شریکِ حیات قسط ۸

شیبا اس کی رپورٹس کی فائل لے آئی۔

سارنگ کے منہ سے شکوہ نکلا۔ ”بہت دیر بعد آئی ہو۔”

”ہاں۔ بس تمہیں تو پتا ہے، ہسپتال سے واپسی پر انسان کیسے تھک کر نڈھال ہوجاتا ہے۔” وہ پھیکی ہنسی ہنس دیا۔

کہنا چاہتا تھا کہ پہلے بھی ہسپتال تھا، مصروفیت تھی، تب بھی شیبا انسان اپنوں کے لیے تو وقت نکال ہی لیتا ہے۔ 

مگر پھر جب اپنی خوشی کی بات آئی تو یہ سوال پوچھ ہی نہ سکا۔

”بس، کام اور کام، پتا ہی نہیں چلتا زندگی کا۔” اس کے لہجے میں تھکن تھی۔

وہ مُسکرا دیا۔

”تمہاری رپورٹس لے کر آئی تھی۔” ساتھ میں گل دستہ بھی تھا۔ اس کا ذکر کرنا ضروری نہ سمجھا وہی نارمل طریقہ جیسے کسی مریض کی عیادت کے لیے لے جانا۔ کسی اور اُس میں فرق ہوتا ہے۔ اسے فرق الٹتا محسوس ہوا۔

”اب کیسا محسوس کررہے ہو؟”

”کیسا محسوس کرسکتا ہوں؟” وہی بے بس کر دینے والی ہلکی مسکراہٹ۔

”تم اچھے ہوجاؤ گے۔”

”تم تو جھوٹی تسلیاں مت دو شیبا۔ تم جانتی ہوکہ میں سب جانتا ہوں۔”

یہی جملہ کسی اور احساس کے لیے کہتے وقت کسی قدر رنگوں سے بھر جاتا تھا۔

”تم جانتی ہوکہ میں سب جانتا اور سمجھتا ہوں۔”

”احساس تو جملوں کے معنی ہی اُلٹ دیتے ہیں۔ مگر میں چاہتی ہوں تم ہوپ فل رہو۔” ایک کھوکھلی گزارش۔

”ہوپ فل ہوں تبھی تو اس حالت میں جی رہا ہوں۔” ”گڈ، اس طرح۔” وہی بچوں کو پچکارنے کا سا انداز۔

آخر وہ کتنی بار مُسکراتا،تھک گیا تھا۔ مُسکرا بھی نہ سکا۔ وہ ایکس کیوز کر کے اُٹھ کر چلی گئی۔

”اپنا خیال رکھنا، ممی کا فون ہے۔ ڈنر پر انتظار کررہی ہیں۔”

”دوبارہ کب آؤ گی؟” بے ساختہ کہہ گیا۔

”بہت جلد۔” وہ مسکرائی۔

وہ اس بار بے ساختہ مُسکرا دیا۔ بے بس سی ہنسی، کھوکھلی۔

”چلتی ہوں۔” وہ سرہلا کررہ گیا۔

سندھیا نے سارنگ کے چہرے پر اُبھرتی مایوسی دیکھی اور محسوس کی۔

اس کے بعد وہ ایک دو مرتبہ اسی طرح جلدی میں آکر پوچھتی اور نکل جاتی۔

جب بہت دن ہوجاتے، سارنگ میسج چیک کرتا۔

فون دیکھتا، سندھیا سمجھ جاتی تھی کہ کس کا انتظار ہے۔

وہ بھی جیسے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ بس تھوڑی سی خواہش تھی کہ کوئی اسی طرح چاہے۔ تمنا کرلے، خیال رکھے، فکر مند ہو، پریشان ہو۔اور پھر ایک مُسکراہٹ سے سب کچھ آسان ہوجائے۔ اس آس میں وہ سوچتے ہوئے آنکھوں پر بازو رکھتا تو مایوسی چاروں طرف پھیل جاتی۔

سندھیا کے اندر بھی خواہش سر اُٹھاتی۔ اس قدر خیال رکھنے، ہنسنے بات کرنے، دھیان بٹانے کے باوجود بھی سارنگ کو لاشعوری طور پر کسی اور کی ہمدردی کا انتظار ہوتا۔احساس ہوتا، جو اس کے آنے پر چہرے پر کِھل اُٹھتا اور جاتے وقت بجھ جاتا۔

اس وقت شیبا کی اہمیت کسی قدر بڑھ جاتی تھی ، وہ خود سے سوال کرتی ۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۷

Read Next

شریکِ حیات قسط ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!