عکس — قسط نمبر ۱۳

”میں جواد کو اتنا کمزور نہیں سمجھتا تھا کہ گھر والوں کے کہنے میں آکر وہ اس طرح کا قدم اٹھا لے۔ اگر اتنا ہی کمزور تھا وہ تو پہلے کس طرح اپنی فیملی کو منایا تھا اس نے؟” غنی حمیدچند بار مل چکا تھا جواد سے… اور اب وہ حیران تھا جواد اوراس کی فیملی کی طرف سے کیے جانے والے اس فیصلے پر۔
”جو بھی ہوا… ہم دونوں کے لیے بہت اچھا ہوا۔ میں اسے اس بریک اپ کے لیے الزام نہیں دینا چاہتی۔” عکس نے سنجیدگی سے کہا۔
”میں پھر بھی کہوں گا کہ میری اس بات کے بارے میں سوچو۔” غنی نے کہا۔ وہ اس کا ریفرنس سمجھ گئی۔
”غنی… یہ سارے حساب کتاب اس کیس کو شروع کرنے سے پہلے میں کر چکی تھی۔ میں عورت ہوں… یہ معاشرہ میرے لیے کتنا تعصب رکھتا ہے اور میرے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے مجھے اس کا فرسٹ ہینڈ experience ہے۔” اس نے کافی کا آخری سپ لیتے ہوئے کہا۔ ”اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ معاشرہ میرے لیے اپنے اصول اور ضابطے اور روایات نہیں بدلے گا لیکن میں پھر بھی انصاف کے لیے آواز اٹھاؤں گی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ میں کیس ہار جاؤں گی۔ یہ ہو گا کہ مجھے کیریئر میں نقصان پہنچے گا۔ جاب سے ہٹانا آسان نہیں ہے لیکن وہ مجھے OSD بنا دیں گے اور ایک لمحے عرصے تک مجھے پوسٹنگ ہی نہیں ملے گی۔ میرے بیج میٹس کہیں کے کہیں پہنچ جائیں گے اور میں کہیں بھی نہیں… کیریکٹر assasination کریں گے… الزامات لگائیں گے… میں ایک مشکوک کردار والی آفیسر کہلائی جاؤں گی… اور… بس…اس سے بڑھ کر کیا ہو گا؟” وہ بے حد سنجیدگی سے غنی سے پوچھ رہی تھی۔




”میں نے اور میرے نانا نے زندگی میں ہر چیز کے لیے بہت جدوجہد کی تھی۔ جدوجہد کا لفظ میرے لیے نیا نہیں ہے اور نہ ہی مجھے جدوجہد کرنے سے خوف آتا ہے۔ جنگ میں بھی ہر سپاہی کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ وہی جنگ جیتیں گے۔ صرف امید ہوتی ہے کہ وہ اگر پوری طاقت سے لڑیں تو جنگ جیت سکتے ہیں… میں بھی اسی امید کے ساتھ یہ کیس لڑ رہی ہوں۔” وہ بول رہی تھی اور وہ اس کی بات کاٹے بغیر سن رہا تھا۔
”میں عورت ہوں اور میں کیا کر سکتی ہوں اورکیا نہیں، یہ معاشرہ اور مرد تھوڑی طے کریں گے میرے لیے… یہ تو میں طے کروں گی کہ میں کیا کر سکتی ہوں اور مجھے کیا کرنا چاہیے اور جب ایک دفعہ ایک عورت ایک ناممکن کام بھی کر لے گی تو پھر معاشرہ اور مرد نہ بھی بدلے… وہ سوچے گا ضرور… میں بس اتنا سا فرق چاہتی ہوں اس معاشرے میں… اور اتنا سا تو لا ہی سکتی ہوں… پہلا آدمی جو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے نکلا تھا، اسے لوگوں نے پاگل کہا تھا… آج اس کا نام تاریخ کا حصہ ہے۔ انصاف کے لیے جدوجہد کرنا ”انسان” کا حق ہے صرف ”مرد” کا حق نہیں ہے… اورمیں ایک انسان ہوں… اور ایک انسان کے طور پر اپنے حق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے میں ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے کو تیار ہوں۔” غنی حمید نے اس عورت کوعجیب مرعوب مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تھا وہ اس عورت کا احترام کرنے پر ایسے ہی مجبور نہیں ہو گیا تھا۔ اس نے کبھی ”نسوانیت” کو اتنا ”نڈر” نہیں دیکھا تھا۔ غیر متزلزل لہجے میں بڑی نرم آواز میں کہی گئی دوٹوک بات… وہ اکیڈمی میں اپنے اسی انداز اور لب و لہجے کے لیے پہچانی جاتی تھی۔ اپنے اسی انداز سے کشتوں کے پشتے لگاتی تھی۔ Come what may… والی بے جگری جو بہت سے مردوں میں بھی ناپید تھی۔
”As expected…” وہ مسکرا کر گہری سانس لیتے ہوئے بالآخر اپنی کرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ ”مجھے پتا تھا تم سے میں یہی کچھ سننے والا ہوں Aks Murad Ali. you are one hell of a good speaker۔” اس نے اسے داد دی تھی۔ وہ مسکرا دی۔
”میں دیکھوں گا، کیا کر سکتا ہوں تمہارے لیے اس سلسلے میں۔”
”اس کی ضرورت نہیں پڑے گی غنی… میں اپنا ہوم ورک بہت اچھی طرح کر چکی ہوں اور میں اس کیس کو میرٹ پر جیتنا چاہتی ہوں تعلقات کے ذریعے نہیں…” عکس نے اسے دوٹوک انداز میں کہا۔
……٭……
مثال نے شیردل کو بہت دور سے دیکھ لیا تھا۔ شہربانو کے دیکھنے سے بھی پہلے… وہ ارائیول لاؤنج کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑا تھا اور ان کا منتظر تھا۔ مثال یک دم بے حد خوشی کے عالم میں شہربانو کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر پاپا، پاپا کہتے ائرپورٹ کی اندرونی عمارت کے سامنے دروازے کی طرف بھاگی۔ اس کی آواز پر شیردل نے بھی ان دونوں کو دیکھ لیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور اس نے بہت دور سے مثال کے لیے اپنے بازو پھیلا دیے تھے۔ شہربانو نے اس سے نظریں نہیں ملائی تھیں۔ اس نے اپنی نظر کسی اور طرف کر لی۔ بختیار شیردل کے عملے کا ایک شخص امیگریشن کاؤنٹر پر پہلے ہی ان دونوں کی انٹری کروا کر ان دونوں کا بیگج وصول کر کے ٹرالی میں سامان لیے ان کے ساتھ تھا۔ شہربانو نے واپسی کی اطلاع اور فلائٹ کے ٹائم کے بارے میں صرف منزہ ہی کو بتایا تھا اور اسے یہ توقع نہیں تھی کہ ائرپورٹ پر شیردل اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گا۔ وہ فی الحال اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ ایک عجیب سے رنج اور غصے نے ایک بار پھر اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ وہ جب تک لاؤنج سے باہر آئی۔ مثال شیردل کی گود میں چڑھی ہوئی اس کی گردن کے گرد بازو ڈالے اس سے باتوں میں مصروف تھی۔ شیردل، مثال سے باتیں کرنے کے ساتھ ہمیشہ کی طرح اس کا چہرہ چوم رہا تھا لیکن ساتھ وقفے وقفے سے وہ دور سے آنے والی شہربانو کے قریب آجانے کا بھی منتظر تھا۔ جسے اس نے ائرپورٹ کی exit تک پہنچتے پہنچتے سن گلاسز پرس سے نکال کر آنکھوں پر چڑھاتے دیکھ لیا تھا۔ وہ واضح طور پر اس سے eye contact سے بچنا چاہتی تھی۔ شیردل سے سن گلاسز کے بغیر نظر نہ ملانا تو آسان تھا لیکن آنکھوں میں امڈتی نمی کو روک لینا بہت مشکل۔ وہ چلتے ہوئے بالآخر اس کے قریب آگئی۔ شیردل نے ہمیشہ کی طرح ایک بازو پر مثال کو اٹھائے ایک بازو خیرمقدمی انداز میں مسکراتے ہوئے اس کی طرف پھیلایا تھا۔ اس کے پھیلے ہوئے بازو کو نظرانداز کرتے ہوئے اس نے یک دم اپنے عقب میں آتے پروٹوکول والے اس اہلکار سے اس سامان کے حوالے سے کچھ کہا اور چند منٹوں تک وہ وہاں کھڑی اس سے بات کرتی رہی۔ شیردل کو اندازہ ہو گیا تھا وہ کس موڈ میں تھی۔ اس کے ساتھ کھڑے اس کے ڈرائیور اور عملے کے ایک دوسرے شخص نے پروٹوکول اہلکار سے وہ سامان لے لیا تھا اور پارکنگ کی طرف جانے لگے۔ شہربانو بھی اسے مکمل طور پرنظرانداز کیے ان کے پیچھے چل پڑی۔
”فلائٹ کیسی تھی؟” مثال کو اٹھائے اس کے ساتھ چلتے ہوئے شیردل نے اس کے موڈ کو بحال کرنے کی ایک اور کوشش کی۔
”ٹھیک تھی۔” سردمہری سے جواب آیا۔
”مثال نے تنگ تو نہیں کیا؟” شیردل نے گفتگو کے سلسلے کو ایک اور سوال سے جوڑے رکھنے کی کوشش کی۔
”نہیں۔” لہجے کی خنکی برقرار تھی۔ شیردل اس سے بات کرنے کی ایک اور کوشش کرنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی مثال نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔
گاڑی سے گھر تک کے سفر میں دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ شیردل، مثال سے باتیں کرتا رہا۔ ڈرائیور اور گارڈ کی موجودگی میں وہ نہیں چاہتا تھا ان کے درمیان کسی قسم کا آرگومنٹ ہو۔ نہ ہی وہ شہربانو کی سردمہری اوربگڑا ہوا موڈ ملازمین کے نوٹس میں لانا چاہتا تھا۔
وہ پہلا سفر تھا جس سے واپسی پر شہربانو کو بالکل خوشی نہیں ہوئی تھی۔ وہ ائرپورٹ سے GOR تک کے سفر میں باہر جھانکتی مسلسل ڈپریسڈ رہی۔ شیردل اور مثال کے درمیان ہونے والی کسی گفتگو پراس نے توجہ نہیں دی تھی۔ وہ صرف کھڑکی سے باہر آس پاس کے ٹریفک کو دیکھتی رہی۔ شیردل ، مثال سے باتوں کے دوران وقفے وقفے سے اس کو دیکھتا اور الجھتا رہا۔ ان کی شادی شدہ زندگی میں یہ پہلا بڑا کرائسس آیا تھا ورنہ اس سے پہلے شہربانو کی خفگی کو اس نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ وہ منٹوں میں نہیں تو گھنٹوں میں مان جاتی تھی۔ کبھی اتنے دن نہیں گزرے تھے ان کی بات چیت ختم ہوئے… اور اب اسے اپنے سامنے اس طرح کے موڈ میں دیکھ کر شیردل کو صورت حال کی سنگینی کا صحیح معنوں میں احساس ہوا تھا لیکن اچھی بات یہ تھی کہ وہ بہرحال پاکستان آچکی تھی اور وہ اس کو سامنے بٹھا کر اس سے بات کر سکتا تھا۔
دوپہر کا کھانا انہوں نے منزہ کے ساتھ کھایا تھا… منزہ اور شہربانو کے درمیان رسمی بات چیت کے سوا اور کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ شہربانو کو منزہ بہت بجھی بجھی لگی تھی۔ اس کے اور شیردل کے درمیان موجود خاموشی کو بھی اس نے نوٹس کیا تھا۔ وہ منتظر تھی کہ کھانے کی میز پر شیردل کے سامنے نہیں تو کھانے کے بعد وہ اس سے کچھ بات چیت کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسے صورت حال میں ہونے والی کسی نئی تبدیلی کے بارے میں آگاہ کرے گی لیکن منزہ نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
کھانے کے کچھ دیر بعد شیردل نے واپسی کا اعلان کر دیا تھا۔ شہربانو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑی تھی۔ وہ لوگ سہ پہر کو ہی گھر پہنچ گئے تھے۔ مثال راستے میں ہی شیردل کی گود میں سو گئی تھی اور شہربانو بھی اتنی تھکی ہوئی تھی کہ وہ بھی گاڑی کی پشت سے ٹیک لگائے کھڑکی سے تقریباً چپکی ہوئی سو گئی تھی۔ شیردل نیند کی حالت میں اسے دیکھتا رہا۔ وہ پہلا موقع تھا کہ وہ سفر کے دوران اس کے ساتھ لگ کر سونے کے بجائے گاڑی کی سیٹ اور دروازے کے ساتھ ٹک کر سوئی تھی۔ شیردل اسے ہمیشہ کی طرح اپنی بانہوں میں سمیٹ کر اپنے ساتھ لپٹا لینا چاہتا تھا۔ سڑک پر آنے والے ہر گڑھے کے دھچکے پر وہ بے اختیار شہربانو کو دیکھتا تھا یوں جیسے اسے خدشہ ہو کہ اس کا سر دروازے سے زیادہ زور سے نہ ٹکرا جائے۔ وہ کئی دفعہ ان دھچکوں سے جاگتی رہی لیکن پھر سو جاتی۔ پتا نہیں وہ پورے راستے کون کون سی چیزیں خواب میں دیکھتی رہی تھی۔ سمندر کے زیرآب مچھلیاں اور عجیب عجیب سے پودے اور جانور… عجیب شکل کے گھونگھے اور سیپیاں… وہ زیرآب پانی میں تیر نہیں رہی تھی قدم اٹھاتے ہوئے چل رہی تھی جیسے وہ چہل قدمی کررہی ہو اور پھر اس نے سمندر کی تہ میں بہت سے حصوں والا اور نگوں والا ایک عجیب و غریب آکٹوپس دیکھا جو بالکل ساکت تھا۔ وہ اس کے قریب چلتی گئی… اور قریب… پھر اس نے آکٹوپس کے سر پر موجود ایک آنکھ کو یک دم کھلتے دیکھا۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔
”شیبی گھر آگیا ہے۔” گاڑی ان کے پورچ میں کھڑی تھی اور شیردل اس کے کندھے کو تھپک رہا تھا۔ وہ اس کا کندھا تھپتھپانے کے بعد خود سوئی ہوئی مثال کو کندھے سے لگائے ہوئے گاڑی سے نکل گیا۔ شہربانو کچھ دیر کے لیے اسی طرح پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی رہی۔ وہ اس کا گھر تھا نہ اس کے اندر داخل ہونے والا شخص اس کا وہ شوہر جس پر وہ کبھی جان چھڑکتی تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا۔ وہ عجیب دل گرفتگی سے بوجھل وجود کے ساتھ نیچے اتر آئی۔
شیردل بیڈ روم میں نہیں تھا۔ وہ یقینا مثال کے بیڈ روم میں اس کے پاس تھا۔ شہربانو کمرے میں داخل ہوتے ہی کپڑے تبدیل کیے بغیر بیڈ پر جاکر لیٹ گئی تھی۔ شیردل جب تک بیڈ روم میں آیا وہ گہری نیند میں تھی… ہمیشہ کی طرح بیڈ کے ایک کونے میں کسی ننھے بچے کی طرح سکڑی سمٹی ہوئی… شیردل نے کمبل کھول کر اس پر پھیلا دیا پھر وہ بیڈ پر اس کے قریب بیٹھ گیا۔اس کے چہرے پر آئے ہوئے بالوں کو اس نے غیر محسوس انداز میں بہت آہستگی سے چہرے سے ہٹا دیا تھا۔ وہ نیند میں تھی لیکن اس حالت میں بھی تھکن اور اسٹریس اس کے چہرے پر چھلک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نظر آرہے تھے۔ وہ بہت دیر تک اس کے قریب بیٹھا یہ طے کرتا رہا کہ اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں اسے کیا کہنا تھا۔ منزہ نے اپنے غصے اور جوش میں اسے بے حد مشکل میں پھنسا دیا تھا۔
……٭……
شہربانو کی آنکھ کھلی تو آدھی رات گزار چکی تھی۔ بیڈ روم میں اندھیرا تھا۔ اس نے سائڈ ٹیبل لیمپ جلا کر گھڑی دیکھی پھر برابر والے بیڈ پر دیکھا، وہ خالی تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ سات آٹھ گھنٹے سو لینے کے بعد بھی اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی لیکن اس کا سر بوجھل ہورہا تھا اور اسے بھوک لگ رہی تھی۔
کپڑے تبدیل کرنے اور چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے کے بعد وہ کچن میں آگئی۔ انٹرکام کے ذریعے کسی ملازم کو بلانے کے بجائے وہ ایک ہلکا سینڈوچ اور کافی تیار کر کے واپس بیڈ روم میں لے آئی اور تب اس کا سامنا شیردل سے ہوا۔ وہ واش روم سے نائٹ سوٹ پہن کر نکلا تھا۔
”فریج میں کھانا تھا، تم ملازم کو کہتیں وہ کھانا لگا دیتا۔” اس نے شہربانو کے ہاتھوں میں سینڈوچ اور کافی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ جواب دینے کے بجائے صوفے پر جاکر بیٹھ گئی۔ شیردل نے بیڈ سائڈ ٹیبل سے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا اور چند لمحے کھڑے کھڑے چینل سرفنگ کرتا رہا۔ وہ شہربانو کو دانستہ موقع دے رہا تھا کہ وہ سینڈوچ اور کافی ختم کر لے۔ چینل سرفنگ کرنے کے دوران ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اپنا سینڈوچ ختم کر چکی تھی۔ ٹی وی آف کرتے ہوئے ریموٹ واپس سائڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ صوفے پر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ و کافی کے سپ لے رہی تھی۔
”تم کب تک ناراض رہنے کا ارادہ رکھتی ہو؟” اس نے بڑی نرمی سے صلح جو انداز میں کہا۔
”عکس نے پاپا کے خلاف کیوں کیس کیا ہے؟” اس کے سوال کا جو جواب آیا تھا اس نے شیردل کو چند لمحوں کے لیے خاموش کرا دیا تھا۔ وہ شہربانو سے اتنے سیدھے سوال کی توقع نہیں کر رہا تھا چند لمحے جیسے وہ کچھ سوچتے ہوئے وہ لفظ ڈھونڈتا رہا جس میں وہ شہربانو کو کچھ مناسب جواب دے سکے۔
”انکل شہباز اور اس کے نانا کے درمیان کچھ مسئلہ ہوا تھا۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ شاید انکل شہباز نے اس کے نانا کو غلط سزا دی تھی کسی کو بھی جاب سے اس طرح نکالا نہیں جا سکتا جس طرح انہوں نے عکس کے نانا کو نکالا تھا۔ وہ اس punishment کو چیلنج کررہی ہے اوراسے revoke کروانا چاہتی ہے۔” اس نے بڑے نپے تلے الفاظ میں شہربانو کو سمجھایا۔ وہ شہربانو کو خیردین کے ساتھ ہونے والے اصل ظلم کی تفصیلات نہیں بتا سکتا تھا۔ وہ منزہ نہیں تھی جسے یہ سب جتانا اور بتانا ضروری تھا۔
”اتنے سالوں بعد اسے یہ سب کیوں یادآیا ہے؟” وہ بے حد عجیب لہجے میں اس سے پوچھ رہی تھی۔
”کوئی کبھی بھی اپنی چیز کو کلیم کر سکتا ہے۔ اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافی پر آواز اٹھا سکتا ہے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں کہ اس نے یہ وقت کیوں chose کیا ہے۔” شیردل نے ایک بار پھر بڑے نپے تلے لفظوں میں اس سے کہا۔
”پاپا کبھی کوئی غلط کام نہیں کر سکتے۔” اس کی بات کے جواب میں شہربانو نے کافی کا مگ سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے مستحکم اور دوٹوک انداز میں کہا۔ شیردل خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ یہ جملہ نہ بھی بولتی وہ تب بھی جانتا تھا کہ وہ شہباز سے کس طرح کی وابستگی رکھتی تھی۔ اسے اس سے اسی طرح کے جملوں کی توقع تھی۔ ”میں کبھی یہ نہیں مان سکتی کہ انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی کی ہو گی۔ انہوں نے جو بھی کیا ٹھیک کیا ہو گا۔” اس نے اپنا جملہ مکمل کیا تو شیردل نے کہا۔
”ہر انسان غلطی کر سکتا ہے۔ error of judgement ہر ایک سے ہو سکتا ہے اور شہباز انکل بھی ایک انسان تھے۔” شہربانو اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس کے چہرے پر ایک عجیب سی تلخ مسکراہٹ آئی۔
”اور تمہاری غلطی کیا ہے؟ مجھ سے شادی؟” شیردل ایک بار پھر اس کی بات کے جواب میں فوری طور پر نہیں بول سکا۔
”ایک بات بتاؤ شیردل… تم عکس سے محبت کرتے ہو؟… اس سے شادی کرناچاہتے ہو؟”
……٭……
خیردین لاٹھی کے سہارے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے میں بیٹھے مرد اور عورت میں سے مرد کھڑا ہو گیا تھا لیکن یہ صوفے پر بیٹھی ہوئی عورت تھی جس کے چہرے نے خیردین کو فریز کیا تھا۔ اتنے سالوں کے بعد بھی اسے دقت نہیں ہوئی تھی اس عورت کو پہچاننے میں۔ وہ مصافحہ کرنے والے اس شخص کو ایبک شیردل کے والد کے طور پر پہچانتا تھا اور اس کے ساتھ موجود وہ عورت اگربختیار شیردل کی بیوی تھی تو پھر ایبک شیردل… وہ آگے کچھ نہیں سوچ سکا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جیسے اندھیرا آگیا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!