عکس — قسط نمبر ۱۳

”we can wait جب پاپا کا کام ختم ہوجائے گا تو وہ بزی نہیں ہوں گے تو پھر ہم آجائیں گے۔” مثال نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا۔ اس نے اپنی طرف سے اس گمبھیر مسئلے کا ایک آسان حل نکالا تھا۔ وہ گمبھیر مسئلہ جو اس کی ماں سے حل نہیں ہورہا تھا۔ شہربانو چند لمحوں کے لیے خاموش رہی پھر اس نے کہا۔
”پاپا کا کام کبھی بھی ختم نہیں ہوگا اور وہ ہمیشہ بزی رہیں گے۔” مثال نے کچھ الجھ کر ماں کو دیکھا۔
”he told you that ” اس نے جیسے بے یقینی سے ماں سے پوچھا۔
”yes he did ” اس نے آج تک کبھی مثال سے جھوٹ نہیں بولا تھا لیکن آج وہ اس کے ساتھ جھوٹ بول رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اب اسے مثال کے سوالوں سے بچنے کے لیے جھوٹ گھڑنا اور جھوٹ بولنا سیکھنا تھا۔
”میں ان سے پوچھوں گی وہ ضرور ہمارے ساتھ امریکا آجائیں گے…holidays میں۔” مثال کا باپ پر یقین ابھی بھی متزلزل نہیں ہوا تھا۔
”ہم دونوں اگر اکیلے امریکا آگئے تو ہم بہت خوش رہیں گے۔ یہاں گھومنے پھرنے کے لیے بہت ساری جگہیں ہیں… میں تمہیں ڈھیروں کھلونے دلاؤں گی ڈھیروں چاکلیٹس اور سوئیٹس دلواؤں گی ہم بہت مزہ کریں گے،تم پاپا کو بالکل مس نہیں کروگی۔”
”نو ممی…I will miss papa ” مثال نے اس کی بات کا ٹ کر جیسے اعلان کرنے والے انداز میں اس سے کہا تھا۔ وہ ہل نہیں سکی پھندے کوئی ایک نہیں تھے جو اس کے پاؤں میں تھے وہ ہر طرح سے جکڑی ہوئی تھی۔
……٭……




”مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے پاپا۔”شیردل نے ہاسپٹل سے گھر پہنچتے ہی بختیار شیردل سے کہا تھا۔ وہ اس وقت آفس سے گھر آئے تھے اور شام کی فلائٹ سے اسلام آباد جارہے تھے۔ شیردل اور ان کی ملاقات لاؤنج میں ہی ہوئی تھی۔ رسمی علیک سلیک کے فوراً بعد شیردل نے انہیں کہا تھا۔
”مجھے بھی تم سے کافی ضروری باتیں کرنی ہیں سات بجے کی فلائٹ ہے میری۔ تم آج یہیں ہو؟”بختیار نے اس سے پوچھا تھا۔
”جی میں آج یہیں ہوں۔” شیردل کو ان کے لب ولہجے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس سے کس موضوع پر بات کرنا چاہتے تھے۔ عکس کی معطلی ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی اور اس معطلی کے لیے انہیں رضامند کرنے کے لیے بہت کچھ ان کے علم میں لایا گیا ہوگا۔ یہ شیردل اندازہ کرسکتا تھا۔
”چینج کر کے میرے بیڈر وم میں ہی آجاؤ، وہیں بات کرلیتے ہیں۔”بختیار نے اس سے کہا تھا۔ ”تمہاری ممی بھی تب تک آجائیں گی۔ ”
”میں ممی کے سامنے آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا پاپا، میں اس مسئلے پر آپ سے الگ بات کرنا چاہتا ہوں۔” شیردل نے بالا خر کسی تمہید کے بغیر موضوع پر آتے ہوئے کہا۔ بختیار نے ماتھے پر بل لیے اسے دیکھا وہ الجھ گیا تھا۔
”ٹھیک ہے ہم منزہ کے سامنے بات نہیں کریں گے، تم بیڈ روم میں آجاؤ۔”بختیار اس سے کہہ کر چلاگیا تھا۔
”آپ نے عکس کو suspend کروایا ہے؟” آدھ گھنٹے کے بعد بختیار کے پاس بیڈ روم میں آکر بیٹھتے ہی شیردل نے براہ راست اس سے پوچھ لیا تھا۔
”ہاں۔” جواب مختصر تھا مگر وہی تھا جس کی شیردل کو توقع تھی۔ ”اور کیوں کروایا ہے یہ سب بھی تم جانتے ہوگے۔ وہ غیر ذمے دار ہے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہی ہے۔” بختیار نے اسی سنجیدگی سے ایک ہی سانس میں کہا تھا۔
”وہ ایسا کچھ نہیں کررہی۔”شیردل نے ان کو ٹوک دیا۔
”تم میرے سامنے اس کو سپورٹ کرنے کا سوچنا بھی مت… وہ تمہاری دوست ہے اور اس کی جرات یہ ہے کہ وہ تمہاری ہی فیملی کوٹارگٹ کررہی ہے اور تم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہو۔” بختیار خفگی سے کہہ رہے تھے۔ ”میں ہمیشہ اس کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتا رہا مجھے اگر یہ اندازہ ہوتا کہ وہ اس طرح کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ اس طرح کے کریمنل ریکارڈ رکھنے والے ایک تھرڈ کلاس خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو میں تو تمہیں کبھی اس سے ملنے کی اجازت نہیں دیتا اور تم اس سے شادی کے لیے مرے جارہے تھے کسی زمانے میں…” بختیار کا غصہ بات کرتے کرتے اور بڑھ گیا تھا۔
”آپ سے کس نے کہا ہے کہ وہ کریمنل …” بختیار نے شیردل کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”شہباز نے اس کے نانا کو جاب سے اسی لیے نکالا تھا کہ وہ چوریاں کرتا رہا اس کے گھر اور چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔” اس سے پہلے کہ بختیار کچھ اور کہتا منزہ دروازہ کھول کر اندر آگئی تھی۔ وہ ابھی ابھی گھر پہنچی تھی اور اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ جو اس وقت اس کے بیڈ روم میں ہورہا تھا وہ چند لمحوں کے لیے ساکت سی ہوگئی تھی۔ بختیار کی بلند آواز اور شیردل کے چہرے کے تاثرات اسے سمجھا نے کے لیے کافی تھے کہ اندر کیا ہورہا تھا۔
”تم کب پہنچے ہو؟ ” منزہ نے جیسے خود کو سنبھالتے ہوئے شیردل کے سلام کا جواب دیا جو خود بھی یہی کوشش کررہا تھا۔
”منزہ تم کچھ دیر کے لیے باہر چلی جاؤ ہم ایک اہم مسئلے کو ڈسکس کررہے ہیں۔” علیک سلیک کے بعد بختیار نے اس سے کہا تھا۔ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ منزہ کسی بھی طرح ان دونوں کے درمیان ہونے والی اس اہم ڈسکشن کو چھوڑ کر کہیں چلی جاتی۔
”کیس کے بارے میں ؟” اس نے بختیار سے پوچھا اور شیردل کو دیکھا جو ماں سے نظریں چراگیا تھا۔
”ہاں۔” بختیار نے مختصراً کہا۔
”تو پھر میں کہیں نہیں جاؤں گی… آخر اس کے بارے میں ایسا کیا ہے جو آپ دونوں میرے سامنے ڈسکس نہیں کرسکتے۔” اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے حتمی انداز میں کہا۔ بختیار اور شیردل نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر بختیار نے کہا۔
”شیردل یہ مسئلہ تمہارے سامنے ڈسکس نہیں کرنا چاہتا۔”
”ہاں میں اچھی طرح جانتی ہوں، وہ کیوں یہ مسئلہ میرے سامنے ڈسکس نہیں کرنا چاہتا… وہ عکس کو reinstate کروانا چاہتا ہوگا، یہ بات تو اس سے برداشت نہیں ہورہی ہوگی کہ اس کی چہیتی کو کچھ ہو۔” منزہ نے بے حد تلخی سے شیردل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ممی عکس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ کیس کورٹ میں لڑا جاتا ہے، اس طرح نہیں۔” شیردل نے بے اختیار اس سے کہا۔
”اس کا قصور نہیں ہے… وہ پچیس… تیس سال بعد منہ اٹھا کر میری فیملی کو ذلیل کرنے آگئی ہے اوراس کا کوئی قصور نہیں ہے۔” وہ بہت غصے سے بول رہی تھیں۔
”وہ ذلیل کرنے نہیں آئی آپ کی یا ہماری فیملی کو، یہ کام شہباز انکل نے کیا تھا۔” شیردل نے یک دم ماں کو ٹوک دیا۔ منزہ کی رنگت چند لمحوں کے لیے لٹھے کی طرح سفید ہو گئی۔ وہ مر کے بھی شیردل کے منہ سے شبہاز کے لیے ایسا جملہ سننے کی توقع نہیں کر سکتی تھیں۔
”تم اس لڑکی کی زبان مت بولو اس گھر میں… تم اس لڑکی کی باتوں میں آکر اپنے خاندان پر خود کیچڑ اچھالو گے؟” بختیار اس بات پر بری طرح برہم ہوگئے۔
”میں اس لڑکی کی زبان نہیں بول رہا ہوں پاپا۔” شیردل نے باپ کی بات کاٹی۔
”تم کیا جانتے ہو اس آدمی اور اس کے خاندان کے بارے میں جس کے لیے وہ لڑ رہی ہے، بلیک میلنگ کا طریقہ ہے۔”
منزہ کو یک دم جیسے ہوش آگیا۔ اگر زندگی میں کبھی شہباز حسین کو ان کی ضرورت تھی تو وہ اس وقت تھی۔
”وہ کیوں ہماری فیملی کو بلیک میل کریں گے؟ پوری دنیا میں انہیں اس کام کے لیے ہمارا ہی خاندان کیوں نظر آیا ہے؟” شیردل نے بڑے عجیب انداز میں منزہ سے کہا۔ منزہ کو اس کا انداز دہلا رہا تھا۔ شیردل زندگی میں پہلی بار شہباز کے حوالے سے ان سے اس طرح بات کررہا تھا۔
”تم جانتے ہو اس لڑکی کے نانا نے شہباز پر کیا الزام لگایا تھا؟” بختیار نے جیسے خاندان کا وہ راز شیردل سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کی بیوی نے چند دن پہلے ان سے شیئر کیا تھا۔ شیردل چند منٹ سپاٹ نظروں سے باپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ ایک جملے نے اسے ایک بار پھر اس رات کے جہنم میں پھینک دیا تھا۔
”جانتا ہوں…” اس نے مدھم آوازمیں کہا۔ ”اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ الزام درست ہے۔” بختیار کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا۔
”تم اپنے خاندان کے مرد کو اتنا گھٹیا سمجھتے ہو کہ وہ ایک خانساماں کی بیٹی کے ساتھ افیئر چلائے گا، اپنی بیوی اور بیٹی کے ہوتے ہوئے؟” بختیار نے بہت تیز اور چبھتے ہوئے لہجے میں اس سے کہا۔
”کون سا افیئر؟” ان کی بات شیردل کے سر سے گزر گئی۔
”اس لڑکی کی ماں نے شہباز کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا تھا شرمین کے سامنے۔ اس لڑکی کے نانا نے چوری کے الزام سے بچنے کے لیے اپنی بیٹی کو استعمال کیا۔ شہباز کا گھر تڑوا دیا اس نے۔” بختیار کہہ رہا تھا اور شیردل صرف اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
”آپ سے ممی نے کہا یہ سب؟” یہ راکٹ سائنس نہیں تھی کہ وہ سیکنڈز میں یہ نہ جان پاتا کہ بختیار کو یہ سب باتیں بتانے والا کون ہو سکتا تھا۔
”یہ سب کچھ میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا صرف اس لیے کہ تمہاری اس لڑکی کے ساتھ دوستی ہے، تم اسے پسند کرتے تھے۔ میں تمہیں ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی حالانکہ میں اس لڑکی کے بارے میں یہ سب کچھ پہلے دن سے جانتی تھی۔ اسی لیے منع کررہی تھی کہ یہ بلیک میلرز کی فیملی ہے۔ تم ان کا حصہ نہ بنو ان کی باتوں میں نہ آؤ۔” منزہ نے بات شروع کی تو پھر وہ بولتی ہی چلی گئیں انہوں نے شیردل کے تاثرات نوٹس کرنے کی کوشش نہیں کی یا اگر کی بھی تھی تو انہیں نظرانداز کر دیا۔
”پاپا، شہباز انکل نے عکس کے ساتھ زیادتی کی تھی اور اسے قتل کرنے کی کوشش تھی جب وہ نو سال کی تھی اور اس معاملے کو چھپانے کے لیے انکل شہباز نے عکس کے نانا پر چوری کا الزام لگا کر اسے گھر سے نکال دیا تھا۔” بختیار اور منزہ پر چند لمحوں کے لیے عجیب سا سکتہ ہوا تھا۔ پھر یہ منزہ تھی جس نے اس خاموشی کو ہذیانی انداز میں یہ کہتے ہوئے توڑا تھا۔
”Shame on you Sherdil… Shame on you…تم اپنے انکل پر اتنا گھناؤنا الزام لگا رہے ہو… تم اس دغاباز کی باتوں پر یقین کررہے ہو؟”
“Just stop lieing… stop lieing mummy” شیردل اپنی آواز اور لہجے پر قابو نہیں رکھ سکا۔ وہ فیصلہ جو ضمیر نہیں کروا پارہا تھا، وہ گالی کے ایک چھوٹے سے لفظ کی گونج نے کروا دیا تھا۔ منزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ وہ ان کی اولاد تھا، وہ ان پر چلا رہا تھا۔
”کیا بکواس کررہے ہو تم؟”بختیار بھی حواس باختہ ہو گئے۔
”ممی سے پوچھیں۔”
”شہباز یہ نہیں کر سکتا۔” منزہ نے عجیب انداز میں کہا۔
”ممی سچ کہیں۔” شیردل یک دم کرسی سے اٹھ کر منزہ کے پاس چلا گیا۔
”الزام ہے یہ۔”
”میں نے دیکھا تھا انکل شہباز کو اس رات یہ سب کرتے…”




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!