شریکِ حیات قسط ۸

فرح نے شیبا کو روک دیا تھا۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی کہ اب سارنگ سے ملنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی بیوی ہے اس کے پاس۔ تم نے اس کی ذمہ داری کا ٹھیکا نہیں اُٹھایا۔

وہ مُرجھا سی گئی۔شہاب سمجھ گئے اور پوچھنے لگے۔

وہ چُپ ہوگئی، کیا کہتی۔ کچھ سمجھ ہی نہ آیا تھا۔یہ تو صاف دکھتا تھا کہ ایسی صورت حال، ان حالات میں کوئی بھی امید بے وقوفی ہے۔ وہ خود بھی تو بے وقوفی کرنا نہیں چاہتی تھی۔ بہت مشکل تھا یہ سب۔ مگر ایک انسان، ہاں آخر کار زندگی ہے۔

وہ مصروفیت میں پھر سے خود کو بھولنے لگی، سارنگ ذہن سے مٹتا چلا گیا۔

خود پسندی کی حقیقت اور بزدلی آڑے آتی گئی۔

زندگی بدلتی گئی، زندگی بے رنگ تھی مگر بے مقصد نہ تھی۔ وہ اس میں نئے رنگ بھرنے کی چاہ کیے بغیر، بس رنگ ہی بھرتی گئی۔ مگر اتنا کہ پرانے رنگ ہلکے ہوئے تو ان کو چھوڑتی گئی۔

ذہن کا ایک خالی خانہ ہوتا ہے جس میں ہم فالتو چیزیں پھینکتے جاتے ہیں۔وہ اپنے اسٹور میں یادیں پھینکتی گئی۔وقت لمحوں کو ملا کر پل، پل کو جوڑ کر منٹ، گھنٹوں، ہفتوں اور مہینوں کا کھیل کھیلتا رہا۔

وہ حصّہ لیتی رہی۔

کچھ بہت اہم ہو رہا تھا، جو ماضی بننے جارہا تھا، آخر کوئی مرجاتا ہے اور تب بھی تو ہم اسے بھول جاتے ہیں نا۔

خود ساختہ تسلیوں سے دل بھر لیتا تھا اور پھر نئی منزلوں کی رنگینیوں کی چاہ سے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!