شریکِ حیات قسط ۵

رات ابا نے کمرے میں بلا کر اُسے اپنے پاس ہی بیٹھنے کو کہا۔

”بیٹھ سارنگ، تجھ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ بیٹا نہیں تو ساتھی ہے میرا، یار ہے تو۔ کبھی کچھ نہیں مانگا میںنے تجھ سے، سب وہ کیا جو تو نے چاہا۔پر آج ابا کو تیری ضرورت پڑ گئی ہے یار۔ کام کر اک میرا۔” کندھے پر ہاتھ زور سے جما تھا۔

”بات یہ ہے کہ دعویٰ کر بیٹھا ہوں۔بھروسا کر لیا ہے تجھ پر، تیرے چاچا کی تربیت پر۔ وہ جاتے جاتے جیسے کوئی ذمہ داری مجھے سونپ گیا ہے ،عزت رکھ لے میری یار۔”

سارنگ اتنی دیر سے سُن رہا تھا۔ بات جب چاچے کی آئی تو مزید چپ سا ہو گیا۔

چاچا کی محبت کے قرضوں کے بوجھ سے پہلے ہی اس کا کندھا جھکا ہوا تھا۔

”سندھیا کے ساتھ نکاح کر لے۔” اتنی سی بات کے لیے اس قدر لمبی چوڑی تمہید باندھ کر جیسے وہ تھک گئے۔

”ٹھیک ہے کل شام برادری بلوا لیں، نکاح پڑھوانا ہے۔” وہ بس اتنا کہہ کر اُٹھ گیا۔

وہ اسے جاتا ہوا دیکھتے رہے۔ دل کی کیا کیفیت تھی سمجھ نہ پائے۔آنسو بے اختیار آنکھوں سے بہہ نکلے۔ بیٹے کی صورت پہ لکھا پیغام بھی پڑھا۔اپنی مجبوری بھی دیکھی۔ بھائی کا چہرہ بھی سامنے تھا، اور بھتیجی کی مایوسی بھی۔ انہیں لگا لمحے کے لیے سارنگ نے انہیں اٹھا کر ہوا کا مسافر بنا دیا ہے، اتنا ہلکا پھلکا احساس، جیسے کندھوں سے آدھا بوجھ اُتر گیا ہو۔

انہوں نے دل پہ ہاتھ رکھ کر خود کو یقین دلانا چاہا کہ سارنگ نے واقعی وہی سب کہا، جو انہوں نے سنا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!