عکس — قسط نمبر ۸

شیر دل اپنی سانس بحال کرنے کے لیے عکس کے پاس ہی اپنی کٹ اٹھا کر آگیا تھا۔
”تم ہمیشہ میرے دشمن کے کورٹ میں ہی جا کر بیٹھنا۔” تولیے سے اپنے بازو ، چہرہ ، سر اور گردن خشک کرتے ہوئے شیر دل نے جتانے والے انداز میں اس سے کہا۔
”تمہیں کچھ بھولتا کیوں نہیں شیر دل؟” عکس کو اس بار بھی اس کے تبصرے پر ہنسی آئی تھی لیکن اس نے اپنی ہنسی پر قابو پالیا تھا۔ اس کاریفرنس کدھر تھا وہ ایک سیکنڈ میں جان گئی تھی۔




کیا کیا بھولوں میں؟” شیر دل نے جواباً کہا۔ عکس نے مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی پانی کی آدھی استعمال شدہ بوتل اسے تھمادی۔ اس نے شیر دل کی پانی کی بوتل کو خالی دیکھ لیا تھا۔ شیر دل نے بڑے معمول کے سے انداز میں پانی کی بوتل اس سے لیتے ہوئے اپنا تولیا گھٹنوں پر پھیلالیا تھا۔ کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے عکس کی دی ہوئی بوتل سے سپ لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”تم آئی کب ہو؟”
”دس پندرہ منٹ ہوگئے۔” عکس نے بتایا۔
”جلدی آگئیں؟”شیر دل نے گہری سانس لیتے ہوئے ایک اور سپ لیا۔
”ہاں فارغ تھی سوچا تمہارے ساتھ ہی وقت ضائع کیاجائے۔”عکس نے اب اپنے بیگ سے ایک چیونگم ڈھونڈھ کر نکالتے ہوئے شیر دل کو اس کا آدھا ٹکڑا دیا اور باقی آدھا ٹکڑا اپنے منہ میں ڈال لیا۔
”اچھا کیا… میں بھی ابھی تمہارے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔”شیر دل نے پانی کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے بوتل خالی کی اور پھر چیونگم اسٹک کا ریپر اتارتے ہوئے کہا۔
”جھوٹ کی حد ہوتی ہے ویسے۔” وہ ہنسی تھی اس کی بات پر وہ چونکا۔
”کیوں؟”
”شیردل تم ٹینس کھیلتے ہوئے بھی کسی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے… میں یہ مان ہی نہیں سکتی۔تم ٹینس کھلتے ہوئے صرف ٹینس کے بارے میں سوچتے ہو۔” عکس نے دوٹوک انداز میں کہا۔شیر دل نے چیونگم چباتے ہوئے مسکراتے ہوئے سر کھجایا۔
”جیسے ایک لمحے کے لیے سوچا۔”شیر دل نے بڑے آرام سے اس بار عکس کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنی بات کی تصیح کی تھی۔
”ہاں یہ کہوکہ ایک بار خیال آگیا۔”عکس مسکرارہی تھی۔
”ہاں چلو یہی سہی کہ مجھے تمہارا خیال آیا اور بالکل اسی وقت مجھے یہاں کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھی تم نظر آگئیں… اور مجھے یقین نہیں آیا… مجھے لگا مجھے کوئی وہم ہوا ہے۔”
”حالانکہ وہم والی کیا بات تھی…؟آنا تو تھا میں نے ۔” عکس نے بے پروائی سے کہا اور اس وقت ہی اس نے پہلی دفعہ محسوس کیا تھا کہ وہ اور شیر دل تقریباً ایک ہی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ وہ رائل بلوا سپورٹس شرٹ اور وائٹ شارٹس میں تھا اور وہ رائل بلو اور وائٹ چیکرڈ کالر والی شرٹ اور سفید شلوار اور دوپٹے میں۔ شیر دل کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا اپنا مذاق اڑانے کے برابر تھا۔ اس کا اور شیر دل کا مزاج نہیں ملتا تھا لیکن اس کے اور شیر دل کے درمیان بہت سی باتیں اور عادتیں کامن تھیں… یہی حال لباس اور اس کے رنگ کے حوالے سے ان کی چوائس کا بھی تھا۔
جم خانہ کے اوپن ایر ریسٹورنٹ میں بیٹھے باربی کیو ڈنر کا آرڈر دینے کے بعد وہ دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے سے اپنی پوسٹ کے حوالے سے بات کرنے لگے تھے۔ بات کرنے کے دوران ہی شیر دل نے اس سے گھر کے بارے میں جیسے بڑے فخریہ انداز میں پوچھا تھا۔
”گھر تو اچھا لگا ہوگا تمہیں … کچھ نہیں کرنا پڑا ہوگا تمہیں وہاں … شہر بانو اور میں نے بڑی جان لگائی ہے وہاں۔” عکس اس کی بات پر مسکرادی تھی۔
”مجھے تم لوگوں کی جان تو وہاں کہیں نظر نہیں آئی لیکن سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال ضرور نظر آیا۔” اس کے جواب نے شیر دل کو جیسے کچھ نادم کیا تھا لیکن وہ ٹالنے والے انداز میں بات گول کرگیا۔




”خیر اتنا بھی بے دریغ استعمال نہیں ہوا پیسے کا… اس گھر کی حالت بہت خراب تھی جب ہم وہاں شفٹ ہوئے تھے۔ ہم نے تو مرمتیں کروائیں بہت زیادہ… اتنے بڑے گھر کی maintenance پیسے کے بغیر نہیں ہوسکتی اور کیا ہوا میں نے تھوڑا بہت سرکاری پیسہ اس کام میں استعمال کرلیا، سرکار کے پاس بہت پیسہ ہے۔” شیر دل نے اطمینان سے کہا۔ عکس مسکرادی۔
”تھوڑا بہت … شیر دل تمہارا بس نہیں چلا وہاں تم اس گھر میں بارہ دریاں بھی بنوادیتے۔” عکس نے جتانے والے انداز میں کہا۔ شیر دل اس کی بات پر ایک بار پھر ہنس دیا۔
”یار کیا کروں میں…میں۔”دو”عورتوں کو refuse نہیں کرسکتا۔” عکس نے اس کے جملے پر کسی جوابی سوال سے بچتے ہوئے اس سے کہا۔
”تم اگر مغلوں کے زمانے میں ہوتے تو کیا ہوتے شاہ جہاں یا جہانگیر؟” عکس کے سنجیدگی سے پوچھے ہوئے سوال پر شیر دل کو بے اختیار ہنسی آئی تھی۔ وہ جوتے لپیٹ کر مارنے کی عادی تھی لیکن مار ضروردیتی تھی ۔ اب وہ اس کے شاہانہ اخراجات کے ساتھ ساتھ اس کے کسی عورت کے کنٹرول میں ہونے کا طعنہ دے رہی تھی۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟” شیر دل نے جواب دینے کے بجائے اس سے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
”جہانگیر۔” جو اب کھٹ سے آیا تھا۔
”مجھے بھی جہانگیر ہی پسند تھا۔” جواب ڈھٹائی سے ملا تھا۔
”تم نے پورے سال کا بجٹ اڑادیا ہے گھر میں… ہر چیز کے بجٹ میں سے گھر کی maintenance پرپیسہ لگادیا ہے اب میں کیا کروں…؟ رپورٹ لکھوں ایک تمہارے خلاف مالی بے ضابطگی کی۔” عکس بڑی سنجیدگی سے اس سے کہہ رہی تھی۔ شیر دل کے سر پر جوں تک نہیں رینگی تھی۔
”لکھ دو…تم ویسے بھی میری بیوی سے جیلس ہو۔” باربی کیو کے ساتھ سرو ہونے والی چٹنیوں میں سے ایک میں کانٹے کے ساتھ سلاد کے چند ٹکڑوں کو ڈبو کر کھاتے ہوئے شیر دل نے اطمینان سے اسے کہا تھا۔ عکس نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔
”ہاں بس اب یہی تو ایک کام رہ گیا ہے میرے پاس کہ میں تمہاری بیوی سے جیلس ہوتی پھروں جس کے پاس ایک ایسا شوہر ہے جو بیوی کو خوش کرنے کے لیے عوام کے خون پسینے سے اکٹھاا ہونے والے ٹیکسز سے لان میں ٹینس کورٹ بنو اسکتا ہے۔” وہ جھلائی تھی۔
”یار ٹینس کورٹ تو میرا شوق تھا اس میں تو میری بیوی بے چاری نے کچھ کہا تک نہیں۔”شیر دل نے احتجاج کیا تھا۔
”وہ جو لان میں عجیب وغریب قسم کی decorative لائٹس وغیرہ ہیں…”شیر دل نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ہاں وہ میری بیوی کا شوق تھا ۔وہ فاؤنٹین وغیرہ بھی۔ لیکن یار عجیب وغریب تو کچھ بھی نہیں تھا…aesthetically کیا گیا تھا جو بھی کیا گیا تھا۔” شیر دل نے شہر بانو کو اس کی عدم موجودگی میں defend کیا۔
”جیسے بھی کیا گیا تھا اس کی قطعاً ضرروت نہیں تھی۔تم لوگوں کا ذاتی گھر نہیں تھا وہ۔” عکس نے بھی اسی انداز میں کہا۔




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!