عکس — قسط نمبر ۱۳

اس دن عکس کو اندازہ نہیں ہوا خیردین کے اس تعارف نے ایبک شیردل پر کیا قیامت ڈھائی تھی بالکل ویسے ہی جیسے خیردین کو یہ پتا نہیں تھا کہ وہ جس ایبک شیردل پر جان ودل سے فدا تھا اس کا خاندان اس پر کیا قیامت ڈھا چکا تھا۔
شیردل ایک کرسی کھینچ کر خیردین کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ وہ اس سے ادھر ادھر کی گفتگو کرتا رہا تھا اور اس ساری گفتگو کے دوران وہ خیردین سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کرسکا تھا۔ وہ اور اس کا خاندان اس بوڑھے خاندان کا بہت حوالوں سے مجرم تھا اور شیردل ضمیر کو مسلسل سلانے کی کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد اس بوجھ کو بری طرح محسوس کررہا تھا۔




وہ خیردین سے اس دن بھی نظر نہیں ملا سکا تھا جس دن وہ کسی حوالے سے عدالتی نوٹس ملنے کے بعد اس کے پاس گیا تھا۔ خیردین اس کی شناخت سے بے خبر تھا اگر نہ ہوتا تو کم از کم اس دن وہ ہمیشہ کی طرح اس سے معمول کی گفتگومیں مصروف نہیں رہتا۔ اس کا تعارف اگر صرف عکس مراد علی تک محدود تھا تو پھر اس کا یہ مطلب تھا کہ خیردین کو اس یقین کے حوالے سے بھی کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ اس سے معذرت کرنا چاہتا تھا اور وہ چاہنے کے باوجود یہ نہیں کرسکا۔
پھر خیردین کے پاس کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ عکس کے ساتھ دوبارہ کمرے سے باہر نکل آیا تھا۔
”تمہارا فون ہے میرے پاس۔” عکس نے اپنے شولڈر بیگ کی ایک اندرونی جیب سے اس کا فون نکال کر اس کو واپس دیتے ہوئے کہا۔ ”میں نے اسے آف ہی رکھا تھا۔” انٹرنیشنل رومنگ کی سہولت ہونے کی وجہ سے شیردل نے اسے اپنا فون استعمال کرنے کے لیے دیا تھا اور وہ سارے سفر کے دوران اسی فون کے ذریعے کویت اور پاکستان کے ساتھ ساتھ سنگا پور میں شیردل سے بھی رابطے میں رہی تھی لیکن پاکستان آنے کے بعد اس نے اس فون کو بند کردیا تھا۔ وہ مسز فاروق کی طرح کسی اور کی کال اٹھا کر شیردل کے حوالے سے کسی سوال جواب کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”ایک بات بتاؤ شیردل ،شہربانو کی ممی مجھے کیسے جانتی ہیں؟ وہ یہ کیسے جان گئی تھیں کہ سنگاپور میں تمہارے فون پر ان کی کال ریسیو کرنے والی میں ہی ہوسکتی ہوں۔”شیردل اس کے اس سوال کے لیے بالکل تیار نہیں تھا۔ اس نے پہلی بار سنگا پور سے اس کے اس سوال پر فون ڈس کنیکٹ کر کے خود کو بچالیا تھا لیکن اب یہ ممکن نہیں تھا وہ اس کے بالمقابل کھڑی بے حد سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس سے پوچھ رہی تھی۔ شیردل کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
”مجھے نہیں پتا۔”یہ جملہ بولتے ہوئے بھی اسے اندازہ تھا کہ وہ کتنا بودا جواب دے رہا تھا۔
”تمہارے اور شہربانوکے درمیان میری وجہ سے کوئی ناراضی ہے؟” اس بودے جوب کا نتیجہ ایک بے حد ڈائریکٹ اور بے لحاظ سوال میں آیا تھا۔
”تمہاری وجہ سے نہیں اس کیس کی وجہ سے۔” شیردل نے اس بار جھوٹ بولنا ضروری سمجھا۔ اس بار وہ اس سے نظریں نہیں چراسکتا تھا۔
”شہربانو کو اس کیس کا کیسے پتا چل گیا؟تم نے ذکر کیا؟”اس بار عکس کی آواز مدھم ہوگئی تھی۔
”ہاں، ممی نے بتایا ہے اسے۔” شیردل نے کہا۔ عکس چند لمحے خاموش رہی۔
”اس کی ممی جانتی ہیں کہ میں کون ہوں؟” اس نے مدھم آواز میں پوچھا۔
”میں یہ بھی نہیں جانتا، وہ مجھ سے بات نہیں کررہیں لیکن پاکستان واپس آنے تک ہے چند دنوں میں پتا چل جائے گا۔” عکس کو اس بار پہلی بار احساس ہوا کہ وہ پریشان تھا ،تھکا ہوا نہیں تھا وہ اس کے اترے ہوئے چہرے کو تھکن کا نتیجہ سمجھ رہی تھی۔ ایک لمبی بے مقصد خاموشی دونوں کے درمیان آئی پھر عکس نے کہا۔
”شیردل ہم آج کے بعد دوبارہ کبھی نہیں ملیں گے نہ ہی فون پر رابطہ کریں گے۔”وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔
”کیوں؟”
”میرے پاس اس کیوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔” عکس نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تمہارے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی حل کیوں ہوتا ہے؟ مجھ کو چھوڑ دینا۔” وہ خفا ہوا تھا۔ ” اس سے آج تک کبھی کوئی مسئلہ حل ہوا؟”
”نہیں لیکن کوئی مسئلہ پیدا بھی نہیں ہوا۔” اس نے جواباً کہا۔
”تمہارے لیے نہیں ہوا ہوگا میرے لیے ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔” شیردل نے بے حد کھلے لفظوں میں کہا۔
”میں تمہارا گھر توڑنا نہیں چاہتی شیردل۔ میں وہ وجہ نہیں بننا چاہتی جو تمہارے اور شہربانو کے درمیان علیحدگی کا باعث بنے۔” اس نے شیردل کی بات پر تبصرہ کرنے کے بجائے کہا تھا۔
”پھر تم یہ کیس واپس لے لو۔” وہ شیردل کے اس جملے پر بول نہیں سکی تھی۔
”میرے اور شہربانو کے درمیان اگر کوئی مسئلہ ہوا تو تمہارے اس کیس کی وجہ سے ہوگا۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”کیوں…؟ تم تو فریق ہو اس میں شہباز حسین کے وراث کے طور پر… تم تو defendکرنے والے ہو شہباز حسین کےactions کو …شہربانو کو کیا مسئلہ ہوگا اس سے۔” وہ واقعی الجھی تھی۔
”میری فیملی جانتی ہے تم میری دوست ہو۔” شیردل نے مدھم آواز میں کہا۔ ”ان کے لیے یہ قابل قبول اور ماننے والی بات نہیں ہے کہ تم میری دوست ہوتے ہوئے یہ کیس واپس نہیں لے سکتیں۔” شیردل نے اسے یہ نہیں بتایا تھاکہ وہ اپنی فیملی کے سامنے اسی ایک بات پر اڑا ہواتھا کہ وہ اسے پریشرائز نہیں کرے گا۔ عکس نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”تو اس کا مطلب ہے اب تمہیں دشمن بنانا پڑے گا۔”
”بنا سکتی ہو؟” سوال سیدھا سیدھا تھا اور شیردل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا لیکن صرف وہ جانتی تھی کہ وہ سوال نہیں تھا چیلنج تھا۔وہ اس سے نظر چراگئی۔ نظر ملائے رکھنا مشکل تھا۔
” جانتی ہوں میں۔” عکس نے قدم بڑھا دیا۔
”تم نے جواب نہیں دیا۔” وہ ساتھ بڑھا۔
”تم جانتے ہو؟”
”تم ڈھیٹ ہو؟” شیردل نے بے ساختگی سے کہا۔
”انگلش میں اسے steadfastness کہتے ہیں اور اکیڈمی میں یہ خصوصیت ہمارے اندر پیدا کرنے پر خاص زور دیا جاتا تھا۔” وہ تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی تھی۔ شیردل اس کی بات سے محظوظ نہیں ہوا۔
وہ جس مصیبت میں پھنسا ہوا تھا اس میں وہ عکس مراد علی کی حس مزاح سے محظوظ نہیں ہوسکتا تھا۔
”انکل کو اس سارے معاملے کا پتا تک نہیں ہے اور تم کیس لڑرہی ہو… تم آخر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟” وہ کچھ جھنجلایا ہوا اس کے پیچھے آیا تھا۔
”میں صرف یہ ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ ہم سب انسان ہیں اور ہم سب کی عزت برابر ہوتی ہے اور ہم سب کو اپنے حق کے لیے لڑنے کا حق حاصل ہے اور میں اس پر مزید بحث نہیں کروں گی تمہارے ساتھ… تم کو میں نے بہت پہلے بتادیا تھا کہ تم اپنی فیملی کو سپورٹ کرو… ان کی طرف سے لڑو… میں اور میرے نانا تمہاری ذمے داری نہیں ہیں، مجھے تم سے اس معاملے میں کوئی توقعات نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی شکایت ہوگی اور ایبک شیردل ہم آج کے بعد نہیں مل رہے۔”وہ اس بار اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی تھی۔
”تمہیں جواد نے منع کیا ہے مجھ سے ملنے سے؟”شیردل کو پتا نہیں کیا خیال آیا تھا۔
”چلو تم ایسا ہی سمجھ لو۔” وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکی اور پھر اس نے اتنی ہی روانی سے کہا۔ شیردل اس باربول نہیں سکا تھا۔ وہ دونوں عجیب خاموشی میں باہر پارکنگ میں اپنی اپنی گاڑیوں تک آئے تھے۔
……٭……
پاپا ہمیں مس کررہے ہیں نا؟” شہربانو اپنا سامان پیک کررہی تھی جب مثال نے بے حد ایکسائیٹڈ انداز میں اپنا ایک کھلونا پیکنگ کے لیے لا کر اس کے پاس رکھتے ہوئے کہا تھا۔ وہ پاکستان واپس جانے کا سن کر بے حد ایکسائیٹڈ پھررہی تھی اور اس کی ایکسائٹمنٹ شرمین اور شہربانو دونوں کے لیے عجیب سے کرب کا باعث تھی۔
”پتا نہیں۔” اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر پھر اپنا کام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”میں جانتی ہوں وہ مجھے مس کررہے ہیں۔” مثال کے یقین میں کمی نہیں آئی تھی۔
”اچھا۔” شہربانو نے کسی دلچسپی کے بغیر اپنے کپڑے تہ کرتے ہوئے سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے کہا۔
”آپ کو بھی مس کررہے ہیں وہ۔” مثال نے چند لمحوں کے بعد جیسے مثال کو عجیب سی تسلی دینے کی کوشش کی۔ وہ کپڑے تہ کرتے ہوئے ٹھٹک گئی۔ بچے بعض دفعہ ایک جملے سے جیسے بڑوں کو دریا میں ڈبو چھوڑتے ہیں… شہربانو کو خود پر عجیب سا ترس آیا تھا۔ کیا وقت آنا تھایہ بھی کہ اسے اپنی ہی کم سن چند سالہ بچی شیردل کے حوالے سے تسلی دیتی… یہ بتاتی کہ وہ اسے مس کررہا تھا۔ وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ کپڑے تہ کرتے کرتے رک کر اس نے مثال کو دیکھا پھر اس سے کہا۔
”مثال ادھر آؤ۔” مثال نے اپنے کھلونے اکٹھے کرتے کرتے چونک کر ماں کو دیکھا پھر وہ سب کچھ چھوڑ کر ماں کے پاس آگئی۔ شہربانو اسے لیے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ بہت دیر وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے مثال سے پوچھا۔
”اگر ہم کبھی ہمیشہ کے لیے امریکا آگئے تو تمہیں آچھا لگے گا یہاں رہنا؟” وہ اس سے کوئی اور سوال کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ہمت نہیں ہوئی۔ اس کی زبان پر جملہ کچھ سے کچھ ہوگیا تھا۔
”یس… ”مثال نے بغیر کسی تامل کے بے حد خوشی کے ساتھ اسے یقین دہانی کروائی۔
”ہمیشہ کے لیے؟” شہربانو اب اپنے سوال کے مشکل حصے کی طرف آرہی تھی۔
”یس…” مثال نے اب بھی اسی گرم جوشی کے ساتھ کچھ بھی سمجھے بغیر سرہلایا۔ شہربانو کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”اگر صرف میں اور تم آجائیں امریکا تو؟” مثال نے اس بار پہلی بار ماں کا چہرہ غور سے دیکھا اور اس سوال کو سمجھنے کی کوشش کی جو اس سے کیا جارہا تھا۔
”صرف میں اور آپ کیوں؟ پاپا کیوں نہیں؟” شہربانو کو اس سے اسی قسم کے سوال کی توقع تھی۔
”ہوسکتا ہے پاپا نہ آسکیں اسی لیے پوچھ رہی ہوں، میں اور تم بہت خوش رہیں گے یہاں… تم نے دیکھا ہم نے کتنی سیر کی… کتنا انجوائے کیاہر جگہ… سب نے کتنا پیار کیا تمہیں، کتنی ڈھیر ساری چیزیں لے کر دیں۔” وہ اب اسے وہ سبز باغ دکھا رہی تھی جس میں صرف کرب چھپا ہوا تھا لیکن یہ صرف وہ جانتی تھی۔
”لیکن پاپا ساتھ کیوں نہیں آئیں گے؟” مثال نے اس کے سبز باغ کے اندر پنہاں پھندے کو دیکھ لیا تھا۔
”پاپا پاکستان میں بہت بزی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ ہمارے ساتھ یہاں آجائیں۔” شہربانو اسے divorce کا مطلب سمجھانے کی جرات نہیں رکھتی تھی نہ ہی ابھی اپنے ذہن میں اس خوفناک چیز کے بارے میں غور کررہی تھی۔




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!