عکس — قسط نمبر ۸

باربی ڈول کا آج اسکول میں آخری دن تھا کیونکہ اس کے پاپا کی وہاں سے ٹرانسفر ہوگئی تھی ۔وہ ایک بار پھر چڑیا سے ملنے آئی تھی اور اس بار اس کی ممی اس کے ساتھ تھیں ۔باربی ڈول اپنی ممی کا ہاتھ پکڑے انہیں جیسے ضد کرتے کھینچتے ہوئے چڑیا کی کلاس میں لے آئی تھی۔ وہ وہاں نہیں آنا چاہتی تھی کیونکہ اسے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ایک ایسی بچی کا سامنا کیسے کرے گی جسے اس کا شوہر اس کے نانا کی وجہ سے شدید ناپسند کرتا تھا اور جس پر اس کی چار سالہ بیٹی فریفتہ تھی۔
چڑیا کی کلاس میں آکر اس نے ٹیچر سے چند منٹوں کے لیے چڑیا کو باربی ڈول سے ملنے کے لیے کلاس سے باہر بھیجنے کے لیے درخواست کی تھی۔ چڑیا کا دل باربی ڈول اور ڈی سی کی بیوی کو دیکھ کر بری طرح ڈوبا تھا۔ وہ لاشعوری طور پر کچھ خوفزدہ بھی ہوگئی تھی کیونکہ اسے فوری طور پر سمجھ نہیں آیا تھا کہ باربی ڈول کی ممی اسے کس لیے باہر بلارہی تھیں۔
وہ فق چہرے اور لرزتے کانپتے جسم کے ساتھ باہر کاریڈور میں آئی تھی جہاں باربی ڈول اور اس کی ممی کھڑی تھیں۔ اور یہی وہ پہلا موقع تھا جب باربی ڈول کی ممی نے اس بچی کا بغور جائزہ لیا تھا جو ا س کے نزدیک اس سرکاری گھر کا سب سے عجیب وغریب اور پراسرار کردار ثابت ہوا تھا جہاں رہنے کے بعد وہ جارہی تھی۔
”بیٹا ہم لوگ یہاں سے جارہے ہیں کیونکہ باربی ڈول کے پاپا کی یہاں سے ٹرانسفر ہوگئی ہے۔” باربی ڈول کی ممی نے اس سے ہاتھ ملانے کے بعد اسے بتانا شروع کیا تھا اور کئی مہینوں کے بعد وہ پہلا موقع تھا جب چڑیا نے باربی ڈول سے ہاتھ ملایا،اس کے چہرے پر نظر ڈالنے کی ہمت کی، اس کی آنکھوں میں دیکھا… جہاں اسے اپنا عکس نظر آیا تھا… ہمیشہ ہی آتا تھا۔
……٭……




عکس کی نظروں میں شیر دل کو اپنے لیے ملامت نظر آئی تھی لیکن شیر دل نے اسے ڈھٹائی سے نظر انداز کیا۔ وہ ان ملامتی نظروں کا عادی تھابالکل اسی طرح جس طرح عکس اس کی ڈھٹائی کی عادی تھی۔وہ دونوں چیف سیکریٹری کی ہنگامی طور پر بلائی جانے والی کسی میٹنگ کے لیے لاہور میں موجود تھے اور میٹنگ سے فراغت پانے کے بعد شیر دل ہمیشہ کی طرح جم خانہ کے ٹینس کورٹس پرٹینس کی پریکٹس کے لیے جا پہنچا تھا۔ وہ رات لاہور میں ہی رکنے والا تھا کیونکہ شہر بانو اور مثال بھی اس کے ساتھ ہی لاہور آگئی تھیں۔ وہ دونوں اگلی رات کی فلائٹ سے امریکا جانے والی تھیں۔
عکس نے اتفاقی طور پر لاہور میں قیام کیا تھا۔ وہ اپنے شہر کے کچھ انتظامی معاملات کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں اگلے دن بھی لاہور میں کسی وفاقی وزیر سے ملنے والی تھی جو اس کے شہر سے تھا اور اگلے دن لاہور آنے والا تھا۔وہ اس شام فری تھی اور اسے جم خانہ شیردل نے ہی انوائٹ کیا تھا۔
”مجھے تمہاری ٹینسskillے متاثرہونے کا کوئی شوق نہیں ہے اس لیے تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھے کہاں ملوگے؟” سیکریٹریٹ سے میٹنگ کے اختتام پر وہاں سے جاتے ہوئے شیر دل کی دعوت پر عکس نے اس سے پوچھا تھا۔
”میرا اب تمہیں اپنی کسی بھی چیز سے متاثر کرنے کا ارادہ بھی نہیں ہے۔” شیر دل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”وقت کے ساتھ ساتھ تم میں بہتری آتی جارہی ہے۔ لگتا ہے شہر بانو کی محنت رنگ لارہی ہے۔” عکس نے اطمینان سے تبصرہ کیا تھا۔
”نہیں میں نے ویسے ہی تمہیں متاثر کرنے کا ارادہ ختم کردیا ہے۔” شیر دل نے اس کی بات کے جواب میں گہری سانس لی تھی۔
”بڑی جلدی ہمت ہاردی… ابھی تو چند ماہ ہیں میری شادی میں۔”عکس نے جیسے اس کے جواب سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
”تم شادی کررہی ہو اور میں بہت خوش ہوں۔” شیر دل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اور اس خوشی کی کیا وجہ ہے؟” عکس نے جیسے مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا۔
”دیکھو میں اس لیے خوش ہوں کہ تم شادی کروگی تو میرے بیٹے کو تمہاری بیٹی کے ساتھ رومانس کا موقع مل سکے گا… تم جس طرح شادی کو ٹالتی آرہی تھیں وہ میرے بیٹے کے ساتھ بھی زیادتی تھی…میں واقعی یہ چاہتا ہوں کہ تم جلد از جلد شادی کرو ورنہ اس طرح delay کرتی رہیں تو یہ نہ ہو کہ میرے بیٹے کے بجائے میرے پوتے کو تمہاری بیٹی سے رومانس کرنا پڑے۔”عکس کو ہنسی آئی تھی اور وہ ہنستی ہی چلی گئی۔ وہ غصہ دلانے کی ایک واضح کوشش تھی شیر دل کی طرف سے جو ضائع گئی تھی۔
”تو تمہاری اور جواد کی شادی میں، میں صرف اس حد تک انٹر سٹڈ ہوں۔” شیر دل نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ اس نے عکس کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے لیے عکس کو دیکھنا بھی ایک آزمائش کا کام تھا اور اس طرح ہنستے دیکھنا ایک بڑی آزمائش… وہ بہت کم اس طرح ہنستی تھی جس طرح اس وقت ہنس رہی تھی۔ بار بار اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے اور اس میں ناکام ہوتے ہوئے …پتا نہیں وہ اس کی بات سے محظوظ ہوئی تھی یا آج ویسے ہی اچھے موڈ میں تھی۔
” شیر دل تم ایک انتہائی…”وہ بات کرتے کرتے پھر ہنس دی تھی۔ وہ شیر دل کے اس طرح کے سینس آف ہیومر سے اکیڈمی کے دنوں سے واقف تھی۔ وہ عکس مراد علی سے جھلاہٹ میں اسی طرح کی باتیں کیا کرتا تھا۔
”لگتا ہے صدمے سے تم پر اس طرح کے اثرات ہورہے ہیں۔” عکس نے بالآخرخود پر قابو پالیا تھا۔
”شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا کہ لگتا ہے صدمے سے تمہارا ذہنی توازن خراب ہوگیا ہے۔” شیر دل نے تبصرہ کیا۔
”ذہنی توازن تو خیر تمہارا ہمیشہ سے خراب تھا۔”
”نہیں تم سے ملنے کے بعد ہوا۔”
”ویسے تمہارا بیٹا میری بیٹی سے صرف رومانس کرے گا؟” عکس نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے بات بدلی تھی۔
”ہاںصرف رومانس ”شیر دل نے بے حد سنجیدگی کے ساتھ دوٹوک انداز میں کہا۔ عکس کو ایک بار پھر ہنسی آئی۔
”تم اس طرح ہنس کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟” شیر دل اس بار بالآخر جھلایا تھا۔
”یہی کہ تمہارا بیٹا باپ سے زیادہ سمجھدار ہے… ویسے تمہارا یہ بیٹا ہے کہاں؟” وہ اب اس کا مذاق اڑا رہی تھی۔ ”شہر بانو expect کررہی ہے کیا؟”
”نہیں ہے لیکن ہوجائے گا… او نہیں یار وہexpect نہیں کررہی فی الحال تو وہ امریکا جارہی ہے کل۔” شیر دل نے اسے بتایا ۔وہ دونوں اب پارکنگ کی طرف جانے کے بجائے رستے میں ہی ایک طرف کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ بھی ان کی پرانی عادت تھی وہ جہاں بھی ملتے اسی طرح مقناطیس کی طرح ایک دوسرے کی طرف کھنچے چلے آتے… اور ہر ملاقات میں وہ ایک دوسرے کو جیسے اس دن اور اس وقت تک کے اپنے تمام حالات زندگی گوش گزار کرکے ہی جاتے… شہر بانو کو زندگی میں شامل کرنے کے بعد اور عکس کے ساتھ کچھ اختلافات کے بعد شیر دل نے اپنی اس عادت اس روٹین کو بدلنے کی بہت کوشش کی تھی اور وہ اس میں کامیاب رہا تھا صرف تب تک جب تک وہ دوبارہ عکس سے نہیں ملا تھا… اور یہی کوشش عکس نے بھی کی تھی لیکن وہ دونوں آمنا سامنا ہونے پر” صرف کام کی باتیں ” کرنے کے ٹاسک کو کبھی پورا نہیں کرسکے تھے۔ عکس اپنے گرد ہر دفعہ تحفظات اور احتیاطوں کی نئی دیواریں چن کر آتی تھی اور ہر بار شیر دل سے ملاقات کے بعد اسے ملبے کے ایک نئے ڈھیر کا سامنا کرنا پڑتا۔




Loading

Read Previous

مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

Read Next

مالک اور نوکر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!