یقین کے ساتھ رشتہ رکھنے والی ہر بات دل پر جاکر لگتی تھی اور دل کو دھو دیتی تھی۔ اس رات اس نے شیبا کو ڈنر پر باہر بلایا تھا۔ وہ تھکی نظر آرہی تھی مگر اس کی آنکھوں سے شکوے برس رہے تھے۔ وہ آنکھیں چُرا گیا۔
کھانا عجیب بوجھل پن سے کھایا۔ سب باہر کافی پینے آگئے اپنے اپنے کپ لے کر۔
”اتنے چپ کیوں ہو؟”
”تم بھی تو چپ ہو۔”
”میں پریشان ہوں۔”
”کیوں پریشان ہو؟” کہنا تو چاہتی تھی کہ میں بھی پریشان ہوں۔ ”تم بھی تو لگ رہی ہو۔”
”پہلے اپنی بتاؤ، کیا بات ہے؟”
”شیبا! زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے مگر وہ ہوجاتا ہے۔” وہ سانس لینے کو رُکا۔” مجھے بچوں کی طرح مت بہلاؤ سارنگ۔”
”ٹو دی پوائنٹ بات کرو۔” وہی خود پر پہرے بٹھانے والی عادت، بڑی ہی پرانی عادت۔
”سندھیا جارہی ہے شیبا۔”
”کہاں؟” وہ چونکی۔
”پاکستان۔”
”کیوں؟” وہ حیرانی سے دیکھنے لگی۔
”مجھے نہیں معلوم۔ شاید میری وجہ سے۔”
”تمہاری وجہ سے کیوں؟”
”یہ بھی مجھے نہیں پتا۔” وہ خود اس سے سننا چاہتا تھا کہ وہ کہے۔ وہ کہے کہ سارنگ تمہاری وجہ میں ہوں مگر اسے پتا تھا وہ نہیں کہے گی اس وقت۔ ”کب تک کے لیے جارہی ہے؟”
”پتا نہیں۔ بس اس نے جانے کی بات کی ہے۔”
”تم نے وجہ نہیں پوچھی؟”
”نہیں پوچھی۔ کیوں پوچھنا چاہیے تھی؟”
”ظاہر ہے بیوی ہے تمہاری۔”
”بیوی ہے، مگر۔”
”مگر کیا؟ اگر مگر کے سوال بہت ہی مشکل ہوتے ہیں۔”
”مگر یہ کہ صرف بیوی ہے۔”
”اور کیا بنانا چاہتے ہو اسے بیوی کے سوا؟” سوال تیکھے لہجے میں کہا گیا۔
”یہ بھی نہیں جانتا۔”
”وہ تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی؟”
”اس نے بس جانے کی بات کی ہے۔”
”جب کوئی آپ کی زندگی سے جانے کی بات کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ وہ آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا۔”
”ٹھیک کہتی ہو۔”
”شیبا! ایک بات پوچھوں؟”
”پوچھو۔”اس کا دل دھڑک کر رہ گیا۔
”کیا اسے مجھ سے محبت نہیں ہے؟” کہنا تو یہی چاہتا تھا کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے؟
شیبا کو مایوسی ہوئی تھی اس کے جواب سے۔”یہ تم اسی سے پوچھو سارنگ جو تمہاری زندگی سے نکلنے کا کہہ رہی ہے۔ کیا محبت میں کوئی چھوڑ سکتا ہے؟”
”نہیں چھوڑ سکتا کیا؟” وہ معصوم سا بن رہا تھا۔ ”مجھے کیا معلوم یہ تم خود سے پوچھو۔”
”کیوں کیا کبھی تم نے محبت نہیں کی کسی سے؟”
”کی ہے۔”
”کس سے؟” دل دھڑکا زور سے۔
”کسی سے کی ہے۔” ”کسی” کہتے وقت اُس کا لہجہ مدھم تھا۔
”جس کسی”سے کی ہے ”وہ کسی” بہت خوش نصیب ہوگا۔”
”اس کا نام”کسی” نہیں ہے۔” مسکراہٹ آپ ہی آپ پھیلتی جارہی تھی ہونٹوں پر۔
”اگر نام کسی نہیں تو؟ پھر اس کا کیا نام ہے؟” وہ مسکرایا تھا۔
”نام بتانا ضروری نہیں ہے۔” اس نے جان چھڑائی۔
”چلو مجھے مت بتاؤ مگر اسے بتا دینا۔”
”وقت آنے پر بتا دوں گی سارنگ۔”
نام لیتے ہی گھنٹی بجتی تھی،ایک طرف سماعت کی دوسری جانب دل کی۔
”چلو یہ اچھی رہی،میں انتظار کروں گا۔”
”تم مجھے بھی بتانا وہ کون ہے۔ ضرور ملوں گا۔”
”مل کر مایوس ہوئے تو؟”
”تو بھی تمہیں نہیں کہوں گا کہ مایوس ہوا ہوں۔”
”باتوں کے جادوگر ہو۔” وہ ہنس پڑی۔
”اپنے چاچے پر گیا ہوں۔” بے ساختہ کہہ گیا۔
”جس کی بیٹی سندھیا ہے؟”بے ساختہ ہی پوچھا۔
”ہاں جس کی بیٹی سندھیا ہے۔” یہ یاد آتے ہی بیڑیاں لگنے لگیں جیسے،چاچا کے نام کا بھرم۔
”سندھیا اچھی لڑکی ہے سارنگ۔”
”چاچا بھی بہت اچھا تھا شیبا۔”
”ضرور ہوگا۔ دیکھو سارنگ سٹریس مت لینا۔”
”وہ چاہتی ہے، اگر وہ خود سے جانا چاہتی ہے تو اسے بھیج دو۔”
”اسے روک کب رہا ہوں میں شیبا۔”
”اسے روکنا مت سارنگ، کیا فائدہ ایسی بات سے جب،جب روکنا بے کار جائے تو۔”
”ٹھیک کہتی ہو۔”
”اب اپنا موڈ تو ٹھیک کرو۔”
”موڈ ٹھیک ہے یار۔ بس گوٹھ والوں کی فکر ہے کیا سوچیں گے جب وہ جائے گی تو۔”
”یہ اس کا مسئلہ ہے اسے ہینڈل کرنے دو، بچی نہیں ہے۔” شیبا ایک دم سے اپنا سخت لہجہ بھانپ گئی۔ محبت بھی کیا چیز ہے۔طلب میں مطلب لے آتی ہے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کیا شے ہے جو محبت میں مطلب لاتی تھی۔ سب جانتی تھی بس یہ نہیں پتا تھا کہ محبت اور مطلب کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں، طلب اور مطلب میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے اگر وہ مٹ جائے تو محبت سراسر مطلب بن جاتی ہے۔ طلب مطلب میں ڈھل جائے تو پھر محبت محبت نہیں رہتی، شرط بن جاتی ہے۔
٭…٭…٭