عکس — قسط نمبر ۹

”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ کہ یہ ایسی بات نہیں ہے جس پر تم کسی کو شادی کے لیے ریجیکٹ کردو۔ عادی ڈرنک ہونا اور بات ہے اور سوشل ڈرنک کرنا ایک بالکل الگ … بہت سارے مرد سوشل ڈرنک کرتے ہیں لیکن وہ بہت اچھے شوہر بھی ثابت ہوتے ہیں۔” شیر دل نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا۔ عکس نے یک دم اس کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہا۔
”تم ڈرنک کرتے ہو شیر دل؟” شیر دل اس سوال کے لیے قطعاً تیار نہیں تھا۔ وہ کچھ حیرانی سے ہنسا تھا۔
”یہ کیا سوال ہوا؟”
”تم ڈرنک کرتے ہو شیر دل؟” عکس نے اپنا سوال دہرایا۔
”یہاں میری بات نہیں ہورہی ۔” شیر دل نے ایک بار پھر جواب سے بچنا چاہا۔
”تم ڈرنک کرتے ہو؟” عکس اب بھی ڈائریکٹ تھی۔
”اگر کرتا ہوں تو تم کیا کروگی؟”شیر دل نے جواب دینے کے بجائے الٹا پوچھا۔
”تم ڈرنک کرتے ہو؟” اپنی اتنی طویل دوستی کے دوران آج پہلا موقع تھا جب شیر دل نے عکس کو کسی بات کو اس قدر اصرار سے پوچھتے دیکھا تھا۔
”نہیں۔” شیر دل نے بالآخر کہا۔




”میں جانتی تھی۔” اس نے دوسری طرف عکس کے انداز میں ایک عجیب سا اطمینان محسوس کیا۔
”لیکن میں اسے برا نہیں سمجھتا۔” شیر دل نے ساتھ ہی کہا۔
”میں سمجھتی ہوں۔”
”کون سی چیز زیادہ قابل اعتراض ہے تمہارے نزدیک، بدتمیز اور شارٹ ٹیمپرڈ ہونا یا شراب پینا؟” شیر دل نے جیسے ایک عجیب احساس کے تحت اس سے پوچھا تھا۔
”شراب پینا۔” عکس نے جواب دینے میں ایک لمحہ نہیں لیا تھا۔ وہ چند لمحے خاموش رہا۔
”مجھے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ تم شراب پینے والوں سے اتنی نفرت کرتی ہو… کیوں؟” عکس اس بار چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”بہت سی چیزیں ہمیں پسند ہوتی ہیں اور کچھ پسند نہیں ہوتیں… ہر پسندیدگی اور ناپسندیدگی کے لیے وجہ کا ہونا ضروری ہے کیا؟”
”لیکن وجہ ہوتی ہے ہر چیز کی۔” شیر دل نے اصرار کیا۔
”جواد کی کال آرہی ہے۔” عکس نے یک دم کہا۔
”تم اس سے بات کرنا چاہتی ہو؟
”نہیں… کم از کم آج نہیں… اسے میرے آفس آکر اس طرح کی بد تمیزی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اسے میری عزت کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔”
”میں تمہیں یہی ایک فرق سمجھانے کی کوشش کررہا تھا جب تم جوا د کے ساتھ شادی کا فیصلہ کررہی تھیں جو تم میں اور جواد میں ہے۔وہ جیسی فیملی سے تعلق رکھتا ہے وہاں اس طرح کے رویے کوئی بہت بڑی بات نہیں ہوتی۔ تمہیں پتا اور اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اگر اتنی بڑی پولیٹیکل فیملی سے تعلق رکھنے کے باوجودتم سے شادی کررہا تھا تو اس کا تھوڑا بیگج تو تمہارے سر پر آنا ہی تھا۔”
” تمہیں لگتا ہے میں نے سوچے سمجھے بغیر جواد کا پروپوزل قبول کرلیا تھا؟” وہ بے حد سنجیدگی سے بولی۔
”سو چے سمجھے بغیر اگر کوئی پرپوزل تمہیں قبول کرنا چاہیے تھا تو میرا کرنا چاہیے تھا۔”شیر دل اس بار بھی سنجید ہ تھا۔
”میں بہت کنفیوزڈ ہوں شیر دل… میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے… جواد کو ایک موقع اور دینا چاہیے یا وہ سننا چاہیے جو میری چھٹی حس مجھ سے کہہ رہی ہے۔” اس نے ایک بار پھر شیر دل کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اس سے جیسے اپنی الجھن شیئر کی تھی۔
”میں تمہیں اس بارے میں کوئی مشورہ دینے سے پہلے تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔”
”کیا؟”
”تم نے مجھ سے شادی کرنے سے انکار کیوں کیا تھا؟”
”اس وقت ہم کوئی اور مسئلہ ڈسکس کررہے تھے۔” ایک لمبی خاموشی کے بعداس نے عکس مراد علی کو کہتے سنا۔
”تم نے اس وقت مجھے کہا تھا تم کبھی نہ کبھی انکار کی وجہ مجھے بتاؤگی؟” شیر دل نے اسے یاد دلایا۔
”وہ وقت ابھی نہیں آیا۔” عکس نے مدھم آواز میں کہا۔
”اور کب آئے گا؟”
”بہت جلد… اس کے بعد تم شاید میری شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کروگے۔” عکس نے بے حد عجیب سے انداز میں اس سے کہا۔
”یہ کام تو میں مر کر بھی نہیں کرسکتا۔” la belle dame sans merci ”میں تمہیں اگنور نہیں کرسکتا۔’’ شیر دل نے جیسے احتجاج کیا تھا۔
”ہاں اگنور تم مجھے نہیں کرسکوگے لیکن…” وہ بات کہتے کہتے رک گئی تھی۔ شیر دل کو وہم ہوا اس کی آواز کو آنسوؤں کا پھندا لگا تھا۔
”عکس …” اس نے اسے پکارا۔
”زندگی میں بہت سارے فیصلے اپنی عزت کے لیے کرنے پڑتے ہیں۔” وہ چند لمحوں کے بعد بولی تھی۔ اس کی آواز صاف تھی۔ شیر دل کو لگا اس کا وہم وہم ہی تھا لیکن اس کا جملہ وہ سمجھ نہیں سکا تھا۔
”ہاں لیکن صرف عزت کی خاطر ہم کسی کنویں میں نہیں کود سکتے۔” اسے لگا تھاشاید عکس کا ریفرنس جواد کی طرف تھا۔
”میں کود سکتی ہوں۔” اس کے جواب نے کچھ دیر کے لیے شیر دل کو لاجواب کردیا۔
”میں پھر تمہیں عقل مند نہیں کہوں گا۔”
”ٹائیٹلز میٹر نہیں کرتے پرائڈ میٹر کرتی ہے۔”
”یہ کون سی پرائڈ ہے جو تمہیں احمقانہ فیصلے کرنے کے لیے مجبور کررہی ہے؟” وہ اس کے جواب سے مزید ناخوش ہوا تھا۔
”زندگی میں وہ فیصلے کرنے چاہئیں جو زندگی کو پرسکون کردیں۔”
”میں بھی یہی کرنے کی کوشش کررہی ہوں… بہت دیر بعد ہمت کرپارہی ہوں اس فیصلے کی… لیکن مجھے لگتا ہے یہ میری زندگی میں سے ایک بہت بڑی خلش نکال کر مجھے پرسکون کردے گا۔۔۔۔”
”ایک اور “error of judgement شیر دل نے تنقیدی انداز میں اسے وارن کیا۔
”دیکھتے ہیں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”میں زندگی میں تمہیں اگر کبھی بزدلی کا مظاہرہ کرتے دیکھوں گا تو مجھے تم پر بہت غصہ آئے گا۔ عکس مراد علی میں کم از کم تمہیں آیک روایتی ،کمزور،دبو، مصلحت پرست، exploited عورت کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتا۔”شیر دل نے بہت خفگی سے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔وہ بہت دیر کچھ نہیں بولی پھر اس نے شیر دل سے کہا۔
”اور میں تمہیں مایوس نہیں کروں گی۔”شیر دل بے اختیار مسکرایا۔
”میں چاہتا ہوں تم زندگی ایسے مرد کے ساتھ گزارو جو تمہیں ویلیو کرے… شادی کے نام پر ایک لیبل اور پھندا اپنے گلے میں مت لٹکاؤ۔” اسے سمجھاتے ہوئے شیر دل کو احساس نہیں ہوا تھا کہ زندگی میں پہلی بار وہ اس کے سارے ریف نسز غلط سمجھا تھا… وہ جواد ملہی کے بارے میں اس سے مشورہ نہیں کررہی تھی وہ کس چیز کے بارے میں اس سے مشورہ کررہی تھی وہ اسے دو دن بعد پتا چلا تھا… عکس مراد علی نے اسے ہلا ڈالا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!