شریکِ حیات قسط ۵

”سارنگ! اُٹھ گیا میرا شہزادہ۔”

وہ ابھی بستر سے اُٹھا ہی تھا کہ ابا جی اندر آئے۔

”جی ابا، اُٹھ گیا ہوں۔ آئیں بیٹھیں۔”

”سارنگ او گلھ سُن یار، یہ کیا شکل بنا رکھی ہے تو نے۔ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے۔ ارے دلہاہے یا کچھ اور؟ اچھے سے کپڑے پہن کر باہر نکل، سب سے مل۔ یہ سب ہوتا رہے گا۔”

”ابھی مناسب نہیں لگتا باہر نکل کر مبارک بادیں وصول کرنا، چالیس دن بھی پورے نہیں ہوئے ابھی اور میں نئے کپڑے پہن کر لوگوں سے ملوں۔ ابھی تو ہمارے گھر لوگ آرہے ہیں افسوس کرنے۔”

وہ بجھا تھا، لہجہ بجھا تھا اور چہرہ بھی۔

”کہہ تو ٹھیک رہا ہے، مگر اس گھر کی پہلی خوشی تھی، دھی کی بھی اور بیٹے کی بھی۔ دیکھنا مولا بخش بھی خوش ہو گا۔”

”اللہ کرے ایسا ہی ہو، وہ خوش ہوں، آپ بھی خوش رہیں۔ یہی بہت ہے میرے لیے۔”

لہجہ زبان کا ساتھ کم ہی دیا کرتا ہے۔

”او سارنگ! بات سُن سجن۔” وہ اس کے ہاتھ تھامتے ہوئے آنکھوں میں جھانکنے لگے۔

”خوش ہے تو؟”

اس کا جی چاہا کہ اس بات پر ہنس دے ۔ کتنی دیر سے یہ سوال کیا تھا انہوں نے۔ تو خوش ہے؟ وہ کہنا چاہتا تھا یہ فیصلہ صرف آپ کی خوشی کے لیے کیا تھا مگر کیسے جاتے ہوئے ان پر بوجھ لاد کر جاتا۔ 

”میں بہت خوش ہوں۔ بس یہ سب اچانک ہو رہا ہے نا۔ اس لیے کچھ سمجھ نہیں آرہا مجھے۔”

”ہاں، یہ تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔” انہوں نے یوں سر ہلایا۔

”مگر سارنگ پیو ہوں تیرا۔ سب جانتا ہوں تو نے یہ سب میرے واسطے کیا ہے۔اپنے چاچا کے لیے کیا ہے۔ سارنگ میں تیری قربانی نہیں چاہتا تھا مگر…”

”آپ کا جھکا ہوا سر بلند کرنے کے لیے جو فیصلہ میں نے کیا ہے، اس کے بعد آپ کا سر جھکنا نہیں چاہیے، نہ میرے سامنے نہ کسی ا ور کے سامنے۔ ”

”سارنگ! دل خوش کر دیا ہے تو نے میرا ۔ بڑا دل خوش کر دیا ہے۔” وہ خوشی سے لرز رہے تھے۔

”لاج رکھ لی ہے میری، دل خوش کر دیا ، آباد کر دیا اپنے باپ کو۔دیکھنا تو بھی خوش رہے گا۔ ہمیشہ خوش رہے گا۔”

”آپ خوش رہیں گے تو مجھے تسلی رہے گی۔ ” اس نے انہیں بہلایا۔

”تو جانے کی کر رہا ہے کل؟”

”جی۔” مختصر جواب۔

”’ابھی چار دن اور ٹھہر جاتے۔”

”بہت ضروری کانفرنس ہے۔ کلاسز کا حرج ہو رہا ہے جانا بہت ضروری ہے۔”

”اچھا! ٹھیک ہے، مگر ابھی کدھر جا رہا ہے؟”

”کھیتوں کی خبر لے لوں۔ کل صبح نکل جائوں گا۔”

”سارنگ! خوش رہ۔” وہ اس کی آنکھوں کی اُداسی پڑھ چکے تھے، باپ تھے نا۔

”تیرا چاچا ہوتا نا سارنگ تجھ سے کبھی اتنی بڑی فرمائش نہ کرتا۔ میں کیا کروں میں کمزور تھا۔ سب کچھ ہاتھ سے جا رہا تھا۔”

”آپ فکر نہ کریں ابا سائیں، میں کچھ مسائل کے لیے فکر مند ہوں۔قرض کی قسطیں بھیجتا رہوں گا۔ میں چاہتا ہوں جتنی جلدی ہو قرض اُتر جائے ہمارا۔”

”اُتر جائے گا، تو فکر نہ کر۔ بس اب دل کی یہ خواہش ہے کہ تیرا گھر بسا رہے۔ تو پڑھائی مکمل کرکے آ اور اپنا گھر سنبھال لے۔”

”آپ بھی نا، اب ہتھیلی پر سرسوں جما رہے ہیں۔” وہ ہنس دیا۔

”تجھے ہنستا دیکھ کر دل جی اٹھتا ہے سارنگ ۔ میں جی اٹھتا ہوں۔دکھ سارے مرجھا جاتے ہیں۔ دل جاگنے لگتا ہے۔ دکھ بھول جاتا ہوں۔”

”آپ بھی چاچا جیسی بڑی بڑی باتیں کرنے لگے ہیں، اب چلیں کھیتوں پر چلتے ہیں۔” وہ ان کے کندھے پر بازو پھیلا کر باہر نکل آیا۔ 

جیجی نے ان کو ایک ساتھ دیکھ کر نظر اُتاری ۔

باپ بیٹا اسی لیے پیدا کرتا ہے کہ کل اس کا کندھا تھام کر سہارا دے اور ماں دھی اسی خاطر جمتی ہے کہ دھی گھر کا بوجھ اُٹھائے اس کے ساتھ کھڑی ہو۔

سندھیا کو باورچی خانے کی ذمہ داری اور سارنگ کو کھیتوں کا حساب دے کر وہ اتنی مطمئن ہو گئیں تھیں جیسے کوئی دکھ کبھی پاس آکر نہ پھٹکا ہو۔ اللہ سوہناں ایسا ہے جب کوئی دکھ دیتا ہے تو اس کے بدلے سو سکھ دے کر اس ایک دُکھ کو ڈھک لیتا ہے۔

اللہ سوہناں اچھا ہے۔ باقی سارے کو جے ہیں۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شریکِ حیات قسط ۴

Read Next

شریکِ حیات قسط ۷

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!