عکس — قسط نمبر ۹

”اچھا؟ اور کس لیے؟” وہ پہلے استعجابی انداز میں ذرا سا ہنسا پھر اس نے کہا۔
”تم بہت اچھے شوہر اور باپ ہو شیردل۔” عکس نے مسکراتے ہوئے اسے compliment دیا۔ شیردل ہنس پڑا تھا۔ اسے واقعی سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس تعریف کے جواب میں وہ کیاکہے۔
”پتا نہیں… کوشش کرتا ہوں… شہربانو بہت اچھی ہے۔” اس نے کچھ بے ربط سے انداز میں کہا۔
”جانتی ہوں۔” وہ مسکرائی ۔
”ہاں تم سے زیادہ تو کوئی نہیں جانتا ہو گا۔ تمہارا ہی تو انتخاب تھی وہ۔” شیردل نے مسکرا کر جیسے اسے کچھ یاد دلایا تھا۔ عکس مسکرا دی۔
”انتخاب غلط تھا کیا؟”




”میں نے کب کہا؟ ہم کیابات کر رہے تھے؟” شیردل نے اس کی بات پر تبصرہ کیا اور پھر موضوع بدلنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ عکس کچھ کہتی آفس کا دروازہ کھول کر ایک دراز قد آدمی اندر داخل ہوا تھا۔ شیردل اور عکس دونوں بے اختیار چونکے تھے۔ شیردل نے ماتھے پر کچھ بل لیے اس آدمی کود یکھا تھا۔ اس کا اس طرح بغیر اطلاع کیے اندر آنا اسے بے حد کھلا تھا۔ اس آدمی نے اندر آتے ہی بے حد خوش دلی سے سلام کرنے کے بعد شیردل کو بغور دیکھا تھا۔
”اوہ تم… مجھے بتایا ہی نہیں کہ تم آرہے ہو؟” شیردل نے عکس کو پہلے حیران ہوتے اور پھر خیرمقدمی مسکراہٹ کے ساتھ اس آدمی سے کہتے سنا تھا۔
”بس ایک دم سے پروگرام بنا لیا تم سے ملنے کا۔” اس آدمی نے مسکراتے ہوئے عکس سے کہا۔
”شیردل یہ جواد ہے اور جواد یہ میرے بیج میٹ…” عکس اب جواد کا تعارف کروانے کے بعد جواد سے شیردل کا تعارف کروا رہی تھی۔ شیردل جواد کا نام سنتے ہی یک دم اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ عکس کے تعارف کروانے سے بھی پہلے اس نے بے حد گرم جوشی کے ساتھ جواد سے ہاتھ ملایا تھا جس نے خود بھی اسی گرم جوشی کے ساتھ اس سے علیک سلیک کرتے ہوئے کہا۔
”آپ جہاں پوسٹڈ ہیں وہاں تو اکثر کام پڑتا رہتا ہے ہم لوگوں کو… میرا خیال ہے آپ سے تو ملاقات رہے گی اب میری۔” جواد نے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں اس کی پوسٹنگ کا سنتے ہی بڑی گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ اس سے کہا۔
”اینی ٹائم۔” شیردل نے بھی جواباً اسی گرم جوشی کے ساتھ اس سے کہا۔ دوبارہ اپنی نشست سنبھالنے کے بعد شیردل نے ایک بار پھر جواد کا بغور جائزہ لیا تھا۔ اس کا پہلا امپریشن جو اس پر پڑا تھا دوسرا بھی وہی رہا تھا… وہ جواد ملہی کو پسند نہیں کر سکا تھا۔ چند منٹ وہ مزید وہاں بیٹھا رہا تھا اور ان چند منٹوں میں بھی اس نے عکس اور جواد کے درمیان تناؤ کی ایک عجیب سی کیفیت محسوس کی تھی۔ چائے کا ایک اور کپ جواد اور عکس کے ساتھ مختصر ترین وقت میں پینے کے بعد شیردل اٹھ کر وہاں سے نکل آیا تھا۔ واپسی کا پورا راستہ وہ صرف جواد اور عکس کے بارے میں ہی سوچتا رہا تھا۔ عکس کے ساتھ جواد کی بے تکلفی اسے بہت ہی عجیب انداز میں چبھی تھی اور یہ نہیں تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ عکس کے ساتھ کسی کی بھی بے تکلفی اسے ایسے ہی چبھتی تھی اور یہ تب بھی تھا جب وہ اکیڈمی میں غنی حمید کے بہت قریب تھی یا کم از کم شیردل کو لگتی تھی۔ عکس اکیڈمی میں جس دن بھی جس بھی مرد کے ساتھ شیردل کو بیٹھی نظر آجاتی شیردل کو کم از کم ایک دن کے لیے اس مرد سے نفرت ہو جاتی تھی اور وہ وجوہات سمجھنے سے قاصرتھا۔ وہ خود اس کو بھی ناپسند کرتا تھا لیکن وہ ان لوگوں کو بھی قبول کرنے پر تیار نہیں تھا جو اس کے آس پاس نظر آتے تھے اوران لوگوں کی فہرست میں سب سے اوپر غنی حمید کا نام تھا۔
سرکاری گاڑی کی عقبی نشست پر بیٹھے جی ٹی روڈ پر شام کے دھندلکے میں کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عکس کے بارے میں سوچ رہا تھا… اور جواد کے بارے میں… جو اس وقت عکس کے پاس تھا… اکیلا … اس کی زندگی میں وہ جگہ لینے والا تھا جو شیردل چاہنے کے باوجود نہیں لے سکا تھا۔ اسے جواد ملہی سے حسد نہ ہوتا تو کیسے نہ ہوتا… اسے کبھی عکس کی زندگی میں آنے والے کسی مرد پر رشک نہیں آیا تھا۔ اسے صرف حسد ہوتا تھا۔
……٭……




”مجھے تو حسد ہوتا اگر میں وہاں انوائیٹڈ ہوتی اور میں تمہارے بجائے کسی اور کو best probationer کا ایوارڈ لے کر جاتا دیکھتی… ہماری فیملی کے لیے اس سے زیادہ embarrasing بات کوئی اور نہیں ہو سکتی تھی۔” شیردل کی ممی نے اس کی پاسنگ آؤٹ کی تقریب کی رات اس کے گھر واپس آنے پر اس سے کہا تھا۔ CTP کے اختتام پر ہونے والی اس پاسنگ آؤٹ پر کچھ وجوہات کی وجہ سے پیرنٹس انوائیٹڈ نہیں تھے۔ اور شیردل فیملی کے لیے یہ بھی جیسے ایک face saving تھی۔ اپنے لاؤنج میں بیٹھے چائے پیتے ہوئے شیردل ماں کی باتیں سنتا ہوا کن انکھیوں سے اپنے باپ کو دیکھتا رہا جو بے تاثر چہرے کے ساتھ چائے کے سپ لیتے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کی طرح شیردل کی اس ”ناقص” کارکردگی پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔
”STP ابھی باقی ہے ممی۔” شیردل نے جیسے اپنے ماں باپ کو assurance دینے کی کوشش کی۔
”وہاں عکس مراد علی نہیں ہو گی کیا؟” شیردل کے باپ نے پہلی بار بڑے تحمل اور رسانیت سے چائے کا کپ رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔ شیردل بے اختیار کچھ کھسیانا ہوا تھا۔ یہ اس کے باپ کے جوتے مارنے کا پرانا انداز تھا۔ وہ جانتا تھا وہ سوال نہیں پھبتی تھی۔
”ویسے کیا بیک گراؤنڈ ہے اس کا؟… کس فیملی کی ہے یہ لڑکی؟” شیردل کی ماں کو یک دم عکس مراد علی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ شیردل نے ڈیٹیلز شیئر کیں جو ہر کامنر کی طرح اسے بھی عکس کے بارے میں معلوم تھیں۔
”اوہ۔” اس کی ممی کو جیسے کچھ مایوسی ہوئی۔ ان کا خیال تھا وہ شاید کسی بیوروکریٹ کی اولاد تھی۔ پشت در پشت بیوروکریسی کا حصہ رہنے والے کسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور انہیں اپنے اس اندازے کے غلط ہونے پر جیسے کچھ مایوسی ہوئی۔ کسی کاروباری گھرانے کو تو شیردل کی فیملی بہت نچلا درجہ ہی دے سکتی تھی۔
”میں سوچ رہی تھی ہماری جان پہچان کی کسی فیملی سے تعلق ہے تو کچھ اور بھی پلان کیا جا سکتا ہے۔” شیردل کی ممی نے مسکراتے ہوئے پہلے بیٹے اور پھر شوہر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ملازم اب ان کی چائے کے کپ میں کچھ اور چائے ڈال رہا تھا۔
”مثلاً کیا؟” شیردل نے کچھ حیران ہو کرماں سے پوچھا۔
”تمہاری شادی وغیرہ کا کوئی سلسلہ شرع کیا جا سکتا تھا… لڑکی دیکھنے میں کیسی ہے؟” شیردل کو ماں کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”ممی آپ مذاق کر رہی ہیں۔” وہ ہنس پڑا ۔ اس کی ماں کا سینس آف ہیومر بہت اچھا تھا اور شیردل ہمیشہ اس سے محظوظ ہوتا تھا… اب بھی ہوا تھا۔
”ہاں، ہو سکتا تھا۔” اس بار شیردل نے اپنے باپ کو بے حد سنجیدگی سے اپنی بیوی کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھا ۔ شیردل کی ہنسی کو بے اختیار بریک لگا۔
”You can’t be serious”(آپ یقینا سنجیدہ نہیں ہیں۔) اس نے بے یقینی سے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”اتنی بری ہے وہ کیا؟” اس کی ماں نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔
”وہ اچھی کہاں سے ہے ممی…؟ سی ایس ایس میں ٹاپ کر لینے یاBest Probationerا ایوارڈ لے لینے کا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی بھی لڑکی سے شادی کرنے چل پڑوں۔” شیردل کو ماں کی بات اب بری لگی جب اسے یہ اندازہ ہوا کہ وہ مذاق نہیں تھا۔
”ایسے ہی سوچا ہے ہم کون سا تمہاری شادی واقعی اس کے ساتھ طے کرنے جارہے ہیں۔” اس کی ماں نے اسے خفا ہوتے دیکھ کر مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی۔
”ممی آپ بھی بعض دفعہ حد کرتی ہیں ویسے… میری شادی کروا رہی ہیں اس سے… کہاں میں… کہاں عکس مراد علی… کوئی میچ ہی نہیں ہے ہم دونوں کا۔” شیردل نے بے حد سنجیدگی سے اپنی چائے ختم کرتے ہوئے کپ رکھا۔
”وہ اتنی بری ہے ؟” اس کی ماں کو ایک عجیب سی کرید ہوئی عکس کے بارے میں۔
she is just average” (وہ بس ٹھیک ہی ہے) شیر دل نے بے حد خفگی سے کہا۔ i mean below average وہ عام معیار سے بھی کم ہے ۔’’ شیردل کو جیسے اپنی ہی وضاحت سے تسلی نہیں ہوئی اور اس نے اضافہ کیا۔ ”very ordinary۔” دوسرے اضافے پر ایک لمحے کے لیے وہ سوچ میں پڑا۔ عکس اس کے تصور میں آئی تھی اور اسے لگا اس کی وضاحت کچھ مناسب نہیں تھی۔
”I mean she is not that bad but she is not my kind of a girl”۔ (میرا مطلب ہے کہ وہ اتنی بری لڑکی نہیں ہے لیکن وہ میرے مزاج کی لڑکی نہیں ہے۔) چند لمحوں میں ہی اس نے گڑبڑا کر اپنے ہی جملے کی کچھ تصحیح کی۔
”ویسے تم کو کیسی لڑکیاں پسند ہیں؟” شیردل کی ماں کو یک دم جیسے اس موضوع پر اس سے تفصیل سے میں بات کرنے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔
”عکس مراد علی کے علاوہ مجھے ہر لڑکی پسند ہے۔” اس بار شیردل نے کندھے اچکا کر جیسے مذاق میں ایک بات کہی۔
”عکس کی تو ہم بات ہی نہیں کر رہے… تم اس کا ریفرنس کیوں دے رہے ہو؟” اس کی ماں نے کہا۔
”ایسے ہی کہہ دیا میں نے… اور پلیز آپ یہ فلمی سچویشن create کرنے کی کوشش نہ کریں فی الحال… مجھے ابھی STP پوری کرنی ہے… پھر اپنی پہلی پوسٹنگ کے دوران تو کم از کم اس طرح کے کسی سلسلے میں دلچسپی نہیں ہے۔” شیردل ماں کے ارادے بھانپتے ہوئے بولا۔
”میں صرف انگیجمنٹ کا سوچ رہی تھی۔”
”آپ اس کا بھی مت سوچیں bst Probatiner کا ایوارڈ نہ لینے کی اتنی بڑی سزا تو نہیں ملنی چاہیے مجھے۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کے ماں باپ مسکرا دیے تھے۔ کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بھی شیردل کو اپنے باپ کی خاموشی بری طرح چھبی تھی۔ انہوں نے گفتگو میں بہت کم حصہ لیا تھا اور وہ مسلسل سنجیدہ رہے تھے جو ایک جملہ انہوں نے بولا تھا وہ شیردل کو کانٹے کی طرح چبھ گیا تھا۔ STP کا best Probationerکا ایوارڈ اب اس کے لیے عزت کا مسئلہ بن گیا تھا۔
……٭……

”وہ زمین کا ٹکڑا میرے لیے عزت کا مسئلہ نہیں ہے چڑیا… وہ 20 سال کی حق حلال کی کمائی ہے میری… خون پسینے سے کمائی جانے والی ایک ایک پائی اکٹھی کر کے خریدی گئی تھی وہ زمین… میں اسے اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتا۔” چڑیا نے عجیب تکلیف کے احساس کے ساتھ اپنے نانا کو دیکھا۔
وہ ابھی کچھ دیرپہلے حوالات سے نکلا تھا اور اب وہ اور چڑیا بس پر بیٹھے واپس شہر جارہے تھے۔ خیردین کے کندھے ایک بار پھر عجیب سی شکست خوردگی کے عالم میں جھکے ہوئے تھے۔ چڑیا نے ہمدردی سے اپنے نانا کو دیکھا۔ وہ خیردین کے لیے آج بھی کچھ نہیں کر سکتی تھی… لیکن اب کم از کم سمجھا سکتی تھی اور وہ اس وقت وہی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”ہمیں اب اس زمین کی ضرورت نہیں ہے نانا… اس کو بیچ کر بھی ہمیں اتنے پیسے نہیں ملیں گے جن سے ہماری زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آجائے۔ ہمارے پاس گھر ہے… آپ نے اپنی دکان بھی خریدلی ہے… میں میڈیکل کالج جارہی ہوں… ہمیں اس زمین کے لیے اب ذلیل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” چڑیا نے خیردین کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے بس کے شور میں قدرے بلند آواز میں کہا۔




Loading

Read Previous

چچا غالب طلبا کی نظر سے — عائشہ تنویر

Read Next

ایک اور منظر — فیض محمد شیخ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!