عکس — قسط نمبر ۸

چڑیا کی زندگی میں اس کا کانونٹ کا اور سسٹر ایگنس کا جور ول تھا وہ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اس کے لیے مسیحا کی حیثیت رکھتے تھے۔ کچھ ایسا ہی فخر سسٹر ایگنس بھی اپنی اس اسٹوڈنٹ پر رکھتی تھیں انہوں نے چڑیا پر جتنی توجہ دی تھی چڑیا نے اسے اس سے بڑھ کر رزلٹ دیے تھے۔
تین سال بعد سسٹر ایگنس کی وہاں سے ٹرانسفر ہوگئی تھی لیکن جانے سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر چڑیا کے ساتھ بہت ساری باتیں کی تھیں۔




”زندگی میں ہونے والے یہ حادثے شرم سے مرجانے والے ان کے لیے ہونے چاہئیں جو ان کے ذمے دار ہیں۔ ان کے لیے نہیں جو نشانہ بنے ہوں کبھی بھی اس تکلیف دہ واقعے کو اپنی زندگی کا وہ کنواں مت بننے دینا جس کی گہرائی اور تاریکی تمہاری personality تمہاری positivity تمہارے سارے ٹیلنٹ کو کھا جائے ۔کبھی اپنے آپ پرا س ایک واقعے کی وجہ سے ترس مت کھانا۔ کبھی نہیں۔ تم اس کا نونٹ کی سب سے برائٹ اسٹوڈنٹس میں سے ایک ہو۔ one day you will make us proud of you وہ ان کی باتیں سنتی رہی تھی۔ اس نے سسٹر ایگنس کی باتوں کو ہمیشہ اسی طرح سنا تھا … لیکن یہ پہلا موقع تھا جب اسے سسٹر ایگنس کی باتوں کی پہلے سے زیادہ سمجھ آئی تھی۔ سسٹر ایگنس نے اس کے ساتھ گزارے ہوئے سالوں میں چڑیا کے زخموں پر ایسے بہت سے مرہم وقتاً فوقتاً رکھے تھے لیکن اس کے باوجود بہت ساری چیزیں ایسی تھیں جنہیں وہ چڑیا کے اندر سے ختم نہیں کرسکیں تھیں۔ وہ بہت ریزروڈ بہت خاموش طبع تھی… کسی کو بہت قریبی دوست بنانا اس کی زندگی کا جیسے مشکل ترین کام تھا۔ اس کے لیے لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارنا خاموشی سے ان کی بات چیت سن لینا آسان تھا لیکن اس کے لیے کسی کے ساتھ بھی ایک خاص حد سے زیادہ بے تکلفی پیدا کرنا پیدا مشکل تھا اور ایسا کیوں تھا یہ چڑیا خود بھی کبھی نہیں سمجھ سکی اور یہ دقت اسے کنیئرڈ میں بھی رہی تھی۔
کہیں نہ کہیں فاطمہ کو لوگوں پر اعتبار کرنے میں مشکل کا سامنا تھا اور یہ مشکل کیوں تھی… اس کے پاس وجوہات کی لمبی فہرست تھی۔ حالانکہ کنیٹرڈ تک پہنچتے پہنچتے زندگی اس کے بہت سے مسئلے حل کرچکی تھی۔
خیر دین شہر کے بارونق ترین علاقے میں ایک دکان چلا رہا تھا جس کی دال کھانے کے لیے لوگ بہت دور دور سے آتے تھے اور جس کا پکا ہوا کھانا شام ہونے سے پہلے ختم ہوجاتا تھا۔ اب اس دکان پر خیر دین کے پاس پانچ کام کرنے والے ملازم تھے۔ اس کے باوجود رش اتنا رہتا تھا کہ خیر دین بے انتہا کوشش کے باوجود بھی ایک خاص تعداد سے زیدہ گاہک نہیں بھگتا سکتا تھا۔
خیر دین کا پانچ مرلے کا خریدا ہوا گھر اب ڈبل اسٹوری ہوچکا تھا۔ حالانکہ اس کی اوپر والی منزل اب کسی کرائے دار کے پاس تھی۔ خیر دین کے لیے چڑیا کے چلے جانے کے بعد نیچے والا حصہ بھی ضرورت سے بہت زیادہ تھا اور اس گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔
زندگی کا وہ مشکل دور بہت جدوجہد سے ہی سہی لیکن آہستہ آہستہ گزر گیا تھا لیکن اس کے نقوش اور اثرات ان تمام لوگوں کی زندگیوں پر تھے جو اس میں سے گزرے تھے اور ان تمام سالوں کے بعد اپنے زندگی کے پرسکون ترین دنوں میں فاطمہ کو اپنی زندگی کے بد ترین دنوں کا خیال نہ آتا اگر اس نے کالج کے اس تقریری مباحثے میں ایبک کو نہ دیکھ لیا ہوتا… فاطمہ نے ایبک کو اس کے نام سے پہچانا تھا۔وہ نام اس کی یادداشت کے ہر خانے پر جیسے نقش تھا۔ اس نے ایبک کو اس کے چہرے سے پہچانا تھا وہ آج بھی اس کے چہرے کو بھول نہیں پائی تھی اور اس نے ایبک کو ایچی سن کے حوالے سے پہچانا تھا… صرف سات سال ہی تو گزرے تھے گرمیوں کے اس ایک مہینے کو جو ایبک نے اس ڈی سی ہاؤس میں اسے ٹینس سکھاتے اوراس کے ساتھ چیس کھیلتے ہوئے گزارے تھے۔ سات سال اتنا لمبا عرصہ تو نہیں ہوتا کہ وہ اسے پہچان نہ لیتی… اور اگر وہ اسے پہچان سکتی تھی تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایبک اسے نہ پہچان جاتا۔
وہ فاطمہ کی زندگی کا پہلا مقابلہ تھا جس میں فاطمہ نے کوئی انعام حاصل نہیں کیا تھا… وہ صرف تالیاں بجانے والوں میں شامل تھی یا اس کی نظریں بار بار ایبک پر بھٹکتی رہی تھیں لیکن اس نے ایبک کو ایک بار بھی اپنی طرف متوجہ نہیں پایا تھا… اسے اطمینان ہوا تھا وہ اسے نہیں پہچانا تھا… اور اگر پہچان گیا تھا تو….
اس دن ہاسٹل میں واپس آکر فاطمہ نے اپنے سامان میں سے کئی سال پہلے ایبک کی دی ہوئی ایک ٹینس بال نکال کر دیکھی تھی جس پر ایبک نے اپنے سگنیچر کر کے دیے تھے اور ان سگنیچر کے ساتھ ایک جملہ اور بھی تھا۔




”I win coz i can ” وہ اس گیند کو پکڑے بہت دیر اس پر لکھی وہ تحریر دیکھتی رہی یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔
”اس ٹینس بال کو بہت carefully رکھنا اپنے پاس… کیونکہ ایک دن میں بہت بڑا ٹینس اسٹار بن جاؤں گا پھر تو میں کسی کو بھی اس طرح اپنے آٹو گرافس نہیں دوں گا۔
but you are a friend and i like you تو اس لیے میں تم کو دے رہا ہوں۔” ایبک نے یہ گیند اس کے لیے سائن کرتے ہوئے بلا کی خود اعتمادی کے ساتھ کہا تھا۔ چڑیا نے تب اس سے یوں عقیدت کے ساتھ بے حد مرعوب ہوتے ہوئے وہ گیند لی تھی جیسے وہ واقعی کسی مستقبل کے سپر سٹار سے وہ گیند لے رہی تھی۔
اس نے نم آنکھوں کے ساتھ وہ گیند واپس اسی بیگ میںڈال دیا جس میں ایبک کی دی ہوئی اور بہت ساری چیزیں تھیں ۔ ایک کی چین،دوبال پوائنٹ، ایک جیپ کی شکل کا شاپنر، ایبک کی بنائی ہوئی چند ڈرائنگز اور چڑیا کا پینسل سے بنایا ہوا ایک اسکیچ… چند تتلیاں جو ایک ڈائری کے اندر رکھی ہوئی تھیں اور شیشے کے ایک جار میں پڑے چند کیڑے مکوڑے جن کی حالت اب اتنے سالوں بعد کچھ کی کچھ ہوگئی تھی۔ فاطمہ کو ہمیشہ چیزیں بہت احتیاط سے رکھنے کی عادت تھی چاہے وہ کسی کی بھی دی گئی ہوتیں اور یہ تو ایبک کی دی ہوئی چیزیں تھیں…اس ڈی سی ہاؤس سے باہر پھینکے جانے والے سامان میں چڑیا کا واحد اثاثہ یہی ایک بیگ تھا… وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا دوست تھا… اور آخری بھی… چڑیا کو زندگی میں دوبارہ کبھی کوئی ایبک نہیں ملا تھا جس سے وہ وہ باتیں کرپاتی جو وہ ایبک سے کرتی تھی۔
……٭……

”سر وہ DC آپ سے فوری طو پر بات کرنا چاہتی ہیں۔”آپریٹر کی آواز شیر دل کو جیسے کسی خواب میں آنے والی آواز جیسے لگی تھی ۔وہ چند سیکنڈ ز پہلے انٹر کام کی آواز سے ہی ہڑ بڑا کر اٹھا تھا۔ پچھلی رات شہر بانو اور مثال کو ائیر پورٹ پر سی آف کر کے لاہور سے سیدھا اپنے گھر آگیا تھا ۔لاہور میں دو دن کے stay کے دوران اس کی نیند نہ ہونے کے برابر رہی تھی اور واپس آتے ہی وہ گہری نیند سوگیا تھا۔
نیم تاریکی میں ہی کسی میکانیکی انداز میں اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک ہاتھ سے لیٹے لیٹے فون اٹھایا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی رسٹ واچ اٹھا کر وقت دیکھا تھا۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ کسی ایمر جنسی کے علاوہ آپریٹر اسے کال نہیں کرسکتا تھا۔
”سر DC آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔It’s emergency اس کے ریسیور اٹھاتے ہی آپریٹر نے عکس مراد علی کی designation اور شہر کا نام لیتے ہوئے اسے کہا تھا۔
”عکس مراد علی؟” شیر دل کو لگا اس نے ایک بار پھر نیند میں کچھ غلط سنا تھا۔
‘‘Yes sir ”آپریٹر نے تصدیق کی ۔شیر دل بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
”کال ملاؤ۔” اس نے آپریٹر کو ہدایت کرنے کے بعدفوری طور پر سائڈ ٹیبل لیمپ آن کیا ۔اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں لیکن اس کا دماغ یک دم الرٹ ہوگیا تھا۔ ایسی کیا ایمرجنسی ہوسکتی تھی کہ وہ اسے رات کے اس پہر کال کررہی تھی۔ جبکہ ابھی پچھلی ہی رات…… وہ کچھ اور نہیں سوچ سکا۔اس نے عکس کی آواز فون پر سنی تھی۔
”ہیلو۔”
”ہیلو۔”تمہارے بیڈ روم میں TV ہے؟” عکس نے اسے کسی تمہید کے بغیر پوچھا۔وہ چند لمحوں کے لیے بری طرح الجھا۔
”ہاں ہے۔”
”تو پھر TV لگاؤ۔” وہ اسے کسی نیوز چینل کا نام بتاتے ہوئے ٹی وی لگانے کا کہہ رہی تھی۔ شیر دل نے کچھ پریشانی کے عالم میں بیڈ سائڈ ٹیبل پر ریموٹ ڈھونڈ نا شروع کردیا۔
”خیریت ہے؟” اس نے اس تلاش کے دوران عکس سے پوچھا اسے اس کی آواز بے حد بجھی ہوئی لگی تھی۔
”نہیں ہے خیریت۔I ‘m in a big mess ”وہ اسے بتارہی تھی اور بالکل اسی وقت شیر دل نے ریموٹ ڈھونڈ کر سامنے لگی LCD آن کی ایک نیوز چینل پر کسی پولیس اسٹیشن پر ایک بے حد قیمتی گاڑی اور اس میں سے نکل کر پولیس کی حراست میں اندر جانے والے ایک مرد کی فوٹیج بار بار چل رہی تھی۔ جسے شراب نوشی کرتے ہوئے کچھ دیر پہلے کسی سگنل پر پولیس کی کسی موبائل نے اپنی حراست میں لے لیا تھا وہ ایک معروف سیاست دان کا بیٹا تھا اور اس کا نام جواد ملہی تھا… لیکن شیر دل کا ذہن جو چیز دیکھ کر بھک سے اڑا تھا وہ TV اسکرین پر چلتی ہوئی پٹی پر آنے والی اس واقعے کے حوالے سے ایک خبر تھی جس میں ملزم کی منگیتر کے طور پر عکس مراد علی کا نام اس کے عہدے کے ساتھ چل رہا تھا۔
”میں تمہیں کچھ دیر بعد فون کرتا ہوں۔” شیر دل نے TV اسکرین پر اس فوٹیج اور پٹی پر چلنے والی خبر پر ایک نظر ڈالنے کے بعد عکس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اسے کہا ور فون بند کردیا۔
……٭……
خیر دین نو سال بعد اپنے گاؤں پہلی بار تب گیا تھا جب فاطمہ کو کنگ ایڈورڈ، میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ملا تھا ۔وہ اپنا یہ فخر جیسے اپنے پورے گاؤں میں بانٹنے اور بتانے گیا تھا…اس کی نواسی اس علاقے اور اس گاؤں کی پہلی ڈاکٹر بننے والی لڑکی تھی جو ایف ایس سی میں بورڈ کو ٹاپ کرتے ہوئے وہاں پہنچی تھی۔ وہ نو سال پہلے اس گاؤں سے دھکے کھاتے ہوئے سر جھکائے روتا ہوا اپنے دل میں یہ حسرت لیے وہاں سے گیا تھا کہ اس کی نسل میں کوئی مرد ہوتا تو شاید…… اور اس شاید کے آگے کا جواب خود خیر دین کو کبھی نہیں آیا تھا۔ اس کی نسل میں ایک مرد ہوتا تو خیر دین کے لیے کیا کرتا؟ اس طرح لڑتا جس طرح اس کے بھتیجے اس سے لڑ رہے تھے؟ اس کے ساتھ مار کھانے کے لیے ہر اس جگہ جاتا جہاں خیر دین گیا تھااور ذلیل ہو کر آیا تھا اس کا نام روشن کرتااور نام روشن کرنے کے لیے خیر دین کو کسی مرد کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہ کام تو چڑیا نے بھی کر لیا تھا… خیر دین نے ساری عمر یہی ایک خواب دیکھا تھا ۔چڑیا کو ایک بہت بڑی ڈاکٹر بنانے کا خواب اور پھر اس گاؤں میں ایک اسپتال بنانے کا خواب …
گاؤں میں اس بار بھی اس کا استقبال مختلف طریقے سے ہوا تھا…
……٭……
”شہر بانو اگر میں کبھی دوسری شادی کرنا چاہوں تو تم کیا کروگی؟” Emirates ائرلائنز میں بیٹھے ایک فلم دیکھتے ہوئے شہر بانو کو پتا نہیں کیوں شیر دل کا سوال یاد آیا تھا ۔وہ پچھلی رات کی بات تھی جب وہ اس سے عکس کے حوالے سے پوچھ رہی تھی اور بہت دیر خاموش رہنے کے بعد شیر دل نے ایک دم اس سے پوچھا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!