عکس — قسط نمبر ۹

ایبک سلطان خیردین سے بہت دیر چھپا نہیں رہ سکا تھا۔ ایک بار چھٹیوں میں گھر آنے پر کسی بات پر غیر محسوس طور پر فاطمہ نے خیردین کے سامنے اس کا نام لیا۔ خیردین نے اس کی زبان سے کسی لڑکے کا نام پہلی بار نہیں سنا تھا۔ وہ کوایجوکیشن میں پڑھی تھی اور اب پھر کوایجوکیشن میں ہی پڑھ رہی تھی۔ کسی لڑکے کا ذکر آنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن جس طرح چڑیا ایبک کا نام لیتی تھی وہ غیر معمولی تھا… اور خیردین اسے جتائے بغیر بغور یہ نوٹس کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایبک کا ذکر کتنے تواتر سے اس کی گفتگو کا حصہ بن رہا تھا اور جب خیردین کو یقین ہو گیا کہ اب ایبک کے بارے میں اس کا کوئی سوال چڑیا کو بوکھلائے گا نہیں تو اس نے چڑیا سے ایبک کے بارے میں پوچھ ہی لیا تھا۔ فاطمہ خیردین کے سوال پر چند لمحوں کے لیے کنفیوزڈ انداز میں نانا کو دیکھتی رہی۔ وہ پہلا موقع تھا جب خیردین خود اس کے کسی کلاس فیلو کے بارے میں سوال کر رہا تھا اور وہ بھی ایبک کے بارے میں… ورنہ اس سے پہلے وہ خود ہی خیردین کو کسی کلاس فیلو کے بارے میں بتاتی تو بتاتی خیردین خود کبھی کسی کے بارے میں نہیں پوچھتا تھا۔




”کلاس فیلو ہے میرا۔” فاطمہ نے بظاہر لہجہ نارمل رکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے خیردین سے کہا تھا لیکن غیرارادی طور پر اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا۔ خیردین کی نظر سے وہ رنگت کی تبدیلی چھپی نہیں رہ سکی تھی۔ وہ اپنا لہجہ نارمل رکھتے ہوئے ایبک کے بارے میں تمام معلومات لیتا گیا تھا اور جب وہ سوال جواب ختم ہوئے تو خیردین بھی چڑیا کی طرح بے حد مطمئن اورخوش تھا۔ اس نے چڑیا سے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ اب وہ اس کے مستقبل اور اس کی شادی کے حوالے سے سوچتا اور فکرمند ہوتا رہتا تھا۔ حلیمہ سے اس سلسلے میں اس کی اکثر بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ اوپر تلے دو بیٹوں کی پیدائش کے بعد اس کا پاکستان آنا جانا کچھ کم ہو گیا تھا لیکن فون پر وہ اب بھی بہت باقاعدگی سے خیردین اور چڑیا کے ساتھ رابطے میں تھی۔ حلیمہ اور اس کے شوہر نے وقتاً فوقتاً خیردین کو فاطمہ کے لیے کویت میں ہی اپنے کچھ جاننے والوں میں کچھ رشتے بتائے تھے لیکن خیردین کا دل کسی بھی رشتے پر نہیں جما تھا۔ وہ سب مناسب رشتے تھے۔ اس کے فیملی بیک گراؤنڈ اور سوشل اسٹیٹس کے اعتبار سے بہت مناسب رشتے… کویت یا پاکستان میں بزنس یا دوسرے کسی پروفیشن میں سیٹلڈ مرد… حلیمہ اور اختر کے توسط سے آنے والے رشتے شریف خاندان کے بھی تھے۔ خیردین کو ان کی بہت زیادہ چھان پھٹک کی بھی ضرورت نہیں تھی لیکن پتا نہیں کیوں خیردین کو کبھی بھی کوئی رشتہ فاطمہ کے جوڑ کا نہیں لگتا تھا۔ چڑیا، خیردین کے لیے اس قدر قیمتی تھی کہ اس کے لیے کسی کو بھی چڑیا کے برابر کا سمجھنا بھی مشکل تھا اور اب چڑیا خود کسی کو پسند کررہی تھی اور غیر محسوس طور پر خیردین بے حد مطمئن تھا۔ وہ چڑیا کی پسند تھی اور خیردین کو یقین تھا کہ ایبک سلطان کوئی عام اور معمولی مرد نہیں ہو سکتا تھا۔
”اگلی بار میں تم سے ملنے لاہور آؤں گا توایبک سے ملوں گا ۔” خیردین نے فاطمہ سے کہا۔ وہ خیردین کی بات پر کچھ مطمئن سے انداز میں مسکرائی تھی کہ جو چیز وہ چاہتی تھی لیکن خیردین سے کہہ نہیں پائی تھی وہ خیردین نے خود کہہ دی تھی۔
خیردین چند ہفتوں کے بعد اس کے میڈیکل کے دوسرے سال میں پہلی بار ایبک سے ملا اورچڑیا کی طرح اسے بھی ایبک پہلی نظر میں ہی پسند آگیا تھا۔ وہ چڑیا کے لیے خود لڑکا ڈھونڈنے نکلتا تو ایبک جیسے خاندان کا کوئی لڑکا نہیں ڈھونڈ سکتا تھا۔ اس دن لاہور سے واپسی پر خیردین بے انتہا مسرور تھا اور ایسی ہی سرشار فاطمہ بھی تھی۔ خیردین کی ایبک کے بارے میں رائے اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی اور خیردین کی پسندیدگی کا مطلب تھا کہ وہ ایبک کے حوالے سے جو خواب دیکھ رہی تھی ان میں کم از کم خیردین کی طرف سے کوئی رکاوٹ ڈالے جانے کاامکان باقی نہیں رہا تھا۔
ایبک اور فاطمہ کی دوستی چار سالوں میں دوستی سے محبت میں تبدیل نہیں ہوئی تھی بلکہ ان دونوں کے تعارف کے بعد چند مہینوں میں ہی دوستی نام کی چیز نہیں رہی تھی۔ ایک دوسرے سے فارمل طریقے سے محبت کے اقرار اور شادی کے وعدے نہ ہونے کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے سے کمیٹڈ تھے… ایک دوسرے کے دلی جذبات سے مکمل واقفیت رکھتے تھے اور مستقبل کو اکثر پلان کرتے رہتے تھے۔ ایبک بہت لائق ہونے کے باوجود بہت بے پروا تھا اور یہ وہ خامی تھی جو فاطمہ میں بالکل نہیں تھی۔ میڈیکل کے چار سالوں میں فاطمہ ہر prof ٹاپ کرتی رہی تھی لیکن اپنی اسٹڈیز سے زیادہ اس کا دھیان ایبک پر رہتا تھا۔ وہ اس کے نوٹس اور اسائنمنٹس پورے کرنے اور رکھنے کی تگ و دو میں ہلکان ہوتی رہتی۔ اسے ٹیسٹ اور ایگزامز کے لیے اسٹڈی کرنے کے لیے focussed ہونے کی تلقین کر کر کے جان مارتی اور جب اس کا اثر نہ ہوتا تو خود اس کے ساتھ پڑھنے کے لیے بیٹھ جاتی۔ ایبک اس بات کا برملا اظہار کرتا تھا کہ اگر اس کی دوستی فاطمہ سے نہ ہوتی تو وہ ٹاپ ٹین اسٹوڈنٹس کی لسٹ میں رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میڈیکل کالج میں اس کی اچھی پرفارمنس کا سہرا بلاشبہ فاطمہ کے سر تھا۔




وہ چار سال فاطمہ کی زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے۔ زندگی یک دم ہی بہت خوب صورت ہو گئی تھی اس کے لیے… وہ سارے رنگ جو اس نے بہت پہلے چیزوں میں بھرنے ختم کر دیے تھے۔ وہ ان رنگوں کو جیسے نئے سرے سے تلاش کرنے لگی تھی۔ وہ دونوں اپنے پروفیشن کے حوالے سے اپنے goals کو ڈسکس کرتے… اسپیشلائزیشن کے حوالے سے اپنے پلانز ایک دوسرے کو بتاتے رہتے… مل کر ایک اسپتال بنانے کے منصوبے بناتے رہتے اور اس اسپتال میں جدید ترین مشینری نصب کرنے کے لیے فنڈز generate کرنے کے لیے ذرائع ڈھونڈتے پھرتے۔ ایبک مالی حیثیت سے بھی بہت مستحکم بیک گراؤنڈ رکھتا تھا۔ باپ کی وفات ہونے کے باوجود اس کی ماں کو اس کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایسے کسی مسئلے کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا۔ ایبک کے لیے کسی اسپتال کا قیام کوئی مشکل بات نہیں تھی جبکہ فاطمہ کے لیے اکیلا ایسا کوئی خواب دیکھنا ناممکنات میں سے تھا۔
میڈیکل کے پانچویں سال حلیمہ کے پاکستان آنے پر پہلی بار حلیمہ اور خیردین نے بہت سنجیدگی سے ایبک اور فاطمہ کے رشتے کے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا اور یہی پہلا موقع تھا جب فاطمہ نے باقاعدہ طور پر ایبک سے اپنے گھر رشتے کے لیے کسی کو بھیجنے کی بات کی تھی اور ایبک کے جواب نے اسے بھونچکا کر دیا تھا۔
……٭……
”تمہیں پتا نہیں تھا کہ جواد ڈرنک کرتا ہے؟” شیردل نے عکس سے پوچھا تھا۔ وہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس کے شہر پہنچا تھا اور اب وہ دونوں عکس کے آفس میں بیٹھے تھے۔
”دو سال سے جان پہچان تھی تم دونوں کی… پتا ہونا چاہیے تھا تمہیں۔” شیردل نے چمچ کے گرد ٹی بیگ کے دھاگے کو لپیٹتے ہوئے اس کو نچوڑ کر کپ سے نکالتے ہوئے کہا۔ عکس کچھ دیر بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ سوال شرمندہ کرنے کے لیے نہیں تھا لیکن اسے شرمندہ کر گیا تھا۔ شیردل اب چائے کا سپ لیتے ہوئے اسے بغور دیکھ رہا تھا۔
”میں نے اس سے پوچھا تھا ایک آدھ بار… اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ وہ ڈرنک وغیرہ نہیں کرتا… سگریٹ تک نہیں پیتا… اکثروہ شراب کے خلاف بات بھی کرتا تھا… میرے لیے یہ یقین کرنا ناممکن تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔وہ یہ تو اب بھی نہیں مان رہا کہ وہ شراب پیتا ہوا پکڑا گیا ہے… اپنے فادر کی طرح اس نے بھی مجھے یہی کہا ہے کہ میڈیا ٹرائل کیا گیا ہے اس کا کیونکہ اگلے الیکشنز میں اس کی فیملی اسے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر سامنے لانا چاہتی تھی۔” عکس نے بالآخر گہری سانس لیتے ہوئے چائے میں سے ٹی بیگ نکال کر رکھ دیا۔
”جواد سے کب بات ہوئی ہے تمہاری؟” شیر دل نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”آج صبح… اس کی bail ہو گئی تھی کل رات ہی لیکن مجھ سے بات نہیں ہو سکی اس کی… کہہ رہا تھا طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے مجھ سے خود بات نہیں کر سکا۔” عکس اب کچھ سوچتے ہوئے چائے کے سپ لے رہی تھی۔ ”میں نے اس سے پوچھا تھا کہ اس نے اپنی منگیتر کے طور پر میرا نام کیوں لیا؟ اس نے کہا اس نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ میڈیا نے خود ہی یہ خبر ڈھونڈ نکالی اور چلا دی ورنہ اس کی فیملی کہاں اپنی عورتوں کا نام اس طرح ٹی وی اسکرین پر دیکھتی اور خوش ہوتی ہے۔” شیردل نے چائے کا کپ رکھ دیا تھا۔
”تم کو اس کی باتوں پر یقین آگیا؟”عکس نے نظریں اٹھا کر شیردل کو دیکھا۔
”میرے پاس یقین کرنے کا آپشن نہیں ہے… کم از کم اس اسٹیج پر۔”اس نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”عکس اس نے پولیس اسٹیشن میں خود تمہارا نام لیا تھا… ایک بار نہیں بار بار… وہ پولیس کو پہلے اپنے باپ کا نام لے کر دھمکا رہا تھا بعد میں تمہارا نام لے کر… ایف آئی آرمیں پولیس نے یہ بھی لکھا ہے… مجھے اگر جواد کی کسی چیز پر اعتراض ہے تو وہ یہی ہے… کچھ بھی ہوتا اسے اس سارے معاملے میں تمہارانام نہیں لانا چاہیے تھا… اس میں اتنی بہادری اور غیرت ضرور ہونی چاہیے تھی کہ وہ تمہارے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہوئے تمہاری عزت کاخیال کر لیتا… That’s the only point that bothered me.… ورنہ مجھے اس کے ڈرنک کرنے یا کسی عورت کے ساتھ بھی پکڑے جانے پر کوئی اعتراض نہیں… اور وہ بالکل جھوٹ بول رہا ہے کہ وہ ڈرنک نہیں کرتا… وہ نشے میں بالکل آؤٹ تھا جس وقت پولیس نے اس کی گاڑی کو روکا تھا۔ پولیس والوں نے تو انسانی ہمدردی اور اس کی جان کی تحفظ کے لیے اسے روکا تھا کہ کہیں گاڑی مار نہ دے… ورنہ اس سے ابتدائی بات چیت میں اس کا فیملی بیک گراؤنڈ جاننے کے بعد انہیں کوئی شوق نہیں تھااس پر کوئی ایف آئی آر وغیرہ رجسٹر کرنے کی کوشش کر کے اپنا منہ کالا کرنے کا… وہ بے چارے تو اس کے گھر والوں کو اطلاع دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کو آکر لے جائیں لیکن ان موصوف نے نشے کی حالت میں وہاں سڑک پر ہی اتنا ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ آس پاس سے گزرنے والوں میں سے کسی نے کسی چینل کو اطلاع کر دی اور میڈیا کے وہاں پہنچنے کے بعد پولیس کو مجبوراً اس کے خلاف ایف آئی آر رجسٹر کرنی پڑی۔” شیردل اسے بے حد سنجیدگی سے واقعے کی تفصیلات بتا رہا تھا۔
”اور تم سے کل رات کو بات نہ کرنے کی وجہ طبیعت کی خرابی سے زیادہ نشے کی وجہ سے بات کرنے کے قابل نہ ہونا ہو گا… لیکن خیر مسئلہ تو حل ہو گیا ہے اب… اور ہو ہی جانا تھا اتنی پہنچ تو تمہارے سسرال والوں کی ہے ہی کہ اتنی چھوٹی سی بات پر پکڑے جانے پر اپنے بیٹے کو رات بھی پولیس اسٹیشن نہ گزارنے دیتے۔” شیردل نے چائے کا کپ دوبارہ اٹھا لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ عکس کچھ کہتی شیردل کے سیل فون پر کوئی کال آنے لگی تھی۔ چائے کا کپ واپس رکھتے ہوئے شیردل نے بے حد برق رفتاری سے فون اٹھایا تھا اور فون پر ایک نظر ڈالتے ہی عکس نے اس کے چہرے پر اطمینان بھری ایک مسکراہٹ پھیلتے دیکھی تھی۔ پتا نہیں کیا تھا اس مسکراہٹ میں کہ عکس شیردل کے چہرے سے نظر نہیں ہٹا سکی۔ وہ اب فون پر شہربانو سے بات کر رہا تھا۔




”تم نیویارک پہنچ گئیں؟”
”ہاں ابھی سامان وغیرہ لینا ہے ہم لوگوں کو…” شہربانو کی آواز تھکی ہوئی تھی۔
”اگلی فلائٹ کا پتا کیا؟” شیردل نے اس سے پوچھا۔
”نہیں ابھی نہیں سامان وغیرہ لینے کے لیے کھڑے ہیں فی الحال تو… ویسے بھی اگلی فلائٹ میں چار پانچ گھنٹے ہیں ابھی اور میں اتنی تھک چکی ہوں کہ میں تمہیں بتا بھی نہیں سکتی… تمہیں ساتھ آنا چاہیے تھا شیردل۔” شہربانو نے شکایت کی۔ شیردل نے مسکراتے ہوئے اس کو بہلانے والے انداز میں کہا۔
”I know yaar… میں پہلے ہی بہت مس کر رہا ہوں کل رات سے تم دونوں کو…”
”مس تو تمہاری بیٹی کر رہی ہے تمہیں… میری جان کھا لی ہے اس نے پورے راستے میں بار بار تمہارا پوچھ کر… اب تم بات کرو اس سے۔” شہربانو نے مثال کو دیکھتے ہوئے فون کو بالآخر اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ جو شیردل کا نام لیے جانے پر بے حد impatient ہورہی تھی۔ اس کی آواز فون پر سنائی دیتے ہی شیردل کو جیسے کچھ دیر کے لیے واقعی یہ بھول گیا تھا کہ وہ کہاں تھا۔ عکس مدھم مسکراہٹ کے ساتھ فون پر مثال کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو سنتی رہی۔ ایک عجیب سا رشک آیا تھا اسے شہربانو اور مثال پر اورشیردل پر… وہ ایک پرفیکٹ تکون تھی… ایک مکمل خوب صورت فیملی… جس پر کسی کو بھی رشک آسکتا تھا۔
”بیٹا ممی کو بالکل تنگ نہیں کرنا اب تم نے… ممی کا خیال رکھنا ہے۔” شیردل اب الوداعی کلمات کہہ رہا تھا مثال سے اور اس سے ایک کے بعد ایک وعدہ لے رہا تھا۔
”ممی کو فون دو۔” اس نے مثال کو آخری ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
”شیردل تم بیٹی سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ مجھے بھول جاتے ہو۔” شہربانو نے فون پکڑتے ہی کچھ خفگی سے اس سے کہا اور اس کا یہ شکوہ غلط نہیں تھا۔ شیردل ہنس پڑا تھا۔
”میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں سویٹ ہارٹ؟” عکس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی۔ چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے چند لمحوں کے لیے شیردل سے نظر ہٹالی تھی اور بالکل اس لمحے شیردل کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ کہاں تھا۔ شہربانو کو اگلی فلائٹ کے حوالے سے کچھ ہدایات دیتے ہوئے اس نے الوداعی کلمات کہتے ہوئے فون بند کیا اور پھر معذرت خواہانہ انداز میں عکس
سے کہا۔
”سوری یار… بس وہ دونوں نیویارک پہنچ گئی ہیں۔ شہربانو پہلی بار مثال کے ساتھ اکیلے اتنا لمبا سفر کر رہی ہے اس لیے میں تھوڑا بے چین ہوں۔” عکس نے مسکراتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”میں نے کچھ کہا؟”
”نہیں تم نے کہا تو نہیں… لیکن میں پھر بھی سوچ رہا تھا کہ کچھ زیادہ ہی لمبی بات ہو گئی ان لوگوں کے ساتھ میری۔” وہ سیل فون واپس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تم کیا سوچ رہی ہو…؟” شیردل کو اچانک خیال آیا جیسے وہ کسی سوچ میں گم تھی۔
”شہربانو اور مثال پر رکش آرہا تھا مجھے۔” عکس نے اپنی فیلنگز کو چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ایک لحظہ کے لیے شیردل حیران ہوا۔ عکس سے ایسا جملہ آنا بے حد غیر متوقع تھا۔




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!