عکس — قسط نمبر ۸

”بہت سوں کے ساتھ … تم نے پیکنگ کرلی کیا؟” شیر دل نے شہر بانو کے اگلے سوال سے بچنے کے لیے اس سے سوال کر ڈالا۔
”شیر دل میں پیکنگ کر کے ہی لاہور آئی ہوں… اب یہاں تھوڑی پیکنگ کروں گی میں۔” شہر بانو نے اسے جتایا تھا۔
”میں ان گفٹس وغیرہ کی بات کررہا ہوں جو تم نے آج لاہور سے اپنی فیملی کے لیے خریدے ہیں… شاپنگ کرلی تھی نا؟”شیر دل نے پھر کہا۔




”اتنی لمبی چوڑی شاپنگ نہیں تھی وہ… بس چھوٹی موٹی چیزیں تھیں … دو ،تین گھنٹوں میں خرید لیں تھیں… اور وہ بھی ساری ایک ہی بیگ میں پیک کی ہیں میں نے۔”
”گڈ!” شہر بانو کو سمجھ نہیں آیا شیر دل نے اسے کس بات پر سراہا تھا۔ شیر دل اب بیڈ پر سوئی ہوئی مثال کو کہنی کے بل نیم دراز ہوتے ہوئے پیار کرنے لگا تھا۔ فلم سے اس کی توجہ ہٹ گئی تھی۔ وہ اب مثال کے بالوں کو سہلا رہا تھا… اس کے ہاتھوں ،گالوں اور ماتھے کو بار بار چوم رہا تھا۔ شہر بانو بیڈ پر دوسری طرف بیٹھی بالکل مسمرائزڈ سی اسے اور مثال کو دیکھتی رہی۔ اسے اپنا باپ یاد آیا تھا… اسے یاد تھا وہ بھی اسے بالکل اسی طرح پیارکرتا تھا جیسے شیر دل مثال کو… اسی طرح باری باری اس کے ہاتھ، گال، ماتھا، سر چومتا رہتا تھا… وہ شہر بانو کے بارے میں obsessed تھا اوور پروٹیکٹو تھا… اس کی ماں کے لاکھ اصرار کے باوجود وہ کبھی شہر بانو کو دوسرے بیڈ روم میں سلانے پر تیار نہیں ہوا تھا… وہ اپنے باپ کی گود میں دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتی تھی اور ویسا تحفظ اس نے اس کے بعد کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ اپنی ماں کے بجائے ہمیشہ اپنے باپ کے پاس سوئی تھی… ا س سے لپٹ کر… اس کے سینے پر… اس کے بازوؤں کے گھیرے میں… اس سے کہانیاں سنتے ہوئے… اور شرمین اور اس کے باپ کی طلاق کے بعد امریکا چلے جانے پر بہت عرصہ وہ بستر پر اکیلے سو نہیں پائی تھی…اسے یہ سمجھ نہیں آپاتی تھی کہ وہ بستر میں کہاں سوئے گی تو نیند میں کروٹ لینے پر بھی وہ بستر سے نہیں گرے گی… اپنے باپ کے ہوتے ہوئے اسے یہ calculations کبھی نہیں کرنی پڑیں۔ وہ جانتی تھی وہ کہیں بھی سوئے گی اس کا باپ اسے کبھی بستر سے گرنے نہیں دے گا کیونکہ بستر کے سرے پر ہمیشہ وہ ہوتا تھا اور بستر کے دوسرے سرے پر اس کی ماں… وہ جیسے ایک حصار میں محفوظ تھی… شہباز کے زندگی سے نکل جانے کے بعد شرمین کے ساتھ سوتے ہوئے بھی وہ ایک عجیب سے خوف کا شکار رہتی تھی کہ وہ بستر سے ضرور گرجائے گی اور اس کا یہ خوف کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوا تھا… اس نے نیند میں گر کے بہت بار چوٹیں کھائی تھیں ،بہت سالوں بعد یہ شیر دل تھا جس نے اسے شہباز کی طرح تحفظ دینے کی کوشش کی تھی۔
”یار تم اسے چھوڑ جاؤ میرے پاس ۔”مثال کو چومتے ہوئے اس نے یک دم شیر دل کو کہتے سنا۔ شہر بانو مسکرا دی۔
”اور میں چلی جاؤں؟ ”اس نے شکایتاً شیر دل سے کہا۔شیر دل نے مثال کے اوپر سے ہاتھ بڑھاکر شہر بانو کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پیار سے کہا۔
”No sweet heart تم بھی مت جاؤ۔”
”نہیں تم صرف مثال کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ میرے بغیر تو رہ سکتے ہو۔” شہر بانو نے مصنوعی خفگی سے اس سے کہا۔
”You really think so ” شیر دل نے جتانے والے انداز میں اس سے کہا۔
”Yes I do ”شہر بانو نے اسی انداز میں اس سے کہا۔




”You are so wrong ” شیر دل نے اس بار بے حد سنجیدگی سے اس سے کہا۔
”تم ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے؟” شہر بانو نے یک دم اس سے کہا۔
”نہیںیار… اگر کورس نہ ہوتا تو کوشش کرتا ساتھ جانے کی۔” شیر دل نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔ وہ اب دوبارہ مثال کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس کے بال سہلا رہا تھا۔
”پہلی بار تمہارے بغیر کوئی اتنا لمبا سفر کرنے والی ہوں میں شادی کے بعد۔” شہر بانو نے سنجیدگی سے کہنا شروع کردیا۔
”تو مت جاؤ نا۔” شیر دل نے اطمینان سے کہا۔ وہ ہنس پڑی۔
”اب سیٹس بک نہ کروائی ہوتیں تو میں نہ جاتی۔”
”سیٹس کینسل کروائی جاسکتی ہیں۔” وہ اسی اطمینان سے کہہ رہا تھا یوں جیسے دانستہ طور پر اسے مشکل میں ڈالنے کی کوشش کررہا تھا۔
”تم کورس پر مت جاؤ۔” شہر بانو نے جواباً اسے مشکل میں ڈالا ۔شیر دل بے ساختہ ہنس دیا۔
”میری مجبوری ہے وہاں جانا… تمہاری تو نہیں ہے۔”
”تو تم اپنے ساتھ لے جاؤ سنگاپور تو میں امریکا نہیں جاتی۔”شہر بانو نے کہا۔
”یارپہلے کہنا تھا نا… اب بتا رہی ہو… اب نہیں کرسکتا میں یہ اتنے Short notice پر۔” شیر دل نے کہا۔
”اب تم امریکا ہی جاؤ۔” وہ اب دوبارہ ریموٹ اٹھا کر TV کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔ شہر بانو یک دم اپنے بستر سے اٹھتے ہوئے اس کے پاس آگئی۔ بچوں کی طرح شیر دل کے سینے میں منہ چھپاتے ہوئے وہ اس سے لپٹ گئی تھی۔
”شبی اب تم رونا مت۔”شیر دل نے جیسے پبلک چھپکتے میں اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے اسے وارن کیا۔
”لیکن میں اتنے بہت سارے دن تمہارے بغیر کیسے رہوں گی؟” شہر بانو واقعی ہی اب روہانسی ہورہی تھی۔
”دیکھو تم واپس آجاؤگی تین ہفتے کے بعد اور آنٹی کتنا خوش ہوں گی تمہیں دیکھ کر… تم کتنی دیر بعد ان سے ملوگی۔” شیر دل اب بالکل اسی طرح اس کے بال سہلا رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے مثال کے سہلا رہا تھا۔ شہر بانو بعض دفعہ اس کے لیے ایک دوسرابچہ ہوتی تھی۔
”لیکن میں پھر بھی تمہیں miss کروں گی۔”
”I know honey۔”
”تم miss کرو گے مجھے؟” شہربانو نے یک دم اپنا سر اٹھا کر شیردل کا چہرہ دیکھا۔
”میں کوشش کروں گا۔” شیردل نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
”یعنی نہیں۔” وہ خفا ہوئی۔
”یار کیسے miss نہیں کروں گا میں… آف کورس کروں گا۔” اس نے شہربانو کو ایک بار پھر بچوں کی طرح اپنے ساتھ لپٹا لیا تھا۔ وہ مطمئن سی ہو گئی۔
”تم دونوں کے پاسپورٹس اور ٹکٹس میرے بریف کیس میں ہیں… کچھ کرنسی بھی exchange کروائی ہے آج۔ وہ تم اپنے پاس رکھ لینا۔ پاسپورٹس اور ٹکٹس میں کل ائرپورٹ پر ہی دوں گا تمہیں۔” وہ اب اسے ہدایات دے رہا تھا سفر کے حوالے سے… ساتھ بالکل اسی طرح اس کا سر وقفے وقفے سے چوم رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے مثال کا چوم رہا تھا۔ وہ جانتا تھا شہربانو کو اس طرح کی pampering کی ضرورت پڑتی تھی۔ وقفے وقفے سے… وہ یقینا اداس ہورہی تھی۔ اسے الگ ہونے کے خیال سے اور اسے اس وقت تسلی کی ضرورت تھی۔
”تم سنگاپور سے مجھے روز فون کرو گے؟” شہربانو نے اسے یاددہانی کرائی۔
”روز فون کروں گا۔”
”اور روز ای میل کرو گے؟”

Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!