عکس — قسط نمبر ۸

”اوکے۔” شیردل بڑے آرام سے اس کے سارے مطالبات مانتا گیا تھا۔ ”تمہیں کچھ چاہیے سنگاپور سے؟” شیردل کو خیال آیا۔
”کچھ بھی نہیں۔”
”یار کچھ تو۔”
”بس اپنا شوہر۔”
شیردل ہنسا۔
”وہ تو ہر بار ہی مل جاتا ہے واپس صحیح سلامت۔” اور بالکل اسی لمحے شہربانو کو دوبارہ اس میڈم کا خیال آیا تھا۔
”شیردل! تم نے آج کس کے ساتھ کھانا کھایا؟” شہربانو نے اس کے سینے میں منہ چھپائے آنکھیں بند کیے ہوئے پوچھا اور اسے لگا اس کے سوال پر ایک دم اس کے گرد شیردل کے بازوؤں کی گرفت کچھ ڈھیلی پڑی تھی۔ کچھ دیر شیردل خاموش رہا تھا پھر اس نے کہا۔
”ایک دوست تھا پرانا۔”
”دوست تھا یا تھی؟” شہربانو نے اسی طرح پوچھا۔ ایک بار پھر اس نے شیردل کو خاموش ہوتے ہوئے پایا پھر چند لمحوں کے بعد اس نے دوبارہ اس سے کہا۔
”دوست تھے… اور تھیں… ایک سے زیادہ لوگوں کے ساتھ ڈنر کیا تھا۔ ارادہ ایک کے ساتھ تھا لیکن پھر کچھ اور لوگ بھی اتفاقاً آگئے وہاں۔”
”اوہ اوکے۔” شہربانو نے اطمینان سے سر ہلا دیا۔ ”عکس بھی تھی؟ اسے پتا نہیں یک دم کیوں یہ خیال آیا تھا پوچھنے کا… شیردل کو چند لمحے سمجھ نہیں آیا کہ وہ سچ بولے یا جھوٹ۔ اور شہربانو سے عکس کے بارے میں جھوٹ بولنے کا خیال بھی اس کے ذہن میں پہلی بار ہی آیا تھا ورنہ اس سے پہلے ایسی کوئی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ شہربانو سے کچھ چھپانا چاہتا۔
”ہاں۔” ایک لمحہ چپ رہ کر بالآخر اس نے سچ ہی بولنے کا فیصلہ کیا تھا اس کے سین پر سر رکھے ہوئے شہربانو نے بے اختیار آنکھیں کھول دیں پتا نہیں اسے کیوں یہ توقع تھی کہ شیردل کا جواب نہیں میں ہو گا۔
”اور ڈنر کا بل اس نے دیا؟” چند سیکنڈز میں وہ اس ”میڈم” کو شناخت کر گئی تھی جس کے بارے میں اس نے فون پر سنا تھا۔ شیردل اس بار حیران ہوا تھا۔
”تمہیں کیسے پتا؟”




”میں نے فون پر سنا تھا ویٹر کہہ رہا تھا۔” شیردل نے جواب نہیں دیا۔ عکس مراد علی ایک بار پھر اس کے سامنے آکر بیٹھ گی تھی۔ وہ مرد تھا۔ ہتک محسوس کرنا چاہتا تھا رنج نہیں… لیکن وہ رنج محسوس کر رہا تھا… اس کی زندگی کی کچھ بے خواب اور پریشان راتیں عکس مراد علی کی وجہ سے بھی تھیں۔
چند گھنٹے پہلے ہونے والی تکرار ایک بار پھر اس کے ذہن میں آنے لگی تھی۔ شہربانو کو اندازہ نہیں ہوا اس کے چند سوالوں نے رات کے اس پچھلے پہر اس کے شوہر کو اس کا نہیں رہنے دیا تھا… وہ شہربانو کے بارے میں سوچتے سوچتے عکس مراد علی کے بارے میں پریشان ہونے لگا تھا۔
عکس مراد علی سے یہ اس کا پہلا جھگڑا نہیں تھا۔ ان کے بہت سے جھگڑے پہلے بھی ہو چکے تھے اور شیردل کو یہ ماننے میں عار نہیں تھا کہ ان میں سے 70 فیصد جھگڑے شروع کرنے میں اس کا ہاتھ تھا لیکن تقریباً سو فیصد جھگڑے ختم کرنے میں پہل اس نے کی تھی۔ وہ عکس سے بات کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا… عکس رہ سکتی تھی… یہ اس نے دیکھ لیا تھا… وہ اس کی La Belle Dame Sans Mercy تھی…بے رحم حسینہ… یا کم از کم شیردل اس کو یہی نام دیتا تھا۔ شہد کی دلدل اسے کامن کے دوسرے لوگ کہتے تھے۔ شیردل اسے La Belle Dame Sans Mercy کہتا تھا… پہلے وہ اس کا یہ نام اس کے منہ پر نہیں لیتا تھا لیکن بعد میں وہ اسے اسی نام سے پکارتا تھا اور عکس نے کبھی اس پر کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دیا تھا وہ شیردل کی ”بکواس” پر کبھی دھیان نہیں دیتی تھی اور وہ اسے یہ openly بتا بھی دیتی تھی۔
عکس مراد علی سے اکیڈمی میں اس کا پہلا جھگڑا اس حسد کی وجہ سے ہوا تھاجو شیردل نے تب محسوس کیا تھا جب عکس مراد علی نے غنی حمید کے ساتھ مکسڈ ڈبلز کے لیے پارٹنرشپ کی تھی۔ اکیڈمی میں اگر شیردل کو کسی سے نفرت تھی تو وہ غنی حمید تھا۔ وہ ایچی سن میں اس کا کلاس فیلو رہ چکا تھا اور ایچی سن کے ہر نصابی غیر نصابی مقابلے میں وہ شیردل کا سب سے بڑا حریف تھا۔ وہ بھی شیردل ہی کی طرح ایک سول سرونٹ کا بیٹا تھا اور اس کی پوری فیملی بھی کئی نسلوں سے اسی پیشے سے منسلک تھی۔ پنجاب کے وہ دو بڑے بیورکریٹس کے خاندان آپس میں شدید خار رکھتے تھے ان میں سے ایک پاکستان کی دو بڑی پولیٹیکل پارٹیز میں سے ایک کی good books میں تھا اور دوسرا دوسری پارٹی کی… دونوں خاندانوں کی یہ رقابت اگلی نسل تک شاید نہ جاتی اگر غنی حمید اور شیردل اتنے قریبی حریف نہ بن جاتے اور یہ رقابت اس لیے زیادہ بڑھ گئی کیونکہ ایچی سن میں بہت سی جگہوں پر شیردل کا سکہ چلتا تھا اور یہ وہ کرنسی تھی جو غنی حمید بدلنے کی کوشش میں رہتا تھا۔ ایچی سن میں گزارے ہوئے تمام سالوں میں غنی حمید یہ نہیں کر سکا لیکن اس نے شیردل کی سبقت اور برتری کبھی تسلیم نہیں کی۔ وہ ان تمام سالوں میں ایک چینلجر تھا اور چیلنجر ہی رہا اور شیردل کو یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں تھا کہ اس نے ایچی سن میں غنی حمید سے زیادہ مشکل حریف اور کوئی نہیں دیکھا۔ وہ بے انتہا قابل اور محنتی اور حد درجہ گھٹیا اور کمینہ تھا… اور شیردل کو ایسا combination زندگی میں دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔
یہ شیردل کی بدقسمتی تھی کہ ایچی سن کے وہ دونوں rivals سول سروسز اکیڈمی میں بھی ایک ہی سال میں ایک ہی ڈپارٹمنٹ میں منتخب ہو کر آئے تھے۔ اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات شیردل کے لیے یہ تھی کہ عکس مراد علی نے یہ جاننے کے باوجود کہ پورے کامن میں شیردل سے زیادہ اچھی ٹینس کھیلنے والا کوئی نہیں تھا غنی حمید کے ساتھ پارٹنرشپ کو ترجیح دی تھی۔ اس نے خود مکسڈ ڈبلز کی بجاے سنگلز اور ڈبلز کو ہی اپنے لیے کافی سمجھا تھا۔ لیکن اسے یہ حیرت ضرور تھی کہ غنی حمید مکسڈ پر کیسے تیار ہو گیا تھا جبکہ وہ سنگلز اور ڈبلز میں پہلے ہی تھا اور تیسرے میچ کا مطلب کیا تھا اسے حیرانی تھی غنی حمید کو کیوں سمجھ نہیں آیا تھا۔ عکس مراد علی کے علاوہ اس pairing کی کوئی اور وجہ شیردل کو سمجھ نہیں آئی تھی۔ وہ اس سے بھی آکر ٹیم بنانے کا کہتی تو انکار وہ بھی نہیں کر سکتا تھا۔
عکس مراد علی نے ایسی ہی ایک جوڑی بیڈمنٹن میں عثمان علی کے ساتھ بنائی تھی۔ وہ اس کامن میں بیڈمنٹن کا سب سے اچھا پلیئر تھا اور اس پورے کامن میں یک دم وہ دونوں مرد ہر ایک کی نظروں کا مرکز بن گئے تھے۔ وہ دو مرد عکس مراد علی کا انتخاب تھے اور اس کے ساتھ ہر روز ٹینس اور بیڈمنٹن کھیلنے کا اعزاز حاصل کرتے تھے۔ اس سے بے تکلفی کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔ ان کی قسمت پر ہر مرد کامنر کو رشک آتا تھا۔ صرف شیردل تھا جس کو فی الحال یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ عکس مراد علی نے بیٹھے بیٹھے سنگلز اور ڈبلز مقابلوں میں کھیلنے کے بجائے سیدھا مکسڈ ڈبلز میں کھیلنے کا فیصلہ کیوں کر لیا تھا۔ اکیڈمی میں بہت کم فی میل کامنرز مکسڈ ڈبلز کے مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں۔ زیادہ تر سنگلز اور ڈبلز کے مقابلوں میں ہی حصہ لیتی تھیں۔
شیردل نے اکثر شام کو پریکٹس سیشن کے دوران عکس کو کھیلتے دیکھا تھا۔ وہ ایک average پلیئر تھی یہ کوئی اس کی بیڈ منٹن اور ٹینس skills کو پانچ منٹ دیکھ کر بھی judge کر سکتا تھا۔
لیکن شیردل کے طوطے کبوتر اس وقت اڑ گئے تھے جب اس ن مکسڈ ڈبلز میں عکس مراد علی اور غنی حمید کو جیتتے دیکھا تھا۔ غنی حمید ایچی سن کی ٹینس ٹیم کا شیردل کے بعد سب سے اچھا پلیئر تھا اور عکس مراد علی کے ساتھ مل کر اس نے اورنگ زیب اسحاق اور صوفیہ بدرالدین کی ٹیم کو عکس کی برائے نام participation کے بھی جیت لیا تھا۔ عکس مراد علی نے خود کم کھیلا تھا غنی حمید کو زیادہ کھلایا تھا اور وننگ شاٹ سے بہت پہلے شیردل کو یہ پچھتاوا ہونا شروع ہوگیا تھا کہ اس نے غنی حمید کو واقعی ہی ایچی سن میں Shoot کیوں نہیں کردیا تھایا کم از کم لنگڑا کردیتا۔ اس الو کے پٹھے نے اکیڈمی کی اس ہیلن آف ٹرائے کو مکسڈ ڈبلز کی ٹرافی پلیٹ میں رکھ کر پیش کردی تھی۔ اس ہیلن آف ٹرائے کو جو اکیڈمی میں ٹینس پریکٹس کے سیشنز کے دوران اپنا سارا وقت صرف اپنی سروس ٹھیک رکھنے پر صرف کرتی رہی تھی اور اس نے میچ میں صرف کچھ aces لیے تھے یا پھر وہ کورٹ کے ایک کونے میں کھڑی اپنا ریکٹ گھماتی رہی تھی اور غنی حمید نے کورٹ کے چاروں کونوں میں کسی spider کی طرح بھاگ بھاگ کر اپنا حشر تو کرلیا تھا لیکن اس نے مکسڈ ڈبلز کی ٹرافی تقریباً تن تنہا اسے جتوادی تھی۔ شیر دل نے سنگلز اور ڈبلز کے مقابلوں میں غنی حمید کا مار مار کر بھرکس نکال دیا تھا اور دونوں مقابلے جیتنے کے باوجود اس کا صدمہ اور غصہ ختم نہیں ہوا تھا۔
دو دن بعد بیڈ منٹن کے مکسڈ ڈبلز میں اگرچہ ٹینس والی تاریخ نہیں دہرائی گئی لیکن وہ میچ جیتنے میں بھی عثمان علی کا رول 19 فیصد تھا۔




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!