عکس — قسط نمبر ۹

”ایبک کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوا ہے؟”
”نانا اس نے پچھلے سال منگنی کرلی اور مجھے اس نے بتایا تک نہیں۔” فاطمہ نے سسکیوں کے ساتھ خیر دین کو بتایا۔ بہت دیر خیر دین صدمے سے کنگ رہا ۔ سارے سوال جواب یک دم جیسے دم توڑ گئے تھے اس کے لیے۔ چڑیا کی تکلیف کو کوئی اس سے زیادہ کیسے سمجھ سکتا تھا۔چڑیا بہت زیادہ دیر تک اس سے بات نہیں کرسکی ۔کال ختم ہوگئی تھی لیکن اس رات وہ سو نہیں پائی۔ طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے بھی وہ اپنی روم میٹس کے کمرے میں ہونے کے باوجود بھی بستر میں گھس کر منہ چھپا کر روتی رہی تھی۔
اگلی صبح وہ نہ چاہتے ہوئے بھی کالج جانے کے لیے تیار ہو کر ہاسٹل سے نکلی تھی اور تب اس نے ہاسٹل کے دروازے پر صبح سویرے چادر کی بکل مارے اونگھتے ہوئے خیر دین کو بیٹھے دیکھا۔ وہ بے اختیار اس کی طرف آئی تھی۔
”ناناآپ اس وقت یہاں…؟” خیر دین اس کی آواز پر ہڑ بڑا کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پھر چڑیا کو دیکھ کر وہ جیسے یک دم مطمئن ہوا۔
”بس کل رات تم سے بات کرنے کے بعد مجھے چین نہیں آیا۔ میں رات کو ہی نکل آیا تھا تم سے ملنے کے لیے لیکن اجازت نہیں ملی تم سے ملنے کی… کیونکہ بہت رات ہوگئی تھی۔” خیر دین نے اسے اپنے گلے لگاتے ہوئے کہا۔فاطمہ کا دل بے اختیار بھر آیا۔ وہ اس عمر میں اس کے لیے سردیوں کی وہ رات ہاسٹل کے اس گیٹ کے پاس کھلے آسمان کے نیچے گزاررہا تھا۔ پتا نہیں زندگی میں اس کو کتنی بار خیر دین کے لیے تکلیف کا باعث بننا تھا۔ فاطمہ کو اپنے آپ پر جیسے شرم آئی تھی۔




وہ اس دن کالج جانے کے بجائے خیر دین کے ساتھ ریس کورس میں چلی گئی تھی۔ وہ سارا دن اس نے ریس کورس کی ایک بینچ پرخیر دین کے ساتھ بیٹھے ہوئے گزاردیا۔ انہوں نے بہت ساری باتیں کیں لیکن ان میں سے کسی بات میں ایبک کا ذکر نہیں تھا۔
”تمہیں بہت اچھا جیون ساتھی ملے گا چڑیا۔” جانے سے کچھ دیر پہلے خیر دین نے یک دم بنا کسی تمہید کے اس سے کہا۔ فاطمہ نے چونک کر خیر دین کو دیکھا پھر ایک رنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے خیر دین سے کہا۔
”آپ کو کیسے پتا؟”
”کیونکہ تم بہت اچھی ہو۔” خیر دین نے اس سے محبت سے کہا۔اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔”اور تم بہت بہادر ہو، سمجھدار ہو… تم زندگی بنانا جانتی ہو بیٹا۔”
”نانا زندگی میں ایک چیز قسمت بھی ہوتی ہے۔” فاطمہ نے بڑی رنجیدگی سے خیر دین کی بات کاٹ دی تھی۔”آپ ہی کہتے تھے نا قسمت بڑی چیز ہوتی ہے۔” اس نے نم آنکھوں کے ساتھ خیر دین کو کچھ یاد دلانے کی کوشش کی۔ خیر دین ایک لمحے کے لیے بول نہیں سکا پھر اس نے چڑیا سے کہا۔
”اور تم کہتی تھیں نانا جب میں بڑی ہوجاؤں گی تو میں ایک کھیل بناؤں گی چیس کی طرح کا جس میں کوئین ہی بادشاہ ہو گی۔” چڑیا کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
”زندگی اور کھیل میں بہت فرق ہوتا ہے نانا…کھیل کو ہم کھیلتے ہیں لیکن زندگی ہمیں کھیلتی ہے۔ ہم زندگی کے مہرے ہوتے ہیں زندگی کو مہرہ نہیں بنا سکتے۔” خیر دین بہت دیر اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے یک دم مسکرادیا۔
”ایک زمانہ ہوتا تھا چڑیا جب تم میری ہر بات مان لیتی تھیں۔” خیر دین نے گہری سانس لے کر کہا۔
”میں اب بھی آپ کی ہر بات مان لیتی ہوں۔” چڑیا نے کہا۔
”ہاں لیکن اب تم بعض دفعہ ایسی باتیں کرتی ہو جس کا جواب میرے پاس نہیں ہوتا… لیکن ایسی باتیں تو تم تب بھی کرتی تھیں جب بہت چھوٹی ہوا کرتی تھیں۔” خیر دین کو بات کرتے ہوئے جیسے کچھ یاد آیا اور وہ ہنس دیا۔فاطمہ نہیں ہنس سکی تھی۔ وہ جانتی تھی خیر دین اس کا ذہن اور دھیان بٹانے کی کوشش کررہا تھا۔
” تم نے یہ دھوپ چھاؤں دیکھی ہے؟” خیر دین نے یک دم چڑیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ چڑیا نے پارک میں ڈھلتی دھوپ کی سرخی کو دیکھا جواب پارک کے ایک کونے میں سمٹ رہی تھی۔
” یاد ہے جب ہم صبح یہاں اس بینچ پر آکر بیٹھے تھے تو یہاں دھوپ تھی پھر آہستہ آہستہ وہ دھوپ یہاں سے وہاں چلی گئی اور یہاں چھاؤں آگئی… کبھی تم نے سارا دن دھوپ اور چھاؤں کو ایک جگہ جمے دیکھا ہے؟” اس نے نرم آواز میں چڑیا سے پوچھا۔اس نے نفی میں سر ہلادیا۔
”زندگی بھی ایسی ہی ہوتی ہے اس میں بھی دھوپ چھاؤں ایک جگہ نہیں رہتی… کبھی برے دن ہوتے ہیں پھر اچھے آجاتے ہیں پھر اچھے گزر جاتے ہیں اور برے آجاتے ہیں… پر اچھا برا کوئی وقت کبھی کسی انسان کے لیے مستقل نہیں رہتا۔” فاطمہ نے بے اختیار گہری سانس لی اور اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے خیر دین سے کہا۔
”باقی سب ٹھیک ہے نانا لیکن میں نے اب کبھی کسی سے محبت نہیں کرنی… یہ جو تکلیف آج سہی ہے نا میں نے… یہ دوبارہ سہنا نہیں چاہتی میں۔” فاطمہ نے اٹھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں خیر دین سے کہا۔ وہ اب کھانے پینے کی وہ چند بچی کھچی چیزیں سمیٹ رہی تھی جو وہ سارا دن استعمال کرتے رہے تھے۔
”کل میری دکان پر ایک لڑکا آیا وہ مجھے بڑا چھا لگا۔” خیر دین نے اچانک اٹھتے ہوئے ایک گہری سانس لے کر فاطمہ سے کہا۔ فاطمہ نے عدم دلچسپی سے اس کی بات سنی۔
”اونچا لمبا گورا چٹا تھا، کسی بڑے اچھے خاندان کا تھا… سرکاری گاڑی میں آیا تھا اپنے کسی دوست کے ساتھ… شاید باپ وغیرہ سرکاری افسرہے… مجھے پہلی نظر میں ہی اتنا اچھا لگا کہ میرا دل چاہا تمہاری شادی اس کے ساتھ ہو۔” فاطمہ نے ٹھٹک کر خیر دین کو دیکھا ۔خیر دین کے لہجے میں ایک عجیب سی معصوم سی خواہش تھی… اپنی چڑیا کو ہمیشہ کی طرح سب سے اچھی نظر آنے والی چیز دینے کی خواہش … وہ چڑیا کا نصیب کس قلم سے لکھنا چاہتا تھا چڑیا کو کبھی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن آج ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ خیر دین نے دکان پر دال کھانے کے لیے آنے والے کسی مرد کو دیکھ کر اسے چڑیا کا نصیب بنے دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ چند لمحے وہ خیر دین کو دیکھتی رہی پھر وہ اپنے نانا کی معصومیت پر ہنس پڑی تھی۔
”آپ بعض دفعہ عجیب باتیں بھی کرنے لگے ہیں نانا۔”چڑیا نے اس سے کہا۔
”تمہیں پتا ہے اس کا نام کیا تھا؟” خیر دین نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے جیسے ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ چڑیا سے کہا۔ چڑیا کو اور ہنسی آئی۔
”نانا آپ اس سے نام بھی پوچھنے بیٹھ گئے؟” اسے جیسے خیر دین کی جذباتیت پر یقین نہیں آیا تھا۔
”ہاں… تم سے کہہ رہا ہوں نا وہ مجھے بڑا اچھا لگاتھا… چھ فٹ لمبا تھا… بڑا تمیز والا لگ رہا تھا، مجھے کہہ رہا تھا کہ اسے میری شکل جانی پہچانی لگ رہی تھی۔ خیر دین مسکراتے ہوئے چڑیا کے ساتھ چلتے ہوئے اسے بتانے لگا۔
”کیا نام تھا اس کا؟” چڑیا نے اچانک پوچھا۔
……٭……




شیر دل نے اسے گھوڑے سے گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ گھوڑا دوڑاتے ہوئے ایک لحظے کے لیے وہ غیر ارادی طور پر گھوڑے کی باگ کھینچتے کھینچتے رک گیا تھا۔ اس کا گھوڑا چند لمحوں کے لیے ہلکا ہوا پھر اسی طرح دوڑتا ہوا رنگ کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا جہاں شیر دل نے بالا خر اسے روک لیا تھا۔ چہل قدمی والے انداز میں گھوڑے کو چلاتے ہوئے وہ اسے وہاں لے کر آیا جہاں عکس مراد علی اپنے ساتھی مرد کامنرز ،رائیڈنگ انسٹرکٹر اور پیرا میڈیک اسٹاف کے گھیرے میں زمین پر بالکل بے حس وحرکت چت لیٹی ہوئی نظر آرہی تھی اور اس کے بالکل قریب غنی حمید ایک گھٹنا زمین پر ٹکائے بیٹھا نظر آرہا تھا۔ عکس کے گھوڑے سے گرتے ہی وہ کامنرز میں سے پہلا آدمی تھا جو اپنا گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کے پاس پہنچا تھا اور اس کے عکس کے پاس پہنچنے پر شیر دل کا اضطراب عجیب سی خفگی میں بدلا تھا۔ رنگ کے باہر کھڑی ایمبولینس سے بھاگ کر عکس کے پاس پہنچنے والے پیرا میڈیکل اسٹاف کے ساتھ ہی دوسرے مرد کامنرز اور رائیڈنگ انسٹرکٹر بھی اپنے گھوڑوں سے اتر کر اب عکس کے گرد دائرہ بنائے کھڑے تھے صرف شیر دل تھا جو گھوڑے پر کچھ فاصلے پر بیٹھا اس صورت حال کا جائزہ لے رہا تھا۔
وہ لوگ صبح کے وقت ہارس رائیڈنگ کے لیے نکلے ہوئے تھے جب یہ حادثہ ہوا تھا۔ وہ DMG گروپ کی STP کے آغاز کا چوتھا دن تھا اور صبح سویرے کلاسز کے آغاز سے پہلے رائیڈنگ کا یہ سیشن سردیوں کے اس کہر آلود موسم میں ان سب کے لیے عذاب جان تھا۔ شیردل اور غنی حمید سمیت DMG کے چند دوسرے آفیسرز ایچی سن اور اس جیسے دوسرے اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے لیے گھڑسواری جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ رنگ میں اپنا اپنا گھوڑا لیتے ہی وہ تین چار لوگ گھوڑے کو بڑے اطمینان سے ادھر ادھر ٹہلانے میں مصروف ہو گئے تھے اور باقی کا سارا گروپ ہر روز کی طرح آج بھی گھوڑے پر درست طریقے سے چڑھنے اور بیٹھنے کی ڈرل کرنے میں مصروف تھا۔ چند منٹوں پہلے گھوڑوں پر بیٹھے بیٹھے روز کی PT ڈرل کرنے کے بعد وہ سب اپنے گھوڑوں کو trotting (آہستہ آہستہ دوڑانا) کے لیے انسٹرکٹر کے ساتھ ایک دائرے میں دوڑا رہے تھے۔ عکس اور غنی کے گھوڑے شیردل کے گھوڑے سے چار پانچ گز کے فاصلے پر تھے۔ ان کے درمیان عباس شیرازی اور عرفان محمود کے گھوڑے تھے۔ اس گروپ میں عکس واحد لڑکی تھی اور رائیڈنگ انسٹرکٹر ہر روز اس کے گھوڑے کو سب سے پہلے ایڑ دینے کے لیے کہتا تھا۔ دائرے میں گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے ایک مرحلے پر تمام گھوڑے یوں ایک مکمل دائرہ بنا لیتے تھے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا تھا کہ دائرے کا سرا کون تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ عکس trot کرتی ہوئی پہلے نکلی تھی۔ چھٹے نمبر پر گھوڑا دوڑاتے ہوئے شیردل کی نظریں ہمیشہ کی طرح اس پر بھٹک رہی تھیں۔وہ خود ایک ماہر گھڑ سوار تھا اور trot جیسی چیز اس کے اور غنی کے لیے ایک حلوہ تھی۔ اس لیے اس کی توجہ رائیڈنگ سے زیادہ عکس پر مرکوز رہتی تھی جو گھوڑے پر قابو پانے کی کوشش میں بے حال نظر آتی تھی۔ چوتھے دن تک وہ گھوڑا بہتر انداز میں کنٹرول کر رہی تھی اور شیردل اس وقت بھی اسے دیکھتے ہوئے اسی ایک چیز پر غور کر رہا تھا جب اس نے عکس کے پاؤں کو رکاب سے باہر نکلتے دیکھا۔ وہ ذرا سا بائیں طرف پھسل کر جھکی پھر اس نے گھوڑے کی گردن سے لپٹ کر جیسے اپنا توازن ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ غنی حمید تب تک اپنا گھوڑا تیزی سے بھگاتے ہوئے اس کے برابر لے آیا تھا۔ اس نے عکس کے گھوڑے کے برابر گھوڑا بھگاتے ہوئے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کھینچنے کی کوشش کی جو تب تک اس کے ہاتھ سے نکل کر نیچے جھول رہی تھی۔ عکس کا گھوڑا غنی کے گھوڑے کے بالکل قریب آنے پر یک دم بدکا تھا اوراس نے بھاگتے ہوئے دائرہ توڑنے کی کوشش کی اور بالکل اس وقت شیردل نے عکس کو توازن مکمل طور پر کھو کر گھوڑے کے بائیں جانب گرتے دیکھا۔ وہ گھوڑے کے ذرا سا لڑکھڑا جانے کی وجہ سے بالکل سیدھا پشت کے بل زمین پر گری تھی۔ خوش قسمتی سے اس کا گھوڑا لڑکھڑاتے ہوئے بھی سنبھل گیا ورنہ وہ یا تو اس کے اوپر گرتا یا وہ اس کے پیروں سے زخمی ہو جاتی۔ وہ جس انداز میں گری تھی شیردل کو یقین تھا وہ اٹھ کر رنگ سے چلتے ہوئے نہیں جا سکتی تھی۔ رائیڈنگ رنگ میں زمین پر ریت تھی اس کے باوجود جتنی اونچائی سے وہ گری تھی ایسا ممکن نہیں تھا کہ وہ گرتے ہی اٹھ کر بیٹھ جاتی۔ چند لمحوں کے لیے شیردل کو بھی واقعی سمجھ نہیں آیا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ گھوڑے سے اتر کر اس کے پاس دوسروں کی طرح جانا چاہیے یا اسی طرح گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اس دائرے کے گردگھومنا چاہیے جو عکس مراد علی کے گرد بنا ہوا تھا اور جس میں سے اب اسے عکس نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک منٹ، دو منٹ، تین منٹ، چار منٹ… پانچویں منٹ پر شیردل نے اس دائرے کو ٹوٹتے دیکھا۔ مرد کامنرز آہستہ آہستہ اپنے گھوڑوں کی طرف جانے لگے تھے اور اس نے اس چھٹتے ہوئے ہجوم کے درمیان عکس مراد علی کو زمین پر بیٹھا دیکھا تو وہ ٹھیک تھی۔ اطمینان کی ایک سانس اسے بھی آئی تھی۔ وہ اب سر پر پہنا ہوا ہیلمٹ دوبارہ پہنتے ہوئے اس کی بیلٹ کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے کس رہی تھی۔ شیردل کچھ فاصلے پر اپنا گھوڑا روکے اسے دیکھتا رہا۔ دوسرے کامنرز اپنے گھوڑوں پر سوار ہورہے تھے۔ پیرا میڈیک اسٹاف فرسٹ ایڈ باکس زمین پر رکھے عکس کے پاس کھڑے تھے۔ دونوں رائیڈنگ انسٹرکٹر اور غنی حمید بھی وہیں تھے۔ وہ اب ہاتھوں میں پہنے پروٹیکٹو گلوز ٹھیک کررہی تھی۔ شیر دل نے اسے اپنے بازو سے چہرے پر لگی ریت صاف کرتے دیکھا پھر اس نے رائیڈنگ بوٹس کے اندر اپنے پیروں کی پوزیشن ٹھیک کرتے ہوئے ان کی زپ نیچے کر کے دوبارہ بند کی۔
ساتویں منٹ میں شیر دل نے اسے غنی حمید کا بڑھا ہوا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہوتے دیکھا۔ وہ اب اپنے دونوں پیروں پر کھڑی اپنی گرے رائیڈنگ ٹراؤزرز سے ریت جھاڑنے کے بعد اپنے گلے اور بلیو کوٹ کے گرد لپٹے اسکارف کو ٹھیک کرتے ہوئے کوٹ کے بٹن بند کررہی تھی جب اس نے اپنے بالمقابل پانچ گز کے فاصلے پر گھوڑے پر بیٹھے شیر دل کو دیکھا۔ صرف چند لمحوں کے لیے دونوں کی نظریں ملی تھیں، صرف چند لمحوں کے لیے وہ ٹھٹکی تھی پھر اسی سرعت سے اس نے نظریں چرائیں۔ ایک پیرامیڈیک اسٹاف کے ہاتھ سے پانی کی بوتل لے کر دو گھونٹ پی کر بوتل واپس کی اور پھر شیر دل نے اسے دائرے کے وسط میں کھڑے اپنے گھوڑے کی طرف جاتے دیکھا جس کی باگ ایک سائیس پکڑے کھڑا تھا۔ شیر دل کو اگر اس کے قدموں میں کوئی لڑکھڑاہٹ اور چہرے پر تکلیف کے کوئی آثار دیکھنے کی خواہش تھی تو اس کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی۔




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!