عکس — قسط نمبر ۸

”ہاں یہ بھی تمہاری امی کا گھر ہے لیکن یہ کرائے کا گھر ہے… شادی کے بعد ان کا اپنا گھر ہوگا، ان کا شوہر ان کا خیال رکھے گا۔ ان کی ذمے داریاں اٹھائے گا پھر تمہاری امی اور تمہارے نئے ابو تمہاری ذمے داری بھی اٹھاسکتے ہیں۔” چڑیا کو خیر دین کی باتیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں لیکن وہ سنتی رہی تھی۔ اس نے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ ناخوش تھی خیر دین کو یہ جاننے میں نہ تو زیادہ دقت ہوئی تھی نہ ہی تعجب… اس کی جگہ کوئی بھی بچہ ہوتا جس نے ساری عمر اپنی زندگی صرف دولوگوں کے ساتھ گزاری ہوتی تو وہ اس صورت حال میں ناخوش ہی ہوتا بلکہ اس سے کہیں زیادہ ناخوش جتنا چڑیا ہوئی تھی۔ آئس کریم کا پورا کپ اس دن چڑیا کے ہاتھ میں ہی پگھل کر گرم اور پھر بے مزہ ہوگیا تھا۔
وہ اس دن واپس گھر جاتے ہوئے بے حد اداس تھی اور اس اداسی کے ساتھ بھی اس نے حلیمہ کو گھر جا کر بڑے غور سے دیکھا تھا… کیا اس کی امی واقعی شادی کرنا چاہتی تھیں…؟اسے چھوڑ کر کسی دوسرے آدمی کے ساتھ چلی جانا چاہتی تھیں؟ اسے حلیمہ کو دیکھتے ہوئے یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ واقعی اس گھر سے جانا چاہتی تھیں لیکن بہت آہستہ آہستہ ابتدائی شاک سے ابھرنے کے بعد بہتر زندگی کا خواب دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ لاشعوری طور پر اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی ماں کے لیے ویسا ہی گھر تصور کررہی تھی جس گھر میں وہ ساری زندگی رہتی رہی تھی… تو اس کی امی بھی ایک ڈی سی ہاؤس جیسے گھر میں رہیں گی اور ان کے ساتھ رہنے والا ان کا شوہر ان کا ویسے خیال رکھے گا جیسے… اوراس جیسے کے بعد چڑیا کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام آفیسرز اور ان کی بیویاں گھومنے لگے تھے جن کے ساتھ وہ رہ چکی تھی… اس کا دل عجیب طرح سے ماں کے حق میں موم ہوا تھا… اس کی ماں کے لیے بھی نوکر ہوں گے جو اس کے لیے سارے کام کیا کریں گے اور وہ صرف آرام کرے گی یا پھر حکم دے گی… اور اس کی ماں کے پاس بہت سارے اور اچھے اچھے کپڑے اور زیور ہوں گے اور وہ بھی ایک گاڑی میں گھوما کرے گی۔
خیر دین کو یہ نہیں پتا تھا چڑیا ساری رات کیا سوچتی رہی تھی لیکن چڑیا نے اگلے دن صبح سویرے اسکول جانے سے پہلے خیر دین سے کہا تھا۔
”نانا آپ امی کی شادی کردیں… مجھے بہت اچھا لگے گا جب امی کے پاس بہت ساری چیزیں ایک بڑا ساگھر اور گاڑی ہوگی تو۔” اس کی آواز بات کرتے کرتے غیر محسوس انداز میں بھر آئی تھی خیر دین کا دل بھی بھر آیا تھا۔ وہ ایک بچے کے طور پر ایثار کے concept سے آشنا نہ ہونے کے باجود اپنی ماں کے لیے ایثار کرنے پر تیار تھی۔ اپنی ماں کی اچھی اور بہتر زندگی کے لیے خیر دین جانتا تھا چڑیا عام بچوں جیسی نہیں تھی اس کے لیے پھر بھی یہ ماننا مشکل تھا کہ وہ اتنے آرام سے اپنی ماں کی زندگی میں سے خود کو نکالنے پر تیار ہوگئی تھی لیکن حلیمہ اتنی آسانی سے ان لوگوں کی زندگی میں سے نکلنے پر تیار نہیں ہوئی تھی۔ اسے منانے پر خیر دین کو ہفتوں لگ گئے تھے اور شائد مہینوں لگنے کے بعد بھی حلیمہ کبھی ایک اور شادی پر تیار نہیں ہوتی اگر اس نے خیر دین کے گاؤں میں چند مہینے نہ گزارے ہوتے اور اپنے رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے مستقبل کی ایک بھیانک تصویر نہ دیکھ لی ہوتی۔ کہیں نہ کہیں اس کے لاشعور میں بھی یہ خوف تھا کہ خیر دین اگر ان کی زندگی سے چلا گیا تو کیا ہوگا اور خاص طور پر چڑیا کا کیا ہوگا۔ وہ ایک اکیلی تنہا عورت کے طور پر اسے کیسے پالے گی۔ وہ روتے دھوتے اور بادل نخواستہ ہی سہی پر اس شادی پر تیار ہوگئی تھی جس کے بعد اسے کم از کم اپنے لیے زندگی اچھی نظر آرہی تھی لیکن وہ جانے سے پہلے چڑیا سے بہت سارے وعدے کر کے گئی تھی… اسے بہت ساری یقین دہانیاں کروا کر گئی تھی۔




”چڑیا تم میری واحد اور پیاری اولاد ہو… میرے دل کا ٹکڑا ہو… میں ایک اور گھر میں جارہی ہوں لیکن مجھے جتنی محبت تم سے ہے دنیا میں کسی سے نہیں ہے کبھی کسی اور سے نہیں ہوسکتی۔” وہ شادی سے ایک رات پہلے بلک بلک کر روتے ہوئے چڑیا سے کہہ رہی تھی ۔چڑیا کی باتوں سے زیادہ اس کے رونے کی وجہ سے رو رہی تھی… پتا نہیں کیوں اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ حلیمہ شادی کی بات پر خوش ہوجائے گی ایک اچھا سا گھر ملنے کی امیدپر وہ پھولے نہیں سمائے گی پر وہ جس طرح ان چند ہفتوں میں اس گھر میں روتی اور بولائی پھرتی تھی اس نے چڑیا کو عجیب انداز میں پریشان کیا تھا… کہیں نہ کہیں اس نے اپنے ذہن میں ایک بڑے سے گھر کے تصور پر بھی غور کرنا شروع کردیا تھا… کہیں نہ کہیں گھر کی اس تعریف میں کچھ خامی تھی جو چڑیا کے ذہن میں تھا اور چڑیا یہی دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کیا خامی تھی لیکن اس کی عمر میں وہ خامی نظر اور سمجھ نہیں آسکتی تھی گھر اور خاندان کا فرق سمجھنا آسان نہیں ہوتا… بڑوں کے لیے بھی اور وہ تو محض ایک بچی تھی۔
”میں تم سے روز بات کروں گی فون پر، روز ملنے آیا کروں گی تم سے اور جب میں نہیں آؤں گی تب تمہیں اپنے پاس بلالوں گی… یہاں پاس ہی تو گھر ہوگا میرا۔”حلیمہ اس سے کہتی جارہی تھی وہ جیسے چڑیاسے زیادہ خود کو فریب دے رہی تھی۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ شادی کے شاید کچھ ہی ہفتوں کے بعد اسے مستقل طور پر اپنے شوہر کے ساتھ کویت چلے جانا تھا اپنے شوہر کے تین بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اور پاکستان سے چلے جانے کے بعد زندگی کے اس بہاؤ میں وہ چڑیا کے لیے کہاں سے اور کیسے وقت نکال سکتی تھی کہیں نہ کہیںیہ تلخ حقیقت ہی بھوت بن کر اسے ڈرا اور رلارہی تھی لیکن وہ اسے سچ ماننے پر تیار نہیں تھی وہ بھوت کو وہم ہی رکھنا چاہتی تھی وہم ہی ماننا چاہتی تھی۔
چڑیا نے حلیمہ کے ہر وعدے پر سر ہلادیا تھا اس وقت اسے بھی یقین تھا کہ حلیمہ جو کچھ کہہ رہی تھی وہ یقینا وہ کر پائے گی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اسے احساس ہوگیا تھا کہ فاصلہ زندگی میں بہت سی چیزوں کا مفہوم بدل دیتا ہے۔ بہت سی چیزوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔رشتوں پر ان کی گہرائی پر، ان کی ضرورت پر، ہر چیز پر ۔
حلیمہ جب تک پاکستان میں رہی تھی وہ واقعی چڑیا پر بہت توجہ دیتی رہی تھی شادی کے بعد بھی ۔اس کا شوہر بھی ایک کم پڑھا لکھا لیکن اچھا آدمی تھا وہ کویت میں ایک ائیر کنڈینشنگ پلانٹ میں بہت عرصے سے کام کررہا تھا اور بہت اچھا کماتا تھا ۔شادی کے دو مہینے کے بعد حلیمہ اس کے اور اس کے تین بچوں کے ساتھ پاکستان سے چلی گئی تھی۔
چڑیا کی زندگی میں اداسی اور تنہائی نئے سرے سے آئی تھی…حلیمہ اسے کویت سے باقاعدگی سے فون کیا کرتی تھی وہ اپنی نئی زندگی سے بہت خوش تھی اور اس کی خوشی نہ چاہنے کے باوجود بھی چڑیا کو اداس کرتی تھی… خیر دین نے حلیمہ کے چلے جانے کے بعد چڑیا پر پہلے سے بھی زیادہ توجہ دی تھی اب ان دونوں کی زندگی میں صرف وہی تھے ایک دوسرے کے لیے۔ کوئی تیسرا نہیں تھا اور جوں جوں چڑیا بڑی ہورہی تھی خیر دین پہلے کی نسبت کچھ مطمئن ہورہا تھا… وہ اب گھر خود سنبھال لیتی تھی خیر دین کو اس کے اور گھر کے ہر کام کے بارے میں پریشان نہیں ہونا پڑتا تھا۔ اس کا کاروبار آہستہ آہستہ بہت مستحکم ہوتا جارہا تھا… خیر دین کی دال اس شہر میں اپنی پہچان بنا چکی تھی اور جب تک چڑیا نے میٹرک کیا خیر دین پانچ مرلے کا ایک گھر خرید چکا تھا۔ ان کے سر پر بالآخر اپنی چھت آگئی تھی۔
چڑیا کو کنیرڈ میں تعلیم کے لیے بھیجنا خیر دین کا ایک اور خواب تھا اور چڑیا نے خیر دین کا یہ خواب کسی مشکل کے بغیر پورا کردیا۔ وہ میٹرک میں بورڈ میں پوزیشن لینے کے بعد کسی بھی ادارے میں آرام سے اسکالرشپ پر پڑھ سکتی تھی لیکن وہ خیر دین کو چھوڑ کر ہاسٹل جانے سے ہچکچارہی تھی۔
”کتنی لڑکیوں کو اس کالج میں اسکالر شپ پر جا کر پڑھنے کا موقع ملتا ہے چڑیا…تم نے کبھی سوچا ہے اور اب تمہیں موقع مل رہا ہے تو تم اسے میرے لیے ضائع کرنا چاہتی ہو۔” خیر دین نے اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”نانا میں آپ کو یہاں اکیلا ایسے چھوڑ دوں؟” چڑیا نے خیر دین سے کہا۔
”کل کو جب تم میڈیکل میں جاؤ گی تب بھی تو میں اکیلا ہی رہوں گا اور میں اکیلا نہیں ہوں چڑیا… تم ہر وقت میرے ساتھ میرے پاس ہوتی ہو۔” خیر دین اسے پیار سے سمجھا رہا تھا…”میں چاہتا ہوں تم بہت پڑھو، پاکستان کی ایک بڑی ڈاکٹر بنو۔ پاکستان سے باہر تک اسپشلائز یشن کرنے جاؤ۔ تم اپنے نانا کے لیے کب تک اس شہر میں رکی رہوگی۔” چڑیا نے ایک بار خیر دین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس نے زندگی میں خیر دین سے کبھی اگر ضد کی بھی تھی تو نو سال کی عمر میں ہونے والے اس حادثے کے بعد کبھی نہیں… اس نے جیسے اپنا یہ حق ان تکلیفوں کی وجہ سے چھوڑ دیا جو خیر دین کو اس نے اپنی وجہ سے اٹھاتے دیکھاتھا۔ اس حادثے کے بعد کے چھ سالوں نے چڑیا کو بہت خاموش کردیا تھا… وہ traumatized نہیں تھی نہ ہی نفسیاتی طور پر بہت زیادہ مسائل کا شکار ہوئی تھی اور اس کا سارا کریڈٹ خیر دین کے بعد سسٹر ایگنس کو جاتا تھا جنہوں نے میٹرک تک اس اسکول میں چڑیا پر ہمیشہ ذاتی توجہ دی تھی۔ خیر دین میں کبھی اتنی ہمت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ چڑیا سے اس حادثے کے حوالے سے بات کرپاتا… چڑیا سے بہت قریب ہونے کے باوجود خیر دین کبھی اس سے اس ایشو پر کھل کر بات نہیں کرسکا تھا۔ سسٹر ایگنس نے یہ کام ایک بار نہیں بہت بار کیا تھا۔
”جو کچھ ہوا وہ تمہاری کسی mistake کی وجہ سے نہیں ہوا اور جو کچھ ہوا وہ ایک accident تھا بہت برا اور تکلیف دہ لیکن it was just an accident accidents کو بھول جانا چاہیے۔” انہوں نے پہلی بار ایک لرزتی کانپتی زرد چہرے کے ساتھ چڑیا سے کہا تھا۔
”یہ جو کچھ ہوا یہ بس اتنا ہی تکلیف دہ ہے جس طرح کوئی ہمیں کوئی اور چوٹ لگادے … کوئی انجری ہوجائے ہمیں… اس سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں ہے اس کی… تم بہت بہادر لڑکی ہو کوئی عزت کم زیادہ نہیں ہوئی اس سے اور تمہیں بس ہمیشہ یہی یاد رکھنا ہے۔”سسٹر ایگنس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا تھا۔ پتا نہیں چڑیا کو کتنی باتوں کی سمجھ آئی یا نہیں آئی لیکن حوصلہ اسے صرف ایک بات سے ملا تھا اور وہ یہ تھی کہ وہ اب بھی چھوت کی بیماری نہیں بنی تھی۔ سسٹر ایگنس کے لیے۔ اور انہیں اس کے زخم کریدنے میں دلچسپی نہیں تھی صرف مرہم رکھنے میں تھی۔خیر دین کا وہ راز سسٹر ایگنس خیر دین اور چڑیا کے درمیان ہی رہا تھا… کانونٹ کی کسی اور ٹیچر یا سسٹر کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ چڑیا کو کبھی کانونٹ میں کسی سے نظریں چرا کر سر جھکا کر نہیں رہنا پڑا۔
سسٹر ایگنس نے چڑیا کو کانونٹ کے ہر نصابی غیر نصابی مقابلے میں ہمیشہ شیر کی طرح اتارا تھا اور چڑیا ہمیشہ شیر ہی کی طر ح مقابلہ کرتی رہی تھی۔ کانونٹ کے کسی اسٹوڈنٹ نے اس سے پہلے کانونٹ میں انٹر اسکولز مقابلوں کی شیلڈز اور ٹرافیزکا وہ ڈھیر نہیں لگایا تھا جو چڑیا نے لگا دیا تھا۔ بہت کم ہی ایسا ہوا تھا کہ وہ کسی مقابلے میں جاتی اور پہلی پوزیشن کے علاوہ کسی اور پوزیشن کی حقدار ٹھہرتی۔




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!