عکس — قسط نمبر ۸

”ہم ویسے شروع کرنے والے ہیں اس سال لاہور میں اپنا گھر۔”شیر دل نے اس کی بات کے جواب میں کہا ۔عکس جانتی تھی اس کی مذمت اور لعنت ملامت شیر دل پر کوئی اثر نہیں کرنے والی تھی۔ وہ بیورو کریسی کے جس اوپر والے حصے سے تعلق رکھتا تھا وہاں پبلک فنڈز کا اس طرح کا استعمال کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ وہ technically کرپشن نہیں تھی کیونکہ وہ روپیہ کسی کی جیب میں نہیں جارہا تھا جو کچھ بھی لگ رہا تھا وہ ایک سرکاری عمارت پر ہی لگتا تھا اور وہاں کی کوئی چیز وہ اپنے ذاتی گھروں میں نہیں لے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود فنڈز mus-use ہوتے تھے ۔شیر دل elite کلاس سے تعلق رکھتا تھا اور اسی طرح کا لائف اسٹائل رکھتا تھا۔ اس کے یا شہر بانو کے لیے سادگی اپنا نا بہت مشکل کام تھا، یہ بات عکس بخوبی جانتی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اس طرح کا لائف اسٹائل رکھنے والا پہلا یا واحد بیورو کریٹ نہیں تھا۔ وہ اس سے پہلے بھی مختلف پوسٹنگز کے دوران جن سینئر آفیسرز سے ملتی رہی تھی اس نے ان کے گھروں میں سرکاری خرچ پر اسی طرح کی تزئین وآرائش اور سہولیات دیکھی تھیں۔




”اوہ اچھا! great … کہاں؟… یہاں لاہور میں۔” عکس نے اس کی اطلاع پر دلچسپی لیتے ہوئے کہا ۔وہ بھی اب کھانا کھانے لگی تھی ۔شیر دل اسے گھر کے حوالے سے اپنی اور شہر بانو کی مجوزہ پلاننگ بتانے لگا تھا۔ وہ دلچسپی سے سنتی رہی اور وقتاً فوقتاً اس پر تبصرہ کرتی رہی ۔وہ دونوں گھر کو ڈسکس کرنے کے بعد سنگا پور میں ہونے والے اس کو رس کو ڈسکس کرنے لگے جہاں جانے والے سات آفیسرز میں عکس بھی شامل تھی۔ وہ بیرون ملک ہونے والا ان کا پہلا کورس تھا۔
ڈنر کے بالکل آخر میں شیر دل کا فون بجنے لگا ۔ اس نے سیل فون اٹھا کر دیکھا ۔شہر بانو کی کال تھی۔ کال ریسیو کرتے ہوئے اس نے عکس کو بھی انفارم کیا۔
”تم کہاں ہو شیر دل؟” کال ریسیو کرتے ہی شہر بانو نے اس سے پوچھا تھا۔”میں date پر ہوں۔”شیر دل نے مسکراتے ہوئے سامنے بیٹھی عکس کو دیکھتے ہوئے کہا۔ سوفٹ ڈرنک کا آخری سپ لیتی عکس کے چہرے پر مسکراہٹ غائب ہوگئی تھی۔شیر دل نے اس کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات کو نوٹس نہیں کیا۔ وہ شہر بانو کی طرف متوجہ تھا جو اس کی بات پر ہنس پڑی تھی۔
”تم ایسا نہیں کرسکتے۔” اس نے کمال کی خود اعتمادی کے ساتھ کہا تھا۔ شیر دل نے عکس کو اپنا بیگ سنبھال کر اٹھتے دیکھا۔ اس نے نوٹس نہیں لیا تھا وہ سمجھا وہ ریسٹ روم جانے کے لیے اٹھی تھی۔
”You are underestimating me ” وہ مسکراتے ہوئے شہر بانو کے ساتھ بات کرتا رہا۔ اس نے ساتھ ہی ویٹر کو سائن کرنے کے لیے بل لانے کا اشارہ کیا تھا۔
Date”خوب صورت ہے؟” شہر بانو نے اب اس مذاق میں عملی طور پر حصہ لیتے ہوئے کہا۔
”بہت زیادہ ۔’ ‘ شیر دل نے اطمینان سے کہا۔
”مجھ سے بھی زیادہ ؟” شہر بانو نے پوچھا۔
”مجھ کو لگتی ہے۔” شیر دل نے مسکرا کر کہا۔
”کوئی تمہیں مجھ سے زیادہ خوب صورت لگ سکتا ہے شیر دل؟” شہر بانو نے کہا۔
”خوب صورت کب کہا ہے۔ اچھی کہا ہے۔” شیر دل اس بار ہنسا تھا۔
”تم ویسے ہو کہاں؟” شہر بانو نے بالا خر سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”جم خانہ میں ایک دوست کے ساتھ ڈنر کررہا ہوں۔ تمہیں بتایا تو تھا میں نے آنے سے پہلے۔”
”ہاں لیکن میرے ذہن سے نکل گیا… میں تو یہ سوچ کر پریشان ہورہی تھی کہ ٹینس کھیلنے گئے تھے اور ابھی تک واپس کیوں نہیں آئے۔’’ اس کی بات سنتے ہوئے بالکل اسی وقت ویٹر نے اس کے قریب آکر مودبانہ اندا میں جھکتے ہوئے اس سے کہا۔
”آپ کا بل کاؤنٹر پر pay کردیا گیا ہے۔” شہر بانو سے بات کرتے کرتے شیر دل بری طرح چونکا تھا۔ اس نے شہر بانو سے بات کرتے ہوئے خود ویٹر کو مخاطب کر کے بل کے بارے میں دوبارہ استفسار کیا تھا ورنہ ویٹر اس کی کال کے ختم ہونے کا اتنظار کرتا۔




”کس نے pay کردیا؟” شیر دل بے حد حیران ہوا تھا۔ دوسری طرف لائن پر موجود شہر بانو یہ ساری گفتگو سن رہی تھی۔
”میڈم نے۔” شیر دل کو اب جیسے کرنٹ لگا تھا اور ایسا ہی کرنٹ دوسری طرف لائن پر موجود شہر بانو کو بھی لگا تھا۔ وہ کیا واقعی کسی لڑکی کے ساتھ وہاں ڈنر کررہا تھا؟
”میں تم سے تھوڑی دیر میں بات کرتا ہوں شبی۔” اس سے پہلے کہ شہر بانو اس سے کوئی سوال کرتی شیر دل نے یک دم اس سے کہتے ہوئے فون بند کردیا تھا۔
”اور میڈم کہاں ہیں۔” شیر دل نے بے حد سنجیدگی سے کرسی پر سیدھا ہوتے ہوئے ویٹر سے پوچھا۔
”وہ تو چلی گئی ہیں۔” شیر دل کو ایک لمحہ کے لیے یقین نہیں آیا کہ اس نے ویٹر سے یہ جملہ سنا تھا۔ اسے لگا تھا ویٹر کو کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔ ویٹر سے کوئی سوال جواب کیے بغیر اس نے سیل فون اٹھاتے ہوئے عکس کو کال کی سیل فون آف تھا اور یہ شیر دل کے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا۔ وہ بے حد اضطراب کے عالم میں اپنی کرسی کھینچتے ہوئے کھڑا ہوا تھا اور بے حد تیز قدموں سے وہ ریسٹورنٹ سے باہر پارکنگ تک آیا تھا لیکن پارکنگ تک آتے ہوئے وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ عکس کو یا اس کی گاڑی کو رات کے اس وقت وہاں موجود سیکڑوں گاڑیوں میں سے ڈھونڈھ لینا ناممکن تھا۔ سمجھ اسے یہ نہیں آئی تھی کہ عکس نے ایسا کیا کیوں تھا۔ عکس جہاں ٹھہری ہوئی تھی وہ اس جگہ سے واقف تھا اور پارکنگ میں پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو سیدھا وہاں چلنے کے لیے کہا۔ دس منٹ میں وہ اس کلب میں تھا جس کے ایک رہائشی کمرے میں وہ رکی ہوئی تھی۔ ریسپشن سے اسے پتا چل گیا تھا کہ و ہ بھی ابھی چند منٹ پہلے ہی وہاں پہنچی تھی۔ اس نے receptionistکو اس کے کمرے کا نمبر ملانے کے لیے کہا اور عکس کے ریسیوراٹھاتے ہی receptionist کے ہاتھ سے انٹر کام لے لیا۔
”میڈم آپ ذرا باہر تشریف لائیں گی یا میں اندر آجاؤں؟” چند سیکنڈز کے لیے عکس بالکل بول نہیں سکی ۔شیر دل کی آواز اس کے لیے اتنی ہی غیر متوقع تھی ۔اسے پتا تھا وہ اس کے اس طرح اٹھ آنے پر اپ سیٹ ہوگا، خفا بھی ہوگا لیکن وہ اس کے پیچھے آجائے گا اسے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت خود شیر دل سے اس قدر خفا تھی کہ وہ اس سے ملنا یا بات کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن اسے یہ بھی پتا تھا کہ وہ اگر اس کے پیچھے وہاں آسکتا تھا تو اس کے لیے اس کے کمرے میں آجانا کیا مشکل تھا۔ وہ وہاں کوئی شرمندہ کردینے والی صورت حال نہیں چاہتی تھی۔
”میں پانچ منٹ میں آتی ہوں۔” اس نے بالآخر شیر دل سے کہا۔
”تھینک یو۔” شیر دل نے بڑے ٹھنڈے لہجے میں کہہ کر فون بند کردیا ۔
”وہ پانچ منٹ کے بجائے دو منٹ بعد ہی وزیٹرز ایریا میں آگئی تھی۔
”باہر لان میں چلتے ہیں۔” شیر دل اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ عکس کچھ کہے بغیر اس کے ساتھ چل پڑی۔کلب کے دروازے سے باہر نکلتے ہی شیر دل نے بے حد خفگی کے عالم میں اس سے کہا ۔
”میں نے کسی عورت کو اس سے زیادہ بچگانہ حرکت کرتے نہیں دیکھا… تم یہ کیسے کرسکتی ہو عکس؟”
”ہم نے ڈنر کرلیا تھا اور بل دینا کوئی گناہ نہیں ہے۔” عکس نے اسی ٹھنڈے انداز میں کہا۔ وہ دونوں اب لان میں نکل آئے تھے اور لان میں آتے ہی شیر دل نے رکتے ہوئے اس سے کہا۔
”تمہیں کیا ہوا ہے؟ ”وہ اتنا بے وقوف بہر حال نہیں تھا کہ اب بھی سمجھ نہ سکتا کہ عکس کو کچھ برا لگا تھا جس پر وہ خفا تھی۔
”شیر دل میں تمہاری date نہیں ہوں۔”عکس نے اس کے سوال پر کسی توقف کے بغیر بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔وہ چند لمحے اس کا چہرہ بے یقینی سے دیکھتا رہا پھر ہنس دیا۔
”تم اس بات پر ناراض ہوئی ہو…؟ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔” اس کا سر واقعی گھوم کر رہ گیا تھا۔ وہ اتنی بڑی بات نہیں تھی جس پر عکس یوں ری ایکٹ کرتی۔
”میں تمہیں دوست سمجھ کر تمہارے ساتھ وہاں ڈنر کے لیے گئی تھی… تمہیں اگر dating کا شوق ہے تو اس کے لیے لاہور بھرا پڑا ہے لڑکیوں سے۔بلکہ وہ تمہیں وہاں جم خانے میں بھی مل جاتیں۔” عکس نے اس کی ہنسی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”میں مذاق کررہا تھا عکس۔ تم جانتی ہو۔” شیر دل اس کے انداز پر ایک بار پھر حیران رہ گیا تھا۔




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!