صُبح سندھیا نے گھر فون کرکے بتا دیا کہ وہ آرہی ہے۔
گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
جیجی نے کہا: ”میں نہ کہتی تھی کہ خواب سے اچھی امید رکھ، اب دیکھ اچھی خبر مل گئی نا۔”
”وہ تو ٹھیک ہے جیجی ماں پر سارنگ کیوں نہیں آرہا سندھیا کے ساتھ۔”
”سارنگ بھی آئے گا تجھے خبر ہے کہ اسے کتنے کام ہیں وہاں پر۔ اب سندھیا کو بھیج رہا ہے تو خوش ہوجا اس سے اور اسے بھی خوش رہنا سکھا دے۔”
فون کیا سارنگ کو اور کہہ دیا کہ سندھیا کو لمبے عرصے کے لیے بھیجنا،تقریباً چار چھے ماہ تو رہے وہ اپنے گھر۔ سارنگ بڑی آسانی سے مان گیا، وہ پہلے تو خوش ہوئی پھر خدشے میں پڑ گئی۔ ایک بار بھی نہ کہا کہ نہیں سندھیا کو لمبے عرصے کے لیے نہیں بھیج سکتا میں، مشکل ہے ادھر میرا گزارا نہیں ہوگا۔ بیوی کے بغیر گھر سونا ہوجاتا ہے، کون سنبھالے گا۔ پھر سوچنے لگی مجھے جو منع کرتا تو بھی برُا لگتا۔مروت میں آگیاہوگا۔ چل سندھو سے پوچھوں اس کی کیا مرضی ہے۔
”تو بتا سندھو کتنے دنوں کے لیے آرہی ہے تو؟”
”مجھے نہیں معلوم اماں، جب تک دل لگا رہوں گی۔”
”واہ سندھو واہ! کیا اپنے گھر میں بھی تیرا دل نہیں لگے گا؟ تجھے لگانا پڑے گا دل حد ہوگئی۔”
جیجی نے پیچھے سے جھڑکا۔” بچی کو نہ پریشان کر۔ جتنے دن کے لیے آرہی ہے، آنے دے۔ بعد کی بعد میں دیکھ لینا۔”
سوہائی نے فرمائشوں کی لمبی لسٹ بھیج دی۔کہنے لگی اداسارنگ کو کہنا کہ لے آئیں۔ سندھیا ہنس پڑی اس کے بھول پن پر اور کہنے لگی اچھا میں لادوں گی۔ ”تو لے آئے گی؟ تجھے ڈر نہیں لگے گا شیشے کی دکانوں میںجاکر؟ پرائے مردوں سے بات کرلے گی تو؟”
”سو ہائی تم بھی بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہو۔ شیشے کی دکانیں اور پرائے مرد۔” اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔
”اچھا تو بتا اداسارنگ اداس نہیں ہوں گے تیرے بغیر؟”
”یہ تو اپنے اداسارنگ سے ہی پوچھنا، میں فون رکھتی ہوں ابھی بہت سے کام پڑے ہیں۔”
”تو کون سا کاروبار کرنے لگی ہے وہاں بیٹھ کر، پوری انگریزنی ہی بن گئی ہے، ہر وقت کام ہی کام ہیں۔ تیرے کام کم ہونے میں نہیں آتے۔”
بھول پن اور معصومیت کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔ ”انگریز کوئی ہم سے اتنے الگ بھی نہیں ہوتے سوہائی۔ وہ بھی وچارے انسان ہی ہوتے ہیں۔”
سوہائی کی باتیں سننے کے بعد اس کا دل ہلکا ہوجاتا تھا۔ ”چل ہوسکتا ہے ایسا ہو تیرے نکلنے کے بعد ادا سارنگ تجھے یاد کرتے ہوئے یہاں پہنچ جائیں۔”
”کتنی خوش فہمی ہے تجھے سوہائی اپنے ادا سارنگ سے۔ اتنے بھی سیدھے نہیں ہیں وہ اچھا۔”
”اچھا اچھا رہنے دے زیادہ برائی نہ کر میرے بھاکی۔” فون رکھ دیا مگر بتا نہیں سکی کہ کیوں آرہی ہے اور کس لیے آرہی ہے۔
یہ طویل مدت کہیں ہمیشہ پر نہ محیط ہوجائے۔ تعلق کی ڈور اس قدر سستی، غیر اہم سی کب ہوتی ہے۔
سارنگ بھی چپ تھا، اپنے آپ میں کھویا ہوا۔وہ خاموشی سے تیاری کررہی تھی۔ اور وہ چُپ چاپ دیکھ رہا تھا۔باہر گہری چپ تھی مگر دونوں کے اندر ہی بہت کچھ بکھر گیا تھا۔
٭…٭…٭