عکس — قسط نمبر ۱۳

”وہ وہاں کیوں آئی تھی۔ آدھی رات کے وقت کیسے آئی وہ اس گھر میں… اپنی مرضی سے آئی ہو گی… یہ نوکروں کے بچے، بچے تو نہیں ہوتے یہ تو adult ہوتے ہیں۔ میچور ہوتے ہیں۔ یہ بچیاں جان بوجھ کر اپنے آپ کو پیش کرتی ہیں۔ tempt کرتی ہیں پیسوں کے لیے۔” شیردل نے منزہ کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
”مت کہیں ممی… یہ سب مت کہیں۔ وہ باتیں مت کہیں کہ آپ میری نظروں سے گر جائیں۔ وہ نو سال کی ایک بچی تھی۔ Just a child … میں نے اسے اس رات بلوایا تھا… چیس کھیلنے کے لیے میں نے اس کے لیے دروازہ کھولا تھا۔” وہ انکشاف پر انکشاف کر رہا تھا اور منزہ کی آنکھوں میں عجیب التجا تھی یوں جیسے وہ چاہتی ہوں وہ وہ راز نہ اگلے جو کم از کم ان کے لیے راز نہیں تھا۔ بات کرتے ہوئے شیردل کی آواز بھرا گئی۔ اس نے منزہ کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹا لیا۔
”اس رات وہاں جو کچھ ہوا، اس کا ذمے دار میں بھی تھا لیکن انکل شہباز… وہ انسان نہیں تھے He was an animal۔” وہ ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس بت پر ضربیں لگا رہا تھا جو منزہ اپنے بھائی کا لیے پھرتی تھیں۔ بختیار ساکت تھا اور منزہ گونگی ہو چکی تھیں۔
”انکل شہباز نے ایک خاندان تباہ کیا تھا اس رات… صرف ایک نہیں… میں باپ ہوں ایک چار سال کی بچی کا۔ ممی میں سمجھ سکتا ہوں اس تکلیف اور بے عزتی کے احساس کو جو عکس کے نانا کو ہوئی ہو گی۔ میں ان کی جگہ ہوتا تو اس شخص کو مار ڈالتا جو…” منزہ نے اس کی بات کاٹی۔
”تم نو سال کے بچے تھے تب خود شیردل… تم کیسے سمجھ سکتے ہو یہ سب کچھ… ہو سکتا ہے تم نے اس رات کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہو اور یہ سب کچھ تمہارے ذہن نے خود بنا لیا ہو۔ خیردین اور شہباز کا جھگڑا ہوتے اور ان کی باتیں سنتے ہوئے تم نے یہ سمجھ لیا ہو کہ واقعی ایسا کچھ ہوا تھا… تم کتنی باتیں اور چیزیں اپنے پاس سے گھڑ لیا کرتے تھے۔” منزہ ایک عجیب اضطراب کے عالم میں ایک آخری کوشش کر رہی تھیں۔ شہباز کی عزت بچانے کی۔ ایک آخری کوشش… اپنے مرے ہوئے اکلوتے بھائی کو اس کے گناہ پر کی جانے والی ملامت سے بچانے کی آخری کوشش۔ ”آپ کو تو یاد ہی ہو گا بختیار… یہ کیسی کیسی باتیں سوچ لیا کرتا تھا بچپن میں…جو ممکن ہی نہیں ہوتی تھیں اور ہم ہنستے تھے اس کی باتوں پر کہ کیا imagination ہے۔” وہ بات کرتے کرتے چند لمحوں کے لیے رک گئیں۔ بختیار کی آنکھوں میں کچھ تھا جو انہوں نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔




”انہی دنوں یہ بہت اپ سیٹ تھا۔ اکثر راتوں کو ڈر جاتا تھا… آپ کو تو یاد ہو گا آپ امریکا میں تھے اور جب واپس آئے تھے تو آپ بھی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے… ہو سکتا ہے اس نے خواب میں ایسا کچھ دیکھا ہو اور اس نے سچ سمجھ لیا ہو۔” منزہ نے یک دم اپنی بات بدل دی تھی۔ انہیں اندازہ تھا ان کی بات ناقابل قبول تھی وہاں بیٹھے ہوئے دونوں مردوں کے لیے۔
”ممی! آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتی تھیں انکل شہباز نے کیا، کیا تھا۔” شیردل نے بے حد سرد مہری کے ساتھ ماں کو ایک بار پھر ٹوک دیا۔ ”میں شاید تیرہ چودہ سال کا تھا جب شہباز انکل اور شرمین آنٹی کے درمیان divorce ہوئی کیونکہ شرمین آنٹی کو اس سارے جھگڑے کا پتا چل گیا تھا۔ آپ نے انکل شہباز کو گھر بلایا تھا۔ ان سے بات کی تھی۔ میں نے وہ باتیں سنی تھیں۔” منزہ کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
”انہوں نے آپ سے کہا تھا وہ شراب پیے ہوئے تھے اس رات جب چڑیا ان کے اسٹڈی روم میں چیس کھیل رہی تھی، وہ اتفاقاً وہاں چلے گئے تھے اور انہیں نہیں یاد انہوں نے کیا کیا… شاید کچھ غلط ہوا ہو… لیکن انہوں نے کچھ بھی جان بوجھ کر نہیں کیا تھا… وہ آپ سے کہہ رہے تھے کہ آپ شرمین کو سمجھائیں اورآپ نے ان پر چلانے اورغصہ کرنے کے بعد ان سے کہا تھا کہ وہ جھوٹ بولتے رہیں۔ اس جرم کا کبھی اعتراف نہ کریں۔ I had heard every single word of your conversation اور مجھے آپ دونوں کی ایک ایک بات آج بھی یاد ہے… مجھے شرمین آنٹی کے ساتھ آپ کا آرگومنٹ بھی یاد ہے … کیا آپ کو وہ بھی سناؤں” منزہ کے کندھے پہلی بار جھکے۔ تنا ہوا جسم اور گردن یک دم ڈھیلے پڑ گئے۔ کچھ رازوں کو کہیں بھی دبا آؤ، وہ کہیں نہ کہیں سے باہر نکل آتے ہیں… کچھ آوازوں کو کتنا ہی دبالو ان کی بازگشت کہیں نہ کہیں سے ضرور سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے شکست خوردہ انداز میں شیردل کا چہرہ دیکھا پھر بختیار کا۔ وہ اپنے اکلوتے چھوٹے بھائی کو ان کی نظروں میں ولن بننے سے نہیں روک پائی تھیں۔
””Disgusing انہوں نے بختیار کی آواز سنی۔ وہ لفظ کوڑے کی طرح پڑا تھا ان پر۔ وہ جانتی تھیں وہ کس کے لیے کہا گیا تھا… شہباز کے لیے… ان کے جان سے عزیز چھوٹے بھائی کے لیے۔ وہ لوگ شہباز کی تکلیف کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ لوگ کبھی بھی اس کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ سر جھکا کر وہ ہچکیوں اور سسکیوں سے رونے لگیں۔ وہ شہباز حسین کو دوسری بار بھی نہیں بچا سکی تھیں۔
……٭……
”مونی میں چاچا کے ساتھ نہیں جانا چاہتا۔” سات سالہ شہباز نے بے حد اضطراب کے عالم میں منزہ کا ہاتھ پکڑا تھا۔
”میں تمہارے ساتھ رہوں گا۔” وہ اصرار کررہا تھا۔
”تم ہمیشہ مجھے اسی طرح تنگ کرتے رہتے ہو… چاچا کے ساتھ اکیلے جانے میں تمہیں کیا مسئلہ ہے، جاؤ سوئمنگ کے لیے… ورنہ ممی آئیں گی اوران کو پتا چلا کہ تم نے آج پھر سوئمنگ مس کر دی ہے تو وہ ناراض ہوں گی۔ گیارہ سالہ منزہ نے اسے ڈانٹتے ہوئے بیٹ مین کو آوازیں دینا شروع کر دی تھیں۔ ننھے شہباز پر ایک عجیب سا خوف لہرانے لگا۔ خوف، بے چارگی،بے بسی… منزہ ہمیشہ الجھتی تھی جب شہباز بیٹ مین حفیظ گل کے ساتھ کہیں بھی جانے سے بری طرح بدکتا تھا۔ حالانکہ حفیظ گل ان کا بارہ سال پرانا بیٹ مین تھا۔ ان دونوں کی پیدائش سے بھی پہلے سے حسین کے پاس کام کررہا تھا۔ اور بے حد وفادار اور قابل اعتبار تھا۔ وہ واحد ملازم تھا جس پر حسین اور اس کی بیوی اپنے بچوں کے حوالے سے اندھا اعتبار کرتے تھے۔ منزہ، حفیظ گل کے ساتھ بے حد اٹیچڈ تھی اور حفیظ گل شہباز پر جان چھڑکتا تھا لیکن وہ شہباز پر جتنا نثار رہتا تھا، شہباز اس سے اتنا ہی بھاگتا تھا۔ حفیظ گل کے ساتھ اکیلے کہیں جانے سے اس کی جان جاتی تھی لیکن جیسے ہی حفیظ گل سامنے آجاتا تھا وہ بالکل گونگا ہو جاتا تھا پھر وہ میکانیکی انداز میں اس کے ساتھ چل پڑتا تھا۔
چالیس سالہ حفیظ گل سوات کا رہنے والا تھا۔ شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ تھا۔ وہ ایک بے حد مستعد، خوش مزاج اور محنتی آدمی تھا۔ ایمانداری اس کی ایک اور خوبی تھی اور اس کی انہیں تمام خوبیوں نے اسے حسین کے گھر کا ایک فرد بنا دیا تھا۔ وہ کھلے عام گھر میں کہیں بھی آجا سکتا تھا۔ بچوں کے کمرے تک میں… اور یہ آمدورفت صرف حسین اور اس کی بیوی کی موجودگی میں ہی نہیں رہتی تھی ان کی عدم موجودگی میں بھی حفیظ گل کو گھر کے ہر حصے تک آنے جانے میں اتنی ہی آزادی تھی۔
شہباز حسین کو بچپن سے حفیظ گل ہی نے کھلایا تھا۔ حسین آرمی میں تھا اور حفیظ گل ان کے ساتھ جاتا تھا۔ دونوں میاں بیوی بے حد سوشل تھے خاص طور پر حسین کی بیوی۔ منزہ کے حوالے سے وہ بچپن میں کچھ محتاط رہی تھی لیکن شہباز کو بچپن سے ہی اس نے زیادہ تر حفیظ گل کے سر پر ہی ڈالا ہوا تھا۔ وہ لیڈیز کلب کی ایک سرگرم عہدے دار تھی۔ دونوں میاں بیوی کا تعلق اپر کلاس سے تھا اور ان کے شوق اور سرگرمیاں بھی بے شمار تھیں۔ وہ دونوں خود بھی نوکروں والے گھروں میں نوکروں کے ہاتھوں ہی پلے بڑھے تھے ان کے لیے یہ معمول کی بات تھی۔ ننھے شہباز کو حفیظ بہت بچپن میں ہی حسین یا اس کی بیوی کے کہنے پر پرام میں ڈال کر باہر سڑک پر گھمانے لے جایا کرتا تھا یا اپنے کوارٹر میں لے جاتا۔ حسین یا اس کی بیوی کو کبھی اندازہ نہیں ہوا وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچے کے لیے ایک جہنم تیار کررہے تھے نہ انہیں کبھی حفیظ پر یہ شبہ ہوا کہ اس کے کردار میں کوئی خرابی ہو سکتی ہے… نہ ہی شہباز کے آہستہ آہستہ حفیظ سے دور بھاگنے کی کوشش پر انہیں کبھی یہ احساس ہوا کہ ان کا بچہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کے لیے ادھر ادھر ہاتھ مار رہا تھا۔
پہلی بار شہباز نے دس سال کی عمر میں بالآخر اپنی بہن کے ساتھ اپنی زندگی کا وہ جہنم دکھایا تھا جس میں وہ پچھلے کئی سالوں سے جھلس رہا تھا۔ منزہ شاک میں آگئی۔ چودہ سال کی اس بچی کو سمجھ نہیں آیا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ماں باپ کو یہ سب بتا دے جبکہ شہباز اس سے اصرار کررہا تھا کہ وہ کسی کو کچھ نہ بتائے ورنہ حفیظ گل ان سب کو مار ڈالے گا۔ اس نے منزہ کو ان چاقوؤں کے بارے میں بتایا تھاجو حفیظ گل کے پاس تھے اور اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ کس طرح ان چاقوؤں کے ساتھ اس کے ماں باپ کو ذبح کر دے گا اور پھر ان کے اس طرح چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دے گا جس طرح وہ ہر بقر عید پر ان بکروں کے کرتا تھا جنہیں وہ قربانی کے لیے حسین کے گھر پر ذبح کرتا تھا۔
اس نے منزہ سے وعدہ لیا تھا کہ وہ کسی کو نہیں بتائے گی لیکن وہ اسے حفیظ گل سے بچا لے گی۔ اور منزہ نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسا ہی کرے گی لیکن وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہیں کر سکی تھی۔ شدید طیش کے عالم میں اس نے اپنا ٹینس ریکٹ نکالا تھا اور وہ بھاگتے ہوئے گھر سے باہر نکل گئی تھی۔ حفیظ گل پورچ میں کھڑی گاڑی دھو رہا تھا۔ منزہ نے باہر نکلتے ہوئے بھاگتے ہوئے حفیظ گل کے سر پر عقب سے وہ ریکٹ مارا تھا۔ حفیظ گل خوش قسمت تھا کہ ریکٹ کی ضرب سے اس کو نقصان نہیں پہنچا لیکن وہ چلا کر بے اختیار اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ دس سالہ شہباز خوف کے عالم میں بھاگتا ہوا باہر آیا لیکن وہ بیرونی دروازے سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس نے اپنی چودہ سالہ بہن کو اس ٹینس ریکٹ کو فرش پر گرے حفیظ گل پر برساتے دیکھا اور اس نے حفیظ کو کسی کیچوے کی طرح اپنے دفاع کی کوشش میں زمین پر لوٹتے پوٹتے اپنے سر اور چہرے کو بچانے کی کوشش کرتے دیکھا۔ جن مکھی بن گیا تھا… وہ جن جو ایک بچے کے پورے بچپن کو کھا گیا تھا، وہ کتنا کمزور اور ڈرپوک تھا، یہ اس بچے نے وہاں کھڑے کھڑے دیکھ لیا تھا۔ منزہ جو کچھ اس پر ریکٹ برساتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی، حفیظ گل کو وہ چند جملے ہی یہ سمجھانے کے لیے کافی تھے کہ اس کا بھیانک راز افشا ہو چکا تھا۔ حسین اس وقت تک کرنل بن چکے تھے اور ایک کرنل ایک بیٹ مین کے ساتھ اس واقعے کے بعد کیا کر سکتا تھا۔ حفیظ گل کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا۔ حسین اور اس کی بیوی دونوں اس وقت گھر پر نہیں تھے۔ حفیظ کے پاس اپنی زندگی بچانے کا ایک موقع تھا۔ وہ ان دونوں بچوں کو جان سے مار دیتا اور گھر میں چوری کی واردات ہو جانے کا ڈراما کرتا تو وہ بچ سکتا تھا، یہ اس کا خیال تھا۔ مار کھاتے کھاتے اس نے منزہ اور اس کے ریکٹ کو پکڑ لیا تھا اور منزہ نے یک دم بلند آواز میں چلانا شروع کر دیا تھا۔
دروازے میں کھڑا شہباز، منزہ کو حفیظ کی گرفت میں اس طرح چلاتے دیکھ کر گھبرا گیا۔ وہ بھی دروازہ کھول کر بلند آواز میں روتے اور چلاتے ہوئے باہر آگیا تھا۔ حفیظ گل بمشکل منزہ کا منہ دبا کر اس کی آواز بند کر پایا تھا مگر وہ ایک وقت میں دونوں بچوں کا شور ختم نہیں کر سکتا تھا۔ وہ بھی وہاں پورچ میں دن کے وقت… صرف چند منٹ لگے تھے اور آرمی آفیسرز کی اس کالونی میں آس پاس کے گھروں سے بیٹ مین اور دوسرے لوگ نکل کر بھاگتے ہوئے وہاں آگئے تھے۔ بند گیٹ کے پار پہلے شخص کو دیکھتے ہی حفیظ گل کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اب کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک بیٹ مین گیٹ کے اوپر سے کود کر اندر آگیا تھا اور تب حفیظ گل نے بے اختیار منزہ کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ اسے چھوڑ کر بھاگتا ہوا گھر کے عقب میں اپنے کوارٹر میں چلا گیا تھا۔ وہاں اکھٹا ہونے والا مجمع جب تک اس کوارٹر تک پہنچ کر دروازہ توڑ کر اسے اندر سے نکالتے وہ اپنے پاس موجود ایک ریوالور سے اپنے آپ کو شوٹ کر چکا تھا۔
حفیظ گل ختم ہو گیا تھا لیکن اگلے کئی سال تک حسین اس کی بیوی اور وہ دونوں بچے اس trauma سے باہر نہیں نکل پائے تھے… اور شہباز حسین ساری زندگی بچپن کے ان اذیت ناک سالوں کے سائے میں رہا تھا۔ حسین نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بہترین سائیکاٹرسٹ کے پاس زیرعلاج رکھا تھا۔ وہ اس کے ذہن اور اس کی مسخ شدہ شخصیت کو ایک بار پھر سے سنوارنے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئے تھے۔ شہباز آہستہ آہستہ نارمل ہوتا گیا تھا یا کم از کم اس کے والدین کو یہ لگا تھا کہ وہ نارمل ہورہا ہے لیکن انسانی ذہن بچپن کے تکلیف دہ واقعات اور حادثات کو بڑے عجیب طریقوں سے رجسٹر کرتا ہے۔ زندگی میں ان یادوں کا کھاتہ کبھی بھی کھل سکتا ہے اور کھل جاتا ہے۔ شہباز کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
شراب نوشی کی عادت اس نے امریکا میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں اپنائی تھی اور اس عادت کا تعلق اس ڈپریشن کو ختم کرنے کی کوششوں سے تھا جو کبھی کبھار اچانک بچپن کے اس حادثے کے بارے میں سوچتے ہوئے اسے ہو جاتا تھا۔ اس کی زندگی میں صرف یہی ایک سیاہ داغ تھا جو اس نے شرمین کے ساتھ کورٹ شپ اور شادی کے بعد بھی اس سے شیئر نہیں کیا تھا۔ نہ ہی بڑا ہو جانے کے بعد اس کے ماں باپ اورمنزہ میں سے کسی نے اس سے دوبارہ کبھی ان تمام تکلیف دہ واقعات کے بارے میں بات کی تھی لیکن اس حادثے کے بعد منزہ شہباز کے ساتھ جیسے سائے کی طرح لگی رہی تھی۔ وہ اس کے علاوہ اب اور اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اپنے ماں باپ کی طرح وہ بھی اس حادثے کے لیے خود کو بھی blame کرتی تھی۔ اگر وہ شہباز کے اس کے اصرار پر ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی اور زبردستی مجبور کرکے حفیظ گل کے ساتھ نہ بھیجتی توشاید یہ کبھی نہ ہوتا۔ چودہ سال کی ایک بچی ہوتے ہوئے بھی وہ ایک بڑی بہن کے طور پر اپنی کوتاہیوں پر نادم تھی۔
اس حادثے کے بعد جو ایک تبدیلی حسین کے خاندن میں آئی تھی، وہ نوکروں کے لیے ان کا بدلا ہوا رویہ تھا۔ وہ نوکروں پر اب کسی بھی طرح سے اعتبار کرنے پر تیار نہیں تھے نہ اعتبار کرنے پر نہ ہی ان کے ساتھ بے تکلفی رکھنے پر… ایک واضح لکیر تھی جو اس خاندان نے مالک اور نوکر کے درمیان کھینچ دی تھی۔
اور زندگی میں اس trauma کے ساتھ پل کر بڑا ہونے والا شہباز حسین اس رات ہمیشہ کی طرح ڈپریشن کے ایک اور دورے میں تھا اور اس ڈپریشن پرقابو پانے کے لیے اس نے ہمیشہ کی طرح اس رات بھی شراب نوشی کی تھی اور شراب کے اس نشے میں اس نے اپنی اسٹڈی میں چڑیا کو دیکھا تھا۔ وہ اسٹڈی میں صوفے کے پاس پڑی ایک سینٹر ٹیبل پر اس کی میگنیٹک چیس لیے گھٹنوں کے بل ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے بڑے اشتیاق سے بیٹھی ہوئی تھی۔ دروازہ اس وقت کھلا تھا اس لیے اس نے شہباز حسین کے کمرے میں داخل ہونے کی آواز نہیں سنی تھی۔ وہ ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے پورے انہماک کے ساتھ چیس بورڈ کی طرف متوجہ تھی۔ شہباز حسین کی طرف اس کی پشت تھی۔ کمرے میں پہلا قدم رکھتے ہی شہباز نے اسے دیکھ لیا تھا۔ ایک عجیب سی خفگی اور غصے نے اسے اپنی گرفت میں لیا تھا۔ وہ بغیر اجازت رات کے اس پہر ان کی اسٹڈی میں کس طرح آگئی تھی اور کیوں آئی تھی۔ انہوں نے ایک قدم اور بڑھایا اور اس بار قدموں کی چاپ پر چڑیا کچھ ہڑبڑائی اور اس نے بیٹھے بیٹھے مڑ کر دروازے کو دیکھا۔ وہاں ایک بونا کھڑا تھا… ایک بے حد بدصورت بونا۔
……٭……




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!