شریکِ حیات قسط ۵

اسے پہلی بار معلوم ہوا دعوے اور عمل کے بیچ میںجو پہاڑ ہوتا ہے، اسے کس طرح ہٹانا ہے۔

پہاڑ کو ہٹانے کے لیے خود کو گرانا تھا۔

تو آپ جتنا بھی خود کے لیے جئیں، آپ کی ذات کا ایک بڑا حصہ دوسروں کے لیے وقف ہوتا ہے۔ آپ قربان ہوتے رہتے ہیں اور قربان ہونے کے بعد آپ، آپ نہیں رہتے لوگ بن جاتے ہیں۔

گھڑی، اجرک اور پھولوں کے ہار اُتار کر ایک طرف ڈالتے ہوئے وہ خود سے کیسے لڑا تھا، مگر پوری طرح لڑ بھی نہ سکا تھا۔

یہ پتا چلا کہ سائے سے دیوار ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے اور سائے سے دیوار ہونے میں وقت لگتا ہے، مگر اس پر وقت آچکا تھا دیوار بننے کا۔

٭…٭…٭

گھر میں سب اس سے خوش تھے۔ دعائیں دے رہے تھے سب کو لگ رہا تھا راقاص چھٹ گیا۔ اب نکھری ہوئی صبح اُبھرے گی۔

اسی دُکھ پر سارنگ نے اپنے سکون کی چادر وار دی تھی۔ بس وہ دو لوگ یعنی سارنگ اور سندھیا جو عجیب سے احساس میں گھرے تھے۔باقی سب خوش تھے اس نکاح سے۔

ایک سندھیا اُداس تھی اور ایک وہ دُکھی تھا، بلکہ اکیلا تھا، اپنی سوچ میں، احساس میں۔ 

زندگی کیا تھی؟ خواب کیسے تھے اور سوچا کیا تھا؟ہو کیا گیا اور ہونا کیا تھا؟ وہ بستر پر سیدھا لیٹ گیا اور چھت کو تکنے لگا۔

جب آپ خود سے نظر چراتے ہیں، جب آپ خود کا سامنا نہیں کر پاتے، جب کچھ ماننے میں دِقت ہوتی ہے، تب آپ لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں خود اپنے ساتھ اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ کی ذات یا تو آپ پر ہنستی ہے، یا پھر رو دیتی ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!