عکس — قسط نمبر ۹

”اوکے۔” وہ جیسے خود بھی اس وقت بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔ خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دینے کے بعد دوبارہ سونے کے لیے بستر پر لیٹ جانے کے بعد بھی شیردل دوبارہ نہیں سو سکا۔ اسے بار بار یہ احساس ہورہا تھا کہ وہ بھی جاگ رہی تھی۔
فجر کے قریب وہ بالآخر نہیں رہ سکا۔ اس نے سیل فون پر اسے میسج کیا۔ ”awake?۔”چند سیکنڈ کے بعد اس کے سیل پر ایک blank message آیا۔ ایک گہری سانس لے کر شیردل نے اسے کال کی۔
”پریشان ہونے سے کچھ نہیں ہونے والا اور نہ ہی ساری رات اس طرح بیٹھے رہنے سے یہ پریشانی ختم ہو گی۔” عکس نے پہلی بیل پرکال ریسیو کی اور شیردل نے بغیر کسی ہیلو ہائے کے اس سے کہا۔
”جواد کے والد سے کچھ دیر پہلے میری بات ہوئی ہے۔” عکس نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا۔
”پھر؟” شیردل ٹھٹکا۔
”وہ کہہ رہے ہیں ان کے political career کو نقصان پہنچانے کے لیے سازش کی گئی ہے۔ جواد نہ تو شراب پیے ہوئے تھا نہ ہی اس کی گاڑی میں شراب تھی۔ وہ کسی دوست سے ملنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ وہاں سے واپسی پر دیر ہو گئی اور کسی نے میڈیا اور پولیس کے ذریعے اسے trap کرنے کے لیے انتظام کیا ہوا تھا اور …” شیردل نے اس کی بات کاٹ دی۔




”تم نے ان سے کیا کہا؟” وہ چند لمحوں تک خاموش رہی پھر شیردل نے اس کی تھکی ہوئی آواز سنی۔
”کچھ نہیں،میں انہیں کیا کہتی؟ لیکن ہو سکتا ہے یہ سب سچ ہو… آج کل یہی سب کچھ تو ہورہا ہے۔” شیردل نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”تم بے وقوف ہو یا بننا چاہ رہی ہو؟” بہت دیر تک دوسری طرف خاموشی رہی پھر شیردل نے اسے کہتے سنا۔
”بننا چاہ رہی ہوں۔” اس بار شیردل کو کچھ بول نہیں سکا تھا۔
”سلیپنگ پلز ہیں؟” کچھ دیر بعد شیردل نے بالآخر کہا۔
”ہاں۔” دوسری طرف سے عکس نے کہا۔
”کھا کر سو جاؤ۔” اپنے وال کلاک پر ایک نظر ڈالتے ہوئے شیردل نے اس سے کہا۔
”اوکے۔” عکس نے ایک بار پھر ہتھیار ڈالے۔
”ایک کھانا پوری بوتل مت کھا لینا۔” شیردل اس صورت حال میں بھی کہے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ وہ ہنس پڑی تھی۔ شیردل نے اس کی ایسی شکست خوردہ ہنسی پہلے نہیں سنی تھی۔ وہ ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا تھا۔
”عکس تم اب صرف سوؤ گی… تم نے سنا۔” اس نے بالآخر بڑے تحکمانہ انداز میں اس سے کہا۔ ”میں کل آکر ملتا ہوں تم سے۔” عکس کو خدا حافظ کہنے کے بعد وہ ایک بار پھر سونے کے لیے لیٹ گیا تھا لیکن نیند اب بھی اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ بہت دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔ اتنے سالوں سے عکس کو اتنے قریب سے جاننے کے باوجود اس نے کبھی اسے اس طرح اداس اور اپ سیٹ نہیں دیکھا تھا جس طرح اس نے فون پر کچھ دیر پہلے بات کرتے ہوئے اسے محسوس کیا تھا اور شیردل کو اس چیز نے پریشان کیا تھا۔ عکس اور اس ساری صورت حال کے بارے میں سوچتے سوچتے اسے بالآخر نیند آگئی تھی۔
اگلی صبح وہ بہت دیر سے جاگا تھا اور بڑی ہڑبڑاہٹ اور عجلت کے عالم میں آفس کے لیے تیار ہوتے ہوئے اس نے اپنے فون پرعکس کا میسج دیکھا۔
”I am alright”۔ اسکرین پر چمکتے ہوئے اس چھوٹے سے ٹکسٹ میسج کو شیردل بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ ایک چھوٹے سے جملے نے اسے پتا نہیں کیا کیا یاد کروا دیا تھا۔ اس کے اور عکس کے درمیان دوستی کا آغاز اسی ایک جملے سے ہوا تھا۔
” No matter how hard you have been hit, you are always alright.”۔ اس نے عکس کو ٹیکسٹ کیا تھا۔ جواب بہت دیر تک نہیں آیا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ ریفرنس بوجھ گئی تھی۔
……٭……




وہ ریفرنس واقعی بوجھ گئی تھی۔ایسا بہت کم ہی ہوتا تھا ان دونوں کے درمیان کہ وہ ایک دوسرے کا ریفرنس نہ سمجھ پائے ہوں۔ اشارے کنایوں میں کی جانے والی بات کو بھی سیکنڈز میں ڈی کوڈ کرتے تھے اور یہ تب بھی تھا جب وہ دونوں اکیڈمی میں ایک دوسرے سے رسمی علیک سلیک ہی رکھتے تھے۔
عکس نے ہاتھ میں پکڑا سیل فون واپس ٹیبل پر رکھ کر پرائیویٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے وفد کے اس نمائندے کی بات پر توجہ دینے کی کوشش کی جو اس کے سامنے اس کے آفس میں بیٹھا ایک کے بعد ایک مطالبہ اس فہرست میں سے پڑھ کر پیش کر رہا تھا جس کی ایک کاپی اس کے سامنے میز پر بھی پڑی ہوئی تھی اور جس پرموجود 25 کے 25 مطالبات اسے زبانی یاد تھے۔ اس کے باوجود وہ میکانیکی انداز میں بظاہر بے حد دلچسپی کے ساتھ لیکن سنجیدہ ان مطالبات کو سن رہی تھی۔ پچھلی ساری رات جاگتے رہنے کے بعد وہ صبح صرف دو گھنٹے کی نیند لینے کے بعد اپنے مقررہ وقت پر آفس میں تھی اور صبح سے ایک کے بعد ایک اپائنٹمنٹ بھگتاتے ہوئے بھی وہ ذہنی طور پر اب بھی پچھلی رات میں پھنسی ہوئی تھی… اور اس ذہنی حالت کے ساتھ شیردل کی طرف سے ملنے والا وہ text

دائیں ہاتھ سے وقفے وقفے سے سامنے پڑے ایک کاغذ پر نوٹس لیتے ہوئے وہ اس نمائندے کی بات سن رہی تھی۔ کاغذ پر وہ پوائنٹس نوٹ کر رہی تھی جن پر اسے اس نمائندے کے خاموش ہونے کے بعد بات کرنی تھی اور سوچ وہ شیردل کے بارے میں رہی تھی۔ شیردل،جواد، غنی حمید اور بہت سے دوسرے چہرے… سارے چہرے آپس میں گڈمڈ ہورہے تھے… سوائے ایک چہرے کے۔
……٭……

”میرا نام ایبک ہے۔” فاطمہ چند لمحوں کے لیے فریز ہو گئی تھی۔ کنگ ایڈورڈ میں یہ اس کا پانچواں دن تھا جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا۔ وہ اس دن پہلی بار کالج آیا تھا… یا پھر… وہ اپنے آپ میں اتنی مگن تھی کہ اس نے ایبک کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا اور نوٹس تب کیا تھا جب وہ کاریڈور میں آکر اس کے بالمقابل کھڑا ہو گیا تھا۔ فاطمہ اگر ہل نہیں سکی تھی تو یہ غیر معمولی نہیں تھا۔ یہ ایک نام ایسا تھا اس کی زندگی میں جو کبھی بھی کہیں بھی اسے اسی طرح نروس… اسی طرح فریز کر سکتا تھا۔
وہ اس کے سامنے کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مسکرا رہا تھا۔ فاطمہ نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔ پھر اس نے مسکرانے کی بھی کوشش کی۔ وہ بڑے دوستانہ انداز میں اس کے بالمقابل کھڑا تھا۔
”میں نے آپ کو پریشان کر دیا شاید؟” وہ اب معذرت کر رہا تھا۔ فاطمہ کو جیسے ذرا سی شرمندگی ہوئی۔ اس کی ذہنی کیفیت اس کے چہرے پر کیوں آگئی تھی۔
”نہیں تو۔”اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
وہ اب اپنا تفصیلی تعارف دے رہا تھا۔ فاطمہ کو حیرت ہوئی وہ اس کی طرف متوجہ کیوں ہوا تھا۔ پوری کلاس میں اسے تعارف کے لیے ایک ہی لڑکی ملی تھی یا وہ ہر لڑکی سے اسی بے تکلفی کے ساتھ بات کر لیتا تھا… وہ فی الحال اندازہ نہیں کر سکتی تھی لیکن اس نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ اس کا تفصیلی تعارف سنا۔
وہ ایبک سلطان کے ساتھ اس کی پہلی ملاقات تھی اور کالج سے ہاسٹل تک ایبک اس کے سر پر سوار رہا تھا… اور اس کی وجہ اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی۔
ایبک سلطان فاطمہ کی پہلی محبت تھی۔ پہلی محبت… پہلی غلطی… پہلا تجربہ… پہلا زخم… بہت سارے سبق تھے جو اس پہلے تجربے نے اسے دیے تھے جو اس نے محبت کے نام پر کیا تھا… یا شاید اسے ہوا تھا۔
لاہور آنے کے بعد وہ کسی لڑکے کے ساتھ پہلی بار انوالو ہوئی تھی… لیکن اس انوالومنٹ کا آغاز اس کی طرف سے نہیں ہوا تھا۔ یہ ایبک تھا جو خود اس کی طرف بڑھا تھا۔ کلاس کی تمام لڑکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے… اسے خوشی سے پھولنا چاہیے تھا… کچھ غرور آنا چاہیے تھا… ساتویں آسمان پر پہنچ جانا چاہیے تھا… زندگی میں پہلی بار کوئی لڑکا اس میں اس طرح کی دلچسپی دکھا رہا تھا لیکن اس کے برعکس وہ بہت عجیب سی فیلنگز کا شکار ہورہی تھی۔ اس نے اتنے سال اکیلے، محتاط اور ہرایک سے دور رہ کر اپنے خول میں زندگی گزاری تھی کہ کنیئرڈ کے دو سالوں نے بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ وہ صرف جسمانی طور پر ہاسٹل اور کالج کی لڑکیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگی تھی لیکن ذہنی طور پر وہ اب بھی ان سے بہت دور تھی۔ وہ خول جو بچپن کے اس حادثے نے اس کے گرد بنا دیا تھا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ مضبوط اور سخت ہوتا گیا تھا اور فاطمہ نے ہمیشہ خود کو اس خول کے اندر بے حد محفوظ تصور کیا تھا تنہا نہیں۔




ایبک سلطان کی آمد نے پہلی بار اس خول پر ضرب لگا کر دراڑیں ڈالی تھیں۔ وہ کالج میں اس کی طرف کیوں متوجہ ہوا تھا؟ اس کی اس غیر معمولی توجہ کا مقصد کیا تھا…ان دو سوالوں سے زیادہ پریشان کن سوال فاطمہ کے لیے یہ تھا کہ وہ ایبک کی توجہ کو resist کیوں نہیں کر پارہی تھی۔ وہ ایک لاابالی، کھلنڈرا، ہنس مکھ، بے پروا لڑکا تھا اور فاطمہ ہر چیز میں اس کے برعکس تھی۔ اس کے باوجود ایبک کا اسی کی طرف متوجہ ہونا اور فاطمہ کا چاہنے کے باوجود اس احتیاط کا مظاہرہ نہ کر پانا جو اس کی زندگی کا حصہ تھی… فاطمہ کے لیے عجیب سہی لیکن اس کی زندگی میں آنے والی ایک بے حد خوشگوار تبدیلی تھی۔ ایبک کی امی اسی میڈیکل کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کررہی تھیں۔ وہ ایک انتہائی دوستانہ مزاج رکھنے والی بے حد نفیس سی خاتون تھیں۔ ایبک سے بھی ملنے سے پہلے فاطمہ ان سے مل چکی تھی۔ وہ ان لوگوں کی ایک کلاس لیتی تھیں اور ان چند ٹیچرز میں سے ایک تھیں جنہیں اسٹوڈنٹس بہت پسند کرتے تھے۔ ایبک اور اس کی دوستی چند ہفتوں میں ہی ان کے نوٹس میں آگئی تھی۔ فاطمہ کو کچھ تحفظات تھے ان کے ردعمل کے حوالے سے… لیکن اس کی توقعات کے برعکس مسز سلطان کا رویہ اس کے ساتھ بہت دوستانہ اور حوصلہ افزا تھا۔ وہ ایبک کے ساتھ اکثر اوقات ان کے آفس چلی جایا کرتی تھی اور اس آمدورفت نے جیسے ایک روٹین کی شکل اختیار کرلی تھی۔ ایبک کے والد کی چند سال پہلے ڈیتھ ہو چکی تھی۔ ایک چھوٹا بھائی اور بہن تھی۔ فاطمہ کو اپنی اور ایبک کی زندگی میں عجیب مماثلت نظر آرہی تھی۔ اس کی فیملی کے ساتھ اسے ایک عجیب سی اپنائیت اور مانوسیت کا احساس ہوا تھا اسے۔ وہ خیردین سے ایبک اور اس کی فیملی کا ذکر کرنا چاہتی تھی لیکن ایک عجیب سی جھجک ہر بار مانع آجاتی تھی۔ خیردین سے اس قدر قربت اور بے تکلفی ہونے کے باوجود اسے یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ خیردین کے سامنے ایبک کا ذکر کیسے کرے… کیا حوالہ دے… دوست کہے؟ تو دوستی کی کیا توجیہہ پیش کرے۔ وہ اگرگھر پر رہ رہی ہوتی تو خیردین سے ایبک کو چھپانا بہت مشکل ہو جاتا… کیونکہ وہ اس کی گفتگو میں آتا تھا… لیکن خوش قسمتی سے وہ ہاسٹل میں رہتی تھی اور ہاسٹل میں رہتے ہوئے ایبک کو خیردین سے چھپا لینا آسان تھا… اور یہ فاطمہ کی خوش فہمی تھی۔
خیردین زمانہ شناس انسان تھا۔ فاطمہ کو اپنے ہاتھ کی پشت کی طرح جانتا تھا۔ اس میں آنے والی کوئی بھی تبدیلی نوٹس کرنا اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔ وہ جب بھی ہاسٹل سے واپس گھر آتی تو واپس جانے کے لیے بے حد بے قرار رہتی اور خیردین کے لیے یہ اس میں آنے والی ایک بہت بڑی اور عجیب تبدیلی تھی۔ اس سے پہلے وہ ہمیشہ گھر آنے کے لیے بے چین رہتی تھی۔ خیردین نے اسے اپنا وہم سمجھ کر نظرانداز کیا… لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ وہمی نہیں تھا اور اب اسے بار بار وہم ہورہے تھے۔ فاطمہ ہمیشہ سے خوش لباس تھی یہ عادت اس نے خیردین سے لی تھی۔ اچھا، صاف ستھرا اور زمانے کے رواج کے مطابق لباس لیکن اب یک دم فاطمہ ضرورت سے زیادہ اور خلاف عادت اپنے آپ پر توجہ دیتی نظر آتی تھی۔ اسے یک دم کاسمیٹکس اور جیولری میں بھی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی… اور وہ بہت خوش رہنے لگی تھی۔ خیردین بار بار خود کو یہی یقین دلانے کی کوشش کرتا تھا کہ چڑیا جوان ہو چکی تھی ڈاکٹر بن رہی تھی، بڑے شہر میں تھی… ہر طرح کے لوگوں سے میل ملاپ تھا اس کا، اس کو خود پر توجہ دینی ہی چاہیے تھی… لیکن بار بار کچھ نہ کچھ کھٹکتا تھا اسے چڑیا سے اپنے ان واہموں کے حوالے سے کوئی سوال خیردین کے لیے بہت مشکل تھا لیکن ان چیزوں کو بھی ہضم کرنا آسان نہیں تھا جو وہ دیکھ رہا تھا اگر اطمینان اسے تھا تو صرف یہ تھا کہ چڑیا کبھی بھٹک نہیں سکتی تھی۔ وہ کبھی کوئی غلط قدم نہیں اٹھا سکتی تھی۔ خیردین کا سر جھکا دینے والا کوئی کام نہیں کر سکتی تھی اور اس یقین اور اعتماد نے خیردین کی نیندیں کبھی اڑنے نہیں دیں۔




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!