سر میں صبح سے درد تھا۔ وہ میڈیسن نہیں لے سکا۔ دل بہت گھبرا رہا تھا۔
فکر صرف یہ تھی وہ جب پہنچے گی تو ابا سب کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔مجرم بن جائیں گے اور اگر اس کی وجہ سے مجرم بن گئے تو کبھی سر نہ اٹھا سکیں گے۔سر نہ اٹھا سکے تو وہ ٹھیک طرح سے جی نہ سکے گا۔
ابا کی دعا نہ لے سکے گا۔دنیا دھندلا جائے گی۔
اس تصور سے ہی دُھندلاہٹ جاتی تھی۔
بس پھر کیا دُھندلاہٹ تھی کہ اختیار کھویا خود پر اور پھر انہونی ہوگئی۔
وہی انہونی جس نے اسے مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ وہ سارا دن بے ہوش تھا۔
آپریشن سرجری کے بعد اسے ہوش آیا۔
کمر کی چوٹ تھی،مہرہ ہل گیا تھا۔ وہ بیٹھ نہیں پارہا تھا۔
اپنی جگہ سے ہل نہیں پارہا تھا، دیکھ نہیں پارہا تھا چوٹ۔ بس اندازہ کرگیا کہ کتنی شدید چوٹ ہے۔
اور ہوش آنے کے بعد ایسے لگا جیسے دھرتی ہے نہ آسماں اور وہ کہیں ہوا میں معلق ہے۔
کوئی ٹھکانہ نہیں، ایک آنسو اور ہچکی۔
کسی نے ہاتھ تھام کر زور سے تھپکا۔
وہ نم آنکھوں سے کچھ نہ دیکھ سکا۔ سب جگہ دھندتھی باہر بھی اور اندر بھی۔
یہ وہی عورت تھی جو اسے ہسپتال سے پہلی بار گھر لائی تھی اس نے اس کے ٹھیک ہونے کی کئی منتیں مان رکھیں تھیں۔ وہ اپنی بے بسی پر کُرلاتا تھا۔
کیسے ایک صحت مند بندہ چلتا پھرتا زمین پر آبیٹھتا ہے، بلکہ ڈھے جاتا ہے۔
معذور صحت مند ہو تو زندگی بسر ہو ہی جاتی ہے۔
چلتا پھرتا آدمی اگر ڈھے جائے تو ہمتوں کو دیمک چاٹ جاتی ہے۔
ارادوں میں زنگ لگ جاتا ہے۔
بندہ زندگی سے بے زار ہوجاتا ہے۔
اور پہلی رات اسے سندھیا نے کہا۔
وہ پہلی رات جب وہ اپنے گھر آیا تھا۔
پہلی بار اپنے گھر آکر اس نے اپنا کوئی کام نہ کیا تھا، چل کر بستر تک نہ گیا تھا۔
وہ پڑا ہوا تھا ایک جگہ پر سندھیا چل پھر رہی تھی، کام کررہی تھی اور اسے کھلا رہی تھی۔ پانی خود اپنے ہاتھ سے پلا رہی تھی۔
بستر کی چادر درست کرکے سارنگ پہ چادر ڈال رہی تھی۔ پہلی بار سونے سے پہلے سندھیا نے اس سے کہا۔
”سارنگ اصل زندگی وہی ہوتی ہے، جو بن چاہے جی جائے۔ اسے جینا پڑتا ہے۔ جب جینا آپ نے ہے تو پریشانی سے جینا یا پھر تسلی سے جینا، یہ آپ کا انتخاب ہوتا ہے۔”
مگر وہ اس جینے کو قبول ہی نہیں کر پارہا تھا۔ بوجھ بن رہا تھا خود پر۔
”تم جارہی تھیں، میں تم پر بوجھ بن گیا۔”
وہ کبھی روہانسا نہیں ہوا تھا مگر اب ہورہا تھا۔ ”آپ جب ٹھیک ہوجائیں گے تو چلی جاؤںگی۔”
”اور اگر ٹھیک نہ ہوا تو؟”
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔”
”مجھے بہلاؤ مت سندھیا۔”
”آپ ڈاکٹر ہیں سارنگ، آپ کیسی ناامیدی کی باتیں کررہے ہیں۔”
”ڈاکٹر ہوں سندھیا۔ تبھی توسمجھ رہا ہوں، سب جانتا ہوں۔ میرا چلنا ناممکن ہے۔”
کیسا گیلا سا لہجہ تھا، نم نم سا۔
”جس بات کو کرتے ہوئے اتنی تکلیف ہو وہ بات نہیں کرنی چاہیے سارنگ۔”
”بہل کر نہیں جیا جائے گا سندھیا۔”
”سارنگ! گاؤں میں سب پریشان ہیں۔ آپ سے کہیں زیادہ ابا سائیں پریشان ہیں۔ میں ان کو تسلی دے دے کر تھک گئی ہوں۔”
”آپ کچھ تو بہادر بن جائیں سارنگ۔”
”تم چلی جاؤ سندھیا، تم چلی جاؤ۔ مت رحم کھاؤ مجھ پر۔”
”میں نہیں جاؤں گی سارنگ، آپ وعدہ کریں آپ ٹھیک ہونے کی کوشش کریں گے۔”
”میں کوئی خواب نہیں پالنا چاہتا اب۔”
”آپ کو خواب پالنا پڑے گا سارنگ۔”
”آپ کا گاؤں سے نکلنا ایک خواب تھا۔”
”ڈاکٹر بننا خواب تھا جو پورا ہوا۔”
”خوابوں کے پیچھے عمر گزر جاتی ہے سندھیا۔”
”خوابوں کو عمر چاہیے ہوتی ہے۔”
”بچپن سے لے کر جوانی تک۔ میں نئی جوانی کہاں سے لاؤں گا؟ مجھ سے اب خواب نہیں دیکھا جائے گا۔ زندگی نے تلخ حقیقت میں لاپھینکا ہے مجھے۔”
”یہاں سے خواب کا سفر بہت مشکل ہے۔”
”ایسا نہیں ہے سارنگ، ایسا نہیں ہے۔”
”ہم آج سے اچھی اچھی باتیں کریں گے۔”
”ہم پھر سے دوست بن جاتے ہیں سارنگ۔”
”یہ نیا رشتہ راس نہیں آیا ہمیں۔”
”ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم میاں بیوی ہیں۔ ہم یہ یاد رکھتے ہیں کہ ہم ایک گھر میں رہنے والے دو دوست ہیں۔ ہم گاؤں میں ساتھ رہتے تھے۔ قسمت نے ہمیں یہاں بھی ساتھ ساتھ رکھا ہے۔”
وہ کافی بدلی بدلی باتیں کررہی تھی۔
”ہم بھول جاتے ہیں سب رنجشیں۔ ان کا حساب پھر کرلیں گے۔ فی الحال ہم صرف اور صرف سارنگ اور سندھیا بن جاتے ہیں۔” پھر اس نے ثابت کر دکھایا۔ اس نے ساری رنجشیں پس پشت ڈال دیں۔ اس کا خیال رکھنا، اس کے لیے کام کرنا۔ بس جیسے واحد مقصد یہی بن گیا تھا زندگی تھا۔
اب کام کرنے اور پہلے کام کرنے میں یہ فرق تھا کہ پہلے اسے سارنگ سے وہی توجہ اور حیثیت چاہیے تھی، اب اس نے اس شرط کو ہی نکال دیا تھا۔
بات برابری کی نہیں کی تھی۔ اب مقام بدل چکا تھا۔ کبھی وہ وقت تھا جب سندھیا کمزور تھی اور سارنگ مضبوط تھا۔ وہ ہمیشہ اس کی ڈھال بن جایا کرتا تھا۔
آج وہ وقت تھا جب سارنگ کمزور تھااور سارا کھیل سندھیا کے آگے سمٹ گیا تھا۔
اپنی باری بھی اس نے کھیلی تھی اور اس کے لیے بھی مقابلے کی فضا ختم ہوگئی تھی۔ کوئی شرط نہ رہی تھی۔
کیا اور کیسا مقابلہ جب ایک صحت مند آدمی اپنے پاؤں سے معذور ہوجائے۔
چلتا پھرتا بندہ جب معذور ہو جاتا ہے تو اس کا دل بھی بیٹھ جاتا ہے۔
دل بیٹھ جائے تو بغیر کھیلے ہارنے لگتا ہے۔
اور اب جب شرط ختم تو اس نے کھیل سمیٹ کر ایک طرف کردیا، قسمت پر چھوڑ دیا اور اب ذمہ داری اس پر تھی۔
زندگی پہلے حاصل کی خواہش اور تمنا تھی۔ انا تھی، عزت نفس کے گرد گھوم رہی تھی۔ اب بچاؤ کا آسرا پیدا کرنا تھا۔ زندگی کی سیاہی چیر کر روشنی کی ایک لکیر ہی ڈال دینی تھی۔دکھ میں دراڑ ڈالنی تھی۔
اور دکھ میں دراڑ ڈالنے کے لیے ایک جنگ لڑنی پڑتی ہے، حالات سے اور خود سے اس نے پہل کرلی تھی۔
٭…٭…٭