خیر دین بہت دیر چپ چاپ اس کی سسکیاں اور ہچکیاں سنتا رہا پھر اس نے کہا۔




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!