عکس — قسط نمبر ۸

وہ عورتوں سے لچھے دار باتیں کرنے کا کبھی عادی نہیں رہا تھا۔ اسے کسی عورت کو اپنی انگلیوں کے گرد گھمانے کے لیے اس طرح کے حربوں یا طریقوں کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ وہ کسی بھی عورت کو flatter چارم کر سکتا تھا … اپنی طرف بڑی آسانی سے اٹریکٹ کرسکتا تھا اور اس آسانی نے بعض حوالوں سے صنف نازک کے لیے شیر دل کی رغبت کو کم کردیا تھا۔ لڑکیوں سے دوستی، پھرنا پھرانا، گپ شپ اور اچھا وقت گزارنا ایک چیز تھی لیکن شیر دل نے کبھی لڑکیوں کے بارے میں سوچنے میں وقت اور انرجی صرف نہیں کی تھی… اپنی گرل فرینڈز کے بارے میں بھی،ان چند لڑکیوں کے بارے میں بھی جن میں وقتاً فوقتاً اس کی دلچسپی دوستی سے کچھ زیادہ بڑھی تھی۔ عکس مراد علی وہ پہلی لڑکی تھی جس نے شیر دل کو زچ کیا تھا، خوار کیا تھا، متاثر کیا تھا اور جس کے بارے میں سوچنے میں اس نے گھنٹوں برباد کیے تھے، راتیں جاگ کر گزاری تھیں اور یہ سب اس وقت سے تھا جب وہ اپنے اور عکس کے تعلق کی نوعیت کو کوئی نام بھی نہیں دے سکا تھا۔




اس کے لیے کبھی بھی عکس مراد علی کو نظر انداز کرنا، اس سے بات چیت کو صرف ہیلو ہائے تک رکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کوشش کرنا ایک بات تھی کوشش میں کامیاب ہونا ایک دوسری بات لڑکیوں سے وہ سب بھی نہیں کہا کرتا تھا جو وہ عکس سے کہا کرتا تھا۔ وہ اس کے سامنے جھلانا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن ہر بار کسی نہ کسی طرح شیر دل عکس مراد علی کے سامنے بس جھلا کر رہ جاتا تھا۔ اس عورت پر اس کا بس نہیں چلتا تھا… اور اس عورت پر اس کا بس کیوں نہیں چلتا تھا شیر دل نے اس پر سوچنے میں بھی گھنٹوں لگائے تھے… عکس مراد علی کو کیسے مرد اچھے لگتے تھے؟ مردوں میں کیا اچھا لگتا تھا؟ اسے یاد ہے اس نے ایک بار اکیڈمی میں دو دن ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے بعد زچ ہو کر بالآخر سیدھا جا کر عکس مراد علی سے ہی یہ سوال کرلیے تھے۔
”بیٹا تمہارا نہیں ہے… اور تم یہ فیوچر پلان کررہے ہو اس کے لیے۔” عکس نے اس سے کہا تھا۔
”ہے نہیں تو ہوجائے گا۔” شیر دل کا اطمینان لاجواب تھا۔
”One never knows ”عکس نے اسے teaseکیا۔
”مجھے دوسروں کا نہیں پتا لیکن ہماری فیملی میں بیٹے ضرور ہوتے ہیں… سیکنڈ چائلڈ بیٹا ہی ہے میرا۔”شیر دل نے بلا کی خود اعتمادی سے کہا تھا۔
”تمہیں کسی نجومی نے لکھ کر دیا ہے۔” عکس نے مذاق اڑایا۔
”تم دیکھ لینا۔” شیر دل نے اطمینان سے کہا۔
”ہوسکتا ہے اس سے پہلے میرا بیٹا ہوجائے… اور ہوسکتا ہے کہ میرا بیٹا رومانس کرنا پسند کرے تمہاری بیٹی کے ساتھ۔” عکس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”نہیں تمہارا بیٹا میرے بیٹے کی طرحcheapتھوڑی ہوسکتا ہے۔ وہ رومانس وغیرہ تھوڑی کرے گا وہ اپنی ماں کی طرح صرف شادی کرے گا۔” شیر دل نے اس کو تپایا وہ ایک بار پھر قہقہہ مار کر ہنس دی۔ آج شیر دل اسے واقعی لاجواب کرنے پر اترا ہوا تھا۔
”یہ رومانس وغیرہ صرف شیر دل clan کا کام ہے، عکس مراد علی تمہارا بیٹا اپنی ماں کی طرح صرف best conduct کی ٹرافی لے گا۔”ہنستے ہوئے عکس کا چہرہ اب سرخ ہوگیا تھا۔
”اس کی ماں نے صرف best conduct کی ٹرافی نہیں لی تھی شیر دل …لگتا ہے تمہارے زخم ابھی تک بھرے نہیں۔” اس نے ہنستے ہوئے ہی شیر دل کو چھیڑا تھا۔
”میں ماضی بھول چکا ہوں خاص طور پر اکیڈمی سے پاسنگ آؤٹ ceremony ”شیر دل نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”یہ بہت اچھا کیا تم نے… ورنہ اب تک دل کی بیماری ہوچکی ہوتی تمہیں۔”وہ اب اس پر طنز کررہی تھی۔ اس بار شیر دل ہنس دیا۔
”دل کی بیماری تو خیر اب بھی ہے مجھے۔”
”شیر دل clan کی اپنیlegacy ہے …میرے clanکی اپنی ہوگی۔” عکس نے اس کے معنی خیز انداز میں کہے ہوئے جملے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”تم آج کل بہت اچھے موڈ میں ہو؟” شیر دل نے بالا خر اس سے کہا۔
”تمہیں کیسے پتا ؟ ”وہ چونکی ۔
”تمہارے ہنسنے سے۔”
”میں ہمیشہ ہنستی ہوں” عکس نے اس کا مذاق اڑایا۔
”ہاں مجھ پر تو تم ہمیشہ ہنستی ہو لیکن میں بے مقصد ہنسنے کی بات کررہا ہوں۔”




”میں کبھی بے مقصد نہیں ہنستی شیر دل ۔”عکس نے اسے جتایا۔
”جواد کیسا ہے؟” شیر دل نے جواباً اس سے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”وہ اچھا ہے۔”جواد کا ذکر آنے پر عکس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
”اسے بھی لے آؤ شام کو۔” شیر دل نے بڑی فیاضانہ آفر کی۔
”اسے لے آؤں؟ تم سے ملوانے کے لیے؟ شیر دل میں واقعی شادی کرنے کے موڈ میں ہوں ۔”وہ ایک بار پھر ہنسی تھی۔
”تم کیا سمجھتی ہو میں کیا کہوں گا اس سے؟”شیر دل نے اس کی بات کا برا منایا تھا۔ ”تم سمجھتی ہو میں نہیں چاہتا کہ تم شادی کرلو۔”شیر دل اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا شیر دل، تم خوامخواہ کے نتیجے مت نکالو۔”عکس بھی ایک دم محتاط ہوگئی تھی۔
”میں تم سے منسلک کسی بھی شخص کو عزت دینا چاہتا ہوں۔” وہ اب اسے جتارہا تھا۔
”میں جانتی ہوں تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں۔”عکس نے بے ساختہ کہا۔
”پھر تم نے ایسی بات کیوں کی؟”شیر دل اب بھی سنجیدہ تھا۔ عکس نے بہت نرمی سے دوستانہ انداز میں شیر دل کا بازو تھپتھپایا تھا۔
”ہیلو کیا ہو ا ہے تمہیں؟ کس بات کا غصہ آرہا ہے؟” عکس نے مسکراتے ہوئے مصالحانہ انداز میں کہا۔ شیر دل جھاگ کی طرح بیٹھا تھا۔
”شام کو مل رہے ہیں ہم۔” اپنی شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے شیر دل نے ایک دم بات بدل دی تھی۔ عکس سرہلاتے ہوئے مسکرادی۔
وہ شام کو مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی جم خانہ کے ٹینس کورٹ پر شیر دل کو ڈھونڈتے ہوئے آگئی تھی۔ شیر دل کسی دوست کے ساتھ میچ میں مصروف تھا اور اس نے فوری طور پر عکس کو نہیں دیکھا تھا۔عکس نے بھی اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خاموشی سے پانی کی ایک بوتل لیے کورٹ کے گرد پڑی کرسیوں میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئی تھی۔ پانی کے گھونٹ لیتے ہوئے وہ بڑی دلچسپی سے شیر دل کو کھیلتے ہوئے دیکھتی رہی۔ وقت نے شیر دل کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ عمر میں شامل ہونے والے کچھ اور سالوں نے شیر دل کو پہلے سے زیادہ اٹریکٹو بنادیا تھا۔ سفید شارٹس اور بلو شرٹ میں ریکٹ ہاتھ میں لیے کورٹ پر گیند کے آگے پیچھے بھاگتے شیر دل کو آج بھی کورٹ پر ٹینس کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ اکیڈمی میں بھی شام کو اسی جنونی انداز میںٹینس کی پریکٹس کرتا نظر آتا تھا اور بہت سی خواتین تماشائی اس پریکٹس سیشن کو اٹینڈ کرنے میں بے حد شغف رکھتی تھیں۔ عکس ان میں سے نہیں تھی لیکن وہ شیر دل کو اسپورٹس میں یوں مرکز نگاہ بنے دیکھ کر بہت محظوظ ہوئی تھی۔ کیوں ہوئی تھی یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا لیکن بہر حال شیر دل پر لڑکیوں کی نظریں جمی دیکھنا عکس مراد علی کے لیے ایک بے حد دلچسپ منظر تھا۔
ایک گیند کو واپس ہٹ کرتے ہوئے شیر دل نے عکس مراد علی کو سامنے والے کورٹ کے داہنی طرف رکھی کرسیوں پر بیٹھا دیکھ لیا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے چونکا تھا اور بالکل اس لمحے اس کے سامنے والے کورٹ سے گیند ریٹرن ہوتی ہوئی اس کے سر کے اوپر سے اس کے عقب میں جاگری تھی۔ اس کے ساتھ کھیلتے ہوئے فرید ہمایوں کو ایسا حلوہ شاٹ کھیلنے کا موقع پورے میچ میں نہیں ملا تھا۔ شیر دل کی صرف نظر گیند سے نہیں ہٹی تھی اسے چند لمحوں کے لیے یہ طے کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا کہ وہ گیند کو ڈھونڈے یا عکس مراد علی پر نظریں جمانے کی کوشش کرے۔ میچ سے اس کا انہماک سیکنڈز کے اندر غائب ہوا تھا۔ اس نے دور سے ہی عکس کو ہاتھ ہلایا تھا اور پھر فرید ہمایوں کے پاس جا کر اس سے میچ کو ادھورا چھوڑنے کے بارے میں بتایا ۔فرید کو عکس سے متعارف کروانے کے بعد چند منٹوں تک وہ تینوں گپ شپ کرتے رہے پھر فرید نے کھیلنے کے لیے جم خانہ کے کسی ملازم کو بلوالیا تھا۔




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!