”تم ٹھیک سے کھانا کیوں نہیں کھا رہیں سندھیا؟” وہ اسے آخری بار باہر ڈنر پر لایا تھا۔
”میں نے کھا لیا ہے۔”
”میں چاہتا ہوں تم خوشی سے واپس جاؤ۔”
ہر کام خوشی سے نہیں ہوسکتا سارنگ۔”
”خوشی سے نہ سہی مگر اطمینان سے ہوسکتا ہے۔”
”اطمینان اگر ہوتا تو ہم آج یہاں نہ ہوتے۔”
”تم اپنے لیے سوچنا وہاں جاکر، میں جلد ہی تمہیں آزاد کردوں گا۔” کہتے ہوئے لہجہ مُرجھایا، مگر سندھیا کو لگا جیسے کہیں آسمان سے بجلی گر گئی ہو دھماکے کے ساتھ۔ اس نے دو تین بار پلکیں جھپکیں اور سارنگ کو دیکھا۔ بے یقینی کو یقین دینا بہت دشوار ہوتا ہے اور میں ایک خوش فہمی لے کر بیٹھی تھی کہ سارنگ مجھے روک لے گا۔ سارنگ کو میری پر وا ہوگی، گھر والوں کی ہوگی۔
دو مختلف لوگ مختلف طرح سے سوچتے تھے بلکہ سوچ رہے تھے۔ کسی بھی مرد کے لیے مشکل ہوتا ہے وہ اپنی منکوحہ سے کہے کہ میں تمہیں آزاد کردوں گا اور اس کے بعد تم اپنے لیے سوچنا۔ چاہے اسے وہ محبت دے پائے اور نہ لے پائے۔اس کے باوجود بھی، یہ سب کہنے کے لیے ایک طرح کی ہمت چاہیے ہوتی ہے جو اس کے پاس تھی نہیں۔ بڑی مشکل سے اکٹھی کی تھی۔
”تم کسی اور کو تو پسند، میرا مطلب ہے سوچتا تو ہر کوئی ہے۔” وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”آپ پسند کرتے ہیں، آپ کرلیجیے گا شادی۔”
”میں آپ کی زندگی سے نکل جاؤں گی، لوٹ کر نہیں آؤں گی سارنگ۔ مگر، مگر میرے گھر والے، ان کی عزت ان کی انا میرے لیے حیثیت رکھتی ہے۔ مجھے ان کو دکھ نہیں دینا۔ آپ نے یہ کہنے سے پہلے کاش ایک بار سوچ لیا ہوتا، سوچا ہوتا تو کہتے نہیں۔ نام چھین لینے سے آپ کو فرق نہیں پڑے گا۔ میرے پیروں سے زمین نکل جائے گی۔” اور کیا کہتی کہ پیروں سے تو زمین کھسکا دی ہے تم نے، اب کیا بچا کہنے کو۔
وہ شرمندہ شرمندہ سا اُٹھا۔ گھر تک خاموشی رہی بلکہ گھر کے بعد بھی۔
اتنے دنوں سے جو اپنا تکیہ لے کر کمرے سے باہر نکل جاتا تھا، آج یہ کام سندھیا نے کیا تھا وہ اپنا تکیہ لے کر کمرے سے نکل گئی اور باہر سٹنگ ایریا میں سو گئی۔
وہ ساری رات سوچتا رہا کہ میں نے کیا کہہ دیا؟ کیا مجھے یہ کہنا چاہیے تھا؟ اسے دکھ ہوا ہوگااور وہ سوچتی رہی کہ یہ تو نے کیسے کہہ دیا سارنگ۔اتنی سنگ دلی، اتنا کٹھور پن۔
تم بدل جاتے مگر اتنے نہ بدلتے سارنگ۔ ایک تھا بچپن والا کھیلتا کودتا سارنگ،اس کے اور سوہائی کے ساتھ پکڑم پکڑائی کھیلتا۔ پیچھے بھاگتا، ڈھونڈ نکالتا سندھیا کو۔میںنے پکڑ لیاسندھیا کو،میںنے پکڑلیا۔تم مجھ سے بھاگ کر کہاں جاؤ گی میں تمہیں پکڑ لوں گا ہر جگہ سے اور وہ واقعی اسے پکڑ لیتا تھا۔
گلی میں کوئی سندھیا یا سوہائی سے لڑتا وہ یک دم پہنچ جاتا ہر وقت دیوار بن جاتا اس کے لیے۔
اسکول جانے لگا تو چیزیں لاتا۔ آدھی کھا لیتا آدھی اس کے لیے بچا لیتا۔
مولا بخش جب اسے پیسے دیتا تو ہر روز کی پاکٹ منی سے سندھیا کے لیے کچھ نہ کچھ بچا لیتا تھا۔ واپسی پر چیزیں لاتا۔ اس کی فرمائش پوری کرتا۔ اس سے پوچھ کر جاتا اسکول کی باتیں بتاتا۔ اسے کہانیاں پڑھ کر سناتا کالج جانے لگا تو بھی ایسا ہی ہوا۔
واپسی پر وہی ڈھیروں ڈھیر باتیں، رنگین ٹافیاں، بسکٹ چیزیں اور کتابیں لاتا۔
پاس بٹھا کر پہلے الف ب کا قاعدہ پڑھاتا اب کہتا اردو کے ہجے کرکے بتاؤ۔
اسے اردو پڑھنا سارنگ نے سکھائی۔ پھر وہ مہینوں کے بعد آتا۔ اس کے کئی لاڈ اٹھائے جاتے۔ وہ جلتی بجھتی چڑھ دوڑتی ماں پر، مگر دل سے اسے بھی سارنگ کا انتظار ہوتا۔
پہلے سارنگ دوست، پھر سارنگ ادا سمجھنے لگی۔ایک دم سے قیامت آگئی اور رشتہ بدل گیا۔
بھائی تو بس وہی ہوتا ہے جو اصل دودھ شریک ماں جایا ہو۔جسے اللہ زمین پر ایک بھائی بنا کر بھیجتا ہے، وہی آپ کا سگا بھائی ہوتا ہے۔ ماں نے سمجھایا، ابا کیا گیا دنیا سے کہ زندگی ڈھے گئی۔ ایک نیا معرکہ سر آیا۔ تب بھی وہ آگے بڑھا، لاکھ بدل گیا۔ لاکھ اجنبی لگا۔ لاکھ بیچ میں فاصلہ۔
وہ آگے بڑھا، پیش ہوگیا، اسے تحفظ دے دیا،اپنے نکاح میں لے لیا۔
وہ جو بچپن میں کہا کرتا تھا، سندھو اگر تجھ سے کوئی لڑے گا تو میں اس سے لڑوں گا۔
تجھے کوئی کچھ کہے گا میں اس سے بات کروں گا۔
کوئی مارے گا تو اُسے ماروں گا۔ جان نکال دوں گا۔
تجھے کوئی نہیں مار سکتا۔ میں جو ہوں، سارنگ۔
یہ وہی سارنگ تھا۔ جانتی تھی کہ اس نکاح سے وہ خوش نہیں ہے۔
جانتی تھی کہ وہ سب سے بڑی قربانی دے رہا ہے اپنی محبت کی مگر کس کی خاطر؟ مولابخش کی خاطر اور مولا بخش کی سندھیا کی خاطر۔اور آج وہی تھا جس نے کہہ دیا میں تجھے آزاد کردوں گا۔
کہنا چاہتی تھی لوگ مجھے طعنے دیں گے۔تجھے کیا اپنا وعدہ بھول گیا کہ تیری خاطر لڑوں گا۔ مجھ پر باتیں بنیں گی۔ تو نے جو کہا تھا کہ کوئی بولے گا تو میں تیرے لیے بات کروں گا۔ دنیا میری بدنصیبی کا تماشا کرے گی، تم دیکھو گے۔
میں وہی سندھیا ہوں، تمہاری چچا زاد۔ ہم ایک ہی گھر میں پلے بڑھے ہیں۔ میں وہی ہوں۔تم ایک بار کہہ دیتے سندھیا میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، میں کروا دیتی۔ اگر کروانے کا ظرف نہ رکھتی تو چلی جاتی، تیری خوشی کے لیے اتنا تو کر ہی سکتی تھی اور کررہی تھی، میں تو جارہی تھی سارنگ۔
میں تو تجھے آزاد کررہی تھی اپنی ذمہ داری سے۔ مگر تم تو مجھے یہ نہ کہتے کہ میں تمہیں آزاد کردوں گا۔ایک چھوٹی سی خوش فہمی میں اپنے ساتھ لے کر جاتی ۔کوئی چھوٹا سا احساس ساتھ ہوتا کہ تم نے نہیں نکالا، میں خود چلی آئی۔
تو نے تو روکا تھا، میں نے تجھے تیرے لیے چھوڑ دیا۔ کوئی چھوٹا سا بھرم رہنے دیتے۔
چھت چھِن جاتی، آسمان نہ چھنتا۔
چھت چھِن جانے کے بعد، بندہ دوسری چھت ڈال لے یا مکان بد لے۔
آسمان چھِن جائے تو بندہ کُھلی دھرتی پر کیا کرے۔
٭…٭…٭