عکس — قسط نمبر ۱۳

عکس نے اپنی آنکھیں بند کر کے رگڑیں پھر غنی سے کہا۔
”تھینک یو۔” اس نے چند لمحے پہلے میز پر وہ خط لفافے میں ڈال کر رکھا تھا جو اس کا پی اے اس کے آفس کی کچھ دوسری ڈاک کے ساتھ اس کے لیے لے کر آیا تھا۔ وہ اس کی معطلی کی منسوخی کے آرڈرز تھے۔ اسے فوری طور پر اسی جگہ اور اسی عہدے پر دوبارہ کام کرتے رہنے کا حکم دیا گیا تھا جہاں وہ کام کررہی تھی۔ دو دن کی معطلی میں اس کے ماتحت عملے میں جیسے ایک ہلچل مچ گئی۔ اس نے چھٹی بڑھالی تھی اور وہ ابھی بھی لاہور میں خیردین کے پاس ہی تھی۔




”اس کی ضرورت نہیں ہے… دوچار دنوں میں انکوائری بھی رک جائے گی… شوکاز نوٹس بھی کینسل ہو جائے گا۔” غنی اسے بتا رہا تھا۔ ”لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا بختیار، شیردل کو کیا ایشو ہوا ہے تم سے…؟ تمہارے اور شیردل کے درمیان اب دوستی نہیں ہے کیا؟…” غنی اپنی کافی میں چمچ ہلاتے ہوئے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہہ رہا تھا۔ عکس کے معطل ہونے کی خبر پر سب سے پہلے اسے فون کرنے والا وہی تھا۔ عکس نے اس کا اصل مسئلہ بتانے کے بجائے ٹال مٹول والے انداز میں اس سے بات کی تھی لیکن اسے اندازہ تھا کہ غنی جب اسے بحال کروانے کی کوشش کے لیے اپنا اور اپنی فیملی کا اثرورسوخ استعمال کرے گا تو اسے یہ جاننے میں دقت نہیں ہو گی کہ اسے معطل کرنے اور انکوائری کے لیے پریشر کہاں سے آیا تھا اور وہ یقینا اسی طرح ہکا بکا رہ جائے گا جس طرح وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ بختیار شیردل کی فیملی اگر establishmentکا ایک ستون تھا تو غنی حمید کا خاندان دوسرا ستون تھا۔ عکس کی خوش قسمتی تھی کہ وہ اس دوسری فیملی سے بھی کسی نہ کسی طرح وابستہ تھی… غنی اور اس کی دوستی پسندیدگی اور غنی کی طرف سے شدید قسم کی پسندیدگی کے بہت سارے مراحل طے کرنے کے باوجود شادی جیسے رشتے میں تبدیل نہیں ہو سکی تھی… غنی ڈرنک کرتا womanizer تھا اور جاب میں آنے کے بعد مالی بے ضابطگیوں میں بھی انوالو ہوتا رہا تھا۔ شیردل اور اس کے خاندان کے درمیان فرق صرف reputation کا تھا۔ شیردل کے خاندان کا دامن اس حوالے سے صاف تھا اور ان کی reputation اور کارکردگی غنی حمید کے خاندان سے بہت بہتر تھی جو سیاسی گھرانوں کے زیادہ قریب تھا اور ان پر نوازشات کرنے اور انہیں ان سے مراعات لینے کا ماہر تھا۔
غنی حمید کے خاندان کی ایسی ساکھ نہ بھی ہوتی تب بھی عکس کے لیے اس کو ریجیکٹ کرنے کے لیے یہ وجہ کافی تھی کہ وہ شراب پیتا تھا۔ صرف غنی حمید ہی نہیں، کسی بھی مرد کو رد کرنے کے لیے اس کے لیے یہی ایک وجہ کافی تھی۔ وہ زندگی میں بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ کمپرومائز کر سکتی تھی لیکن شراب پینے والے مرد کے ساتھ نہیں۔ یہ ایک چیز تھی جسے وہ شعوری یا لاشعوری کسی بھی طرح سے نظرانداز نہیں کر پائی تھی۔ شیردل نے غنی کی ان عادات کے بارے میں اسے بہت پہلے بتا دیا تھا اور شیردل کے سامنے یہ ظاہر کرنے کے باوجود کہ اسے اس بات کی پروا نہیں تھی، عکس، غنی کے حوالے سے یک دم بہت محتاط ہو گئی تھی۔ غنی کے ساتھ کچھ اور وقت گزارنے کے بعد عکس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ شیردل نے اس کے حوالے سے جو بھی کہا تھا، وہ صرف جیلسی نہیں تھی حقائق تھے۔ غنی نے عکس کے سامنے کسی گفتگو میں ایک بار شراب پینے کا اعتراف کیا تھا اور بہت فخریہ انداز میں کیا تھا۔ البتہ اس نے عکس کے سامنے کبھی لڑکیوں کے ساتھ اپنے افیئرز اور تعلقات کا اعتراف نہیں کیا تھا۔ وہ لاشعوری طور پر اس حوالے سے محتاط تھا۔ یہ وہ بات تھی جو کسی بھی عورت کے لیے قابل قبول نہ ہوتی اور اتنے کھلے اعترافات کے بعد کوئی بھی لڑکی ایسے کسی شخص کو لائف پارٹنر بنانے سے پہلے سو بار سوچتی لیکن غنی کو اندازہ نہیں تھا کہ عکس کے لیے اس کی شراب نوشی اس کے افیئرز سے زیادہ repulsive تھی۔ غنی حمید کو اس نے ان مردوں کی فہرست میں کبھی شامل ہی نہیں کیا تھا جنہیں وہ لائف پارٹنر کے طور پر چننے کے لیے غور کرتی۔ غنی نے جب پہلی بار اسے پروپوز کیا تھا تو عکس نے اسے بڑے واضح اور صاف لفظوں میں بتا دیا تھا کہ وہ اسے بہت پسند کرتی تھی لیکن دوستی کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں چاہتی۔
غنی نے اس کے انکار کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی رائے بدل دے گی خاص طور پر اس لیے کہ ان کے درمیان بہت اچھی دوستی اور انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ شیردل کے برعکس غنی حمید status conscious ہونے کے باوجود شادی کے معاملے میں اپنی پسند کو ایک حسب نسب کی شادی پر ترجیح دینے پر یقین رکھتا تھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ اپنے خاندان کو عکس کے ساتھ اس کی شادی کرنے پر تیار کر لے گا اور اس کا اظہار اس نے عکس سے کئی بار کیا تھا۔
”شیردل نے تمہیں میرے حوالے سے برین واش کیا ہے؟” غنی حمید نے کئی بار شادی کا پروپوزل رد ہونے کے بعد بالآخر عکس سے کہا تھا۔ وہ پہلا موقع تھا ان کی دوستی کے دوران میں کہ ان کے درمیان شیردل کے حوالے سے اس طرح کی گفتگو ہورہی تھی۔ وہ پہلا موقع تھا جب عکس کو احساس ہوا کہ غنی حمید، شیردل سے ہمیشہ بے نیازی اور لاتعلقی ظاہر کرنے کے باوجود بھی اس سے خائف تھا۔ وہ شیردل کے چارم سے خائف تھا… عورتوں میں اس کی مقبولیت سے خائف تھا اور وہ کبھی بات نہ کرنے کے باوجود بھی شیردل اور عکس کی دوستی سے خائف تھا۔
”شیردل نے مجھے کبھی تمہارے بارے میں کچھ نہیں کہا۔” عکس نے زندگی میں پہلی بار شیردل کے حوالے سے غنی سے جھوٹ بولا۔ وہ بے اختیار ہنس پڑا۔
”یہ سفید جھوٹ ہے۔” وہ اطمینان سے بولا۔ ”شیردل اور کبھی تم سے میرے بارے میں کچھ نہ کہتا ہو، وہ میرا بچپن کا حریف ہے۔ میں اور وہ ایک دوسرے کی کمینگی کو تمہارے لاکھ جھوٹ کے ساتھ بھی پہچانتے ہیں۔” اس نے عکس کا مذاق اڑایا۔
”میری زندگی کے کسی فیصلے پر شیردل کی کسی رائے کا اثر نہیں ہوتا۔” عکس نے ایک اور جھوٹ بولا۔ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے وہ بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگا تھا کم از کم اس نے اس بات پر اس کوٹوک کر اس کی بات ماننے سے انکار نہیں کیا تھا عکس کے ساتھ اتنا عرصہ رہنے کے بعد اسے بھی یہ اندازہ تھاکہ وہ دوسروں کی باتوں اوررائے کے مطابق اپنے فیصلہ نہیں کرتی… لیکن اس مسئلے میں بات شیردل کی ہورہی تھی اور وہ عکس اور شیردل کی close association سے واقف تھا… ایک لمبی بحث تھی جو ان دونوں کے درمیان تب ہوئی تھی اور اس بحث کا نتیجہ وہی رہا تھا جو پہلے تھا۔ غنی حمید بہت مایوس ہوا تھا لیکن اس نے عکس کے انکار کو کسی ذاتی ہتک کے طور پرنہیں لیا تھا نہ ہی انا کا مسئلہ بنایا تھا۔ ان دونوں کے درمیان دوستی اسی طرح چلتی اور قائم رہی تھی جیسے پہلے تھی۔ عکس مراد علی، غنی حمید کے بیچ کی واحد لڑکی تھی جس کے ساتھ غنی حمید کی اس طرح کی دوستی تھی… باقی لڑکیوں کے ساتھ غنی حمید کی چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی تھی اور اس حوالے سے بہت کم ہی کوئی لڑکی ایسی تھی جو غنی حمید کی دل سے عزت یا احترام کرتی ہو۔ شیردل اس کے برعکس ایک پرفیکٹ جنٹلمین تھا خواتین بیچ میٹس کے ساتھ وہ بھی بے تکلف تھا اور ان میں بہت پاپولر بھی لیکن اس کی بے تکلفی اور دوستیاں ایک حد تک رہتی تھیں۔ وہ لڑکیوں کے ساتھ فضول چھیڑ چھاڑ کے حوالے سے بے حد محتاط تھا اور شیردل میں بے حد دلچسپی کے باوجود اس کے حوالے سے کسی لڑکی کو کوئی ناگوار تجربات نہیں ہوئے تھے۔ اس کی ریپوٹیشن اس حوالے سے بہت اچھی تھی… اور عکس مراد علی اپنے کامن کے ”ہیرو” اور ”ولن” دونوں کے ساتھ قریبی دوستی رکھتی تھی۔ ”ہیرو” اور”ولن” اس کے لیے ایک جیسا احترام رکھتے تھے۔ یہ ایک عجیب و غریب تکون تھی جو ان تینوں کے درمیان تھی۔ اس تکون کو غیر متوازن ہونے سے بچانے کا سارا کریڈٹ عکس مراد علی کو جاتا تھا۔
”شیردل کے ساتھ میرا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟” وہ غنی حمید کے سوال پر مسکرا دی۔
”پھر بختیارشیردل نے کیوں…” عکس نے غنی کو ٹوک دیا وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔
”میرے نانا نے اپنے پروفیشنل کیریئر میں اپنے ساتھ ہونے والی ایک بے انصافی کے لیے کیس کیا ہے اور وہ شیردل کے ایک انکل کے خلاف ہے جو کبھی ان کے پاس رہے تھے۔” اس نے بہت مختصراً غنی سے کہا۔
”wow۔” وہ بے اختیار کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ ”وہ یقینا ایک کارنامہ تھا۔ اور تم نے انہیں کرنے دیا؟” غنی کے لیے حیرت کا اصل باعث یہ بات تھی۔
”ہاں۔” عکس یہ چھپا گئی کہ کیس اس کی طرف سے تھا اور شیردل بھی اس میں نامزد تھا ایک وارث کے طور پر۔
”Now I understand۔” غنی نے سرہلاتے ہوئے کہا۔ ”اور شیردل کے ساتھ اب اس کیس کے بعد تو…” عکس نے اس کی بات کاٹ دی۔
”we are still friends۔”اس نے کہا۔ وہ بے یقینی سے مسکرا دیا۔
”یہ مشکل کام ہے۔ میں شیردل کی جگہ ہوتا تو کبھی ایسی دوستی نہیں رکھ سکتا تھا۔” غنی نے بے ساختہ کہا۔ عکس مسکرا دی۔
”تم شیردل نہیں ہو غنی۔” کیا تھا اس جملے میں کہ غنی ہل نہیں سکا تھا۔ اس نے اپنے اور شیردل کے تعلق کو اس سے پہلے ایسے واضح لفظوں میں نہیں جتایا تھا۔ غنی بہت دیر تک بول نہیں سکا۔
”تم سمجھتی ہو کہ شیردل اپنی فیملی کے بجائے تمہیں سپورٹ کرے گا… کیونکہ تم اس کی دوست ہو؟” ایک لمبی خاموشی کے بعد غنی نے عجیب مذاق اڑانے والے انداز میں اسے سلگایا۔
”سپورٹ کا میں نے نہیں کہا اور نہ ہی مجھے اس کی سپورٹ کی ضرورت ہے… لیکن دوست ہم اس جھگڑے کے بعد بھی رہ سکتے ہیں۔”
”خوش فہمی ہے تمہاری۔” غنی نے اسی انداز میں کہا۔ ”آج پہلی بار شیردل کے لیے عکس کی یہ جانبداری اسے زہر لگی تھی۔
”انسانوں کے حوالے سے میں خوش فہمیاں رکھنے کی قائل نہیں ہوں۔ یہ کام ساری زندگی نہیں کیا تو اب کیا کروں گی۔” وہ اسی اطمینان سے بولی۔
”مجھ سے کیوں اس کیس کی بات نہیں کی تم نے؟ میں آخری حد تک جاکر تمہاری مدد کرتا۔” غنی نے یک دم بات بدلتے ہوئے کہا۔
”اپنے مسئلے انسان کو خود نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے۔” وہ مسکرا دی۔
”مجھے جاننا ہے یہ سب۔” غنی نے کچھ دیر خاموش رہتے ہوئے اس سے کہا۔ اس پوری گفتگو کے دوران میں پہلی بار اس کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرا تھا۔
”نہیں۔” اس نے کہا۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ اسے غنی کو یہ بتانا چاہیے تھا یا نہیں کہ اس کی اور جواد کی منگنی ختم ہو چکی تھی۔
”شیردل سے کہو وہ اس ایشو پر تمہاری مدد کرے لیکن اپنی زندگی کی اس اسٹیج پر بختیار شیردل کے خاندان سے کسی قسم کا جھگڑا مول مت لو۔” عکس کو یقین نہیں آیا یہ مشورہ اسے غنی حمید دے رہا تھا۔ شیردل اور اس کے خاندان کا ازلی حریف۔ ”تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ شیردل کا خاندان اس مسئلے پر تمہیں کس حد تک تنگ کر سکتا ہے اور جواد اوراس کی فیملی کبھی تمہیں سپورٹ نہیں کرے گی۔ وہ تمہارے نانا کے ایک پرانے مسئلے کے لیے شیردل خاندان کی دشمنی کبھی مول نہیں لیں گے نہ ہی تمہیں لینے دیں گے۔” وہ اس وقت ایک مخلص دوست کی طرح اور صرف دوست ہی بن کر اسے مشورہ دے رہا تھا۔ جواد کے خاندان کو وہ بھی شیردل کی طرح اچھی طرح جانتا تھا۔
”میں تمہارے ساتھ ہوں… پوری کوشش کروں گا کہ کہیں بھی تمہارے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو کم از کم پروفیشنلی لیکن عکس یہ پاکستان ہے… یہاں ایک عورت کو دھمکانے اور تنگ کرنے کے لیے بہت سے طریقے اور حربے ہیں۔ ابھی انکوائری اورشوکاز نوٹس اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے ہے۔ کل کو تمہاری character assasination بھی کی جا سکتی ہے یا کروائی جا سکتی ہے۔ عورت کی سب سے بڑی کمزوری ہمارے جیسے ملک میں اس کا عورت ہونا ہے اور مرد کی سب سے بڑی طاقت اس کا مرد ہونا… یہ پیدائشی تفریق اور امتیاز ہے جو یہ معاشرہ کرتا ہے اورکرتا رہے گا۔ یہ تعلیم، کیریئر اور باقی ساری چیزیں مل کر بھی اس بیلنس آف پاور (طاقت کے توازن) کو عورت کے حق میں تبدیل نہیں کروا سکتیں… تو انکل خیردین کو کوئی ایسا کام مت کرنے دو جس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے۔ وہ انکل خیردین کو کچھ نہیں کہیں گے، وہ جو بھی کہیں گے تمہیں کہیں گے۔ تمہیں پہنچنے والا نقصان تمہارے نانا کے پیر اکھاڑنے اور انہیں پچھاڑنے کے لیے کافی ہو گا… اور میں تمہیں نقصان پہنچتے نہیں دیکھ سکتا۔” وہ خاموش بیٹھی بڑی سنجیدگی اور غور سے غنی حمید کی ایک ایک بات سنتی رہی اور اس نے اعتراف کیا کہ اس نے غنی کو underestimate کیا تھا۔ وہ شیردل سے کدورت اور تعصب رکھنے کے باوجود اس معاملے پر بہت حقیقت پسند ہو کر اسے اپنی رائے دے رہا تھا۔
”غنی، جواد سے میری منگنی ختم ہو چکی ہے۔” اس نے اس کی اس گفتگو کے جواب میں کہا۔ وہ کچھ دیر کے لیے بھونچکا رہ گیا۔
”کب؟… کیوں؟”
”آٹھ دس دن پہلے۔ اس کی فیملی کچھ ناخوش تھی اس رشتے سے۔” اس نے شیردل کے حوالے سے جواد کے الزامات غنی سے شیئر نہیں کیے۔
”اس کی فیملی ناخوش تھی تو یہ مسئلہ تو رشتہ ہونے سے پہلے اٹھنا چاہیے تھا۔ اب شای کی تاریخ طے ہونے کے بعد۔” وہ یک دم سے بے حد خفا ہو گیا۔ ”میں اپنے کچھ رشتہ داروں کے ذریعے ان کو اپروچ کرتا ہوں۔ ہمارے کچھ رشتے دار ان کے قریبی فیملی فرینڈز میں سے ہیں۔”
”نہیں غنی، میں اب اس رشتے کو دوبارہ جوڑنا نہیں چاہتی جو بھی ہوا اچھا ہوا اور ٹھیک وقت پر ہو گیا اور مجھے کوئی افسوس نہیں ہے اس حوالے سے۔” اس نے غنی کو روک دیا۔ وہ واقعی نہیں چاہتی تھی کہ غنی اس کے اورجواد کے درمیان کسی بیچ اپ کی کوشش کرے اور اسے جواد سے یا اس کی فیملی سے عکس اور شیردل کے افیئر کے حوالے سے منزہ کے الزامات کے بارے میں پتا چلے۔ جواد وہ رشتہ ختم نہ بھی کرتا تو جو کچھ اس نے جواد کے منہ سے اپنے اور شیردل کے حوالے سے سنا تھا، اس کے بعد وہ کبھی اس کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش مند نہ ہوتی۔ وہ ایک تنگ نظر سوچ اور ذہنیت کے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے شادی نہیں کر سکتی تھی۔ ایشو صرف شیردل کا نہیں تھا، ایشو کسی بھی مرد کا ہو سکتا تھا۔ سو اس نے اگر یک طرفہ الزامات پر اسے صفائی کا موقع دیئے بغیر اس پر فرد جرم لگا دی تھی تو یہ سب کچھ دوبارہ بھی ہو سکتا تھا۔ بار بار ہو سکتا تھا خاص طور پر اس لیے کہ وہ ورکنگ وومن تھی اورایک ایسے کیریئر میں تھی جس میں مردوں سے میل جول اس کا روزمرہ کا معمول تھا… اور خاص طور پر اس لیے بھی کہ جواد کی خواہش تھی وہ اپنی جاب کو شادی کے بعد بھی جاری رکھے۔ وہ زندگی میں بہت سے جھمیلوں سے نبردآزما رہی تھی لیکن وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ جانتے بوجھتے صرف شادی شدہ کا لیبل لگوانے کے لیے کسی جہنم میں نہیں کود سکتی تھی۔




Loading

Read Previous

جواز — امایہ خان

Read Next

خواب زادی — ابنِ عبداللہ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!