شریکِ حیات قسط ۵

اس کا فون آیا جب سارنگ پیکنگ کر رہا تھا۔

”کیسی ہو؟” لہجہ اتنا تھکا تھکا سا تھا، اسے خود اپنا انداز اجنبی لگا، وہ خود کے ساتھ یہی برتائو کر رہا تھا۔

اس کا تو پھر بھی حال پوچھ لیا، خود سے تو یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ سارنگ کیسے ہو؟ کیا محسوس کر رہے ہو؟

کمرے میں آتے ہو تو چھت کو ہی کیوں گھورے جاتے ہو؟ برآمدے میں ہوتے ہو تو سب کے چہروں کی مُسکراہٹ دیکھ کر مُسکرا دیتے ہو۔

باہر ہوتے ہو تو چُپ بیٹھے ہوتے ہو۔

اپنے آپ سے تو بات کرتے ہی نہیں۔

اور وہ کہہ رہی تھی۔” کہاں ہو؟ کیا کر رہے ہو؟

فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟

کیا اتنے مصروف ہو گئے ہویا پھر اس سب کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی؟”

اس کے سوالوں میں فکر تھی، اپنائیت، ناراضی اور شکایت کا ملا جلا تاثر تھا۔

وہ بڑے مان سے بولا۔ ”اتنے سوال کرو گی تو یہ بھی بتا دو کہ پہلے کس سوال کا جواب دوں؟” وہ تھکی ہوئی ہنسی ہنس دیا۔

”بس یہ بتا دو کہ کیسے ہو؟”

اسے پیار آگیا، اتنی معصومیت سے سوال سمیٹ کر اس نے ایک کر دیا تھا۔”کیسے ہو؟”

”معلوم نہیں، مگر اچھا ہوں۔” دھیما سا تھکا تھکا لہجہ۔

”آ کب رہے ہو؟” دوسرا سوال مختصر تھا۔

”بہت جلد۔” مختصر سا جواب دیا۔

”دن بتائو۔” لہجے میں عجلت تھی۔

”اسی ہفتے کے کسی دن۔ پیکنگ کر لی ہے، بس فلائٹ کنفرم ہو جائے۔ بات کر آیا تھا کل۔”

”جتنی جلدی ہو سکے آجائو، کانفرنس سر پہ کھڑی ہے اور تم نے ذرا تیاری نہیں کی ۔”

”زندگی میں بغیر تیاری کیے بہت کچھ ہو جاتا ہے یہ توپھر بھی کانفرنس ہے۔”

”ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو؟”

”ایسے ہی، کبھی کبھار خود سے ایسی باتیں بھی کر لینی چاہئیں ۔”

” اس سے کیا کیا ہوتا ہے؟”

”دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔”

”دل پر بوجھ کیوں ہے؟”

”نہیں جانتا۔ زندگی میں بہت ساری باتوں کی وضاحت مشکل ہوتی ہے، مگر وہ باتیں جن کی وضاحت ہم اپنی ذات کو بھی نہ دے سکیں، کسی اور کو نہیں دے پاتے۔”

وہ اس لمحے اسی احساس سے گزر رہا تھا۔

”اداس ہو؟”

”نہیں اب نہیں۔” وہ کہنا چاہتا تھا کہ تمہاری آواز سن کر اداسی ختم ہوگئی ہے مگر کہہ نہ پایا۔

”اب کیوں نہیں؟” مگر پوچھنے پر روک بھی نہ پایا۔

”اب تم سے بات جو ہو گئی ہے۔”

”اچھا۔ ”وہ بے ساختہ ہنسی تھی۔ کچھ تھا ہنسی میں، کھلکھلاہٹ سی، عجیب سا مان تھا۔

مگر اس کی ہنسی میں جو خوشی تھی وہ اس کی سماعتوں تک ضرور پہنچ گئی تھی۔

”جلدی سے آجائو۔” وہ گنگنائی۔

”کیوں؟ اس لیے کہ کانفرنس سر پر کھڑی ہے اور کلاسز کا حرج ہو رہا ہے؟ ”

”نہیں، اس لیے کہ میں تمہیں بہت یاد کر رہی ہوں۔”

”تو اس طرح کہو نا۔ ”وہ مُسکرا کر بیٹھ گیا۔

”آج یہاں موسم بہت خوب صورت ہے۔ میں تمہیں ڈھیر ساری تصویریں بھیجتا ہوں۔”

”ہاں ضرور بھیجو۔ ایک اپنی بھی بھیج دینا ساتھ میں۔ ”

”اپنی کیوں؟”

”چلو رہنے دو۔” وہ اس کی شرارت سمجھ گئی۔

”بس ایسے ہی کہہ دیا تھا۔”

کچھ باتیں ایسے ہی ہوتی ہیں، بہت معمولی سی، مگر دل کے اندر خوشی بھر دیتی ہیں۔

”ایسے ہی کہہ دیا تو اچھا کیا۔” وہ اس سے بات کرتے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔

سندھیا نے کھڑکی سے اُسے چھت کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔

اس کا موڈ بہت اچھا تھا، وہ فون کان سے لگائے ہوئے باتیں کرتا ہوا اپنی دُھن میںاوپر جا رہا تھا۔

اتنے دنوں بعد اس نے پہلی بار اس کا موڈ خوش گوار دیکھا تھا ورنہ وہ جہاں کھڑی ہوتی تھی، وہ کنارا کر لیتا تھا، دیکھتا ہی نہیںتھا نظر اُٹھا کر۔ 

اگر کبھی اتفاق سے نظر پڑ جاتی تھی تو رُخ بدل دیتا، سر جھکا کر گزر جاتا۔یہ لحاظ نہیں تھا، یہ بے رخی بھی نہیں تھی۔یہ بے زاری تھی، یہ لا تعلقی تھی۔

وہ اچانک ٹکرائو سے بھی گھبراتا تھا۔ وہ کس سے بھاگ رہا تھا، اس سے یا پھر اپنے آپ سے؟

اس کے چہرے پر پہلے دن سے واضح لکھا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے۔سندھیا کو گھر کے سبھی افراد پر غصہ تھا، جو یہ کہتے ہوئے نہ تھکتے تھے کہ سارنگ تو بہت خوش ہے۔خدا جانے کون کس کو دھوکا دے رہا تھا۔

مگر کم از کم وہ بچی نہیں تھی۔ وہ دھوکا نہیں کھا سکتی تھی، وہ بہل نہیں سکتی تھی۔ ایک جھوٹی تسلی۔ یہ کیسی شادی تھی، کیسا نکاح تھا۔اسے لگا وہ اپنے لیے بات کرے گا، جو اسے درس دیا کرتا تھا بولنے کا، اپنے حق میں بات کرنے کا،چپ نہ رہنے کا۔

آج وہ اسے کہنا چاہتی تھی تم نے یہ سمجھوتہ کیوں کیا قرض اتنا بھی بڑا نہیں تھا، بوجھ اتنا بھی نہ تھا کہ تم اپنی قربانی دے دیتے۔

اور ایک سوہائی تھی سدا کی بھولی بھالی، جو اسے کہے جا رہی تھی دیکھ سندھو اور سارنگ کہانی میں نہیں مل پاتے مگر حقیقت میں سندھو اور سارنگ کا جوڑبن گیا ہے۔ وہ سچ میں مل گئے ہیں۔

وہ اسے کیا کہتی کہ زمین اور آسمان نہیں مل پاتے۔ اسے یاد آیا ایک دن جوگی نے سارنگ سے کہا تھا تو ساون ہے، تو ساجن ہے۔ خوش حالی ہے، تیرے نام کے اٹھہتر معنی ہیں۔

مگر سرفہرست سارنگ کو بہار اور سبزہ یا خوش حالی اور برسات کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ چڑھتے ہوئے سورج کو بھی سارنگ کہا جاتا ہے۔

سندھیا کا مطلب ہے اُداس سانجھی، اُترتا ہوا سورج، غروب کے وقت کی کیفیت۔

تو بتائو بھلا سوہائی چڑھتا سورج اور اُترتی ہوئی سانجھی کا کبھی میل ہوا ہے؟

تو بتائو کہ خوش حالی اور سُکھ کا سارنگ۔

اُداس سانجھی سے ملتا ہے؟

تو بتائو، سندھو اور سارنگ کبھی تاریخ میں ملے؟

اُن کے بیچ تو محبت تھی، تب بھی نہیں مل پائے۔ یہاں تو محبت بھی نہیں ہے۔

یہاں تو صرف سمجھوتہ ہے۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!