شریکِ حیات قسط ۸

جیجی تہجد کے لیے اٹھی تھیں، سبھاگی کو جاگتا ہوا دیکھ کر گھبرا گئیں۔وہ جو فجر کو بہ مشکل اٹھتی تھی، سردی کی میٹھی نیند چھوڑ کر اٹھ گئی تھی۔

”خیر ہے سبھاگی؟”

”ہاں جیجی ماں۔ آپ اتنی رات کو کیوں اٹھتی ہیں؟بیمارپڑجائیں گی، ٹھنڈے پانی سے وضو کررہی ہیں باہر جاکر۔” ہینڈ پمپ کے ساتھ کھڑا دیکھ کر انہیں وہ برآمدے میں نکل آئی۔

”بیماری تو ہڈیوں میں بیٹھ گئی ہے سبھاگی، خدا کے ذکر سے مگر وہ بھی ڈرتی ہے۔یقین باندھ کر اٹھو تو یہ دبک کر کہیں بیٹھ جاتی ہے اک کونے میں۔ ایک ہم اللہ سے نہیں ڈرتے، اس کے لیے اٹھتے ہی نہیں نہ جاگتے ہیں۔ سوچا آنکھ کھلی ہے تو اُٹھ جاؤں آنکھوں سے تو یک واری سو ہی جانا ہے پر جب تک جاگی ہیں رب سوہنڑے کی سلامی بھر لیں۔”

”پر تو بتا۔ تجھ پر خیر بیتی آج؟”

”ہاں جیجی ماں خیر تو ہے ،پر کیا بتاؤں بہت برا خواب دیکھا ہے، دیکھتی ہوں کہ سندھیا فکر مند ہے۔” 

”دیکھ سبھاگی! میری بات سن!خوابوں کی تعبیر خود سے نہ نکالنے بیٹھ جایا کر بے وقوف۔ خواب سے اچھی توقع رکھ۔”

”برا دیکھ تو بھلا سمجھ، خود ہی اچھی تعبیر بدل کہ اللہ کی تقدیر سے کیسے برُے گمان جوڑ دیتی ہے سبھاگی۔جو شے اللہ سے جڑی ہے وہ اچھی ہے وہ بری ہوہی نہیں ہوسکتی۔”

”خواب کو خواب سمجھ کر بھلا دے، سچ سمجھ کر نہ جھٹلا ورنہ خواب طاقت پکڑ لیتا ہے۔ اسے اللہ پر چھوڑ خواب بھی اس کا کہا مانتا ہے تو تعبیر بھی۔ تو بھی ایسی فکریں پالتی ہے، چری ہے بالکل۔”

”جیجی اللہ کرے ایسا ہی ہو، جیسا آپ نے کہا۔”

” چل تو جاگی ہے تو تہجد پڑھ لے، دل میں سکون آجائے گا۔دل کو قرار آئے تو سمجھ آدھی بات بن گئی ہے۔” جا نماز تخت کی طرف بڑھیں۔ وہ اٹھی اور وضو کرنے باہر نکل گئی۔

ٹینکی کا پانی تو سردی کا گولہ بن جاتا ہے مگر ہینڈ پمپ سے نکلتا ہوا زمینی پانی سخت سردی میں تازہ تازہ تھوڑی سی گرمائش لیے ہوتا ہے اور تیز گرمی میں ٹھنڈا نکلتا ہے۔

اللہ کا قانون ہے، پانی بھی وہی کرتا ہے، جو حکم اسے ملتا ہے۔ جیجی کی بات دل کو لگتی تھی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!