سندھیا اپنے ماضی کے بارے میں سوچتی رہی۔
تو کیسا سارنگ ہے، جو بہار کو خزاں میں بدل دیتا ہے۔
تو کیسا سارنگ ہے، جو دلوں کو بدحالی پر چھوڑ دیتا ہے۔
اگرتو واقعی سارنگ ہے، تو پھر تو میرا سارنگ تو نہ ہوا۔ تو سندھیا کا سارنگ تو نہ ہوا۔ تو توسارنگ ہی نہ ہوا، ہوا تو بس نام کا سارنگ ہوا۔ کام کا سارنگ نہ ہوا۔
سنگ دل، بے پرواہ، اپنی زندگی جینے والا اور خود میں رہنے والا۔
تو سارنگ ہوا نہ ساجن ہوا۔ہوا تو میرا نہ ہوا۔
یہ میرا سارنگ نہیں ہے۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ وہ میرا سارنگ نہیں ہے۔ اسے پتا نہ تھا تخت کیسے اُلٹتا ہے، اب چلا تھا کہ بازی کیسے پلٹتی ہے۔
کھیل کیسے بدلتا ہے، یہ سب قسمت بتاتی ہے ابھی تو بس وہ یہ کہتے ہوئے رو دی کہ وہ میرا سارنگ نہیں ہے۔ یہ سارنگ میرا نہیں ہے، سندھیا کا سارنگ نہیں ہے۔ ایک نئی تاریخ بننے جارہی تھی اور وہ یہ تھی کہ سارنگ سندھیا کا نہیں ہے۔
تو جو کہتی تھی کہ سارنگ اور سندھو ملنے کے لیے نہیں بنے، تو جو کہتی تھی کہ سارنگ سندھو سے وچھڑ جاتا ہے، تو جو کہتی تھی کہ فاصلہ تو صدیوں کا ہوتا ہے۔ بیچ میں پردیس آجاتا ہے۔ سمندر آجاتا ہے۔
میرے پاس تو سوہنی کا گھڑا نہیں ہے۔
میرے پاس تو سوہنی جیسی ہمت بھی نہیں ہے۔
میرے پاس مہینوال کی چاہ نہیں ہے۔
میرے پاس بس دل ہے، سوہنی جیسا دل۔
میرے پاس کچھ نہیں ہے سوہائی۔میرے پاس کچھ نہیں۔ تو جو کہتی تھی کہ سندھیا تو تو سوہنی کی طرح پردیس پار کرگئی۔ جاپہنچی سارنگ کے پاس، جیسے سوہنی مہینوال کے پاس۔
جیسے پنوں سسی کے پاس،جیسے لیلیٰ مجنوں کے پاس۔
تو تیرے سارنگ کے پاس، مطلب سندھو اور سارنگ کا ساتھ۔
مگر نہ سندھو نہ میں پہنچی، میں نے تو مفت میں پردیس پار کیا۔ میرا سفر تو رائیگاں گیا۔
ضائع گیا۔
میں تو امریکن بننے نہ آئی تھی، میں تو بس سارنگ کے پاس آئی تھی۔
ماں نے کہا سندھو کہیں امریکن نہ بن جانا۔ ماں کی بات تو سمجھتی تھی۔
پر سوہائی میں تجھے کیا بتاؤں،میں گھر کے ہر فرد کو کیا بتاؤں۔
میرے پاس بتانے کے لیے جو کچھ نہیں ہے میں نے کہا بس جانا ہے،کہنے لگا جا۔
میں تو معجزوں کے انتظار میں بے کار سی آس لگائے بیٹھی تھی سوہائی۔ اب میں تجھے کیا بتاؤں اتنی ہمت کہاں سے لاؤں کہ یہ خط پوسٹ کردوں اور گھر والوں کو بتا دوں کہ آپ کی سندھیا واپس آرہی ہے۔ واپس آرہی ہے سارا کچھ چھوڑ چھاڑ کر۔
ڈرتی ہوں سوہائی،گھر والوں نے پوچھا تو کیا کہوں گی؟ بس اتنا کہ میں نے کہا واپس جانا ہے۔
اس نے کہا کہ ہاں۔
قصہ ہی مختصر اور اس کے آگے پیچھے کی کیا کہانی ہے کسے بتاؤں؟ بتانے کے لیے نہ لفظ ہیں نہ ہمت ابا ہوتا توکہنا نہ پڑتا۔ ہک واری میں آواز سن لیتا۔ کہتا سندھو سامان باندھ اور آجا۔
ان باپوں میں سے نہ تھا جو کہتے ہیں جی یامر پر وہیں مر مگر یہاں مت آ۔
کہتا سندھو! تو بس رویا نہ کر۔اُداس نہ ہوا کر، یہ نہ سمجھا کر تو اکیلی ہے بس یہ دلاسہ بڑا کہ ابا ہے۔
ابا کے ہونے سے آسرا ہے اور اگر ابا نہیں تو آسرا نہیں۔
ابا اور آسرا، آسرا اور ابا۔
حیسے حیاتی، جیسے دنیا۔
ایک ابا کے ہونے سے کیا کچھ نہیں ہوتا۔
اور ایک ابا کے نہ ہونے سے کچھ بھی نہیں ہوتا دھرتی بنجر لگتی ہے اور آسمان خالی۔
٭…٭…٭