سردیوں نے شام چڑھائی ہوئی تھی اور ہر جگہ کہرا تھا۔ کھیتوں سے بھاپ اڑتی تھی، ٹھنڈی ٹھار ہوا کے جھونکوں سے درخت کے پتے بھی سر سراتے تھے۔
آسمان پر تارے بھی جمائیاں لیے نظر آتے تھے۔ ٹھنڈ نے ہر چیز کو اپنے حصار میں لے لینا تھا۔ جُھگیوں کے اندر ٹمٹماتی روشنی مدھم تھی، مزدور دن کی تھکن سے بے حال بے سدھ پڑے سورہے تھے، بچوں کے کھانسنے کی تکلیف نے ماؤں کی نیندیں اڑائی ہوئیں تھیں۔
کھیتوں کے پاس ہوشو چاچا کے گانے کی آواز آرہی تھی جس نے آگ دہکائی تھی۔
ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑوں سے چہرہ ڈھانپے اجرک کے رومال سے، حسن بخش چھکڑ چھک چلتے تانگے میں بیٹھا کچے کی سڑک سے گزرا تو تانگے بان کو اشارہ کیا، اس نے تانگہ روکا تھا۔
اور مانجھی کو دھواں دہکاتے دیکھ کر کھانسی کا وہ دورہ پڑا کہ مانو پھیپھڑے منہ کو آجائیں گے۔
ہمت ہوئی تو اسے جھڑک دیا۔
”سائیں ابھی وساتا ہوں، سردیوں کے مچھروں کو بھگارہا تھا بابلہ۔سردیوں کے مچھر جاکے کونوں کھدروں میں چُھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔”
”تو بھی جاکے بیٹھ جا اپنے گھر، سکھ کا ساہ لے۔”
”بابل سائیں آپ اس وقت کدھر کو جارہے ہیں؟” دھویں کی لکڑیاں منتشر کرکے پانی کی بوتل چھڑکی تو آگ سرد ہوگئی، سردیوں کی آگ تھی جلد ہی بجھ جاتی تھی۔ وہ آگ اچھی جو پانی ڈالنے سے بجھ جائے۔ ہلکا ہلکا دھواں سا پھیل کر منتشر ہوگیا۔
”مولا بخش سے ملنے جارہا ہوں مانجھی۔”
”سائیں بابواس وقت؟”
”ہا مانجھی بھا! اس وقت یاد آرہا ہے تو سوچا یار کی سلامی لے لوں۔”
”اوہ سائیں، مولا بخش کو سونے دے۔ آرام کرنے دے۔ بڑے کام کرکے گیا ہے، تھکا ہوا ہوگا، ابھی تو اس کی تھکن بھی نہ اُتری ہوگی بابلہ، تو ہر روز چل دیتا ہے۔اسے اپنی دنیا بسانے دے، پردیس کی دنیا سائیں بابا۔”
”کہہ تو ٹھیک رہا ہے مانجھی۔ پر کیا کروں، دل کو سکون نہیں ہے۔ مٹی کے ڈھیر کے اندر میرا یار سویا ہے، مٹی سے ماں جیسا رشتہ تو پہلے ہی سے تھا، اب دُگنا ہوگیا ہے۔”
”اوبابل سائیں، موت بھی کیا شے ہے۔بندے کو بندہ نہیں رہنے دیتی،ایک مٹی کے اندر، ایک مٹی سے باہر۔ جابابل سائیں جا، پر جلدی لوٹ آنا۔”
”قبرستان کے اندر راج سویا ہے، بھاگ سویا ہے۔ لوگ سوئے ہیں۔ کہیںکوئی میری دخل اندازی سے بے زار نہ آجائے۔ ہفتے کے ہفتے جاتا ہوں۔”
”چل مموتانگہ چلا۔” تانگے بان نے لگام کوڑا مارا۔ گھوڑا ہنہنایا۔
چھکڑ چھکڑ تانگے کے وہیل چلنے لگے۔کھیتوں کے بوٹے سرسراتے ایک دوسرے میں چھپے جارہے تھے۔
قبرستان میں ایک قبر کے سرہانے رکھا دیا بُجھ کر سرد ہوچکا تھا، خاموشی بولتی تھی۔
تانگے بان نے تانگہ روکا، یہ صبح کے قریب کا وقت تھا۔مٹی کے ڈھیر کے پاس بیٹھ کر اور کچھ تو نہ آیا۔ بس ہوکا ذکر چھیڑ دیا۔ جیجی کہتی تھیں، قبرستانوں میں اپنوں کے پاس جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو،رونے کا دل کرے تو رودو، مگر یہ نہ کہو کہ تو ہم سے دور کیوں ہوا، شکوہ نہ کرو۔اللہ کا شکر ادا کرواور کہہ آؤ مٹی کے ڈھیر سے کہ تو میرا تھا، تو میرا ہے، میں تیرا ہوں۔ ہم میں کوئی جدائی نہیں۔ ہم ایک ساتھ رہے ہیں، بس مکان بدلے ہیں۔ تجھ سے زیادہ تنہا تو مٹی کے اندر رہنے والا ہوتا ہے جس کے کندھوں پر تو اپنے دکھ کے بوجھ ڈال کر خود ہلکا ہوجاتا ہے، یہ نہیں سوچتا کہ تو تو بہل جائے گا اسے دکھی کرآئے گا۔
میرے مولا بخش کے پاس جاکر نہ کوئی روئے نہ یہ کہے کہ تو چھوڑ گیا۔ بے وفا نکلا۔
اسے کہہ تو اللہ کے پاس پہنچ گیا۔ بھلا چنگا ہوگیا تیرے تو دکھڑے دھل گئے۔غم ختم ہو گئے۔
کہتے ہوئے خود رو دیتی تھیں۔ وہ بھی اس لیے نہ رویا، چاہ کر بھی نہ رویا تھا اللہ کا ذکر کرنے لگا تھا۔
ذکر کرتے کرتے آنکھیں بھیگ گئیں۔ دل بھر آیا۔ بندہ بے چارہ، بندہ جو تکبر کرتا ہے وہی بندہ، بندہ جو دھونس سے چلتا ہے۔ وہی بندہ، بندہ جو حکم چلاتا ہے، وہی بندہ۔
جو اپنی منواتا ہے۔ جو سُننا گوارا نہیں کرتا جو دنیا کو بے پناہ چاہتا ہے۔ وہی بندہ۔
جو اتھراہو، بے پروا ہو،مٹی کا پتلا، مٹی کا سنگھار اور مٹی کا سونا۔
اللہ سوہنڑاں تو نے رشتے بنائے جو مٹی بن جاتے ہیں۔ مٹی کے بننے کے بعد بھی کیوں نہیں مٹ جاتے؟ ساتھ ٹوٹ جاتا ہے پر دل نہیں چھوٹتا۔ فاصلہ لمبا ہو جاتا ہے۔ بیچ میں صدیوں کا اور دل اس سے کہیں زیادہ قریب آجاتا ہے۔ وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ جدائی کیا ہوتی ہے۔
جب کوئی گھر بدلتا ہے، شہر بدلتا ہے، دل بدلتا ہے سب کچھ بدل جاتا ہے سارنگ، انسان بدل جاتا ہے اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔اس نے بتانا چاہا تھا۔ دلوں پر قحط اترتا ہے۔ دل کی زمین ویران بنجر ہوجاتی ہے۔
کبھی سونا نہیں اگلتی پھر، چاہے سو سوہل چلیں۔ فصل نہیں پکتی، بیج گل جاتا ہے اور جب بیج گل جائے تو فصل جل جاتی ہے، اس کے دل کی کھیتی بھی جل گئی تھی۔
٭…٭…٭